Sunan-nasai:
The Book of al-Bay'ah
(Chapter: The Explanation Of Emigration (Hijrah))
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4166.
حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ اور ابوبکر وعمرؓ اس لیے مہاجر تھے کہ انھوں نے مشرکین (اور ان کے علاقے) کو چھوڑ دیا تھا۔ اور انصار میں سے بھی لوگ مہاجر تھے کیو نکہ مدینہ بھی (آپ کی تشریف آوری سے پہلے) شرک اور مشرکین کا علاقہ تھا‘ چنانچہ کچھ انصار عقبہ کی رات رسول اﷲ ﷺ کے پاس (مکہ مکرمہ) چلے آئے تھے۔
تشریح:
(1) حضرت ابن عباس ؓ انتہائی ذہین شخص تھے۔ انھوں نے یہ لطیف نکتہ پیدا کیا کہ اگر گھر بار چھوڑ کر جانے کی وجہ سے کوئی شخص مہاجربن سکتا ہے تو وہ انصار جو بیعت کرنے کے لیے مکہ مکرمہ پہنچے تھے‘ وہ بھی مہاجر تھے کیونکہ وہ مدینہ چھوڑ کرآپ کے پاس گئے تھے اور آپ کے حکم سے دوبار مدینہ آئے تھے۔ اسی طرح مہاجرین کو بھی انصار کہا جا سکتا ہے کیونکہ انھوں نے ہر موقع پر آپ کا ساتھ دیا اور آپ کی مدد کی۔ اور مدد کرنے والوں کو لغت کے لحاظ سے انصار کہا جا سکتا ہے۔ یہ صرف ایک نکتہ ہے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ مہاجرین وہی تھے جنھوں نے ہمیشہ کے لیے اپنے گھر بار چھوڑ دیے۔ حتیٰ کہ مکہ فتح ہونے پر باوجود دارالاسلام بن جانے کے وہاں ٹہرنا پسند نہ کیا۔ اور انصار وہی تھے جنھوں نے اپنا شہر‘ اپنے گھر اپنی زمینیں‘اپنی جائیدادیں حتیٰ کہ اپنی جانیں رسول اﷲ ﷺ کو پیش کردیں۔ رضي الله عنهم و أرضاهم. (2) ”عقبہ کی رات“ یہ رات دارصل دو راتیں تھیں۔ ایک ۲۱ نبوت میں جسے لیلہ عقبہ اولیٰ کہا جاتا ہے اور دوسری۱۳ نبوت میں جسے لیلہ عقبہ ثانیہ کہا جاتا ہے۔عقبہ منیٰ سے مکہ کی طرف آخری کمرے کا نام ہے۔ اس جمرے کے پاس رسول اﷲ ﷺ نے مدینہ والوں کو اسلام کی دعوت دی تھی، یہ ۱۱ نبوت کی بات ہے۔ وہ چھ آدمی تھے، انھوں نے آئندہ سال آپ نے ملنے کا وعدہ کیا اور مدینہ جا کر آپ کی دعوت مدینہ والوں کے سامنے پیش کی۔ ۱۲ نبوت میں حج کے بعد بارہ آدمی اس جمرے کے پاس آپ کو ملے‘ اسلام قبول کیا اور آپ کی بیعت کی۔ آپ نے ان کے ساتھ مبلغ بھی بھیج دیا۔ اگلے سال۱۳ نبوت میں حج کے بعد اسی جمرے کے پاس ستر (۷۰) سے زیادہ انصار نے آپ کی بیعت کی اور آپ سے مدینہ چلنے کی درخواست کی۔ آپ نے اسے قبول فرمایا اور مناسب وقت پر مدینہ منورہ تشریف لے گئے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4177
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4177
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4171
تمہید کتاب
یہ کتاب بیعت کے مسائل پر مشتمل ہے۔اس سے ماقبل کتاب‘تقسیم فے کے سائل کے متعلق ہے۔ان دونوں کے مابین مناسبت یہ ہے کجہ مال فے اور مال غنیمت اس وقت تقسیم ہوگا جب اسے کوئی تقسیم کرنے والا بھی ہو۔چونکہ تقسیم کی نازک اور گرانبا ذمہ داری امام اور امیر ہی کی ہوتی ہے‘اس لیے امیر کا تعین مسلمانوں پر واجب ہے۔اور یہ بات بالکل واضح ہے کہ جب امیر کا تعین ہوگا تو لامحالہ اس کی بیعت بھی ہوگی۔لیکن مسلمانوں کا امام اور امیر ایسا شخص ہونا چاہیے جو اس حساس اور نازک ذإہ داری کا ای،ایل ہوکیونکہ مسلمانوں کے تمام امور کی انجام دہی کا انحصارامیر وخلیفہ ہی لپر ہوتا ہے‘قوم وملت کی ترقی فلاح و بہبود اوعر ملکی انتظام وانصرام کا محورومرکز اس کی ذات ہوتی ہے۔حدودوتعزیرات کی تنفیذ ملک میں قیام امن کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے اور یہ صرف خلیفہ ہی کرسکتا ہے ۔ لیکن یہ تبھی ممکن ہے جب وہ شرعی طور شرائط خلیفہ کا حامل ہو‘لہٰذا جب اس منصب کے حامل شخص کا انتخاب ہوگا تو ہر مسلمان کے لیے ضروری ہوگا کہ اس کی بیعت کرے۔یہ بیعت دراصل اس قلبی اعتماد کا ظہار ہوتی ہے جس کی بنیاد پر کسی کو امیر اور امام تسلیم کیا جاتا ہے‘زنیز یہ عہد بھی ہوتا ہے کہ اہم اس وقت تک آپ کی بات سنیں گے اور اطاعت بجالائیں گے جب تک آپ اﷲ تعالیٰ کی رضا کے متلاشی اور اس کے قرب کے حصول کے لیے مسلسل جدوجہد کرتے رہیں گے۔جب تک اﷲ کی اطاعت لپر کاربندر رہیں گےبیعت کا مفہوم ومعنی ہم بھی خلوص نیت کے ساتھ آپ کے اطاعت گزار رہیں گے۔اگر آپ نے اﷲ سے وفانہ کی تو ہم سے بھی وفا کی امید نہ رکھیں کیونکہ رسول اﷲﷺ کا فرمان:[لا طاعة لمن لم يطع الله]’’اﷲ کے نافرمان کی قطعاََ کوئی اطاعت نہیں۔‘‘(سودا) سے ماخوذہے۔بیع کرتے وقت لوگ عموماََ ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ لیتے ہیں۔بعیت(معاہدہ) بیعت دراصل ایک عہد ہوتا ہے۔اس کی اہمیت کے پیش نظر ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑا جاتا ہے تاکہ خلاف ورزی نہ ہو۔بیعت کا دستور اسلام سے پہلے کا دستور اسلام سے پہلے بھی تھا۔اسلام نے بھی اس کو قائم رکھا۔ رسول اﷲﷺ سے تین قسم کی بیعت ثابت ہے:اسلام قبول کرتے وقت بیعت‘جہاد کے وقت بیعت اور شریعت کے اوامرو نواہی کے بارے میں بیعت۔بعض اوقات آپ نے تجدید عہد کے وقت بھی بیعت لی ہے۔رسول اﷲﷺ کی وفات کے بعد خلفاء نے بیعت خلافت لی‘یعنی نئے خلیفہ کے انتخاب کے بعد اہم عہدیدار ان اور معاشرے کے اہم فراد نئے خلیفہ سے بیعت کرتے تھتے کہ ہم آپ کی خلافت کو تسلیم کرتے ہیں اور آپ کی حتی الامکان اطاعت کریں گے۔بیعت جہاد بھی قائم رہی جو عام طور پر امام کا نائب کسی بہت اہم موقع پر لیتا تھا۔بیعت اسلام(اسلام قبول کرتے وقت) اور بیعت اطاعت (شریعت کے اوا مرونواہی کی پابندی)ختم ہوگئیں۔معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ نے ان دوبیعتوں کو رسول اﷲﷺ کے ساتھ خاص سمجھا۔ اگرچہ صحابہ سے یہ بات صرا حناََ ثابت نہیں مگر ان کا عمل اس بات پر دلالت کرتا ہے‘لہٰذا بہتر ہے کہ ان دوبیعتوں (بیعت اسلام اور بیعت اطاعت)سے لپر ہیز کیا جائے۔البتہ بیعت خلافت اور بیعت جہاد مشروع اور باقی ہیں،لیکن بیعت اسلام اور بیعت اطاعت کو بھی قطعاََ ممنوع نہیں کہا جاسکتا۔بعض صوفیاء نے جو بیعت سلسلہ ایجاد کی ہے کہ جب کوئی شخص ان کا مرید بنتا ہے تو وہ اس سے بیعت لیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اب یہ ہمارے سلسلے میں داخل ہوگیا ہے‘مثلاََ:سلسلئہ چشتیہ سلسلئہ نقش بندیہ،سلسلہ قادرییہ ،سلسلئہ سہروردیہ اور پنج پیر یہ و سلسلئہ غوثیہ وغیرہ‘ تو یہ بیعت ایجاد بندہ اور خیر القرون کے بعد کی خود ساختہ چیز ہے۔اس کو ثبوت صحابہ کرام‘تالبعیں عظام‘ائمہ دین اور محد ثین وفقہاء سے نہیں ملتا ‘اس لیے اس سے پرہیز واجب ہے خصوصاََ جب کہ ایسی بیعت کرنے والابیعت کا مفہوم و معنی سمجھتا ہے کہ اب مجھ پر اس سلسلے کی تمام پابندیوں پر عمل کرنا لازم ہے‘خواہ وہ شریعت کے مطابق ہوں یا اس سے ٹکرارہی ہوں جب کہ قرآن وحدیث کی روسے انسان کسی بھی انسان کی غیر مشروط اطاعت نہیں کرسکتا بلکہ اس میں شریعت کی قید لگانا ضروری ہے‘یعنی میں تیری اطاعت کروں گا بشرطیکہ شریعت اسلامیہ کی خلاف ورشی نہ ہومگر بیعت سلاسل میں پابندی ناپید ہوتی ہے بلکہ اسے نامناسب خیال کیا جاتا ہے۔بیعت سلسلہ کو بیعت اسلام پر قطعاََ قیاس نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اسلام دین الہٰی ہے اور سلسلہ ایک انسانی حلقہ فکرو عمل۔باقی رہی بیعت اطاعت تو وہ دراصل بیعت اسلام ہی کی تجدید ہے کیونکہ اطاعت سے مراد شریعت اسلامیہ ہی کی اطاعت ہے‘لہٰذا بیعت سلسلہ کو اس پر بھی قیاس نہیں کیا جاسکتا‘نیز اس بیعت سلسلہ سے امت میں گروہ بندی اور تفریق پیدا ہوتی ہے جس سے روکا گیا ہے۔
حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ اور ابوبکر وعمرؓ اس لیے مہاجر تھے کہ انھوں نے مشرکین (اور ان کے علاقے) کو چھوڑ دیا تھا۔ اور انصار میں سے بھی لوگ مہاجر تھے کیو نکہ مدینہ بھی (آپ کی تشریف آوری سے پہلے) شرک اور مشرکین کا علاقہ تھا‘ چنانچہ کچھ انصار عقبہ کی رات رسول اﷲ ﷺ کے پاس (مکہ مکرمہ) چلے آئے تھے۔
حدیث حاشیہ:
