Sunan-nasai:
The Book of al-Bay'ah
(Chapter: Mention Of The Difference Of Opinion As To Whether Emigration Is Still Obligatory Or Not)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4170.
حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ بیعت سے متعلق احکام ومسائل رسول اﷲ ﷺ نے فتح مکہ کے دن فرمایا: ”اب (مکہ سے) ہجرت کرنے کی ضرورت نہیں‘ البتہ جہاد کرو اور نیت رکھو۔ جب تم سے جہاد کے لیے گھروں سے نکلنے کو کہا جائے تو نکلنے ۔“
تشریح:
(1) لَا هِجْرَةَ، اس کے یہ معنیٰ درست نہیں کہ اب ہجرت بالکل ختم ہو چکی ہے‘ کوئی مسلمان دار الکفر میں‘ خواہ کسی بھی حالت میں ہوا‘ اس کے لیے دارالاسلام کی طرف ہجرت کرنا جائز نہیں بلکہ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ فتح مکہ سے ہجرت نہیں جیسا کہ امام نوویؒ نے فرمایا: ہمارے اصحاب اور دیگر علماء نے کہا ہے: دارالحرب سے سے دار الا سلام کی طرف ہجرت کرنا قیامت تک باقی ہے‘ چنانچہ انھوں نے مذکوہ حدیث مبارکہ [لَا هِجْرَةَ۔۔۔۔الخ ] کی دو تو جیہیں فرمائی ہیں: ایک تو یہ کہ فتح مکہ کے بعد‘ مکہ سے ہجرت نہیں کیونکہ مکہ دار الا سلام بن چکا ہے‘ اس لیے وہاں سے ہجرت کرنے کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا۔ اور دوسری توجیہ یہ کہ وہ فضیلت والی اہم ہجرت جو (ابتدائے اسلام میں) مطلوب تھی اور جس کے فاعل ممتاز حیثیت کے حامل بن گئے‘ اب مکہ سے وہ ہجرت ختم ہوچکی ہے۔ اس ہجرت کا اعزاز جس جس کے مقدر میں تھا‘ وہ ہر اس شخص کو مل چکا ہے جس نے فتح مکہ سے پہلے ہجرت کرلی۔ اب (فتح مکہ کے بعد) ہجرت کرنے کا وہ اعزاز کسی اور کو نہیں مل سکتا‘ اس لیے کہ فتح مکہ کے بعد اسلام معزز اور مضبوط ہوچکا ہے۔دیکھیے: (شرح مسلم:۱۳،۱۲/۱۳) ہجرت کے متعلق کے مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخيرة العقبىٰ شرح سنن النسائي:۱۴۷/۳۲) (2) اس حدیث میں ہے کہ اب ہجرت نہیں رہی جبکہ بعد والی احادیث میں ہے کہ ہجرت ختم نہیں ہوسکتی۔ ظاہراََ ان حادیث میں تضاد معلوم ہوتا ہے‘ حالانکہ ان میں کوئی تضاد نہیں بلکہ ان احادیث میں تطبیق ممکن ہے اور وہ اس طرح کہ جن احادیث میں ہے کہ فتح مکہ کے بعد ہجرت ختم ہوچکی‘ اس کا مفہوم یہ ہے کہ جو ہجرت فتح مکہ سے پہلے‘ یعنی ابتدائے اسلام میں فرض تھی‘ وہ اب ختم ہوگئی ہے کیونکہ مکہ دار الا سلام بن چکا ہے‘ لہٰذا وہاں سے ہجرت کرنا باقی نہیں رہی۔ اور جن احادیث میں ہے کہ ہجرت ختم نہیں ہوسکتی تو اس کا مطلب ہے کہ ہر دارا لحرب سے‘ دار الا سلام کی طرف ہجرت کرنا باقی ہے۔ اس صورت میں دارا لحرب سے ہر زمانے میں ہجرت کی جائے گی اور ایسی ہجرت قیامت تک باقی ہے۔ واللہ أعلم (3) اس حدیث مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جہاد فرض عین نہیں بلکہ فرض کفایہ ہے‘ چنانچہ جب کچھ لوگوں کے کرنے سے کفایت ہو جائے تو پھر باقی لوگوں سے جہاد ساقط ہو جائے گا‘ ہاں! اگر تمام لوگ جہاد کرنا چھوڑ دیں تو اس صورت میں سب گناہ گار ہوں گے۔ (4) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جب امام جہاد کے لیے نکلنے کا حکم دے تو ہر اس شخص کے لیے نکلنا ضروری ہو گا جسے امام حکم دے۔ امام قرطبیؒ نے اس مسئلے کے متعلق اہل علم کا اجماع نقل کیا ہے۔ (5) یہ حدیث ہر خیر اور بھلائی کے قول وعمل کا شوق دلاتی ہے، نیز اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ہر نیت خیر پر اجرو ثواب ہے، نیز ہر برائی اور عمل شر سے اجتناب کی نیت بھی باعث اجر ہے۔
