باب: کیا حاکم اپنے ماتحتوں کے سامنے مسواک کر سکتاہے؟
)
Sunan-nasai:
The Book of Purification
(Chapter: Can The Imam Use The Siwak In The Presence Of His Followers?)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4.
حضرت ابوموسیٰ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں نبی ﷺ کے پاس آیا، جب کہ میرے ساتھ دو اشعری اور بھی تھے۔ ایک میرے دائیں تھا اور دوسرا میرے بائیں۔ اور اللہ کے رسول ﷺ مسواک کر رہے تھے۔ ان دونوں نے آپ سے کوئی عہدہ مانگا۔ میں نے کہا: قسم اس ذات کی جس نے آپ کو سچا نبی بنا کر بھیجا! انھوں نے مجھے اپنے دلی ارادے سے مطلع نہیں کیا اور نہ مجھے اندازہ ہی تھا کہ یہ کوئی عہدہ مانگیں گے۔ مجھے یوں لگتا ہے کہ میں اب بھی دیکھ رہا ہوں کہ آپ کی مسواک آپ کے ہونٹ مبارک کے نیچے ہے اور ہونٹ سکڑا ہوا ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’تحقیق ہم سرکاری منصب پر کسی ایسے شخص کا تعاون حاصل نہیں کرتے (یا ہرگز نہیں کریں گے) جو اس کا طلب گار ہو، لیکن (ابو موسیٰ!)تو (عہدے پر)جا۔‘‘ پھر آپ نے انھیں (ابو موسیٰ کو حاکم بنا کر) یمن بھیج دیا۔ پھر آپ نے ان کے پیچھے حضرت معاذ بن جبل ؓ کو بھی بھیج دیا۔
تشریح:
(1) مسئلۃ الباب (امام کا اپنی رعایا یا کسی عظیم الشان شخصیت کا اپنے عقیدت مند افراد کے سامنے مسواک کرنا اس کی شان کے خلاف نہیں اور نہ یہ خلاف شرع ہے) کے علاوہ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی عہدے کی طلب بذات خود جائز نہیں، بلکہ اسے حاکم کی رائے پر چھوڑ دینا چاہیے، البتہ اگر حاکم خود کسی منصب یا عہدے کے لیے درخواستیں طلب کرے تو اپنے آپ کو پیش کرنا جائز ہے، جیسے جنگ خندق کے موقع پر آپ نے پوچھا: قریش کی خبر کون لائے گا؟ تو حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے اپنے آپ کو پیش کیا۔ (صحیح البخاری، الجھاد والسیر، حدیث: ۲۸۴۶) گویا آج کل نوکریوں کے لیے درخواست دینے کا طریق کار درست ہے، البتہ حصول اقتدار کی خاطر اپنے آپ کو پیش کرنا درست نہیں۔ واللہ أعلم۔
(2) کسی عہدے کے طالب یا حریص کو عہدہ نہ دیا جائے کیونکہ اولاً تو حریص آدمی اپنے عہدے سے انصاف نہیں کرسکے گا بلکہ اسے شان و شوکت یا دولت کے حصول کا ذریعہ بنائے گا۔ ثانیاً: ایسے آدمی کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد اور توفیق نہیں ملے گی جیسا کہ صحیح احادیث میں وارد ہے۔ (صحیح البخاري، الأیمان والنذور، حدیث: ۶۶۲۲، و صحیح مسلم، الأیمان، حدیث: ۱۶۵۲) لیکن اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ کوئی دوسرا آدمی اسے ذمے داری کو صحیح طرح نہیں نبھا سکے گا تو وہ اس ذمے داری کو کماحقہ نبھانے کی خاطر اس کا مطالبہ کرسکتا ہے، جیسے حضرت یوسف علیہ السلام سےنے کہا تھا: (اِجَعَلْنِیْ عَلٰی خَزَآئِنِ الْاَرْضِ اِنِّیْ حَفِیْظٌ عَلِیْمٌ) (یوسف ۵۵:۱۲)’’مجھے اس زمین کے خزانوں پر مقرر کر دیجیے، بے شک میں پوری حفاظت کرنے والا، خوب جاننے والا ہوں۔‘‘ اسی طرح حضرت عثمان بن ابو العاص رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی مجھے اپنی قوم کا امام بنا دیجیے۔ آپ نے فرمایا: ’’تم ان کے امام ہو اور ان کے ضعیف ترین کا خیال رکھنا۔‘‘ (سنن أبي داود، الصلاۃ، حدیث: ۵۳۱)
(3) مسواک دائیں بائیں کے علاوہ اوپر نیچے کے رخ پر بھی کی جائے تاکہ مسواک کے ریشوں سے دانتوں کے درمیان پھنسی ہوئی آلودگی بھی نکل سکے، حدیث میں لفظ [قَلَصَتْ] اس پر دلالت کرتا ہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناد الرواية الأولى صحيح على شرط البخاري، والأخرى على
(1) ولفظة البخاري: "أع أع"، والنسائي: " عأ عأ عأ ". قال الحافظ:
" والروا ية الأولى- يعني: البخاري- أشهر ".
