باب: جس شخص کا مال چھیننے کی کوشش کی جائے وہ کیا کرے؟
)
Sunan-nasai:
The Book Of Fighting (The Prohibition Of Bloodshed)
(Chapter: What Should a Man Do if Someone Comes to Take His Wealth?)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4081.
حضرت قابوس کے والد محترم حضرت مخارق رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا: ایک شخص میرے پاس آتا ہے اور میرا مال چھیننا چاہتا ہے۔ (تو میں کیا کروں؟) آپ نے فرمایا: ”اسے اللہ تعالیٰ سے نصیحت کر (اس کی وعید سے ڈرا)۔“ اس نے کہا: اگر وہ نصیحت نہ مانے تو؟ آپ نے فرمایا: ”اپنے آس پاس کے مسلمانوں سے مدد حاصل کر۔“ اس نے کہا: اگر میرے آس پاس کوئی مسلمان نہ ہوں تو؟ آپ نے فرمایا: ”حاکم سے مدد طلب کر۔“ اس نے کہا: اگر حاکم بھی مجھ سے دور ہو؟ فرمایا: ”پھر اپنے مال کی حفاظت کے لیے لڑائی کر حتیٰ کہ تو (مارا جائے اور) آخرت میں شہید بن جائے یا اپنے مال کو بچا لے۔“
تشریح:
(1) باب کے ساتھ حدیث کی مناسبت بالکل واضح ہے، وہ اس طرح کہ جس شخص سے اس کا مال چھینا جا رہا ہو، اس کے لیے دفاع کرنا جائز ہے۔ (2) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دفاع کرنا اگرچہ درست ہے، تاہم یہ کام تدریجاً کرنا زیادہ بہتر ہے، یعنی پہلے ڈاکو وغیرہ کو اللہ تعالیٰ کی پکڑ، اس کے مؤاخذے اور عذاب سے ڈرایا جائے۔ اگر اس کا اثر نہ ہو تو آس پاس کے مسلمانوں سے اس کے خلاف مدد لی جائے۔ یہ بھی ممکن نہ ہو تو حاکم وقت سے مدد طلب کی جائے۔ جب کوئی او چارۂ کار نہ ہو تو لڑنا اور اسے قتل کرنا یا اس کے ہاتھوں شہید ہونا جائز ہے۔ ہاں، اس مقابلے میں اگر ڈاکو اور لٹیرا مارا جائے تو اس کا خون ضائع ہے۔ اپنا دفاع کرنے والے شخص سے نہ تو قصاص لیا جائے گا اور نہ اس پر کسی قسم کی کوئی دیت وغیرہ ہی آئے گی۔ واللہ أعلم (3) اس حدیث شریف سے واضح طور پر یہ بھی معلوم ہوا کہ لڑائی کرنا آخری چارۂ کار ہے۔ اس سے پہلے ہر ممکن ذرائع سے لڑائی سے بچا جائے کیونکہ لڑائی نقصان والی چیز ہے، البتہ اگر کوئی چارۂ کار نہ رہے تو اپنا مال بچانے کے لیے لڑائی کی جا سکتی ہے۔ اس دوران میں اگر وہ خود مارا جائے تو شہید ہو گا، یعنی عظیم ثواب کا مستحق ہو گا اور اگر وہ ڈاکو کو مار دے تو اس پر کوئی قصاص، دیت یا تاوان عائد نہ ہو گا جیسا کہ اس سے پہلے بھی یہ بیان ہو چکا ہے۔ لیکن لڑائی سے پہلے یہ دیکھ لے کہ میں اس کا ہم پلہ بھی ہوں؟ یعنی میرے پاس بھی اسلحہ وغیرہ ہے۔ خالی ہاتھ مسلح آدمی سے لڑنا حماقت ہے۔ جان یقینا مال سے زیادہ قیمتی ہے اور قرآن مجید کا حکم ہے کہ ”اپنے آپ کو خواہ مخواہ ہلاکت میں نہ ڈالو“ گویا لڑائی واجب نہیں، جائز ہے بشرطیکہ وہ ڈاکو کا مقابلہ بھی کر سکتا ہو۔ پھر زندگی، موت اللہ کے سپرد ہے۔ البتہ عزت بچانے کے لیے بے دریغ بھی لڑ پڑے تو اجر کا مستحق ہو گا اور مارے جانے کی صورت میں شہید ہو گا۔ (4) اس حدیث میں جو شہید کہا گیا ہے اس سے مراد شہید معرکہ نہیں بلکہ آخرت میں ثواب کے اعتبار سے اسے شہید قرار دیا گیا ہے، چنانچہ ایسے شخص کو غسل بھی دیا جائے گا اور اس کی نماز جنازہ بھی پڑھی جائے گی۔
حضرت قابوس کے والد محترم حضرت مخارق رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا: ایک شخص میرے پاس آتا ہے اور میرا مال چھیننا چاہتا ہے۔ (تو میں کیا کروں؟) آپ نے فرمایا: ”اسے اللہ تعالیٰ سے نصیحت کر (اس کی وعید سے ڈرا)۔“ اس نے کہا: اگر وہ نصیحت نہ مانے تو؟ آپ نے فرمایا: ”اپنے آس پاس کے مسلمانوں سے مدد حاصل کر۔“ اس نے کہا: اگر میرے آس پاس کوئی مسلمان نہ ہوں تو؟ آپ نے فرمایا: ”حاکم سے مدد طلب کر۔“ اس نے کہا: اگر حاکم بھی مجھ سے دور ہو؟ فرمایا: ”پھر اپنے مال کی حفاظت کے لیے لڑائی کر حتیٰ کہ تو (مارا جائے اور) آخرت میں شہید بن جائے یا اپنے مال کو بچا لے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) باب کے ساتھ حدیث کی مناسبت بالکل واضح ہے، وہ اس طرح کہ جس شخص سے اس کا مال چھینا جا رہا ہو، اس کے لیے دفاع کرنا جائز ہے۔ (2) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دفاع کرنا اگرچہ درست ہے، تاہم یہ کام تدریجاً کرنا زیادہ بہتر ہے، یعنی پہلے ڈاکو وغیرہ کو اللہ تعالیٰ کی پکڑ، اس کے مؤاخذے اور عذاب سے ڈرایا جائے۔ اگر اس کا اثر نہ ہو تو آس پاس کے مسلمانوں سے اس کے خلاف مدد لی جائے۔ یہ بھی ممکن نہ ہو تو حاکم وقت سے مدد طلب کی جائے۔ جب کوئی او چارۂ کار نہ ہو تو لڑنا اور اسے قتل کرنا یا اس کے ہاتھوں شہید ہونا جائز ہے۔ ہاں، اس مقابلے میں اگر ڈاکو اور لٹیرا مارا جائے تو اس کا خون ضائع ہے۔ اپنا دفاع کرنے والے شخص سے نہ تو قصاص لیا جائے گا اور نہ اس پر کسی قسم کی کوئی دیت وغیرہ ہی آئے گی۔ واللہ أعلم (3) اس حدیث شریف سے واضح طور پر یہ بھی معلوم ہوا کہ لڑائی کرنا آخری چارۂ کار ہے۔ اس سے پہلے ہر ممکن ذرائع سے لڑائی سے بچا جائے کیونکہ لڑائی نقصان والی چیز ہے، البتہ اگر کوئی چارۂ کار نہ رہے تو اپنا مال بچانے کے لیے لڑائی کی جا سکتی ہے۔ اس دوران میں اگر وہ خود مارا جائے تو شہید ہو گا، یعنی عظیم ثواب کا مستحق ہو گا اور اگر وہ ڈاکو کو مار دے تو اس پر کوئی قصاص، دیت یا تاوان عائد نہ ہو گا جیسا کہ اس سے پہلے بھی یہ بیان ہو چکا ہے۔ لیکن لڑائی سے پہلے یہ دیکھ لے کہ میں اس کا ہم پلہ بھی ہوں؟ یعنی میرے پاس بھی اسلحہ وغیرہ ہے۔ خالی ہاتھ مسلح آدمی سے لڑنا حماقت ہے۔ جان یقینا مال سے زیادہ قیمتی ہے اور قرآن مجید کا حکم ہے کہ ”اپنے آپ کو خواہ مخواہ ہلاکت میں نہ ڈالو“ گویا لڑائی واجب نہیں، جائز ہے بشرطیکہ وہ ڈاکو کا مقابلہ بھی کر سکتا ہو۔ پھر زندگی، موت اللہ کے سپرد ہے۔ البتہ عزت بچانے کے لیے بے دریغ بھی لڑ پڑے تو اجر کا مستحق ہو گا اور مارے جانے کی صورت میں شہید ہو گا۔ (4) اس حدیث میں جو شہید کہا گیا ہے اس سے مراد شہید معرکہ نہیں بلکہ آخرت میں ثواب کے اعتبار سے اسے شہید قرار دیا گیا ہے، چنانچہ ایسے شخص کو غسل بھی دیا جائے گا اور اس کی نماز جنازہ بھی پڑھی جائے گی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مخارق ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک شخص نے آ کر کہا: میرے پاس ایک شخص آتا ہے اور میرا مال چھینتا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”تو تم اسے اللہ کی یاد دلاؤ“، اس نے کہا: اگر وہ اللہ کو یاد نہ کرے، آپ نے فرمایا: ”تو تم اس کے خلاف اپنے اردگرد کے مسلمانوں سے مدد طلب کرو.“ اس نے کہا: اگر میرے اردگرد کوئی مسلمان نہ ہو تو؟ آپ نے فرمایا: ”حاکم سے مدد طلب کر۔ اس نے کہا: اگر حاکم بھی مجھ سے دور ہو؟ آپ نے فرمایا: اپنے مال کے لیے لڑو، یہاں تک کہ اگر تم مارے گئے تو آخرت کے شہداء میں سے ہو گے۱؎ یا اپنے مال کو بچا لو گے.“
حدیث حاشیہ:
۱؎ : یعنی: اجر و ثواب کے لحاظ سے ایسا آدمی شہداء میں سے ہو گا لیکن عام مردوں کی طرح اس کو غسل دیا جائے گا اور تجہیز و تدفین کی جائے گی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Qabus bin Mukhariq that his father said: "I heard Sufyan Ath-Thawri narrating this Hadith. He said: 'A man came to the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) and said: "What if a man comes to me and wants to take my wealth?" He said: "Remind him of Allah." He said: "What if he pays no heed?" He said: "Seek the help of the Muslims around you against him." He said: "What if there are no Muslims around me?" He said: "Seek the help of the ruler against him." He said: "What if the ruler is far away from me?" He said: "Fight to defend your wealth until you either become one of the martyrs of the Hereafter, or you protect your wealth (successfully).