Sunan-nasai:
The Book of Distribution of Al-Fay'
(Chapter: The Book Of The Distribution Of Al-Fay')
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4136.
حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں اور حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالٰی عنہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ہمارا مقصد آپ سے غزوۂ حنین کی غنیمت بنو ہاشم اور بنو مطلب میں تقسیم کرنے کے بارے میں بات چیت کرنا تھا۔ ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ نے ہمارے بھائیوں بن مطلب بن عبدمناف کو (خمس میں سے) حصہ دیا مگر ہمیں کچھ نہیں دیا جبکہ آپ سے ہماری ان کی رشتے داری ایک جیسی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”میں تو بنو ہاشم اور بنو مطلب کو ایک ہی چیز سمجھتا ہوں۔“ حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے بنو عبد شمس اور بنو نوفل کو اس خمس میں سے کچھ نہیں دیا جیسے آپ نے بنو ہاشم اور بنو مطلب کو حصہ دیا۔
تشریح:
آپ کے جد امجد عبد مناف کے چار بیٹے تھے: ہاشم، مطلب، عبد شمس اور نوفل۔ رسول اللہ ﷺ ہاشم کی نسل سے تھے۔ مطلب، عبد شمس اور نوفل کی اولاد آپ کے چچا زاد تھے۔ غزوۂ حنین میں بہت زیادہ مال غنیمت حاصل ہوا۔ اس کے خمس کی مقدار بھی بہت زیادہ تھی۔ آپ نے اس سے بڑے بڑے عطیات دئیے۔ اپنے رشتہ داروں میں سے آپ نے اپنے خاندان بنو ہاشم اور اپنے چچا زاد بنو مطلب کے لوگوں کو عطیات دئیے مگر بنو عبد شمس اور بنو نوفل کو کچھ نہ دیا، حالانکہ وہ بھی آپ کے چچا زاد تھے۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ بنو عبد شمس میں سے تھے اور حضرت جبیر بن مطعم بنو نوفل میں سے تھے۔ وہ دونوں صورت حال کی وضاحت کے لیے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے او عرص کی کہ بنو ہاشم تو آپ کا خاندان ہے ان کو حصہ دینا بجا مگر بنو مطلب اور ہم آپ کے برابر کے رشتہ دار ہیں۔ بنو مطلب کو دینا اور ہمیں نہ دینا سمجھ میں نہیں آتا۔ آپ نے فرمایا کہ بنو ہاشم اور بنو مطلب ایک ہی ہیں۔ چونکہ مکہ مکرمہ میں جب رسول اللہ ﷺ ابتلاء کا شکار تھے تو بنو ہاشم کے ساتھ ساتھ بنو مطلب نے بھی آپ کی بھرپور مدد کی تھی لیکن بنو عبد شمس اور بنو نوفل مجموعی طور پر آپ سے لاتعلق رہے اور آپ کا ساتھ نہ دیا، اس لیے آپ نے عطیات دیتے وقت بنو مطلب کو اپنے ساتھ رکھا اور بنو نوفل اور بنو عبد شمس کو الگ رکھا۔ اور آپ اس سلسلے میں حق بجانب تھے۔ اس حدیث کو یہاں ذکر کرنے سے امام صاحب رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے رشتے داروں کو خمس میں سے دیا۔ معلوم ہوا آپ کے رشتہ داروں کا خمس میں حصہ ہے لیکن حل طلب مسئلہ یہ ہے کہ کیا اب بھی اہل بیت کا یہ حق قائم ہے اور کیا پورا خمس ان کا ہے؟ بحث گزر چکی ہے۔ (دیکھئے، حدیث: ۴۱۳۸)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4147
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4147
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4141
تمہید کتاب
مسلمانوں کو کافروں سے جو مال ملتا ہے، اسے مال غنیمت کہتے ہیں، خواہ وہ مال جنگ کے دوران میں حاصل ہو یا بعد میں یا کسی بھی طریقے سے، البتہ عربی میں مال غنیمت کے حصول کے مختلف طریقوں کے مختلف نام ہیں، مثلاً: جنگ کے دوران میں جو مال کفار سے حاصل ہو، خواہ وہ اسلحہ ہو یا مال و دولت، بھیڑ بکریاں اور اونٹ ہوں یا مرد و عورتیں، اس کو مال غنیمت کہتے ہیں۔ اور اگر لڑائی کے بغیر کوئی مال حاصل ہو، مثلاً: صلح کے نتیجے میں یا کسی معاہدے کے نتیجے میں یا ان کی کوئی چیز ویسے مسلمانوں کے قابو میں آ جائے، اسے مال فے کہتے ہیں۔ فے مکمل طور پر بیت المال کا حق ہوتا ہے۔ اس میں کسی کا کوئی حق نہیں ہوتا، البتہ لڑائی کے دوران یا نتیجے میں حاصل ہونے والی غنیمت میں سے اگر امام چاہے تو فوجیوں کو حصے دے سکتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے دور میں اور مابعد ادوار میں مال غنیمت سے خمس بیت المال میں رکھا جاتا تھا، باقی لڑنے والوں میں تقسیم کر دیا جاتا تھا۔ کبھی آپ یہ خمس بھی نہیں لیتے تھے اور اعلان فرما دیتے تھے کہ جو شخص کسی کو قتل کرے، اس کا سامان وہ خود ہی لے سکتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ مال غنیمت دراصل بیت المال کا حق ہے، البتہ لڑنے والوں کو امام وقت کے تقاضے کے مطابق کچھ دے سکتا ہے۔ اس کا معین حق نہیں۔ اسی طرح جنگ کے دوران میں اگر کسی علاقے پر قبضہ ہو تو زمین بھی بیت المال کی ہو گی، البتہ امام مناسب سمجھے تو فوجیوں کو ضرورت کے مطابق زمین بھی تقسیم کر سکتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے خیبر فتح کیا تو اس کی زرخیز زمین فوجیوں میں تقسیم فرما دی، مگر باقی علاقے فتح کیے تو زمین تقسیم نہ فرمائی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے زمین تقسیم کرنے سے انکار کر دیا کہ اس طرح تو کچھ لوگ بڑے بڑے جاگیردار بن جائیں گے جبکہ بعد والے ایک انچ سے بھی محروم رہیں گے۔ گویا مال غنیمت کے بارے میں حاکم مختار ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے دور میں چونکہ مجاہدین کی تنخواہیں مقرر نہیں تھیں، اس لیے ان کو غنیمت سے حصہ دیا جاتا تھا، بعد میں باقاعدہ فوج تشکیل دی گئی اور تنخواہیں مقرر ہو گئیں جیسا کہ آج کل ہے۔ تو اب فوجیوں کو مال غنیمت سے حصہ دینے کی ضرورت نہیں، ہاں حاکم مناسب سمجھے تو ان کو انعامات وغیرہ دے سکتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا مجاہدین کو حصہ دینا شرعی مسئلہ نہیں بلکہ انتظامی مسئلہ تھا۔ اور انتظامی مسائل میں ہر حکومت تبدیلی کا اختیار رکھتی ہے جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے مندرجہ بالا طرز عمل سے پتا چلتا ہے۔ باقی رہی قرآن مجید کی آیت: { وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْءٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ} (الانفال۸:۴۱) تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جمیع غنیمت مجاہدین کا حق نہیں بلکہ اس میں سے بیت المال کا بھی حق ہے۔ جو خمس سے زائد حتی کہ کل بھی ہو سکتا ہے کیونکہ آیت میں خمس سے زائد کی نفی نہیں، نیز آیت میں باقی مال کو مجاہدین کا حق نہیں بتلایا گیا کہ اس میں کمی بیشی نہ ہو سکے بلکہ خمس کے علاوہ باقی مال غنیمت کے بارے میں خاموشی اختیار فرمائی گئی ہے۔ گویا وہ حکومت وقت کی صوابدید کے مطابق تقسیم ہو گا۔ حکومت چاہے تو اسے مجاہدین میں تقسیم کرے، چاہے تو اسے بیت المال میں داخل کر دے۔عبادات کے علاوہ دین میں جمود نہیں کہ اس میں سرمو تبدیلی نہ ہو سکے، خصوصاً انتظامی و معاشی مسائل میں جو بدلتے رہتے ہیں۔ ایسے معاملات میں حالات و ظروف کا لحاظ نہ رکھنا دین کی حقیقی روح سے بیگانہ ہو جانے والی بات ہے۔ شریعت کا مقصد لوگوں کے مسائل مناسب طریقے سے حل کرنا ہے اور ظاہر ہے کہ ہر دور کے مناسبات مختلف ہوتے ہیں۔ اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اسی انداز فکر ہی کو اجتہاد کہا جاتا ہے جس کے قیامت تک جاری اور جائز رہنے کے محققین قائل ہیں۔ و اللہ اعلم
حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں اور حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالٰی عنہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ہمارا مقصد آپ سے غزوۂ حنین کی غنیمت بنو ہاشم اور بنو مطلب میں تقسیم کرنے کے بارے میں بات چیت کرنا تھا۔ ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ نے ہمارے بھائیوں بن مطلب بن عبدمناف کو (خمس میں سے) حصہ دیا مگر ہمیں کچھ نہیں دیا جبکہ آپ سے ہماری ان کی رشتے داری ایک جیسی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”میں تو بنو ہاشم اور بنو مطلب کو ایک ہی چیز سمجھتا ہوں۔“ حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے بنو عبد شمس اور بنو نوفل کو اس خمس میں سے کچھ نہیں دیا جیسے آپ نے بنو ہاشم اور بنو مطلب کو حصہ دیا۔
حدیث حاشیہ:
آپ کے جد امجد عبد مناف کے چار بیٹے تھے: ہاشم، مطلب، عبد شمس اور نوفل۔ رسول اللہ ﷺ ہاشم کی نسل سے تھے۔ مطلب، عبد شمس اور نوفل کی اولاد آپ کے چچا زاد تھے۔ غزوۂ حنین میں بہت زیادہ مال غنیمت حاصل ہوا۔ اس کے خمس کی مقدار بھی بہت زیادہ تھی۔ آپ نے اس سے بڑے بڑے عطیات دئیے۔ اپنے رشتہ داروں میں سے آپ نے اپنے خاندان بنو ہاشم اور اپنے چچا زاد بنو مطلب کے لوگوں کو عطیات دئیے مگر بنو عبد شمس اور بنو نوفل کو کچھ نہ دیا، حالانکہ وہ بھی آپ کے چچا زاد تھے۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ بنو عبد شمس میں سے تھے اور حضرت جبیر بن مطعم بنو نوفل میں سے تھے۔ وہ دونوں صورت حال کی وضاحت کے لیے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے او عرص کی کہ بنو ہاشم تو آپ کا خاندان ہے ان کو حصہ دینا بجا مگر بنو مطلب اور ہم آپ کے برابر کے رشتہ دار ہیں۔ بنو مطلب کو دینا اور ہمیں نہ دینا سمجھ میں نہیں آتا۔ آپ نے فرمایا کہ بنو ہاشم اور بنو مطلب ایک ہی ہیں۔ چونکہ مکہ مکرمہ میں جب رسول اللہ ﷺ ابتلاء کا شکار تھے تو بنو ہاشم کے ساتھ ساتھ بنو مطلب نے بھی آپ کی بھرپور مدد کی تھی لیکن بنو عبد شمس اور بنو نوفل مجموعی طور پر آپ سے لاتعلق رہے اور آپ کا ساتھ نہ دیا، اس لیے آپ نے عطیات دیتے وقت بنو مطلب کو اپنے ساتھ رکھا اور بنو نوفل اور بنو عبد شمس کو الگ رکھا۔ اور آپ اس سلسلے میں حق بجانب تھے۔ اس حدیث کو یہاں ذکر کرنے سے امام صاحب رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے رشتے داروں کو خمس میں سے دیا۔ معلوم ہوا آپ کے رشتہ داروں کا خمس میں حصہ ہے لیکن حل طلب مسئلہ یہ ہے کہ کیا اب بھی اہل بیت کا یہ حق قائم ہے اور کیا پورا خمس ان کا ہے؟ بحث گزر چکی ہے۔ (دیکھئے، حدیث: ۴۱۳۸)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
جبیر بن مطعم ؓ بیان کرتے ہیں کہ وہ اور عثمان بن عفان ؓ رسول اللہ ﷺ کے پاس غزوہ حنین کے اس خمس۱؎ کے سلسلے میں آپ سے گفتگو کرنے آئے جسے آپ نے بنی ہاشم اور بنی مطلب بن عبد مناف کے درمیان تقسیم کر دیا تھا، انہوں نے کہا کہ اللہ کے رسول! آپ نے ہمارے بھائی بنی مطلب بن عبد مناف میں مال فیٔ بانٹ دیا اور ہمیں کچھ نہ دیا، حالانکہ ہمارا رشتہ انہی لوگوں کے رشتہ کی طرح ہے، رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا: ”میں تو ہاشم اور مطلب کو ایک ہی سمجھتا ہوں“ ، لیکن رسول اللہ ﷺ نے اس خمس میں سے بنی عبد شمس کو کچھ نہ دیا اور نہ ہی بنی نوفل کو جیسا کہ بنی ہاشم اور بنی مطلب کو دیا۔۲؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : دونوں اس خمس کے بارے میں بات چیت کرنے آئے تھے جو ذوی القربیٰ کا حصہ ہے ۔ ۲؎ : جبیر بن مطعم اور عثمان رضی اللہ عنہما کو اعتراض بنو ہاشم کو دینے پر نہیں تھا کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کا تعلق سب کو معلوم تھا، انہیں اعتراض بنو مطلب کو دے کر بنو عبد مناف کو نہ دینے پر تھا کہ بنو ہاشم کے سوا سب سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے قرابت برابر تھی تو ایک کو دینا اور دوسرے کو نہ دینا ؟ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب کا حاصل یہ تھا کہ بنو مطلب نے بھی بنو ہاشم کی طرح آپ کا زمانۂ جاہلیت میں بھی ساتھ دیا تھا، جبکہ بنو عبد مناف نے دشمن کا رول ادا کیا تھا۔ (دیکھئیے اگلی حدیث)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Sa'eed bin Al-Musayyab narrated that Jubair bin Mut'im told him: "He and 'Uthman bin 'Affan came to the Messenger of Allah to speak to him about what he had distributed of the Khumus of Hunain to Banu Hashim and Banu Al-Muttalib bin 'Abd Manaf. They said: 'O Messenger of Allah, you distributed it to our brothers; Banu Al-Muttalib bin 'Abd Manaf, and you did not give us anything, and our relationship to you in the same as theirs. 'The Messenger of Allah said to them: 'I see that Hashim and Al-Muttalib are the same." Jubair bin Mut'im said: "The Messenger of Allah did not allocate anything to Banu 'Abd Shams or Banu Nawfal from that Khumus, as he allocated to Banu Hashim and Banu Al-Muttalib.