Sunan-nasai:
The Book of Distribution of Al-Fay'
(Chapter: The Book Of The Distribution Of Al-Fay')
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4141.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ حضرت فاطمہ ؓ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو پیغام بھیجا جبکہ وہ ان سے نبی ﷺ کے صدقہ اور خمس خیبر سے اپنی وراثت طلب کرتی تھیں۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا: ”ہمارے ترکے میں وراثت نہیں چلتی۔“
تشریح:
(1) پیچھے گزر چکا ہے کہ اہل بیت خمس کو اپنا حق سمجھتے تھے جبکہ دیگر صحابہ کے نزدیک خمس بیت المال کی ملکیت ہوتا ہے، البتہ اس میں سے اہل بیت کے محتاج لوگوں سے تعاون کیا جائے گا۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اپنے خیال کے مطابق خیبر کے خمس، بنو نضیر کی زمینوں، فدک کی زمین اور صدقۃ النبی ﷺ سے وراثت طلب کی۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے وضاحت فرمائی کہ یہ زمینیں آپ کی ذاتی نہیں بلکہ بیت المال کی ملکیت تھیں، لہٰذا ان میں وراثت جاری نہیں ہو گی۔ (2) ”نبیﷺ کے صدقہ سے“ یہ زمین بعد میں اس نام سے مشہور ہوئی ورنہ اگر اسی وقت یہ صدقہ کے نام سے معروف تھی تو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اس سے وراثت طلب نہ فرماتیں۔ بعض دیگر روایات میں آتا ہے کہ یہ زمین ایک یہودی شخص (مخیریق) نے بطور وصیت آپ کے لیے ہبہ کی تھی۔ (3) ”وراثت نہیں چلتی“ کیونکہ نبی ﷺ نے اپنی جائیداد نہیں بنائی، نہ غنیمت سے حصہ لیا بلکہ آپ غنیمت سے خمس وصول فرماتے تھے جس سے اپنے اخراجات پورے کرنے کے بعد وہ مسملانوں کے مصالح میں صرف ہوتا تھا۔ گویا آپ نے خمس سے صرف ضروریات پوری کی تھیں، اسے اپنی ملکیت نہیں بنایا تھا بلکہ وہ دراصل بیت المال ہی کی ملکیت تھا۔ آپ کا یہ طرز عمل، اس لیے تھا کہ کوئی نابکار منافق یا کافر یہ نہ کہہ سکے کہ آپ نے دعوائے نبوت صرف مال جمع کرنے کے لیے کیا ہے۔ جب آپ نے اپنی زندگی میں کوئی جائیداد ہی نہیں بنائی بلکہ جو کچھ آتا تھا، وہ بیت المال میں جمع فرماتے تھے، صرف اپنے ضروی اخراجات وصول فرماتے تھے تو پھر وراثت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا خاتون ہونے کی وجہ سے اس حقیقت سے واقف نہ تھیں۔ حضرت عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ بھی آخری دور میں مدینہ منورہ تشریف لائے تھے، لہٰذا کوئی تعجب کی بات نہیں اگر ان حضرات کو یہ بات معلوم نہ ہو سکی۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہ جو کہ راز دار نبوت تھے، اس حقیقت سے مطلع تھے۔ یہ حدیث (ہمارے متروکہ مال میں وراثت نہیں چلتی) حضرت ابوبکر کے علاوہ بعض دیگر صحابہ سے بھی مروی ہے۔ سب سے بڑی دلیل رسول اللہ ﷺ کا اپنی زندگی میں طرز عمل تھا کہ آپ نے نہ کبھی غنیمت میں اپنا حصہ لیا، نہ خمس کو اپنا ذاتی مال سمجھا۔ صرف ضرورت کے لیے استعمال فرمایا۔ وراثت تو اس مال میں ہوتی ہے جو مملوکہ ہو۔ جب یہ مال (زمینیں وغیرہ) آپ کی ملکیت ہی نہیں تھا تو وراثت کیسے جاری ہوتی؟
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4152
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4152
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4146
تمہید کتاب