شرطهما. وقد أخرجاه، وكذا أبو عوانة في "صحاحهم ")
إسناده: حدثنا مسدَّد وسليمان بن داود العَتَكِيُ قالا: حدثنا حماد بن زيد
عن غَيلان بن جرير عن أبي ئردة.
وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين. ثمّ قال أبو داود عقب الحديث:
" قال مسدد: فكان حديثاً طويلاًا ختصره ". كذا في بعض النسخ! وفي
عامة النسخ:
"اختصرته ".
وهو الصحيح، كما في "عون العبود"، وسيأتي بعض الحديث في "النذور"
رقم (...) .
والحديث أخرجه الشيخان، وأبو عوانة في "صحيحه " (1/192) ، والنسائي،
وأحمد (4/417) من طرق عن حماد بن زيد... به. وكذلك أخرجه البيهقي.
وليس عند مسلم وأحمد قوله:
وهو يقول... إلخ.
وزاد أحمد: يسن إلى فوق؛ فوصف حماد كأنه يرفع سواكه، قال حماد:
ووصفه لنا غيلان قال: كان يسق طولاً.
وإسناده صحيح على شرطهما.
وتابعه حميد بن هلال عن أبي بردة بلفظ:
رأيت النّبيّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يستاك، فكأنما أنظر إلى السواك قد قلص وهو يستاك.
أخرجه أبو عوانة والنساثي، وهو عنده أنم، ويأتي في أول "الحدود".
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4
تمہید کتاب
٭لغوی تعریف: لفظ الطهارة باب تفعل سے اسم مصدر ہے جیسے طهر يطهر تطهيرا و طهارة بروزن كلم يكلم تكليما و كلاما – معنی ہیں :میل کچیل ‘گندگی اور نجاست سے پاکیزگی اور صفائی حاصل کرنا ۔ (سبل السلام)٭اصطلاحی تعریف: حدثِ اصغر (بے وضو ہو نے ) اور حدث اکبر (جنابت ‘احتلام ‘ حیض اور نفاس) کی صورت میں مسنون طریقے سے پانی سے وضو اور غسل کرنے یا پانی کی عدم موجودگی یا اس کے استعمال پر عدم قدرت کی صورت میں پاک مٹی کے ساتھ تیمم کر نے کو طہارت کہتے ہیں ۔٭طہارت کی اقسام:طہارت کی دو قسمیں ہیں 1. طہارتِ حقیقی :حدث اصغر اور حدث اکبر کی حالت میں پانی کی عدم موجودگی یا اس کی استعمال پر عدم قدرت میں پاک مٹی کے ساتھ تیمم کرنا ‘ طہارتِ حکمی ہے ۔٭طہارت و نظافت کی اہمیت و فضیلت اور ضرورت : اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے ۔اس میں انسانی فطرتِ سلیمہ کے ہر تقاضے اور ضرورت کا مکمل حل موجود ہے ۔ انسان کے طبعی تقاضوں کی نظر انداز نہیں کیا گیا بلکہ اس کی طبعی ضرورتوں کو مکمل طور پر پورا کیا گیا ہے ‘پھر انسان کو انھی اعمال کا مکلف ٹھہرایا گیا ہے جن کو وہ آسانی نبھا سکے کیونکہ اصل حکیم و مدبر تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی ذات ہے ۔ شرعی احکام میں قدرت الٰہی اور اسی کی تدبیر و حکمت کار فرما ہے ‘اس لیے بغیر کسی افراط و تفریط کے اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اسلام میں وہ رہنما اصول مقرر فرمائے جن میں اخروی سر خروئی کے ساتھ دنیوی فوائد بھی پنہاں ہیں ۔ان میں سے ایک اہم ضابطہ ‘طہارت و صفائی کا اہتمام بھی ہے کیونکہ پاکیزگی اور اس کا حصول عین انسانی فطرت ہے ‘اسی لیے احادیث میں کہیں [عشرٌ مِّنَ الفطرةِ]’’دس چیزیں فطری امور میں سے ہیں ۔