باب: حمید کی حضرت انس بن مالک سے مروی حدیث میں ناقلین کے اختلاف کا ذکر
)
Sunan-nasai:
The Book Of Fighting (The Prohibition Of Bloodshed)
(Chapter: Mentioning the Differences Reported from Humaid, from Anas bin Malik)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4034.
حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے منقول ہے کہ عرینہ قبیلے کے کچھ لوگ حرہ کے میدان میں اترے، پھر وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے۔ انہوں نے مدینہ منورہ کی آب و ہوا کو موافق نہ پایا۔ رسول اللہ ﷺ نے انہیں حکم دیا کہ وہ صدقے کے اونٹوں میں رہیں اور ان کے دودھ اور پیشاب پئیں، پھر انہوں نے چرواہے کو قتل کیا، اسلام سے مرتد ہو گئے اور اونٹ ہانک کر لے گئے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کے پیچھے آدمی بھیجے۔ ان کو پکڑ لایا گیا تو آپ نے ان کے ہاتھ پائوں سختی کے ساتھ کاٹ دئیے، ان کی آنکھوں کو پھوڑ دیا اور انہیں گرم پتھریلے میدان میں چھوڑ دیا۔ (حضرت انس نے فرمایا:) اللہ کی قسم! میں نے دیکھا کہ وہ پیاس کی بنا پر زمین پر دانت مار رہے تھے حتیٰ کہ اسی طرح مر گئے۔
تشریح:
”دانت مار رہے تھے“ شاید یہ الفاظ پڑھ کر کسی کی ”حقوق انسانی کی حس“ جوش مارے کہ یہ انسانیت کی توہین ہے، لیکن کیا یہ معلوم ہے کہ ان کے ساتھ یہ سلوک کیوں کیا گیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ نبی رحمت ﷺ نے ان کے ساتھ یہ سلوک عین قرآنی حکم کے مطابق، قصاص کے طور پر کیا تھا۔ انہوں نے بے گناہ چرواہے کی بڑی بے دردی سے جان لی۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ بڑے ڈاکو، مرتد اور احسان فراموش بھی تھے، پھر کس چیز کی کسر باقی رہ گئی تھی؟ لہٰذا یہ مثلہ تھا نہ ان پر ظلم و تشدد ہی بلکہ ان کے کیے کرتے کا بدلہ تھا۔ جو امن عامہ کے قیام کے لیے ضروری ہوتا ہے، نیز شرپسند عناصر، ظلم و تعدی اور قتل و بغاوت کی روک تھام کے لیے امر لابدی ہوتا ہے۔ آج کے نام نہاد انسانیت کے خیر خواہوں کو ایسے سفاک مجرموں پر ترس کھانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر اس قسم کے کردار کے حاملین قابل ترس ہوتے تو سب سے پہلے ان لوگوں پر نبی رحمت ﷺ ترس کھاتے۔ جن فقہاء نے اس کو مثلہ قرار دے کر منسوخ کہا ہے انہیں رجم کی سزا کو ضرور مدنظر رکھنا چاہیے۔ کیا رجم مثلہ کی اس مرفوع تفسیر کے تحت نہیں آتا؟ حالانکہ وہاں تو مجرم نے کسی بے گناہ کے ساتھ ایسا سلوک بھی نہیں کیا ہوتا۔ یقینا ان لوگوں کا جرم زنا کے جرم سے بدرجہا زیادہ تھا۔
حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے منقول ہے کہ عرینہ قبیلے کے کچھ لوگ حرہ کے میدان میں اترے، پھر وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے۔ انہوں نے مدینہ منورہ کی آب و ہوا کو موافق نہ پایا۔ رسول اللہ ﷺ نے انہیں حکم دیا کہ وہ صدقے کے اونٹوں میں رہیں اور ان کے دودھ اور پیشاب پئیں، پھر انہوں نے چرواہے کو قتل کیا، اسلام سے مرتد ہو گئے اور اونٹ ہانک کر لے گئے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کے پیچھے آدمی بھیجے۔ ان کو پکڑ لایا گیا تو آپ نے ان کے ہاتھ پائوں سختی کے ساتھ کاٹ دئیے، ان کی آنکھوں کو پھوڑ دیا اور انہیں گرم پتھریلے میدان میں چھوڑ دیا۔ (حضرت انس نے فرمایا:) اللہ کی قسم! میں نے دیکھا کہ وہ پیاس کی بنا پر زمین پر دانت مار رہے تھے حتیٰ کہ اسی طرح مر گئے۔