الحکم التفصیلی:
قلت : وهذا إسناد جيد وابن كاسب هو يعقوب بن حميد وعبد الله بن صالح هو أبو صالح العجلي . وكلاهما ثقة وفي ابن كاسب كلام يسير ولما رواه شاهد من طريق عبد الله بن طاوس عن أبيه عن صفوان بن أمية قال : " قلت : يا رسول الله إنهم يقولون : إن الجنة لا يدخلها إلا مهاجر قال : لا هجرة بعد فتح مكة . . الحديث " . أخرجه النسائي وأحمد ( 3 / 401 ) . قلت : وإسناده صحيح . ورواه الزهري عن صفوان بن عبد الله بن صفوان عن أبيه أن صفوان بن أمية بن خلف قيل له : هلك من لم يهاجر قال : فقلت : لا أصل إلى أهلي حتى آتي رسول الله صلى الله عليه وسلم فركبت راحلتي فأتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم فقلت : با رسول الله زعموا أنه هلك من لم يهاجر قال : كلا أبا وهب فارجع إلى
أباطح مكة . أخرجه أحمد ( 3 / 4 0 1 و 6 / 465 ) . قلت : وإسناده صحيح على شرط مسلم . وللحديث شواهد من حديث عائشة وأبي سعيد الخدري ومجاشع بن مسعود . أما حديث عائشة فيرويه عطاء عنها قالت : " سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الهجرة ؟ فقال . . " فذكره بتمامه . أخرجه مسلم ( 6 / 28 ) وأبو يعلى في ( مسنده ) ( ق 237 / 2 ) . ورواه البخاري ( 3 / 146 ) من طريق آخر عن عطاء بن أبي رباح قال : " زرت عائشة مع عبيد بن عمير فسألها عن الهجرة . فقالت : لا هجرة اليوم كان المؤمن يفر أحدهم بدينه إلى الله وإلى رسوله مخافة أن يفتن عليه فأما اليوم فقد أظهر الله الإسلام فالمؤمن يعبد ربه حيث شاء ولكن جهاد ونية " . وهكذا أخرجه البيهقي ( 9 / 17 ) . وأما حديث أبي سعيد الخدري فيرويه أبو البختري الطائي عن أبي سعيد الخدري أنه قال : " لما نزلت هذه السورة ( إذا جاء نصر الله والفتح ورأيت الناس ) قرأها رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى ختمها وقال : الناس حيز وأنا وأصحابي حيز وقال : لا هجرة بعد الفتح ولكن جهاد ونية . فقال له مروان : كذبت وعنده رافع بن خديج وزيد بن ثابت وهما قاعدان معه على السرير فقال أبو سعيد : لو شاء هذان لحدثاك ولكن هذا يخاف أن تنزعه عن عرافة قومه وهذا يخشى أن تنزعه عن الصدقة فسكتا فرفع مروان عليه الدرة ليضربه فلما رأيا ذلك قالا : صدق "
أخرجه الطيالسي ( 601 و 967 و 2205 ) وأحمد ( 3 / 22 و 5 / 187 ) . قلت : وإسناده صحيح على شرط الشيخين . وأما حديث مجاشع فيرويه يحيى بن اسحاق عنه : " أنه أتى النبي صلى الله عليه وسلم بابن أخ له يبايعه على الهجرة فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : لا بل يبايع على الإسلام فإنه لا هجرة بعد الفتح ويكون من التابعين بإحسان " . أخرجه أحمد ( 3 / 468 و 469 ) من طريق يحيى ابن أبي كثير عن - يحيى بن إسحاق . قلت : وإسناده صحيح رجاله ثقات رجال الشيخين غير يحيى بن إسحاق وهو ثقة كما قال ابن معين وابن حبان وابن حجر . وله عن ابن عباس طريق أخرى يرويه الأعمش عن أبي صالح عنه مرفوعا . أخرجه ابن أبي عاصم ( 97 / 1 ) بسند رجاله ثقات
