Sunan-nasai:
The Book of Distribution of Al-Fay'
(Chapter: The Book Of The Distribution Of Al-Fay')
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4144.
موسیٰ بن ابو عائشہ سے روایت ہے کہ میں نے یحییٰ بن جزار سے اس آیت: ﴿وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْءٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ﴾ ”تم جان لو کہ جو بھی تم غنیمت حاصل کرو، اس کا پانچواں حصہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے لیے ہے۔“ کے (مفہوم کے) کے بارے میں پوچھا۔ میں نے کہا کہ نبیٔ اکرم ﷺ کا خمس میں کتنا حصہ تھا؟ انہوں نے کہا: خمس کا پانچواں حصہ۔
تشریح:
فائدہ: آیت کے ظاہر الفاظ سے استدلال کیا گیا ہے کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ کے علاوہ پانچ مصارف ذکر ہیں، لہٰذا ہر مصرف میں خمس کا پانچواں حصہ صرف کیا جائے گا لیکن یہ استدلال درست نہیں کیونکہ آیت میں یہ کہیں ذکر نہیں کہ ہر ایک کو برابر رکھو بلکہ یہ تو حالات و حاجات پر موقوف ہے۔ جس مصرف میں زیادہ کی ضرورت ہے، وہاں زیادہ صرف کیا جائے اور جس میں کم ضرورت ہے، وہاں کم خرچ کیا جائے۔ کسی ایک کا حصہ مقرر نہیں۔ روایت میں مذکور یحییٰ بن جزار کو غالی شیعہ کہا گیا ہے۔ و اللہ أعلم۔ ویسے وہ سچا تھا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4155
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4155
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4149
تمہید کتاب
مسلمانوں کو کافروں سے جو مال ملتا ہے، اسے مال غنیمت کہتے ہیں، خواہ وہ مال جنگ کے دوران میں حاصل ہو یا بعد میں یا کسی بھی طریقے سے، البتہ عربی میں مال غنیمت کے حصول کے مختلف طریقوں کے مختلف نام ہیں، مثلاً: جنگ کے دوران میں جو مال کفار سے حاصل ہو، خواہ وہ اسلحہ ہو یا مال و دولت، بھیڑ بکریاں اور اونٹ ہوں یا مرد و عورتیں، اس کو مال غنیمت کہتے ہیں۔ اور اگر لڑائی کے بغیر کوئی مال حاصل ہو، مثلاً: صلح کے نتیجے میں یا کسی معاہدے کے نتیجے میں یا ان کی کوئی چیز ویسے مسلمانوں کے قابو میں آ جائے، اسے مال فے کہتے ہیں۔ فے مکمل طور پر بیت المال کا حق ہوتا ہے۔ اس میں کسی کا کوئی حق نہیں ہوتا، البتہ لڑائی کے دوران یا نتیجے میں حاصل ہونے والی غنیمت میں سے اگر امام چاہے تو فوجیوں کو حصے دے سکتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے دور میں اور مابعد ادوار میں مال غنیمت سے خمس بیت المال میں رکھا جاتا تھا، باقی لڑنے والوں میں تقسیم کر دیا جاتا تھا۔ کبھی آپ یہ خمس بھی نہیں لیتے تھے اور اعلان فرما دیتے تھے کہ جو شخص کسی کو قتل کرے، اس کا سامان وہ خود ہی لے سکتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ مال غنیمت دراصل بیت المال کا حق ہے، البتہ لڑنے والوں کو امام وقت کے تقاضے کے مطابق کچھ دے سکتا ہے۔ اس کا معین حق نہیں۔ اسی طرح جنگ کے دوران میں اگر کسی علاقے پر قبضہ ہو تو زمین بھی بیت المال کی ہو گی، البتہ امام مناسب سمجھے تو فوجیوں کو ضرورت کے مطابق زمین بھی تقسیم کر سکتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے خیبر فتح کیا تو اس کی زرخیز زمین فوجیوں میں تقسیم فرما دی، مگر باقی علاقے فتح کیے تو زمین تقسیم نہ فرمائی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے زمین تقسیم کرنے سے انکار کر دیا کہ اس طرح تو کچھ لوگ بڑے بڑے جاگیردار بن جائیں گے جبکہ بعد والے ایک انچ سے بھی محروم رہیں گے۔ گویا مال غنیمت کے بارے میں حاکم مختار ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے دور میں چونکہ مجاہدین کی تنخواہیں مقرر نہیں تھیں، اس لیے ان کو غنیمت سے حصہ دیا جاتا تھا، بعد میں باقاعدہ فوج تشکیل دی گئی اور تنخواہیں مقرر ہو گئیں جیسا کہ آج کل ہے۔ تو اب فوجیوں کو مال غنیمت سے حصہ دینے کی ضرورت نہیں، ہاں حاکم مناسب سمجھے تو ان کو انعامات وغیرہ دے سکتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا مجاہدین کو حصہ دینا شرعی مسئلہ نہیں بلکہ انتظامی مسئلہ تھا۔ اور انتظامی مسائل میں ہر حکومت تبدیلی کا اختیار رکھتی ہے جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے مندرجہ بالا طرز عمل سے پتا چلتا ہے۔ باقی رہی قرآن مجید کی آیت: { وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْءٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ} (الانفال۸:۴۱) تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جمیع غنیمت مجاہدین کا حق نہیں بلکہ اس میں سے بیت المال کا بھی حق ہے۔ جو خمس سے زائد حتی کہ کل بھی ہو سکتا ہے کیونکہ آیت میں خمس سے زائد کی نفی نہیں، نیز آیت میں باقی مال کو مجاہدین کا حق نہیں بتلایا گیا کہ اس میں کمی بیشی نہ ہو سکے بلکہ خمس کے علاوہ باقی مال غنیمت کے بارے میں خاموشی اختیار فرمائی گئی ہے۔ گویا وہ حکومت وقت کی صوابدید کے مطابق تقسیم ہو گا۔ حکومت چاہے تو اسے مجاہدین میں تقسیم کرے، چاہے تو اسے بیت المال میں داخل کر دے۔عبادات کے علاوہ دین میں جمود نہیں کہ اس میں سرمو تبدیلی نہ ہو سکے، خصوصاً انتظامی و معاشی مسائل میں جو بدلتے رہتے ہیں۔ ایسے معاملات میں حالات و ظروف کا لحاظ نہ رکھنا دین کی حقیقی روح سے بیگانہ ہو جانے والی بات ہے۔ شریعت کا مقصد لوگوں کے مسائل مناسب طریقے سے حل کرنا ہے اور ظاہر ہے کہ ہر دور کے مناسبات مختلف ہوتے ہیں۔ اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اسی انداز فکر ہی کو اجتہاد کہا جاتا ہے جس کے قیامت تک جاری اور جائز رہنے کے محققین قائل ہیں۔ و اللہ اعلم
موسیٰ بن ابو عائشہ سے روایت ہے کہ میں نے یحییٰ بن جزار سے اس آیت: ﴿وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْءٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ﴾ ”تم جان لو کہ جو بھی تم غنیمت حاصل کرو، اس کا پانچواں حصہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے لیے ہے۔“ کے (مفہوم کے) کے بارے میں پوچھا۔ میں نے کہا کہ نبیٔ اکرم ﷺ کا خمس میں کتنا حصہ تھا؟ انہوں نے کہا: خمس کا پانچواں حصہ۔
حدیث حاشیہ:
فائدہ: آیت کے ظاہر الفاظ سے استدلال کیا گیا ہے کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ کے علاوہ پانچ مصارف ذکر ہیں، لہٰذا ہر مصرف میں خمس کا پانچواں حصہ صرف کیا جائے گا لیکن یہ استدلال درست نہیں کیونکہ آیت میں یہ کہیں ذکر نہیں کہ ہر ایک کو برابر رکھو بلکہ یہ تو حالات و حاجات پر موقوف ہے۔ جس مصرف میں زیادہ کی ضرورت ہے، وہاں زیادہ صرف کیا جائے اور جس میں کم ضرورت ہے، وہاں کم خرچ کیا جائے۔ کسی ایک کا حصہ مقرر نہیں۔ روایت میں مذکور یحییٰ بن جزار کو غالی شیعہ کہا گیا ہے۔ و اللہ أعلم۔ ویسے وہ سچا تھا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
موسیٰ بن ابی عائشہ کہتے ہیں کہ میں نے یحییٰ بن جزار سے اس آیت: «وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْءٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ» کے بارے میں پوچھا، میں نے کہا: نبی اکرم ﷺ کا خمس میں سے کتنا حصہ ہوتا تھا: انہوں نے کہا: خمس کا خمس۔۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : یعنی پانچویں حصے کا پانچواں حصہ، کیونکہ خمس کا اکثر حصہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسلامی کاموں میں خرچ کر دیتے تھے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Musa bin Abi 'Aishah said: "I asked Yahya bin Al-Jazzar about this Verse: and know that whatever of spoils of war that you may gain, verily, one-fifth of it is assigned to Allah, and to the Messenger". He said: "I said: 'How much of the Khumus did he Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) take?' He said: 'One-fifth of the Khumus.