Sunan-nasai:
The Book of Distribution of Al-Fay'
(Chapter: The Book Of The Distribution Of Al-Fay')
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4135.
حضرت اوزاعی سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز ؓ نے عمر بن ولید کو لکھا کہ تیرے باپ (ولید بن عبدالملک بن مروان) نے تجھے پورا خمس دے دیا تھا، حالانکہ درحقیقت تیرے باپ کا حصہ ایک عام مسلمان کے حصے کے برابر تھا۔ اس (خمس) میں تو اللہ تعالیٰ کا حق تھا، رسول اللہ ﷺ کا، رسول اللہ ﷺ کے قرابت داروں کا، یتامی و مساکین اور مسافروں کا حق تھا۔ قیامت کے دن تیرے باپ سے جھگڑا کرنے والے لوگ کس قدر ہوں گے! وہ شخص کیسے نجات پائے گا جس سے حق وصول کرنے والے اس قدر زیادہ ہوں؟ پھر تیرا علانیہ آلات موسیقی استعمال کرنا اور بنسری بجانا اسلام کے اندر ایک بدعت ہے۔ میرا ارادہ ہے کہ میں تیرے پاس ایسا شخص بھیجوں جو تیرے لمبے لمبے قبیح بالوں کو کاٹ دے۔ (یا تیرے لمبے قبیح بالوں سے پکڑ کر تجھے گھسیٹ لائے)۔
تشریح:
(1) حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کا مسلک بھی یہی ہے کہ خمس صرف ان کا حق ہے جن کا بیان اللہ تعالیٰ نے قرآن مقدس میں فرمایا ہے اور یہ انہی پر خرچ ہو گا۔ اس میں ان کے علاوہ کوئی دوسرا شریک نہیں ہو سکتا، چنانچہ مطلق العنان حکمران اور ملوک و سلاطین اس میں جو من مانے تصرف کرتے ہیں وہ صریح ظلم اور لوگوں کا مال باطل طریقے سے کھانا ہے، لہٰذا ایسے شخص کی نجات ایک سوالیہ نشان ہی ہے۔ (2) عمر بن ولید خلیفہ ولید بن عبدالملک کا بیٹا تھا۔ یہ شہزادے محلوں میں اور سونے کا چمچہ منہ میں لے کر پیدا ہوئے تھے۔ عیش و عشرت ان کی گھٹی میں پڑ چکی تھی، اس لیے اس کے قبیح کاموں پر اس کو ڈانٹ پلائی۔ رَحِمَه اللّٰہُ رَحْمَة وَّاسِعَة۔ (3) حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ بھی اگرچہ شہزادے ہی تھے مگر اللہ تعالیٰ نے ان کی کایا پلٹ دی تھی۔ خلیفہ بننے کے بعد تو وہ ”حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ “ ہی بن گئے تھے حتیٰ کہ تاریخ نے ان کو ”عمر ثانی“ کا لقب دیا اگرچہ ان کو صرف اڑھائی سال حکومت کا موقع ملا اور وہ صرف سینتیس (۳۷) سال کی عمر میں اپنے مولا کو پیارے ہو گئے۔ صحابی نہ ہونے کے باوجود ان کے لیے رَضِيَ اللّٰہُ عَنْه وَ أَرْضَاہُ کہنے کو جی کرتا ہے۔ (4) ”لمبے لمبے قبیح بال“ لمبے بال رکھنا منع نہیں۔ ممکن ہے اس نے لمبے بالوں کو تکبر کا ذریعہ بنا لیا ہو۔ اور لمبے بال اس کے لیے یا دوسروں کے لیے فتنہ بن گئے ہوں جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ایک شخص کا سر منڈا دیا تھا جس کی زلفیں دوسروں کے لیے فتنے کا باعث تھیں۔ (تاریخ دمشق الکبیر: ۳۳/۱۷، ۲۰) اس صورت میں یہ انتظامی مسئلہ بن جاتا ہے جو قابل گرفت ہوتا ہے، نیز لڑکوں اور لڑکیوں کا حد سے زیادہ زیب و زینت کی طرف توجہ دینا ہلاکت کا باعث ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4146
