موضوعات
قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی
سنن النسائي: كِتَابُ قِسْمِ الْفَيْءِ (بَابُ أَوَّلُ كِتَابُ قِسْمِ الْفَيْءِ)
حکم : صحیح
4148 . أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ يَعْنِي ابْنَ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ عِكْرِمَةَ بْنِ خَالِدٍ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ قَالَ: جَاءَ الْعَبَّاسُ وَعَلِيٌّ إِلَى عُمَرَ يَخْتَصِمَانِ فَقَالَ الْعَبَّاسُ: اقْضِ بَيْنِي وَبَيْنَ هَذَا، فَقَالَ النَّاسُ: افْصِلْ بَيْنَهُمَا، فَقَالَ عُمَرُ: لَا أَفْصِلُ بَيْنَهُمَا، قَدْ عَلِمَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ» قَالَ: فَقَالَ الزُّهْرِيُّ: وَلِيَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخَذَ مِنْهَا قُوتَ أَهْلِهِ، وَجَعَلَ سَائِرَهُ سَبِيلَهُ سَبِيلَ الْمَالِ، ثُمَّ وَلِيَهَا أَبُو بَكْرٍ بَعْدَهُ، ثُمَّ وُلِّيتُهَا بَعْدَ أَبِي بَكْرٍ فَصَنَعْتَ فِيهَا الَّذِي كَانَ يَصْنَعُ، ثُمَّ أَتَيَانِي فَسَأَلَانِي أَنْ أَدْفَعَهَا إِلَيْهِمَا عَلَى أَنْ يَلِيَاهَا بِالَّذِي وَلِيَهَا بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالَّذِي وَلِيَهَا بِهِ أَبُو بَكْرٍ، وَالَّذِي وُلِّيتُهَا بِهِ، فَدَفَعْتُهَا إِلَيْهِمَا وَأَخَذْتُ عَلَى ذَلِكَ عُهُودَهُمَا، ثُمَّ أَتَيَانِي يَقُولُ هَذَا: اقْسِمْ لِي بِنَصِيبِي مِنَ ابْنِ أَخِي، وَيَقُولُ هَذَا: اقْسِمْ لِي بِنَصِيبِي مِنَ امْرَأَتِي، وَإِنْ شَاءَا أَنْ أَدْفَعَهَا إِلَيْهِمَا عَلَى أَنْ يَلِيَاهَا بِالَّذِي وَلِيَهَا بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالَّذِي وَلِيَهَا بِهِ أَبُو بَكْرٍ، وَالَّذِي وُلِّيتُهَا بِهِ دَفَعْتُهَا إِلَيْهِمَا، وَإِنْ أَبَيَا كُفِيَا ذَلِكَ ، ثُمَّ قَالَ: {وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْءٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ} [الأنفال: 41] هَذَا لِهَؤُلَاءِ، {إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ} [التوبة: 60] هَذِهِ لِهَؤُلَاءِ، {وَمَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْهُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَلَا رِكَابٍ} [الحشر: 6]، قَالَ الزُّهْرِيُّ: «هَذِهِ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَاصَّةً قُرًى عَرَبِيَّةً فَدْكُ كَذَا وَكَذَا»، فَ {مَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْ أَهْلِ الْقُرَى فَلِلَّهِ، وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ} [الحشر: 7] وَ {لِلْفُقَرَاءِ الْمُهَاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ} [الحشر: 8] {وَالَّذِينَ تَبَوَّءُوا} الدَّارَ وَالْإِيمَانَ مِنْ قَبْلِهِمْ {وَالَّذِينَ جَاءُوا مِنْ بَعْدِهِمْ} فَاسْتَوْعَبَتْ هَذِهِ الْآيَةُ النَّاسَ، فَلَمْ يَبْقَ أَحَدٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ إِلَّا لَهُ فِي هَذَا الْمَالِ حَقٌّ، أَوْ قَالَ: حَظٌّ، إِلَّا بَعْضَ مَنْ تَمْلِكُونَ مِنْ أَرِقَّائِكُمْ، وَلَئِنْ عِشْتُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ لَيَأْتِيَنَّ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ حَقُّهُ، أَوْ قَالَ: حَظُّهُ
سنن نسائی:
کتاب: مال فے اور مال غنیمت کی تقسیم کے مسائل
باب: مال فے اور مال غنیمت کی تقسیم کے مسائل
)مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