الإرواء ( 1187) // مختصر مسلم ( 1186 ) ، صحيح الجامع ( 7563 )
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4181
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4181
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4175
تمہید کتاب
یہ کتاب بیعت کے مسائل پر مشتمل ہے۔اس سے ماقبل کتاب‘تقسیم فے کے سائل کے متعلق ہے۔ان دونوں کے مابین مناسبت یہ ہے کجہ مال فے اور مال غنیمت اس وقت تقسیم ہوگا جب اسے کوئی تقسیم کرنے والا بھی ہو۔چونکہ تقسیم کی نازک اور گرانبا ذمہ داری امام اور امیر ہی کی ہوتی ہے‘اس لیے امیر کا تعین مسلمانوں پر واجب ہے۔اور یہ بات بالکل واضح ہے کہ جب امیر کا تعین ہوگا تو لامحالہ اس کی بیعت بھی ہوگی۔لیکن مسلمانوں کا امام اور امیر ایسا شخص ہونا چاہیے جو اس حساس اور نازک ذإہ داری کا ای،ایل ہوکیونکہ مسلمانوں کے تمام امور کی انجام دہی کا انحصارامیر وخلیفہ ہی لپر ہوتا ہے‘قوم وملت کی ترقی فلاح و بہبود اوعر ملکی انتظام وانصرام کا محورومرکز اس کی ذات ہوتی ہے۔حدودوتعزیرات کی تنفیذ ملک میں قیام امن کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے اور یہ صرف خلیفہ ہی کرسکتا ہے ۔ لیکن یہ تبھی ممکن ہے جب وہ شرعی طور شرائط خلیفہ کا حامل ہو‘لہٰذا جب اس منصب کے حامل شخص کا انتخاب ہوگا تو ہر مسلمان کے لیے ضروری ہوگا کہ اس کی بیعت کرے۔یہ بیعت دراصل اس قلبی اعتماد کا ظہار ہوتی ہے جس کی بنیاد پر کسی کو امیر اور امام تسلیم کیا جاتا ہے‘زنیز یہ عہد بھی ہوتا ہے کہ اہم اس وقت تک آپ کی بات سنیں گے اور اطاعت بجالائیں گے جب تک آپ اﷲ تعالیٰ کی رضا کے متلاشی اور اس کے قرب کے حصول کے لیے مسلسل جدوجہد کرتے رہیں گے۔جب تک اﷲ کی اطاعت لپر کاربندر رہیں گےبیعت کا مفہوم ومعنی ہم بھی خلوص نیت کے ساتھ آپ کے اطاعت گزار رہیں گے۔اگر آپ نے اﷲ سے وفانہ کی تو ہم سے بھی وفا کی امید نہ رکھیں کیونکہ رسول اﷲﷺ کا فرمان:[لا طاعة لمن لم يطع الله]’’اﷲ کے نافرمان کی قطعاََ کوئی اطاعت نہیں۔‘‘(سودا) سے ماخوذہے۔بیع کرتے وقت لوگ عموماََ ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ لیتے ہیں۔بعیت(معاہدہ) بیعت دراصل ایک عہد ہوتا ہے۔اس کی اہمیت کے پیش نظر ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑا جاتا ہے تاکہ خلاف ورزی نہ ہو۔بیعت کا دستور اسلام سے پہلے کا دستور اسلام سے پہلے بھی تھا۔اسلام نے بھی اس کو قائم رکھا۔ رسول اﷲﷺ سے تین قسم کی بیعت ثابت ہے:اسلام قبول کرتے وقت بیعت‘جہاد کے وقت بیعت اور شریعت کے اوامرو نواہی کے بارے میں بیعت۔بعض اوقات آپ نے تجدید عہد کے وقت بھی بیعت لی ہے۔رسول اﷲﷺ کی وفات کے بعد خلفاء نے بیعت خلافت لی‘یعنی نئے خلیفہ کے انتخاب کے بعد اہم عہدیدار ان اور معاشرے کے اہم فراد نئے خلیفہ سے بیعت کرتے تھتے کہ ہم آپ کی خلافت کو تسلیم کرتے ہیں اور آپ کی حتی الامکان اطاعت کریں گے۔