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4146
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4140
تمہید کتاب
مسلمانوں کو کافروں سے جو مال ملتا ہے، اسے مال غنیمت کہتے ہیں، خواہ وہ مال جنگ کے دوران میں حاصل ہو یا بعد میں یا کسی بھی طریقے سے، البتہ عربی میں مال غنیمت کے حصول کے مختلف طریقوں کے مختلف نام ہیں، مثلاً: جنگ کے دوران میں جو مال کفار سے حاصل ہو، خواہ وہ اسلحہ ہو یا مال و دولت، بھیڑ بکریاں اور اونٹ ہوں یا مرد و عورتیں، اس کو مال غنیمت کہتے ہیں۔ اور اگر لڑائی کے بغیر کوئی مال حاصل ہو، مثلاً: صلح کے نتیجے میں یا کسی معاہدے کے نتیجے میں یا ان کی کوئی چیز ویسے مسلمانوں کے قابو میں آ جائے، اسے مال فے کہتے ہیں۔ فے مکمل طور پر بیت المال کا حق ہوتا ہے۔ اس میں کسی کا کوئی حق نہیں ہوتا، البتہ لڑائی کے دوران یا نتیجے میں حاصل ہونے والی غنیمت میں سے اگر امام چاہے تو فوجیوں کو حصے دے سکتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے دور میں اور مابعد ادوار میں مال غنیمت سے خمس بیت المال میں رکھا جاتا تھا، باقی لڑنے والوں میں تقسیم کر دیا جاتا تھا۔ کبھی آپ یہ خمس بھی نہیں لیتے تھے اور اعلان فرما دیتے تھے کہ جو شخص کسی کو قتل کرے، اس کا سامان وہ خود ہی لے سکتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ مال غنیمت دراصل بیت المال کا حق ہے، البتہ لڑنے والوں کو امام وقت کے تقاضے کے مطابق کچھ دے سکتا ہے۔ اس کا معین حق نہیں۔ اسی طرح جنگ کے دوران میں اگر کسی علاقے پر قبضہ ہو تو زمین بھی بیت المال کی ہو گی، البتہ امام مناسب سمجھے تو فوجیوں کو ضرورت کے مطابق زمین بھی تقسیم کر سکتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے خیبر فتح کیا تو اس کی زرخیز زمین فوجیوں میں تقسیم فرما دی، مگر باقی علاقے فتح کیے تو زمین تقسیم نہ فرمائی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے زمین تقسیم کرنے سے انکار کر دیا کہ اس طرح تو کچھ لوگ بڑے بڑے جاگیردار بن جائیں گے جبکہ بعد والے ایک انچ سے بھی محروم رہیں گے۔ گویا مال غنیمت کے بارے میں حاکم مختار ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے دور میں چونکہ مجاہدین کی تنخواہیں مقرر نہیں تھیں، اس لیے ان کو غنیمت سے حصہ دیا جاتا تھا، بعد میں باقاعدہ فوج تشکیل دی گئی اور تنخواہیں مقرر ہو گئیں جیسا کہ آج کل ہے۔ تو اب فوجیوں کو مال غنیمت سے حصہ دینے کی ضرورت نہیں، ہاں حاکم مناسب سمجھے تو ان کو انعامات وغیرہ دے سکتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا مجاہدین کو حصہ دینا شرعی مسئلہ نہیں بلکہ انتظامی مسئلہ تھا۔ اور انتظامی مسائل میں ہر حکومت تبدیلی کا اختیار رکھتی ہے جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے مندرجہ بالا طرز عمل سے پتا چلتا ہے۔ باقی رہی قرآن مجید کی آیت: { وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْءٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ} (الانفال۸:۴۱) تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جمیع غنیمت مجاہدین کا حق نہیں بلکہ اس میں سے بیت المال کا بھی حق ہے۔ جو خمس سے زائد حتی کہ کل بھی ہو سکتا ہے کیونکہ آیت میں خمس سے زائد کی نفی نہیں، نیز آیت میں باقی مال کو مجاہدین کا حق نہیں بتلایا گیا کہ اس میں کمی بیشی نہ ہو سکے بلکہ خمس کے علاوہ باقی مال غنیمت کے بارے میں خاموشی اختیار فرمائی گئی ہے۔ گویا وہ حکومت وقت کی صوابدید کے مطابق تقسیم ہو گا۔ حکومت چاہے تو اسے مجاہدین میں تقسیم کرے، چاہے تو اسے بیت المال میں داخل کر دے۔عبادات کے علاوہ دین میں جمود نہیں کہ اس میں سرمو تبدیلی نہ ہو سکے، خصوصاً انتظامی و معاشی مسائل میں جو بدلتے رہتے ہیں۔ ایسے معاملات میں حالات و ظروف کا لحاظ نہ رکھنا دین کی حقیقی روح سے بیگانہ ہو جانے والی بات ہے۔ شریعت کا مقصد لوگوں کے مسائل مناسب طریقے سے حل کرنا ہے اور ظاہر ہے کہ ہر دور کے مناسبات مختلف ہوتے ہیں۔ اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اسی انداز فکر ہی کو اجتہاد کہا جاتا ہے جس کے قیامت تک جاری اور جائز رہنے کے محققین قائل ہیں۔ و اللہ اعلم
حضرت اوزاعی سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز ؓ نے عمر بن ولید کو لکھا کہ تیرے باپ (ولید بن عبدالملک بن مروان) نے تجھے پورا خمس دے دیا تھا، حالانکہ درحقیقت تیرے باپ کا حصہ ایک عام مسلمان کے حصے کے برابر تھا۔ اس (خمس) میں تو اللہ تعالیٰ کا حق تھا، رسول اللہ ﷺ کا، رسول اللہ ﷺ کے قرابت داروں کا، یتامی و مساکین اور مسافروں کا حق تھا۔ قیامت کے دن تیرے باپ سے جھگڑا کرنے والے لوگ کس قدر ہوں گے! وہ شخص کیسے نجات پائے گا جس سے حق وصول کرنے والے اس قدر زیادہ ہوں؟ پھر تیرا علانیہ آلات موسیقی استعمال کرنا اور بنسری بجانا اسلام کے اندر ایک بدعت ہے۔ میرا ارادہ ہے کہ میں تیرے پاس ایسا شخص بھیجوں جو تیرے لمبے لمبے قبیح بالوں کو کاٹ دے۔ (یا تیرے لمبے قبیح بالوں سے پکڑ کر تجھے گھسیٹ لائے)۔
حدیث حاشیہ:
(1) حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کا مسلک بھی یہی ہے کہ خمس صرف ان کا حق ہے جن کا بیان اللہ تعالیٰ نے قرآن مقدس میں فرمایا ہے اور یہ انہی پر خرچ ہو گا۔ اس میں ان کے علاوہ کوئی دوسرا شریک نہیں ہو سکتا، چنانچہ مطلق العنان حکمران اور ملوک و سلاطین اس میں جو من مانے تصرف کرتے ہیں وہ صریح ظلم اور لوگوں کا مال باطل طریقے سے کھانا ہے، لہٰذا ایسے شخص کی نجات ایک سوالیہ نشان ہی ہے۔ (2) عمر بن ولید خلیفہ ولید بن عبدالملک کا بیٹا تھا۔ یہ شہزادے محلوں میں اور سونے کا چمچہ منہ میں لے کر پیدا ہوئے تھے۔ عیش و عشرت ان کی گھٹی میں پڑ چکی تھی، اس لیے اس کے قبیح کاموں پر اس کو ڈانٹ پلائی۔ رَحِمَه اللّٰہُ رَحْمَة وَّاسِعَة۔ (3) حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ بھی اگرچہ شہزادے ہی تھے مگر اللہ تعالیٰ نے ان کی کایا پلٹ دی تھی۔ خلیفہ بننے کے بعد تو وہ ”حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ “ ہی بن گئے تھے حتیٰ کہ تاریخ نے ان کو ”عمر ثانی“ کا لقب دیا اگرچہ ان کو صرف اڑھائی سال حکومت کا موقع ملا اور وہ صرف سینتیس (۳۷) سال کی عمر میں اپنے مولا کو پیارے ہو گئے۔ صحابی نہ ہونے کے باوجود ان کے لیے رَضِيَ اللّٰہُ عَنْه وَ أَرْضَاہُ کہنے کو جی کرتا ہے۔ (4) ”لمبے لمبے قبیح بال“ لمبے بال رکھنا منع نہیں۔ ممکن ہے اس نے لمبے بالوں کو تکبر کا ذریعہ بنا لیا ہو۔ اور لمبے بال اس کے لیے یا دوسروں کے لیے فتنہ بن گئے ہوں جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ایک شخص کا سر منڈا دیا تھا جس کی زلفیں دوسروں کے لیے فتنے کا باعث تھیں۔ (تاریخ دمشق الکبیر: ۳۳/۱۷، ۲۰) اس صورت میں یہ انتظامی مسئلہ بن جاتا ہے جو قابل گرفت ہوتا ہے، نیز لڑکوں اور لڑکیوں کا حد سے زیادہ زیب و زینت کی طرف توجہ دینا ہلاکت کا باعث ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
اوزاعی کہتے ہیں کہ عمر بن عبدالعزیز نے عمر بن ولید کو ایک خط لکھا: تمہارے باپ نے تقسیم کر کے پورا خمس (پانچواں حصہ) تمہیں دے دیا، حالانکہ تمہارے باپ کا حصہ ایک عام مسلمان کے حصے کی طرح ہے، اس میں اللہ کا حق ہے اور رسول، ذی القربی، یتیموں، مسکینوں اور مسافروں کا حق ہے۔ تو قیامت کے دن تمہارے باپ سے جھگڑنے والے اور دعوے دار کس قدر زیادہ ہوں گے، اور جس شخص پر دعوے دار اتنی کثرت سے ہوں گے وہ کیسے نجات پائے گا؟ اور جو تم نے باجے اور بانسری کو رواج دیا ہے تو یہ سب اسلام میں بدعت ہیں، میں نے ارادہ کیا تھا کہ میں تمہارے پاس ایسے شخص کو بھیجوں جو تمہارے بڑے بڑے اور برے لٹکتے بالوں کو کاٹ ڈالے۔۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : جمہ ایسے بالوں کو کہتے ہیں جو گردن تک لٹکتے ہیں، اس طرح کا بال رکھنا مکروہ نہیں ہے، عمر بن عبدالعزیز نے اس لیے ایسا کہا کیونکہ عمر بن الولید اپنے انہیں بالوں کی وجہ سے گھمنڈ میں مبتلا رہتا تھا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Al-Awza'i said: "Umar bin 'Abdul-'Aziz wrote a letter to 'Umar bin Al-Walid in which he said: 'The share that your father gave to you was the entire Khumus,[1] but the share that your father is entitled to is the same as that of any man among the Muslims, on which is due the rights of Allah and His Messenger, and of relatives, orphans, the poor and wayfarers. How many will dispute with your father on the Day of Resurrection! How can he be saved who has so many disputants? And your openly allowing musical instruments and wind instruments is an innovation in Islam. I was thinking of sending someone to you who would cut off your evil long hair.