4148. حضرت مالک بن اوس بن حدثان سے روایت ہے کہ حضرت علی اور حضرت عباسؓ حضرت عمرؓ کے پاس جھگڑتے ہوئے آئے۔ حضرت عباس ؓ نے فرمایا: میرے اور اس (علیؓ) کے درمیان فیصلہ فرمایئے۔ حاضرین نے بھی کہا: ان کے درمیان ضرور فیصلہ فرمایئے۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا: لیکن مٰیں ان کے درمیان فیصلہ نہیں کروں گا جبکہ انھیں علم ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ہماری وراثت تقسیم نہیں ہوتی۔ جو کچھ ہم چھوڑ جائیں‘ وہ صدقہ ہوتا ہے۔“ رسول اﷲ ﷺ ان (متنازعہ) زمینوں کے سرپرست اور متولی تھے۔ آپ ان سے اپنے اہل بیت کی خوراک لیتے اور باقی آمدن بیت المال میں رکھتے تھے۔ پھر حضرت ابوبکرؓ آپ کے بعد ان کے سرپرست اور متولی بنے پھر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے بعد میں ان کا سرپرست اور متولی بنا اور میں نے ان میں وہی کچھ کیا جو کچھ وہ کیا کرتے تھے‘ پھر یہ دونوں (حضرات علی وعباسؓ) میرے پاس آئے اور مجھ سے مطالبہ کیا کہ یہ زمین ان کے سپرد کی جائے اس شرط پر کہ وہ اسی طریقے سے اس کا انتظام کریں گے جس طرح رسول اﷲ ﷺ کرتے تھے‘ حضرت ابوبکرؓ کرتے تھے اور میں کرتا رہا ہوں۔ میں نے اس شرط پر ان کو زمین دے دی اور ان سے عہد و پیمان لے لیا۔ پھر یہ دوبارہ میرے پاس آئے۔ یہ (حضرت عباسؓ) کہتے تھے کہ اتنی زمین میرے انتظام میں دے دیجیے جو مجھے میرے بھیتجے (رسول اﷲ ﷺ) سے بطور وراثت ملتی۔ اور یہ (حضرت علیؓ) کہتے تھے کہ اتنی زمین میرے انتظام میں دے دیجیے جو میری بیوی (حضرت فاطمہؓ) کو وراثت میں ملتی۔ اگر تو یہ چاہیں کہ میں ان کو اس شرط پر زمین سپرد کر دوں کہ وہ اس میں اس طرح انتظام کریں جس طرح رسول اﷲ ﷺ کرتے تھے‘ حضرت ابوبکرؓ کرتے تھے اور میں کرتا رہا ہوں‘ پھر تو میں اس شرط پر پر زمین ان کے سپرد کرتا ہوں‘ ورنہ میں انتظام سنبھال لیتا ہوں‘ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی ﴿وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْءٍ۔۔۔۔۔۔۔﴾ ”تم جان لوکہ جوبھی تم غنیمت حاصل کرو، اس کا پانچواں حصہ ﷲ تعالیٰ ‘ رسول اﷲ ﷺ، رشتے داروں (ایل بیت)‘ یتیموں‘ مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے۔“ خمس تو ان کے لیے ہوگیا۔ ﴿إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ﴾ بلاشبہ صدقات فقراء ‘ مساکین‘ صدقات جمع کرنے والے ملازمین‘ مئولفۂ قلوب‘ غلاموں‘ مقروضوں اور مجاہدین کے لیے ہیں۔“ یہ (صدقات) ان کے لیے ہوگئے۔ ﴿وَمَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْهُمْ﴾ ”اور جو مال غنیمت اﷲ تعالیٰ نے اپنے رسول کریم ﷺ کو ان سے (بنونضیر) سے عطا فرمایا ہے‘ اس کے لیے تم نے نہ گھوڑے دوڑائے نہ اونٹ۔“ حضرت زہری بیان کرتے ہیں کہ یہ زمینین خالص رسول اﷲ ﷺ کے لیے تھیں۔ اسی طرح کچھ عربی بستیاں جیسے فدک وغیرہ بھی آپ کے لیے خاص تھیں۔“ جو کچھ اﷲ تعالیٰ نے اپنے رسول کریم (ﷺ) کو ان بستیوں سے دیا ہے‘ وہ اﷲ تعالیٰ‘ اس کے رسول (ﷺ) اہل بیت، یتیموں ‘مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے۔“ نیز ”یہ ان فقراء مہاجرین کے لیے ہے جن کو ان کے گھر بار سے نکال دیا گیا اور ان انصار کے لیے جودار الاسلام (مدینہ منورہ) کے رہنے والے ہیں اور مہاجرین کی آمد سے قبل ہی مسلمان ہوچکے تھے اور ان لوگوں کے لیے بھی جو ان کے بعد آئے (یا آئیں گے)۔“ یہ آیت تمام مسلمانوں شامل ہے۔ کسی مسلمان کو بھی باہر نہیں رہنے دیا۔ سب کا اس مال میں حق ہے‘ البتہ وہ غلام جو تمھاری ملکیت میں ہیں(ان کا کرئی حق نہیں)۔ اور اگر زندہ رہا تو ان شاء اﷲ ہر مسلمان کو اس کا حق لازما مل کے رہے گا۔