مسلمانوں کو کافروں سے جو مال ملتا ہے، اسے مال غنیمت کہتے ہیں، خواہ وہ مال جنگ کے دوران میں حاصل ہو یا بعد میں یا کسی بھی طریقے سے، البتہ عربی میں مال غنیمت کے حصول کے مختلف طریقوں کے مختلف نام ہیں، مثلاً: جنگ کے دوران میں جو مال کفار سے حاصل ہو، خواہ وہ اسلحہ ہو یا مال و دولت، بھیڑ بکریاں اور اونٹ ہوں یا مرد و عورتیں، اس کو مال غنیمت کہتے ہیں۔ اور اگر لڑائی کے بغیر کوئی مال حاصل ہو، مثلاً: صلح کے نتیجے میں یا کسی معاہدے کے نتیجے میں یا ان کی کوئی چیز ویسے مسلمانوں کے قابو میں آ جائے، اسے مال فے کہتے ہیں۔ فے مکمل طور پر بیت المال کا حق ہوتا ہے۔ اس میں کسی کا کوئی حق نہیں ہوتا، البتہ لڑائی کے دوران یا نتیجے میں حاصل ہونے والی غنیمت میں سے اگر امام چاہے تو فوجیوں کو حصے دے سکتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے دور میں اور مابعد ادوار میں مال غنیمت سے خمس بیت المال میں رکھا جاتا تھا، باقی لڑنے والوں میں تقسیم کر دیا جاتا تھا۔ کبھی آپ یہ خمس بھی نہیں لیتے تھے اور اعلان فرما دیتے تھے کہ جو شخص کسی کو قتل کرے، اس کا سامان وہ خود ہی لے سکتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ مال غنیمت دراصل بیت المال کا حق ہے، البتہ لڑنے والوں کو امام وقت کے تقاضے کے مطابق کچھ دے سکتا ہے۔ اس کا معین حق نہیں۔ اسی طرح جنگ کے دوران میں اگر کسی علاقے پر قبضہ ہو تو زمین بھی بیت المال کی ہو گی، البتہ امام مناسب سمجھے تو فوجیوں کو ضرورت کے مطابق زمین بھی تقسیم کر سکتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے خیبر فتح کیا تو اس کی زرخیز زمین فوجیوں میں تقسیم فرما دی، مگر باقی علاقے فتح کیے تو زمین تقسیم نہ فرمائی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے زمین تقسیم کرنے سے انکار کر دیا کہ اس طرح تو کچھ لوگ بڑے بڑے جاگیردار بن جائیں گے جبکہ بعد والے ایک انچ سے بھی محروم رہیں گے۔ گویا مال غنیمت کے بارے میں حاکم مختار ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے دور میں چونکہ مجاہدین کی تنخواہیں مقرر نہیں تھیں، اس لیے ان کو غنیمت سے حصہ دیا جاتا تھا، بعد میں باقاعدہ فوج تشکیل دی گئی اور تنخواہیں مقرر ہو گئیں جیسا کہ آج کل ہے۔ تو اب فوجیوں کو مال غنیمت سے حصہ دینے کی ضرورت نہیں، ہاں حاکم مناسب سمجھے تو ان کو انعامات وغیرہ دے سکتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا مجاہدین کو حصہ دینا شرعی مسئلہ نہیں بلکہ انتظامی مسئلہ تھا۔ اور انتظامی مسائل میں ہر حکومت تبدیلی کا اختیار رکھتی ہے جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے مندرجہ بالا طرز عمل سے پتا چلتا ہے۔ باقی رہی قرآن مجید کی آیت: { وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْءٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ} (الانفال۸:۴۱) تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جمیع غنیمت مجاہدین کا حق نہیں بلکہ اس میں سے بیت المال کا بھی حق ہے۔ جو خمس سے زائد حتی کہ کل بھی ہو سکتا ہے کیونکہ آیت میں خمس سے زائد کی نفی نہیں، نیز آیت میں باقی مال کو مجاہدین کا حق نہیں بتلایا گیا کہ اس میں کمی بیشی نہ ہو سکے بلکہ خمس کے علاوہ باقی مال غنیمت کے بارے میں خاموشی اختیار فرمائی گئی ہے۔ گویا وہ حکومت وقت کی صوابدید کے مطابق تقسیم ہو گا۔ حکومت چاہے تو اسے مجاہدین میں تقسیم کرے، چاہے تو اسے بیت المال میں داخل کر دے۔عبادات کے علاوہ دین میں جمود نہیں کہ اس میں سرمو تبدیلی نہ ہو سکے، خصوصاً انتظامی و معاشی مسائل میں جو بدلتے رہتے ہیں۔ ایسے معاملات میں حالات و ظروف کا لحاظ نہ رکھنا دین کی حقیقی روح سے بیگانہ ہو جانے والی بات ہے۔ شریعت کا مقصد لوگوں کے مسائل مناسب طریقے سے حل کرنا ہے اور ظاہر ہے کہ ہر دور کے مناسبات مختلف ہوتے ہیں۔ اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اسی انداز فکر ہی کو اجتہاد کہا جاتا ہے جس کے قیامت تک جاری اور جائز رہنے کے محققین قائل ہیں۔ و اللہ اعلم