حدیث حاشیہ:
”دانت مار رہے تھے“ شاید یہ الفاظ پڑھ کر کسی کی ”حقوق انسانی کی حس“ جوش مارے کہ یہ انسانیت کی توہین ہے، لیکن کیا یہ معلوم ہے کہ ان کے ساتھ یہ سلوک کیوں کیا گیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ نبی رحمت ﷺ نے ان کے ساتھ یہ سلوک عین قرآنی حکم کے مطابق، قصاص کے طور پر کیا تھا۔ انہوں نے بے گناہ چرواہے کی بڑی بے دردی سے جان لی۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ بڑے ڈاکو، مرتد اور احسان فراموش بھی تھے، پھر کس چیز کی کسر باقی رہ گئی تھی؟ لہٰذا یہ مثلہ تھا نہ ان پر ظلم و تشدد ہی بلکہ ان کے کیے کرتے کا بدلہ تھا۔ جو امن عامہ کے قیام کے لیے ضروری ہوتا ہے، نیز شرپسند عناصر، ظلم و تعدی اور قتل و بغاوت کی روک تھام کے لیے امر لابدی ہوتا ہے۔ آج کے نام نہاد انسانیت کے خیر خواہوں کو ایسے سفاک مجرموں پر ترس کھانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر اس قسم کے کردار کے حاملین قابل ترس ہوتے تو سب سے پہلے ان لوگوں پر نبی رحمت ﷺ ترس کھاتے۔ جن فقہاء نے اس کو مثلہ قرار دے کر منسوخ کہا ہے انہیں رجم کی سزا کو ضرور مدنظر رکھنا چاہیے۔ کیا رجم مثلہ کی اس مرفوع تفسیر کے تحت نہیں آتا؟ حالانکہ وہاں تو مجرم نے کسی بے گناہ کے ساتھ ایسا سلوک بھی نہیں کیا ہوتا۔ یقینا ان لوگوں کا جرم زنا کے جرم سے بدرجہا زیادہ تھا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
انس ؓ سے روایت ہے کہ قبیلہ عرینہ کے کچھ لوگ حرہ میں ٹھہرے، پھر وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے، انہیں مدینے کی آب و ہوا راس نہ آئی، تو آپ نے انہیں حکم دیا کہ وہ صدقے کے اونٹوں میں جا کر ان کے دودھ اور پیشاب پیئیں، تو انہوں نے چرواہے کو قتل کر دیا، اسلام سے پھر گئے اور اونٹوں کو ہانک لے گئے، رسول اللہ ﷺ نے ان کے پیچھے کچھ لوگوں کو بھیجا، انہیں پکڑ کر لایا گیا تو آپ نے ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دئیے، آنکھیں پھوڑ دیں اور انہیں حرہ میں ڈال دیا۔ انس ؓ کہتے ہیں: میں نے ان میں سے ایک کو دیکھا کہ وہ پیاس کی وجہ سے زمین سے اپنے منہ کو رگڑ رہا تھا، (یعنی زمین کو اپنے منہ سے چاٹ رہا تھا) یہاں تک کہ سب مر گئے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Anas that : Some people from 'Uraynah camped in Al-Harrah and came to the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم). The climate of Al-Madinah did not suit them, so the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) told them to go and stay near the camels that had been given in Sadaqah, and to drink their milk and urine. Then they killed the herdsman and apostatized from Islam, and drove off the camels. The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) sent (men) after them, who brought them, then he had their hands and feet cut off, and their eyes gouged out, and left them in Al-Harrah. Anas said: "I saw one of them biting at the ground from thirst, until they died.