‘‘ (صحیح مسلم‘حدیث:261) اور کہیں [خمسُ مِّنَ الْفطْرَةِ] ’’پانچ چیزیں فطری امور میں سے ہیں ۔‘‘صحیح البخاری ‘اللباس‘ حدیث:5889 وصحیح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:257) وغیرہ کی تعلیم دے کر بدن کو پاک رکھنے پر زور دیا گیا ہے ۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ذات باری تعالیٰ خود تو جمیل ہو لیکن جمال کو پسند نہ کرے کیونکہ عابد کو معبود کے سامنے دن رات کی مختلف گھڑیوں میں اپنی جبیں نیاز جھکانے کا حکم ہے اور نجاست اور پلیدی کی صورت میں عابد اور معبود کا آپس میں تعلق کیسے جر سکتا ہے ؟ حدیث میں آتا ہے [ان الله جميل يحب الجمال ]’’اللہ تعالیٰ انتہائی خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند کرتا ہے ۔‘‘صحیح مسلم‘الایمان‘ حدیث91) قرآن مجید میں ہے (إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)’’اللہ تعالیٰ خوب توبہ کرنے والوں کو پسند کر تا ہے ۔‘‘(البقرۃ2 : 222 ) عہد نبوت میں پانی کی کمی تھی ‘لوگ بول و براز سے فراغت کے بعد ڈھیلے استعمال کرتے تھے ‘ لیکن اہل قباء اس دقت کے باوجود پانی ہی سے حصول طہارت کی کوشش کرتے ‘ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اسی خصلت اور کمال حصول کی بنا پر قرآن مجید میں ان کی تعریف فرمائی ہے (فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ) ’’ اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب طہارت حاصل کرنا پسند کرتے ہیں اور اللہ اچھی طرح پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔‘‘ (التوبۃ 9:108)صفائی اور طہارت کا حکم دیتے ہوئے رسول اللہ ﷺ سے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے (وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ (4) وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ) ’’اپنے کپڑوں کو پاک رکھیے اور گندگی سے دور رہیے۔‘‘(المدثر 74: 4 ‘5) اسی لیے اسلام کے اہم رکن نماز کے لیے طہارت کو شرط قرار دیا گیا ہے ۔ نبئ اکرم ﷺ نے طہارت کی ترغیب کے ساتھ ساتھ خود بھی عملا امت کے سامنے اس کا مظاہرہ کیا ہے ہر نماز کے وقت مسواک کرتے اور اس کا شوق دلاتے ‘گھر آتے وقت ‘نیز صبح کو بیدار ہوتے کے بعد مسواک کا اہتمام کرتے ‘آپ نے اسے اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی اور منہ کی صفائی کا ذریعہ قرار دیا ہے وضو ٹوٹنے کے بعد اسی لمحے دربارہ وضو کرنے والے کو مومن قرار دیا ‘فرمایا:[لا يحافظ على الوضوء إلا مومنٌ]’’ مومن ہی وضو کی حفاظت ( اور اس پر ہمیشگی ) کرتا ہے۔‘‘(سنن ابن ماجہ ‘الطہارۃ و سننھا‘ حدیث‘277‘وصحیح الترغیب و الترھیب:1/198)مونچھیں کترانے ‘ڈاڑھی بڑھانے ‘ مسواک کرنے ‘وضو کرتے وقت ناک میں پانی چڑھانے ‘کلی کرنے ‘ختنے کرانے ‘ناخن تراشنے ‘زیر ناف بال مونڈنے‘ بغلوں کی صفائی کرنے ‘استنجا کرنے اور بدن کی مختلف ہڈیوں کے جوڑ دھونے کو اسلام نے امور فطرت میں شمار کیا ہے گویا ان کی صفائی کا اہتمام انسانی طبع کا تقاضا ہے اور ان میں سستی کا مظاہرہ گندگی کی پیداوار میں اضافے کا باعث ہے ‘ اس لیے مونچھیں ،ناخن،بغلوں، اور زیر ناف بالوں کو چھوڑنے کی زیادہ سے زیادہ مدت چالیس دن قرار دی ۔