بیعت جہاد بھی قائم رہی جو عام طور پر امام کا نائب کسی بہت اہم موقع پر لیتا تھا۔بیعت اسلام(اسلام قبول کرتے وقت) اور بیعت اطاعت (شریعت کے اوا مرونواہی کی پابندی)ختم ہوگئیں۔معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ نے ان دوبیعتوں کو رسول اﷲﷺ کے ساتھ خاص سمجھا۔ اگرچہ صحابہ سے یہ بات صرا حناََ ثابت نہیں مگر ان کا عمل اس بات پر دلالت کرتا ہے‘لہٰذا بہتر ہے کہ ان دوبیعتوں (بیعت اسلام اور بیعت اطاعت)سے لپر ہیز کیا جائے۔البتہ بیعت خلافت اور بیعت جہاد مشروع اور باقی ہیں،لیکن بیعت اسلام اور بیعت اطاعت کو بھی قطعاََ ممنوع نہیں کہا جاسکتا۔بعض صوفیاء نے جو بیعت سلسلہ ایجاد کی ہے کہ جب کوئی شخص ان کا مرید بنتا ہے تو وہ اس سے بیعت لیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اب یہ ہمارے سلسلے میں داخل ہوگیا ہے‘مثلاََ:سلسلئہ چشتیہ سلسلئہ نقش بندیہ،سلسلہ قادرییہ ،سلسلئہ سہروردیہ اور پنج پیر یہ و سلسلئہ غوثیہ وغیرہ‘ تو یہ بیعت ایجاد بندہ اور خیر القرون کے بعد کی خود ساختہ چیز ہے۔اس کو ثبوت صحابہ کرام‘تالبعیں عظام‘ائمہ دین اور محد ثین وفقہاء سے نہیں ملتا ‘اس لیے اس سے پرہیز واجب ہے خصوصاََ جب کہ ایسی بیعت کرنے والابیعت کا مفہوم و معنی سمجھتا ہے کہ اب مجھ پر اس سلسلے کی تمام پابندیوں پر عمل کرنا لازم ہے‘خواہ وہ شریعت کے مطابق ہوں یا اس سے ٹکرارہی ہوں جب کہ قرآن وحدیث کی روسے انسان کسی بھی انسان کی غیر مشروط اطاعت نہیں کرسکتا بلکہ اس میں شریعت کی قید لگانا ضروری ہے‘یعنی میں تیری اطاعت کروں گا بشرطیکہ شریعت اسلامیہ کی خلاف ورشی نہ ہومگر بیعت سلاسل میں پابندی ناپید ہوتی ہے بلکہ اسے نامناسب خیال کیا جاتا ہے۔بیعت سلسلہ کو بیعت اسلام پر قطعاََ قیاس نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اسلام دین الہٰی ہے اور سلسلہ ایک انسانی حلقہ فکرو عمل۔باقی رہی بیعت اطاعت تو وہ دراصل بیعت اسلام ہی کی تجدید ہے کیونکہ اطاعت سے مراد شریعت اسلامیہ ہی کی اطاعت ہے‘لہٰذا بیعت سلسلہ کو اس پر بھی قیاس نہیں کیا جاسکتا‘نیز اس بیعت سلسلہ سے امت میں گروہ بندی اور تفریق پیدا ہوتی ہے جس سے روکا گیا ہے۔
حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ بیعت سے متعلق احکام ومسائل رسول اﷲ ﷺ نے فتح مکہ کے دن فرمایا: ”اب (مکہ سے) ہجرت کرنے کی ضرورت نہیں‘ البتہ جہاد کرو اور نیت رکھو۔ جب تم سے جہاد کے لیے گھروں سے نکلنے کو کہا جائے تو نکلنے ۔“
حدیث حاشیہ:
(1) لَا هِجْرَةَ، اس کے یہ معنیٰ درست نہیں کہ اب ہجرت بالکل ختم ہو چکی ہے‘ کوئی مسلمان دار الکفر میں‘ خواہ کسی بھی حالت میں ہوا‘ اس کے لیے دارالاسلام کی طرف ہجرت کرنا جائز نہیں بلکہ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ فتح مکہ سے ہجرت نہیں جیسا کہ امام نوویؒ نے فرمایا: ہمارے اصحاب اور دیگر علماء نے کہا ہے: دارالحرب سے سے دار الا سلام کی طرف ہجرت کرنا قیامت تک باقی ہے‘ چنانچہ انھوں نے مذکوہ حدیث مبارکہ [لَا هِجْرَةَ۔۔۔۔