(1) حضرت ابن عباس ؓ انتہائی ذہین شخص تھے۔ انھوں نے یہ لطیف نکتہ پیدا کیا کہ اگر گھر بار چھوڑ کر جانے کی وجہ سے کوئی شخص مہاجربن سکتا ہے تو وہ انصار جو بیعت کرنے کے لیے مکہ مکرمہ پہنچے تھے‘ وہ بھی مہاجر تھے کیونکہ وہ مدینہ چھوڑ کرآپ کے پاس گئے تھے اور آپ کے حکم سے دوبار مدینہ آئے تھے۔ اسی طرح مہاجرین کو بھی انصار کہا جا سکتا ہے کیونکہ انھوں نے ہر موقع پر آپ کا ساتھ دیا اور آپ کی مدد کی۔ اور مدد کرنے والوں کو لغت کے لحاظ سے انصار کہا جا سکتا ہے۔ یہ صرف ایک نکتہ ہے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ مہاجرین وہی تھے جنھوں نے ہمیشہ کے لیے اپنے گھر بار چھوڑ دیے۔ حتیٰ کہ مکہ فتح ہونے پر باوجود دارالاسلام بن جانے کے وہاں ٹہرنا پسند نہ کیا۔ اور انصار وہی تھے جنھوں نے اپنا شہر‘ اپنے گھر اپنی زمینیں‘اپنی جائیدادیں حتیٰ کہ اپنی جانیں رسول اﷲ ﷺ کو پیش کردیں۔ رضي الله عنهم و أرضاهم. (2) ”عقبہ کی رات“ یہ رات دارصل دو راتیں تھیں۔ ایک ۲۱ نبوت میں جسے لیلہ عقبہ اولیٰ کہا جاتا ہے اور دوسری۱۳ نبوت میں جسے لیلہ عقبہ ثانیہ کہا جاتا ہے۔عقبہ منیٰ سے مکہ کی طرف آخری کمرے کا نام ہے۔ اس جمرے کے پاس رسول اﷲ ﷺ نے مدینہ والوں کو اسلام کی دعوت دی تھی، یہ ۱۱ نبوت کی بات ہے۔ وہ چھ آدمی تھے، انھوں نے آئندہ سال آپ نے ملنے کا وعدہ کیا اور مدینہ جا کر آپ کی دعوت مدینہ والوں کے سامنے پیش کی۔ ۱۲ نبوت میں حج کے بعد بارہ آدمی اس جمرے کے پاس آپ کو ملے‘ اسلام قبول کیا اور آپ کی بیعت کی۔ آپ نے ان کے ساتھ مبلغ بھی بھیج دیا۔ اگلے سال۱۳ نبوت میں حج کے بعد اسی جمرے کے پاس ستر (۷۰) سے زیادہ انصار نے آپ کی بیعت کی اور آپ سے مدینہ چلنے کی درخواست کی۔ آپ نے اسے قبول فرمایا اور مناسب وقت پر مدینہ منورہ تشریف لے گئے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عباس ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ، ابوبکر اور عمر مہاجرین میں سے تھے۔ اس لیے کہ انہوں نے مشرکین (ناطے داروں) کو چھوڑ دیا تھا۔ انصار میں سے (بھی) بعض مہاجرین تھے اس لیے کہ مدینہ کفار و مشرکین کا گڑھ تھا اور یہ لوگ (شرک کو چھوڑ کر) عقبہ کی رات رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے تھے.۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : یعنی: ہجرت کے اصل معنیٰ کے لحاظ سے مہاجرین و انصار دونوں ہی ”مہاجرین“ تھے۔ ترک وطن کا مقصد اصلی شرک کی جگہ چھوڑنا ہی تو ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Jabir bin Zaid said: "Ibn 'Abbas said: 'The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم), Abu Bakr and 'Umar were among the Muhajirin (emigrants), because they forsook (hajaru) the idolators, and some of the Ansar were Muhajirun because Al-Madinah was a land of shirk, and they came to the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) on the Night of Al-'Aqabah.