زہیر بن ابو علقمہ فرماتے ہیں : نبئ اکرم ﷺ کی خدمت میں ایک صحابی میلے کچیلے کپڑے پہن کر پراگندہ حالت میں آیا تو آپ نے پوچھا :’’تیرے پاس مال ہے ؟ ‘‘ اس نے جواب دیا: جی ہاں ‘ ہر قسم کا مال موجود ہے ‘تب آپ نے فرمایا :’’ تو پھر اس کے اثرات بھی تم پر نظر آنے چاہئیں کیونکہ اللہ تعالیٰ یہ پسند کرتا ہے کہ اس کے بندے پر اس کی نعمتوں کے اچھے اثرات نظر آئیں ۔‘‘مجمع الزوائد:5/ 132‘رقم :8583‘وسلسلۃ الاحادیث الصحیۃ: 3/311) لہذا پرا گندا حالت میں رہنا اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں اور نہ یہ کسی ولایت اور اللہ کے ہاں کسی تقرب کی دلیل ہے جیسا کہ آج کل بہت سے نام نہاد صوفی جو ولایت اور تقرب کا جھانسا دے کر ننگ دھڑنگ اور گندگی میں لت پت ’’طریقت‘‘ پر عمل پیرا ہیں یہ سراسر اسلام کے نظام طہارت کے خلاف ہے اسی طرح جوتے کی صفائی کا حکم ہے جبکہ ضرورت کے پیش نظر اس میں نماز پڑھنے کا ارادہ ہو ۔ غرضیکہ تمام امور میں صفائی اور طہارت کو لازمی قرار دیاگیا ہے ‘ مثال کے طور پر چند اہم امور درج ذیل ہیں :(1) غسل خانے میں پیشاب کرنے سے منع فرمایا ہے ۔(2) ضرورت کے پیش نظر اگر کسی برتن میں پیشاب کیا ہے تو اسے جلد بہا دیا جائے ‘زیاد یر رکھنے سے گندگی اور تعفن پھیلے گا جس سے رحمت کے فرشتے گھر میں داخل نہیں ہوں گے-(3) برتنوں کی صفائی کا اہتمام ‘جیسے اگر برتن کتا چاٹ جائے تو سات دفعہ دھونے کا حکم ‘برتنوں کو ڈھانک کر رکھنے کا حکم ۔(4) سایہ دار درخت کے نیچے پیشاب کرنے سے منع کیا گیا ہے ۔ ممکن ہے کوئی اس کی چھاؤں میں بیٹھنا چاہے۔(5) آباد راستے میں بول و براز کرنا منع ہ اس سے آنے جانے والوں کو اذیت ہو گیاور یہ باعث لعنت ہے (6( پانی کے حوض ‘گھاٹ ‘ کنویں اور عام کھڑے پانی میں پیشاب کرنا منع ہے ۔(7) پیشاب کے چھینٹوں سے بچاؤ کا اہتمام ‘ وگرنہ اس پر سخت عذاب ہوگا۔(8( بیٹھ کر اور نرم جگہ پر پیشاب کیا جائے تا کہ کپڑے آلودگی سے محفوظ رہیں (9)جنبی کا غسل کرنے میں حد سے زیادہ سستی کرنا نا پسندیدہ ہے کیونکہ اس کی وجہ سے رحمت کے فرشتے نہیں آتے (صحیح الترغیب والترھیب :1/199)(10) طہارت و صفائی کے اہتمام کی خاطر غسل جنابت کا اسلام کے دیگر ارکان کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے : [وتغسل من الجنابة ] ’’اور تو جنابت سے غسل کرے ۔‘‘(صحیح الترغیب و الترھیب :1/185)(11) وضو جہاں ناک ‘منہ‘ گلے ‘آنکھوں اور کان وغیرہ کی صفائی ہوتی ہے ‘ وہاں اس کے کثیر فضائل بھی بیان کیے گئے تاکہ مزید نظافت کا اہتمام ہو۔(12) طہارت او روضو کے اہتمام کو دخول جنت اور رفع درجات کا باعث بنایا جیسا کہ حضرت بلال کے واقعے سے معلوم ہوتا ہے ۔ (صحیح الترغیب و الترھیب:1/199)(13) طہارت و پاکیزگی کا اہتمام اور پھر اس کے لیے دعا گو رہنا مسنون ہے جیسا کہ [واجعلنى من المتطهرين ]’’اور مجھے بہت زیادہ پاک رہنے والو ں میں سے بنا دے ‘‘ سے ثابت ہوتا ہے ۔(جامع ترمذی ‘الطہارۃ‘حدیث :55)(14) احتلام ‘جنابت اور حیض و نفاس کے بعد غسل کا حکم اور خروج مذی‘ ودی اور رطوبت کے بعد وضو کا حکم عظمت طہارت کی واضح دلیل ہے ۔(15) بچے اور بچی کے پیشاب کی صورت میں چلو بھر پانی سے چھینٹے مار لینا ہی کافی ہے ‘لیکن حصول طہارت بہر حال لازمی ہے ۔(16) زمین کی پاکیزگی کا حکم جیسا کہ اعرابی کے پیشاب پر پانی کا ڈول بہانے کا حکم ہے ۔(17) یہاں تک کہ مردہ حلال جانور کی کچی کھال کی طہارت کے لیے دباغت (چمڑا رنگنے ) کو لازم قرار دیا ۔(18) گوبر اور ہڈی وغیرہ سے استنجا اور طہارت حاصل کرنا منع ہے ۔الحاصل: دین فطرت ‘اسلام دیگر تمام ادیان و مذاہب پر ان امور میں فائق ہے یہودیت ‘عسائیت‘ مجوسیت‘ہندومت ‘بدھ مت اور سکھ مذہب میں طہارت و نظافت کا یہ اہتمام بالکل مفقود ہے ان مذاہب کے حامل ،حیوانوں کی سی زندگی گزارتے ہیں بلکہ بعض امور میں ان سے بڑھ کر ہیں ۔ اسلام کی یہ وہ امتیازی خوبی ہے جس پر مشرکین کو تعجب ہوا اور انھوں نے طنزاً حضرت سلمان فارسی سے کہا:ہم دیکھتے ہیں کہ تمھارا نبی تمھیں قضائے حاجت کے آداب تک سکھاتا ہے ۔ انھوں نے بغیر کسی ہچکچاہٹ ارو شرمندگی کے مدبرانہ انداز میں تحمل سے جواب دیا : ہاں آپ نے ہمیں دائیں ہاتھ سے استنجا کرنے اور پیشاب ‘ پاخانے کے وقت قبلہ رخ ہوتے سے منع فرمایا ہے ارو یہ کہ ہم میں سے کوئی تین ڈھیلوں سے کم میں استنجا نہ کرے اور گوبر یا ہڈی سے بھی استنجا نہ کر ے۔(صحیح مسلم‘الطہارۃ ،حدیث:262)یہ اسلام ہی کا خاصہ ہے کہ اس نے طہارت و پاکیزگی کو نصف ایمان یا ایمان کا ایک حصہ قرار دیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا:[الطهور شطر الايمان]’’صفائی نصف ایمان ہے ۔‘‘ (صحیح مسلم ‘الطہارۃ،حدیث:223) بہر حال صفائی کا اہتمام ایمان ہے اور ایمان ہی دخول جنت کا باعث ہے ۔سنن نسائی کا اندازِ تالیف فقہی کتب جیسا ہے جن میں صرف اعمال شرعیہ کا بیان ہوتا ہے اعمال کی دو قسمیں ہیں : عبادت اور معاملات چونکہ عبادات حقوق اللہ ہیں اس لیے ان کا درجہ مقدم ہے عبادات میں سب سے اہم عبادت نماز ہے جو ہر عاقل بالغ مسلمان پر آغاز ِشعور سے دمِ واپسیں تک فرض ہے ‘نیز یہ تمام عبادات کی جامع ہے ‘اس لیے عبادت میں اسے مقدم کیا جاتا ہے ۔نماز کی شرط میں طہارت سب سے اہم ہے ‘لہذا اس کا تذکرہ سب سے پہلے ہوتا ہے طہارت سے مراد یہ ہے کہ نمازی کا جسم لباس اور مکان نجاست سے پاک ہوں۔ضروری ہے کہ جسم ظاہری اور معنوی نجاست سے پاک ہو معنوی نجاست سے مراد بے وضو ہونا اور جنبی ہونا ہے آئندہ احادیث میں دونوں کی نجاست سے طہارت کا ذکر ہے معنوی نجاست سے طہارت کا ذکر پیلے کیاگیا ہے کیونکہ اس کا نماز سے خصوصی تعلق ہے ۔
