باب: اس حدیث میں اعمش پر ( اس کے شاگردوں کے ) اختلاف کا بیان
)
Sunan-nasai:
The Book Of Fighting (The Prohibition Of Bloodshed)
(Chapter: Mentioning the Different Reports From Al-A'mash in This Hadith)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4075.
حضرت ابو برزہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہ ایک آدمی پر بہت زیادہ ناراض ہوئے حتیٰ کہ ان کا رنگ بدل گیا۔ میں نے عرض کی: اے خلیفۂ رسول اللہ! اللہ کی قسم! اگر آپ مجھے حکم دیں تو میں اس کی گردن اتار دوں گا۔ (میری اس بات سے) گویا ان پر ٹھنڈا پانی ڈال دیا گیا، چنانچہ اس شخص پر سے ان کا غصہ ختم ہو گیا۔ اور فرمانے لگے: اے ابوبرزہ! تیری ماں تجھے گم پائے! رسول اللہ ﷺ کے بعد کسی کا یہ مرتبہ اور حق نہیں۔ امام ابو عبدالرحمن نسائی ( ؓ ) بیان کرتے ہیں کہ یہ غلط ہے۔ درست ابو نصر ہے اور اس (ابونصر) کا نام حمید بن ہلال ہے۔ شعبہ نے زید بن ابو انیسہ کی مخالفت کی ہے (یعنی عمرو بن مرہ سے اس کی روایت میں مخالفت کی ہے)۔
تشریح:
(1) امام نسائی رحمہ اللہ یہ فرمانا چاہتے ہیں کہ عمرو بن مرہ سے مذکورہ حدیث زید نے بیان کی تو عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّة عَنْ أَبِیْ نَضْرَة کہا۔ لیکن عمرو بن مرہ سے یہی روایت امام شعبہ نے بیان کی تو فرمایا: عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّة قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا نَصْرٍ، یعنی ابو نضرہ (بالضاد) کے بجائے ابو نصر (بالصاد) کہا، نیز اس میں ۃ، یعنی جو حالت وقف میں ”ہ“ پڑھی جاتی ہے، وہ بھی بیان نہیں کی، صرف ابو نصر کہا اور بس۔ امام نسائی رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ شعبہ نے زید کی مخالفت کی ہے اور وہ زید سے احفظ و اتقن ہے، اس لیے شعبہ کی بات درست ہے اور صحیح لفظ ابو نصر ہے، جبکہ زید کی بات مبنی برخطا ہے۔ و اللہ أعلم۔ (2) ”رنگ بدل گیا“ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ انتہائی بردبار اور متحمل مزاج شخص تھے۔ جلدی اور زیادہ غصے میں نہیں آتے تھے۔ اس شخص نے کوئی بڑی غلطی یا گستاخی کی ہو گی جس پر اس قدر غصہ آ گیا۔ رضي اللہ عنه و أرضاہ۔ (3) ”ٹھنڈا پانی“ قربان جائیے خلیفۂ رسول پر کہ غلط بات سن کر حالت بدل گئی، حالانکہ ظاہراً یہ بات ان کے حق میں تھی۔ اگر کوئی خوشامد پسند بادشاہ ہوتا تو اس کا پارہ اور چڑھتا مگر یہ خلیفۂ رسول تھے۔ فوراً ناراضی کا اظہار فرمایا کہ میرے بارے میں غلو کیوں کیا؟ یاد رہے خلیفۂ رسول کا لقب صرف حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ساتھ خاص تھا، باقی تمام خلفاء راشدین کو امیر المومنین کہا جاتا تھا۔ اور حق یہ ہے کہ انہوں نے خلافت رسول کا حق ادا کر دیا۔ جب تک اُس ”کمزور جان“ میں جان رہی، رسول اللہ ﷺ کے دین میں ذرہ بھر تبدیلی برداشت نہ کی۔ (4) ”تیری ماں تجھے گم پائے“ یعنی تو مر جائے۔ یہ عربی زبان کا ایک محاورہ ہے اور اہل عرب میں اس کا استعمال عام ہے۔ اس جگہ اس کا مقصد اظہار ناراضی ہے نہ کہ بد دعا۔ عرف عام میں ایسا ہوتا ہے۔ (5) ”یہ مرتبہ اور حق نہیں“ کہ اس کی ناراضی کسی کے قتل کا موجب ہو۔ یہ صرف رسول اللہ ﷺ کی شان ہے کہ جس پر ناراض ہو جائیں، اسے قتل کرنے کی اجازت طلب کی جا سکتی ہے اور اجازت ملنے پر اسے قتل بھی کیا جا سکتا ہے۔ میری تیری ناراضی کا یہ درجہ نہیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4086
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4086
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4080
تمہید کتاب
تمہید باب
اختلاف یہ ہے کہ جب ابو معاویہ یہ روایت اعمش سے بیان کرتے ہیں تو وہ عمرو بن مرہ اور ابوبرزہ کے درمیان سالم بن ابی جعد کا واسطہ بیان کرتے ہیں جبکہ یعلیٰ بن عبید جب اعمش سے بیان کرتے ہیں تو ان دونوں کے درمیان میں عبید ابو البختری کا واسطہ بیان کرتے ہیں۔ یہ اختلاف حدیث کی صحت کو متاثر نہیں کرتا کیونکہ ممکن ہے اعمش نے دونوں سے سنا ہو۔ و اللہ اعلم۔