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ حضرت فاطمہ ؓ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو پیغام بھیجا جبکہ وہ ان سے نبی ﷺ کے صدقہ اور خمس خیبر سے اپنی وراثت طلب کرتی تھیں۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا: ”ہمارے ترکے میں وراثت نہیں چلتی۔“
حدیث حاشیہ:
(1) پیچھے گزر چکا ہے کہ اہل بیت خمس کو اپنا حق سمجھتے تھے جبکہ دیگر صحابہ کے نزدیک خمس بیت المال کی ملکیت ہوتا ہے، البتہ اس میں سے اہل بیت کے محتاج لوگوں سے تعاون کیا جائے گا۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اپنے خیال کے مطابق خیبر کے خمس، بنو نضیر کی زمینوں، فدک کی زمین اور صدقۃ النبی ﷺ سے وراثت طلب کی۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے وضاحت فرمائی کہ یہ زمینیں آپ کی ذاتی نہیں بلکہ بیت المال کی ملکیت تھیں، لہٰذا ان میں وراثت جاری نہیں ہو گی۔ (2) ”نبیﷺ کے صدقہ سے“ یہ زمین بعد میں اس نام سے مشہور ہوئی ورنہ اگر اسی وقت یہ صدقہ کے نام سے معروف تھی تو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اس سے وراثت طلب نہ فرماتیں۔ بعض دیگر روایات میں آتا ہے کہ یہ زمین ایک یہودی شخص (مخیریق) نے بطور وصیت آپ کے لیے ہبہ کی تھی۔ (3) ”وراثت نہیں چلتی“ کیونکہ نبی ﷺ نے اپنی جائیداد نہیں بنائی، نہ غنیمت سے حصہ لیا بلکہ آپ غنیمت سے خمس وصول فرماتے تھے جس سے اپنے اخراجات پورے کرنے کے بعد وہ مسملانوں کے مصالح میں صرف ہوتا تھا۔ گویا آپ نے خمس سے صرف ضروریات پوری کی تھیں، اسے اپنی ملکیت نہیں بنایا تھا بلکہ وہ دراصل بیت المال ہی کی ملکیت تھا۔ آپ کا یہ طرز عمل، اس لیے تھا کہ کوئی نابکار منافق یا کافر یہ نہ کہہ سکے کہ آپ نے دعوائے نبوت صرف مال جمع کرنے کے لیے کیا ہے۔ جب آپ نے اپنی زندگی میں کوئی جائیداد ہی نہیں بنائی بلکہ جو کچھ آتا تھا، وہ بیت المال میں جمع فرماتے تھے، صرف اپنے ضروی اخراجات وصول فرماتے تھے تو پھر وراثت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا خاتون ہونے کی وجہ سے اس حقیقت سے واقف نہ تھیں۔ حضرت عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ بھی آخری دور میں مدینہ منورہ تشریف لائے تھے، لہٰذا کوئی تعجب کی بات نہیں اگر ان حضرات کو یہ بات معلوم نہ ہو سکی۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہ جو کہ راز دار نبوت تھے، اس حقیقت سے مطلع تھے۔ یہ حدیث (ہمارے متروکہ مال میں وراثت نہیں چلتی) حضرت ابوبکر کے علاوہ بعض دیگر صحابہ سے بھی مروی ہے۔ سب سے بڑی دلیل رسول اللہ ﷺ کا اپنی زندگی میں طرز عمل تھا کہ آپ نے نہ کبھی غنیمت میں اپنا حصہ لیا، نہ خمس کو اپنا ذاتی مال سمجھا۔ صرف ضرورت کے لیے استعمال فرمایا۔ وراثت تو اس مال میں ہوتی ہے جو مملوکہ ہو۔ جب یہ مال (زمینیں وغیرہ) آپ کی ملکیت ہی نہیں تھا تو وراثت کیسے جاری ہوتی؟
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ام المؤمنین عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ فاطمہ ؓ نے ابوبکر ؓ کے پاس ایک آدمی بھیجا وہ ان سے نبی اکرم ﷺ کے صدقے میں سے اپنا حصہ اور خیبر کے خمس ( پانچویں حصے) میں سے اپنا حصہ مانگ رہی تھیں، ابوبکر ؓ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: ”ہمارا (یعنی انبیاء کا) کوئی وارث نہیں ہوتا.“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from 'Aishah (RA) that: Fatimah sent word to Abu Bakr asking for her inheritance from the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم), from his charity and what was left of the Khumus of Khaibar. Abu Bakar said: "The Messenger of Allah said: 'We are not inherited from.