حضرت ابوموسیٰ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں نبی ﷺ کے پاس آیا، جب کہ میرے ساتھ دو اشعری اور بھی تھے۔ ایک میرے دائیں تھا اور دوسرا میرے بائیں۔ اور اللہ کے رسول ﷺ مسواک کر رہے تھے۔ ان دونوں نے آپ سے کوئی عہدہ مانگا۔ میں نے کہا: قسم اس ذات کی جس نے آپ کو سچا نبی بنا کر بھیجا! انھوں نے مجھے اپنے دلی ارادے سے مطلع نہیں کیا اور نہ مجھے اندازہ ہی تھا کہ یہ کوئی عہدہ مانگیں گے۔ مجھے یوں لگتا ہے کہ میں اب بھی دیکھ رہا ہوں کہ آپ کی مسواک آپ کے ہونٹ مبارک کے نیچے ہے اور ہونٹ سکڑا ہوا ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’تحقیق ہم سرکاری منصب پر کسی ایسے شخص کا تعاون حاصل نہیں کرتے (یا ہرگز نہیں کریں گے) جو اس کا طلب گار ہو، لیکن (ابو موسیٰ!)تو (عہدے پر)جا۔‘‘ پھر آپ نے انھیں (ابو موسیٰ کو حاکم بنا کر) یمن بھیج دیا۔ پھر آپ نے ان کے پیچھے حضرت معاذ بن جبل ؓ کو بھی بھیج دیا۔
حدیث حاشیہ:
(1) مسئلۃ الباب (امام کا اپنی رعایا یا کسی عظیم الشان شخصیت کا اپنے عقیدت مند افراد کے سامنے مسواک کرنا اس کی شان کے خلاف نہیں اور نہ یہ خلاف شرع ہے) کے علاوہ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی عہدے کی طلب بذات خود جائز نہیں، بلکہ اسے حاکم کی رائے پر چھوڑ دینا چاہیے، البتہ اگر حاکم خود کسی منصب یا عہدے کے لیے درخواستیں طلب کرے تو اپنے آپ کو پیش کرنا جائز ہے، جیسے جنگ خندق کے موقع پر آپ نے پوچھا: قریش کی خبر کون لائے گا؟ تو حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے اپنے آپ کو پیش کیا۔ (صحیح البخاری، الجھاد والسیر، حدیث: ۲۸۴۶) گویا آج کل نوکریوں کے لیے درخواست دینے کا طریق کار درست ہے، البتہ حصول اقتدار کی خاطر اپنے آپ کو پیش کرنا درست نہیں۔ واللہ أعلم۔
(2) کسی عہدے کے طالب یا حریص کو عہدہ نہ دیا جائے کیونکہ اولاً تو حریص آدمی اپنے عہدے سے انصاف نہیں کرسکے گا بلکہ اسے شان و شوکت یا دولت کے حصول کا ذریعہ بنائے گا۔ ثانیاً: ایسے آدمی کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد اور توفیق نہیں ملے گی جیسا کہ صحیح احادیث میں وارد ہے۔ (صحیح البخاري، الأیمان والنذور، حدیث: ۶۶۲۲، و صحیح مسلم، الأیمان، حدیث: ۱۶۵۲) لیکن اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ کوئی دوسرا آدمی اسے ذمے داری کو صحیح طرح نہیں نبھا سکے گا تو وہ اس ذمے داری کو کماحقہ نبھانے کی خاطر اس کا مطالبہ کرسکتا ہے، جیسے حضرت یوسف علیہ السلام سےنے کہا تھا: (اِجَعَلْنِیْ عَلٰی خَزَآئِنِ الْاَرْضِ اِنِّیْ حَفِیْظٌ عَلِیْمٌ) (یوسف ۵۵:۱۲)’’مجھے اس زمین کے خزانوں پر مقرر کر دیجیے، بے شک میں پوری حفاظت کرنے والا، خوب جاننے والا ہوں۔‘‘ اسی طرح حضرت عثمان بن ابو العاص رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی مجھے اپنی قوم کا امام بنا دیجیے۔ آپ نے فرمایا: ’’تم ان کے امام ہو اور ان کے ضعیف ترین کا خیال رکھنا۔‘‘ (سنن أبي داود، الصلاۃ، حدیث: ۵۳۱)
