Sunan-nasai:
The Book Of Fighting (The Prohibition Of Bloodshed)
(Chapter: The Prohibition of Killing)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4126.
حضرت ابن عمر ؓ سے منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”میرے بعد کافر نہ بن جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنے لگ جاؤ۔ کسی شخص کو اس کے باپ یا بھائی کے جرم میں نہ پکڑا جائے گا۔“ امام ابو عبدالرحمن (نسائی) ؓ بیان کرتے ہیں کہ یہ (مذکورہ روایت متصل بیان کرنا) غلط ہے۔ درست (یہ ہے کہ یہ) روایت مرسل ہے۔
تشریح:
(1) امام نسائی رحمہ اللہ کے قول کی وضاحت کچھ اس طرح سے ہے کہ مذکورہ روایت بعض رواۃ نے متصل بیان کی ہے اور بعض نے مرسل۔ امام نسائی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس روایت کا متصل ہونا درست نہیں بلکہ درست بات یہ ہے کہ یہ روایت مرسل ہی ہے، اس لیے کہ متصل بیان کرنے والے راوی شریک اور ابوبکر بن عیاش ہیں اور وہ دونوں اعمش سے بیان کرتے ہیں۔ اعمش سے یہ روایت ابوبکر بن عیاش اور شریک کے علاوہ ابو معاویہ اور یعلیٰ نے بھی بیان کی ہے۔ ایک تو اس لیے کہ شریک کثیر الخطاء (بہت غلطیاں کرنے والا) راوی ہے، دوسرے یہ کہ اس نے اور ابوبکر بن عیاش نے ابومعاویہ کی مخالفت کی ہے، حالانکہ ابو معاویہ، اعمش کے تمام شاگردوں میں سے اثبت راوی ہے، سوائے سفیان ثوری کے۔ ابو معاویہ نے اس روایت کو مرسل بیان کیا ہے۔ مزید برآں یہ بھی کہ یعلیٰ بن عبید نے (اس کے مرسل بیان کرنے میں) ابو معاویہ کی متابعت بھی کی ہے۔ (2) ”کافر نہ بن جانا“ یہ معنیٰ بھی کیے گئے ہیں کہ تم میرے بعد مرتد ہو کر کافر نہ بن جانا ورنہ تمہاری حالت وہی ہو جائے گی جو اسلام سے پہلے تھی کہ تم ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنے لگ جاؤ گے اور آپس میں قتل و قتال کا دور دورہ ہو گا۔ و اللہ أعلم۔ (3) ”نہ پکڑا جائے گا“ یہ اسلام کا سنہری اصول ہے کہ ہر شخص اپنے اعمال کا جواب دہ خود ہے۔ کسی کے جرم میں اس کے بھائی، باپ یا بیٹے کو نہیں پکڑا جا سکتا الا یہ کہ ان کا اس جرم میں دخل ثابت ہو۔ جاہلیت میں یہ عام دستور تھا کہ قاتل کی بجائے اس کے کسی رشتے دار بلکہ اس کے قبیلے کے کسی بھی فرد کا قتل جائز سمجھا جاتا۔ ایک شخص کے جرم کی وجہ سے اس کا پورا قبیلہ مجرم بن جاتا تھا، اس لیے قتل و قتال عام تھا۔ اور ایک قتل پر بسا اوقات سینکڑوں قتل ہو جاتے تھے۔ اسلام نے اس بے اصولی کی نفی اور مذمت فرمائی۔
حضرت ابن عمر ؓ سے منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”میرے بعد کافر نہ بن جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنے لگ جاؤ۔ کسی شخص کو اس کے باپ یا بھائی کے جرم میں نہ پکڑا جائے گا۔“ امام ابو عبدالرحمن (نسائی) ؓ بیان کرتے ہیں کہ یہ (مذکورہ روایت متصل بیان کرنا) غلط ہے۔ درست (یہ ہے کہ یہ) روایت مرسل ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) امام نسائی رحمہ اللہ کے قول کی وضاحت کچھ اس طرح سے ہے کہ مذکورہ روایت بعض رواۃ نے متصل بیان کی ہے اور بعض نے مرسل۔ امام نسائی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس روایت کا متصل ہونا درست نہیں بلکہ درست بات یہ ہے کہ یہ روایت مرسل ہی ہے، اس لیے کہ متصل بیان کرنے والے راوی شریک اور ابوبکر بن عیاش ہیں اور وہ دونوں اعمش سے بیان کرتے ہیں۔ اعمش سے یہ روایت ابوبکر بن عیاش اور شریک کے علاوہ ابو معاویہ اور یعلیٰ نے بھی بیان کی ہے۔ ایک تو اس لیے کہ شریک کثیر الخطاء (بہت غلطیاں کرنے والا) راوی ہے، دوسرے یہ کہ اس نے اور ابوبکر بن عیاش نے ابومعاویہ کی مخالفت کی ہے، حالانکہ ابو معاویہ، اعمش کے تمام شاگردوں میں سے اثبت راوی ہے، سوائے سفیان ثوری کے۔ ابو معاویہ نے اس روایت کو مرسل بیان کیا ہے۔ مزید برآں یہ بھی کہ یعلیٰ بن عبید نے (اس کے مرسل بیان کرنے میں) ابو معاویہ کی متابعت بھی کی ہے۔ (2) ”کافر نہ بن جانا“ یہ معنیٰ بھی کیے گئے ہیں کہ تم میرے بعد مرتد ہو کر کافر نہ بن جانا ورنہ تمہاری حالت وہی ہو جائے گی جو اسلام سے پہلے تھی کہ تم ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنے لگ جاؤ گے اور آپس میں قتل و قتال کا دور دورہ ہو گا۔ و اللہ أعلم۔ (3) ”نہ پکڑا جائے گا“ یہ اسلام کا سنہری اصول ہے کہ ہر شخص اپنے اعمال کا جواب دہ خود ہے۔ کسی کے جرم میں اس کے بھائی، باپ یا بیٹے کو نہیں پکڑا جا سکتا الا یہ کہ ان کا اس جرم میں دخل ثابت ہو۔ جاہلیت میں یہ عام دستور تھا کہ قاتل کی بجائے اس کے کسی رشتے دار بلکہ اس کے قبیلے کے کسی بھی فرد کا قتل جائز سمجھا جاتا۔ ایک شخص کے جرم کی وجہ سے اس کا پورا قبیلہ مجرم بن جاتا تھا، اس لیے قتل و قتال عام تھا۔ اور ایک قتل پر بسا اوقات سینکڑوں قتل ہو جاتے تھے۔ اسلام نے اس بے اصولی کی نفی اور مذمت فرمائی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم لوگ میرے بعد کافر نہ ہو جانا کہ تم آپس میں ایک دوسرے کی گردن مارنے لگو، آدمی کو نہ اس کے باپ کے گناہ کی وجہ سے پکڑا جائے گا اور نہ ہی اس کے بھائی کے گناہ کی وجہ سے۔“ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں: یہ غلط ہے (کہ یہ متصل ہے) صحیح یہ ہے کہ یہ مرسل ہے۔۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : یعنی: جس سند میں مسروق ہیں اس سند سے اس روایت کا مرسل ہونا ہی صواب ہے، مسروق کے واسطے سے جس نے اس روایت کو متصل کر دیا ہے اس نے غلطی کی ہے، یہ مطلب نہیں ہے کہ سرے سے یہ حدیث ہی مرسل ہے، دیگر محدثین کی سندیں متصل ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Ibn 'Umar said: "The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) said: 'Do not revert to disbelievers after I am gone, striking the necks of one another (killing one another). No man is to be punished for the sins of his father, or for the sins of his brother.