Sunan-nasai:
The Book of Distribution of Al-Fay'
(Chapter: The Book Of The Distribution Of Al-Fay')
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4146.
حضرت یزید بن شخیر سے مروی ہے کہ میں (بصرہ کے محلہ) مربد میں حضرت مطرف کے ساتھ تھا کہ ایک آدمی آیا۔ اس کے پاس سرخ چمڑے کا ایک ٹکڑا تھا۔ اس نے کہا: یہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے لکھ کر دیا تھا۔ تم میں سے کوئی پڑھ سکتا ہے؟ میں نے کہا: میں پڑھ دیتا ہوں۔ اس میں لکھا تھا: ”یہ دستاویز نبیٔ اکرم حضرت محمد مصطفیﷺ کی طرف سے بنو زہیر بن اقیش کے لیے لکھی گئی ہے کہ اگر وہ ” لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مُحَمَّد رَسُولُ اللَّهِ“ کی گواہی دیں، مشرکین سے الگ تھلگ ہو جائیں اور اپنی حاصل کردہ غنیمتوں میں سے خمس (حکومت کو) دینے کا اقرار کریں، نیز وہ نبی ﷺ کا عام حصہ اور خصوصی حصہ (صفی) بھی ادا کریں تو (وہ بے خوف ہو کر رہیں)۔ ان کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف سے پروانۂ امن حاصل ہو گا۔“
تشریح:
صحیح بات یہی ہے کہ نبیٔ اکرم ﷺ کا عمومی و خصوصی حصہ بھی خمس میں شامل ہے، اگرچہ ظاہر الفاظ مال غنیمت اور مال فے کی تقسیم کے مسائل ان حصوں کو خمس سے الگ ظاہر کررہے ہیں۔ باقی روایات کا لحاظ رکھنا بھی ضروری ہے۔ (دیکھیے فوائد‘حدیث:۴۱۴۳،۴۱۴۴)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4157
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4157
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4151
تمہید کتاب
مسلمانوں کو کافروں سے جو مال ملتا ہے، اسے مال غنیمت کہتے ہیں، خواہ وہ مال جنگ کے دوران میں حاصل ہو یا بعد میں یا کسی بھی طریقے سے، البتہ عربی میں مال غنیمت کے حصول کے مختلف طریقوں کے مختلف نام ہیں، مثلاً: جنگ کے دوران میں جو مال کفار سے حاصل ہو، خواہ وہ اسلحہ ہو یا مال و دولت، بھیڑ بکریاں اور اونٹ ہوں یا مرد و عورتیں، اس کو مال غنیمت کہتے ہیں۔ اور اگر لڑائی کے بغیر کوئی مال حاصل ہو، مثلاً: صلح کے نتیجے میں یا کسی معاہدے کے نتیجے میں یا ان کی کوئی چیز ویسے مسلمانوں کے قابو میں آ جائے، اسے مال فے کہتے ہیں۔ فے مکمل طور پر بیت المال کا حق ہوتا ہے۔ اس میں کسی کا کوئی حق نہیں ہوتا، البتہ لڑائی کے دوران یا نتیجے میں حاصل ہونے والی غنیمت میں سے اگر امام چاہے تو فوجیوں کو حصے دے سکتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے دور میں اور مابعد ادوار میں مال غنیمت سے خمس بیت المال میں رکھا جاتا تھا، باقی لڑنے والوں میں تقسیم کر دیا جاتا تھا۔ کبھی آپ یہ خمس بھی نہیں لیتے تھے اور اعلان فرما دیتے تھے کہ جو شخص کسی کو قتل کرے، اس کا سامان وہ خود ہی لے سکتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ مال غنیمت دراصل بیت المال کا حق ہے، البتہ لڑنے والوں کو امام وقت کے تقاضے کے مطابق کچھ دے سکتا ہے۔ اس کا معین حق نہیں۔ اسی طرح جنگ کے دوران میں اگر کسی علاقے پر قبضہ ہو تو زمین بھی بیت المال کی ہو گی، البتہ امام مناسب سمجھے تو فوجیوں کو ضرورت کے مطابق زمین بھی تقسیم کر سکتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے خیبر فتح کیا تو اس کی زرخیز زمین فوجیوں میں تقسیم فرما دی، مگر باقی علاقے فتح کیے تو زمین تقسیم نہ فرمائی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے زمین تقسیم کرنے سے انکار کر دیا کہ اس طرح تو کچھ لوگ بڑے بڑے جاگیردار بن جائیں گے جبکہ بعد والے ایک انچ سے بھی محروم رہیں گے۔ گویا مال غنیمت کے بارے میں حاکم مختار ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے دور میں چونکہ مجاہدین کی تنخواہیں مقرر نہیں تھیں، اس لیے ان کو غنیمت سے حصہ دیا جاتا تھا، بعد میں باقاعدہ فوج تشکیل دی گئی اور تنخواہیں مقرر ہو گئیں جیسا کہ آج کل ہے۔ تو اب فوجیوں کو مال غنیمت سے حصہ دینے کی ضرورت نہیں، ہاں حاکم مناسب سمجھے تو ان کو انعامات وغیرہ دے سکتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا مجاہدین کو حصہ دینا شرعی مسئلہ نہیں بلکہ انتظامی مسئلہ تھا۔ اور انتظامی مسائل میں ہر حکومت تبدیلی کا اختیار رکھتی ہے جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے مندرجہ بالا طرز عمل سے پتا چلتا ہے۔ باقی رہی قرآن مجید کی آیت: { وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْءٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ} (الانفال۸:۴۱) تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جمیع غنیمت مجاہدین کا حق نہیں بلکہ اس میں سے بیت المال کا بھی حق ہے۔ جو خمس سے زائد حتی کہ کل بھی ہو سکتا ہے کیونکہ آیت میں خمس سے زائد کی نفی نہیں، نیز آیت میں باقی مال کو مجاہدین کا حق نہیں بتلایا گیا کہ اس میں کمی بیشی نہ ہو سکے بلکہ خمس کے علاوہ باقی مال غنیمت کے بارے میں خاموشی اختیار فرمائی گئی ہے۔ گویا وہ حکومت وقت کی صوابدید کے مطابق تقسیم ہو گا۔ حکومت چاہے تو اسے مجاہدین میں تقسیم کرے، چاہے تو اسے بیت المال میں داخل کر دے۔عبادات کے علاوہ دین میں جمود نہیں کہ اس میں سرمو تبدیلی نہ ہو سکے، خصوصاً انتظامی و معاشی مسائل میں جو بدلتے رہتے ہیں۔ ایسے معاملات میں حالات و ظروف کا لحاظ نہ رکھنا دین کی حقیقی روح سے بیگانہ ہو جانے والی بات ہے۔ شریعت کا مقصد لوگوں کے مسائل مناسب طریقے سے حل کرنا ہے اور ظاہر ہے کہ ہر دور کے مناسبات مختلف ہوتے ہیں۔ اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اسی انداز فکر ہی کو اجتہاد کہا جاتا ہے جس کے قیامت تک جاری اور جائز رہنے کے محققین قائل ہیں۔ و اللہ اعلم
حضرت یزید بن شخیر سے مروی ہے کہ میں (بصرہ کے محلہ) مربد میں حضرت مطرف کے ساتھ تھا کہ ایک آدمی آیا۔ اس کے پاس سرخ چمڑے کا ایک ٹکڑا تھا۔ اس نے کہا: یہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے لکھ کر دیا تھا۔ تم میں سے کوئی پڑھ سکتا ہے؟ میں نے کہا: میں پڑھ دیتا ہوں۔ اس میں لکھا تھا: ”یہ دستاویز نبیٔ اکرم حضرت محمد مصطفیﷺ کی طرف سے بنو زہیر بن اقیش کے لیے لکھی گئی ہے کہ اگر وہ ” لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مُحَمَّد رَسُولُ اللَّهِ“ کی گواہی دیں، مشرکین سے الگ تھلگ ہو جائیں اور اپنی حاصل کردہ غنیمتوں میں سے خمس (حکومت کو) دینے کا اقرار کریں، نیز وہ نبی ﷺ کا عام حصہ اور خصوصی حصہ (صفی) بھی ادا کریں تو (وہ بے خوف ہو کر رہیں)۔ ان کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف سے پروانۂ امن حاصل ہو گا۔“
حدیث حاشیہ:
صحیح بات یہی ہے کہ نبیٔ اکرم ﷺ کا عمومی و خصوصی حصہ بھی خمس میں شامل ہے، اگرچہ ظاہر الفاظ مال غنیمت اور مال فے کی تقسیم کے مسائل ان حصوں کو خمس سے الگ ظاہر کررہے ہیں۔ باقی روایات کا لحاظ رکھنا بھی ضروری ہے۔ (دیکھیے فوائد‘حدیث:۴۱۴۳،۴۱۴۴)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
یزید بن شخیر کہتے ہیں کہ میں مطرف کے ساتھ کھلیان میں تھا کہ اچانک ایک آدمی چمڑے کا ایک ٹکڑا لے کر آیا اور بولا: میرے لیے رسول اللہ ﷺ نے یہ لکھا ہے، تو کیا تم میں سے کوئی اسے پڑھ سکتا ہے؟ انہوں نے کہا: میں پڑھوں گا ، تو دیکھا کہ اس تحریر میں یہ تھا: ”اللہ کے نبی محمد ﷺ کی طرف سے بنی زہیر بن اقیش کے لیے: اگر یہ لوگ « لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ،» ”اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں“ کی گواہی دیں اور کفار و مشرکین کا ساتھ چھوڑ دیں اور اپنے مال غنیمت میں سے خمس، نبی کے حصے اور ان کے «صفی» کا اقرار کریں تو وہ اللہ اور اس کے رسول کی امان میں رہیں گے۔“
حدیث حاشیہ:
۱؎ : «صفی» مالِ غنیمت کے اس حصے کو کہتے ہیں جسے حاکم تقسیم سے قبل اپنے لیے مقرر کر لے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Yazid bin Ash-Shikhkhir said: "While I was with Mutarrif in Al-Mirbad, a man came in carrying a piece of leather and said: 'This was written to me by the Messenger of Allah. Is there anyone among you who can read?' I said: 'I can read.' And it was (a letter) from Muhammad the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) to Banu Zuhair bin Uqaish, who had testified to Lailah illallah, and that Muhammad is the Messenger of Allah, and had left the idolaters, and had agreed to give the Khumus from their spoils of the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم), and wheatever he chose for himself, so they became safe and secure by the covenant of Allah and His Messenger.