(3) مسواک دائیں بائیں کے علاوہ اوپر نیچے کے رخ پر بھی کی جائے تاکہ مسواک کے ریشوں سے دانتوں کے درمیان پھنسی ہوئی آلودگی بھی نکل سکے، حدیث میں لفظ [قَلَصَتْ] اس پر دلالت کرتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوموسیٰ اشعری ؓ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا ، میرے ساتھ قبیلہ اشعر کے دو آدمی تھے ، ان میں سے ایک میرے دائیں اور دوسرا میرے بائیں تھا ، رسول اللہ ﷺ مسواک کر رہے تھے ، تو ان دونوں نے آپ ﷺ سے کام ( نوکری ) کی درخواست کی ۲؎ ، میں نے عرض کیا : اس ذات کی قسم جس نے آپ کو نبی برحق بنا کر بھیجا ہے ، ان دونوں نے اپنے ارادے سے مجھے آگاہ نہیں کیا تھا ، اور نہ ہی مجھے اس کا احساس تھا کہ وہ کام ( نوکری ) کے طلب گار ہیں ، گویا میں آپ ﷺ کی مسواک کو ( جو اس وقت آپ کر رہے تھے ) آپ کے ہونٹ کے نیچے دیکھ رہا ہوں اور ہونٹ اوپر اٹھا ہوا ہے ، تو آپ ﷺ نے فرمایا :” ہم کام پر اس شخص سے مدد نہیں لیتے جو اس کا طلب گار ہو ۳؎ ، لیکن ( اے ابوموسیٰ ! ) ”تم جاؤ “ ( یعنی ان دونوں کے بجائے میں تمہیں کام دیتا ہوں )، چنانچہ آپ ﷺ نے ان کو یمن کا ذمہ دار بنا کر بھیجا، پھر معاذ بن جبل ؓ کو ان کے پیچھے بھیجا۔
حدیث حاشیہ:
۱؎ : نسخہ نظامیہ میں «يستاك» کا لفظ ہے، بقیہ تمام نسخوں میں «يستن» کا لفظ موجود ہے۔
۲؎ : یعنی اس بات کی درخواست کی کہ آپ ہمیں عامل بنا دیجئیے یا حکومت کی کوئی ذمہ داری ہمارے سپرد کر دیجئیے۔
۳؎ : کیونکہ اللہ کی توفیق و مدد ایسے شخص کے شامل حال نہیں ہوتی ، وہ اپنے نفس کے سپرد کر دیا جاتا ہے ، جیسا کہ عبدالرحمٰن بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا تھا:« لا تسال الإمارة فإنك إن اعطيتها عن مسالة وكلت إليها»” حکومت کا سوال نہ کرنا اس لیے کہ اگر تمہیں مانگنے کے بعد حکومت ملی تو تم اس کے حوالے کر دئیے جاؤ گے “( صحیح البخاری : ۷۱۴۶ )
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Abu Burdah that Abu Musa said: “I came to the Prophet (ﷺ) when he Was using the Siwak and with me Were two men of the Ash’aris — one on my right and the other on my left — who were seeking to be appointed as officials. I said: ‘By the One Who sent you as a Prophet (ﷺ) with the truth, they did not tell me why they wanted to come with me and I did not realize that they were seeking to be appointed as officials.’ And I could see his Siwak beneath his lip, then it slipped and he said: ‘We do not’ — or; ‘We will never appoint as an official anyone who seeks that. Rather you should go.” So he sent him (Abu Musa) to Yemen, then he sent Mu'adh bin Jabal (RA) to go after him. (Sahih)