الخ ] کی دو تو جیہیں فرمائی ہیں: ایک تو یہ کہ فتح مکہ کے بعد‘ مکہ سے ہجرت نہیں کیونکہ مکہ دار الا سلام بن چکا ہے‘ اس لیے وہاں سے ہجرت کرنے کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا۔ اور دوسری توجیہ یہ کہ وہ فضیلت والی اہم ہجرت جو (ابتدائے اسلام میں) مطلوب تھی اور جس کے فاعل ممتاز حیثیت کے حامل بن گئے‘ اب مکہ سے وہ ہجرت ختم ہوچکی ہے۔ اس ہجرت کا اعزاز جس جس کے مقدر میں تھا‘ وہ ہر اس شخص کو مل چکا ہے جس نے فتح مکہ سے پہلے ہجرت کرلی۔ اب (فتح مکہ کے بعد) ہجرت کرنے کا وہ اعزاز کسی اور کو نہیں مل سکتا‘ اس لیے کہ فتح مکہ کے بعد اسلام معزز اور مضبوط ہوچکا ہے۔دیکھیے: (شرح مسلم:۱۳،۱۲/۱۳) ہجرت کے متعلق کے مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخيرة العقبىٰ شرح سنن النسائي:۱۴۷/۳۲) (2) اس حدیث میں ہے کہ اب ہجرت نہیں رہی جبکہ بعد والی احادیث میں ہے کہ ہجرت ختم نہیں ہوسکتی۔ ظاہراََ ان حادیث میں تضاد معلوم ہوتا ہے‘ حالانکہ ان میں کوئی تضاد نہیں بلکہ ان احادیث میں تطبیق ممکن ہے اور وہ اس طرح کہ جن احادیث میں ہے کہ فتح مکہ کے بعد ہجرت ختم ہوچکی‘ اس کا مفہوم یہ ہے کہ جو ہجرت فتح مکہ سے پہلے‘ یعنی ابتدائے اسلام میں فرض تھی‘ وہ اب ختم ہوگئی ہے کیونکہ مکہ دار الا سلام بن چکا ہے‘ لہٰذا وہاں سے ہجرت کرنا باقی نہیں رہی۔ اور جن احادیث میں ہے کہ ہجرت ختم نہیں ہوسکتی تو اس کا مطلب ہے کہ ہر دارا لحرب سے‘ دار الا سلام کی طرف ہجرت کرنا باقی ہے۔ اس صورت میں دارا لحرب سے ہر زمانے میں ہجرت کی جائے گی اور ایسی ہجرت قیامت تک باقی ہے۔ واللہ أعلم (3) اس حدیث مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جہاد فرض عین نہیں بلکہ فرض کفایہ ہے‘ چنانچہ جب کچھ لوگوں کے کرنے سے کفایت ہو جائے تو پھر باقی لوگوں سے جہاد ساقط ہو جائے گا‘ ہاں! اگر تمام لوگ جہاد کرنا چھوڑ دیں تو اس صورت میں سب گناہ گار ہوں گے۔ (4) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جب امام جہاد کے لیے نکلنے کا حکم دے تو ہر اس شخص کے لیے نکلنا ضروری ہو گا جسے امام حکم دے۔ امام قرطبیؒ نے اس مسئلے کے متعلق اہل علم کا اجماع نقل کیا ہے۔ (5) یہ حدیث ہر خیر اور بھلائی کے قول وعمل کا شوق دلاتی ہے، نیز اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ہر نیت خیر پر اجرو ثواب ہے، نیز ہر برائی اور عمل شر سے اجتناب کی نیت بھی باعث اجر ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عباس ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فتح مکہ کے روز فرمایا: ”ہجرت تو (باقی) نہیں رہی البتہ جہاد اور نیت ہے، لہٰذا جب تمہیں جہاد کے لیے بلایا جائے تو نکل پڑو.“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Ibn 'Abbas said: "The Messenger of Allah said on the Day of the Conquest (of Makkah): "There is no more emigration (Hijrah), rather there is Jihad and intention. When you are called to moblize (for Jihad) then do so.