حضرت ابو برزہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہ ایک آدمی پر بہت زیادہ ناراض ہوئے حتیٰ کہ ان کا رنگ بدل گیا۔ میں نے عرض کی: اے خلیفۂ رسول اللہ! اللہ کی قسم! اگر آپ مجھے حکم دیں تو میں اس کی گردن اتار دوں گا۔ (میری اس بات سے) گویا ان پر ٹھنڈا پانی ڈال دیا گیا، چنانچہ اس شخص پر سے ان کا غصہ ختم ہو گیا۔ اور فرمانے لگے: اے ابوبرزہ! تیری ماں تجھے گم پائے! رسول اللہ ﷺ کے بعد کسی کا یہ مرتبہ اور حق نہیں۔ امام ابو عبدالرحمن نسائی ( ؓ ) بیان کرتے ہیں کہ یہ غلط ہے۔ درست ابو نصر ہے اور اس (ابونصر) کا نام حمید بن ہلال ہے۔ شعبہ نے زید بن ابو انیسہ کی مخالفت کی ہے (یعنی عمرو بن مرہ سے اس کی روایت میں مخالفت کی ہے)۔
حدیث حاشیہ:
(1) امام نسائی رحمہ اللہ یہ فرمانا چاہتے ہیں کہ عمرو بن مرہ سے مذکورہ حدیث زید نے بیان کی تو عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّة عَنْ أَبِیْ نَضْرَة کہا۔ لیکن عمرو بن مرہ سے یہی روایت امام شعبہ نے بیان کی تو فرمایا: عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّة قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا نَصْرٍ، یعنی ابو نضرہ (بالضاد) کے بجائے ابو نصر (بالصاد) کہا، نیز اس میں ۃ، یعنی جو حالت وقف میں ”ہ“ پڑھی جاتی ہے، وہ بھی بیان نہیں کی، صرف ابو نصر کہا اور بس۔ امام نسائی رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ شعبہ نے زید کی مخالفت کی ہے اور وہ زید سے احفظ و اتقن ہے، اس لیے شعبہ کی بات درست ہے اور صحیح لفظ ابو نصر ہے، جبکہ زید کی بات مبنی برخطا ہے۔ و اللہ أعلم۔ (2) ”رنگ بدل گیا“ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ انتہائی بردبار اور متحمل مزاج شخص تھے۔ جلدی اور زیادہ غصے میں نہیں آتے تھے۔ اس شخص نے کوئی بڑی غلطی یا گستاخی کی ہو گی جس پر اس قدر غصہ آ گیا۔ رضي اللہ عنه و أرضاہ۔ (3) ”ٹھنڈا پانی“ قربان جائیے خلیفۂ رسول پر کہ غلط بات سن کر حالت بدل گئی، حالانکہ ظاہراً یہ بات ان کے حق میں تھی۔ اگر کوئی خوشامد پسند بادشاہ ہوتا تو اس کا پارہ اور چڑھتا مگر یہ خلیفۂ رسول تھے۔ فوراً ناراضی کا اظہار فرمایا کہ میرے بارے میں غلو کیوں کیا؟ یاد رہے خلیفۂ رسول کا لقب صرف حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ساتھ خاص تھا، باقی تمام خلفاء راشدین کو امیر المومنین کہا جاتا تھا۔ اور حق یہ ہے کہ انہوں نے خلافت رسول کا حق ادا کر دیا۔ جب تک اُس ”کمزور جان“ میں جان رہی، رسول اللہ ﷺ کے دین میں ذرہ بھر تبدیلی برداشت نہ کی۔ (4) ”تیری ماں تجھے گم پائے“ یعنی تو مر جائے۔ یہ عربی زبان کا ایک محاورہ ہے اور اہل عرب میں اس کا استعمال عام ہے۔ اس جگہ اس کا مقصد اظہار ناراضی ہے نہ کہ بد دعا۔ عرف عام میں ایسا ہوتا ہے۔ (5) ”یہ مرتبہ اور حق نہیں“ کہ اس کی ناراضی کسی کے قتل کا موجب ہو۔ یہ صرف رسول اللہ ﷺ کی شان ہے کہ جس پر ناراض ہو جائیں، اسے قتل کرنے کی اجازت طلب کی جا سکتی ہے اور اجازت ملنے پر اسے قتل بھی کیا جا سکتا ہے۔ میری تیری ناراضی کا یہ درجہ نہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوبرزہ ؓ کہتے ہیں کہ ابوبکر ؓ ایک آدمی پر سخت غصہ ہوئے یہاں تک کہ ان کا رنگ بدل گیا، میں نے کہا: اے رسول اللہ کے خلیفہ! اللہ کی قسم! اگر آپ مجھے حکم دیں تو میں اس کی گردن اڑا دوں، اچانک دیکھا گویا آپ پر ٹھنڈا پانی ڈال دیا گیا ہو، چنانچہ اس شخص پر آپ کا غصہ ختم ہو گیا اور کہا: ابوبرزہ! تمہاری ماں تم پر روئے، یہ مقام تو رسول اللہ ﷺ کے بعد کسی کا ہے ہی نہیں ۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں: یہ (ابونضرۃ) غلط ہے صحیح ابونصر ہے، ان کا نام حمید بن ہلال ہے۔ شعبہ نے مخالفت کرتے ہوئے اس (ابونضرۃ) کے برعکس (ابونصر) کہا ہے۔ (ان کی روایت آگے آ رہی ہے)۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Abu Nadrah, that Abu Barzah said: "Abu Bakr got very angry with a man, so much so that his color changed. I said: 'O Khalifah of the Messenger of Allah, if you tell me to, I will strike his neck (kill him).' It was as if cold water had been poured on him and he became calm. He said: 'May your mother be bereft of you, Abu Barzah! That is not for anyone after the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم).