Sunan-nasai:
The Book of al-Bay'ah
(Chapter: The Women's Pledge)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4181.
حضرت امیمہ بنت رقیقہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں کچھ انصاری عورتوں کی معیت مٰں نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ ہم آپ سے بیعت ہونا چاہتی تھیں۔ ہم نے عرض کی: اے اﷲ کے رسول! ہم آپ سے بیعت کرتی ہیں کہ ہم اﷲ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں بنائیں گی، چوری نہیں کریں گی، زنا نہیں کریں گی، اپنی طرف سے جھوٹ گھڑ کر کسی پر بہتان طرازی نہیں کریں گی اور کسی نیک کام میں آپ کی نافرمانی نہیں کریں گی۔ آپ نے فرمایا: ”اپنی طاقت اور وسعت کے مطابق (تم پابند ہوگی)۔“ ہم نے کہا: اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ ہم پر(ہم سے بھی) زیادہ مہربان بیعت سے متعلق احکام ومسائل اور رحم فرمانے والے ہیں۔ اے اﷲ کے رسول! اجازت دیجیے کہ ہم آپ کے دست مبارک پر بیعت کریں۔ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: ”میں عورتوں سے ہاتھ نہیں ملاتا۔ میرا زبانی طور پر سو عورتوں سے(بیعت کی) بات چیت کرنا ایسے ہی ہے جیسے ہر ہر عورت سے الگ طور پر بات چیت کروں۔“
تشریح:
(1) اس حدیث مبارکہ سے ثابت ہوا ہے کہ عورتوں اور مردوں سے بیعت لینے میں فرق ہے۔ دونوں کی بیعت ایک جیسی نہیں ہے، یعنی بیعت کے وقت عورتوں سے ہاتھ ملانا حرام اور ناجائز ہے جبکہ مردوں سے حلال اور جائز ہے۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر رسول اﷲ ﷺ نے ہاتھ ملا کرصحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہ سے بیعت لی تھی۔ قرآن و حدیث میں اس کی صراحت موجود ہے۔ (2) رسول اﷲ ﷺ غیر محرم عورتوں سے مصافحہ نہیں کرتے تھے اگرچہ ضرورت کا تقاضا بھی ہوتا جیسا کہ آپ نے عورتوں سے بیعت لیتے وقت صرف زبان سے بیعت لینے پر اکتفا فرمایا ہے۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: اﷲ کی قسم! بیعت لیتے ہوئے بھی رسول اﷲ ﷺ کا ہاتھ مبارک کبھی کسی غیر محرم عورت کے ہاتھ کو نہیں لگا۔ (صحيح البخاري،التفسير،حديث:۴۸۹۱) بنا بریں کسی بھی نیک وپارسا اور برادری وغیرہ کے کے معزز اور بڑے شخص کے لیے جائز نہیں کہ وہ کسی غیر محرم عورت کے سر پر ہاتھ پھیرے یا کسی سے مصافحہ وغیرہ کرے۔ (3) نبی ﷺ کا جو حکم امت کے کسی ایک مرد یا ایک عورت کے لیے ہوتا ہے وہ امت کے تمام مردوں اور عورتوں کو شامل ہوتا ہے الا یہ کہ نبی ﷺ کسی کے لیے خود تخصیص فرما دیں۔ (4) ”عورتوں سے ہاتھ نہیں ملاتا“ نبی ﷺ کے اس طرز عمل میں ان نام نہاد پیروں کے لیے درس عبرت ہے جو مردوں عورتوں سے بلا امتیاز دستی بیعت لیتے ہیں۔ اگر یہ جائز ہوتا تو رسول ﷲ ﷺ اس سے پرہیز نہ فرماتے۔ اسی طرح مجالس وعظ و سماع میں عورتوں کا مردوں کے سامنے بلا جحاب بیٹھنا بھی شرعی مزاج سے متصادم ہے۔ (5) ”الگ الگ بات چیت کروں“ مقصود یہ ہے کہ زبانی بیعت بھی الگ الگ عورت سے نہیں ہوگی بلکہ تمام عورتوں سے بیک وقت زبانی عہد لیا جائے گا۔ واللہ أعلم
الحکم التفصیلی:
قلت : و إسناده صحيح . و تابعهما محمد بن إسحاق : حدثني محمد ابن المنكدر به
و زاد في آخره : " قالت : و لم يصافح رسول الله صلى الله عليه وسلم منا امرأة "
. أخرجه أحمد و الحاكم ( 4 / 71 ) بسند حسن .
و له شاهد من حديث أسماء بنت يزيد مثله مختصرا . أخرجه الحميدي ( 368 ) و أحمد
( 6 / 454 ، 459 ) و الدولابي في " الكنى " ( 2 / 128 ) و ابن عبد البر في
" التمهيد " ( 3 / 24 / 1 ) و أبو نعيم في " أخبار أصبهان " ( 1 / 293 ) من
طريق شهر بن حوشب عنها . و فيه عند أحمد : " فقالت له أسماء : ألا تحسر لنا عن
يدك يا رسول الله ؟ فقال لها إني لست أصافح النساء " . و شهر ضعيف من قبل حفظه
و هذه الزيادة تشعر بأن النساء كن يأخذن بيده صلى الله عليه وسلم عند المبايعة
من فوق ثوبه صلى الله عليه وسلم ، و قد روي في ذلك بعض الروايات الأخرى و لكنها
مراسيل كلها ذكرها الحافظ في " الفتح " ( 8 / 488 ) ، فلا يحتج بشيء منها
لاسيما و قد خالفت ما هو أصح منها كذا الحديث و الآتي بعده و كحديث عائشة في
مبايعته صلى الله عليه وسلم للنساء قالت : " و لا و الله ما مست يده صلى الله
عليه وسلم يد امرأة قط في المبايعة ما بايعهن إلا بقوله : قد بايعتك على ذلك "
. أخرجه البخاري . و أما قول أم عطية رضي الله عنها : " بايعنا رسول الله صلى
الله عليه وسلم فقرأ علينا أن لا يشركن بالله شيئا و نهانا عن النياحة ، فقبضت
امرأة يدها ، فقالت : أسعدتني فلانة .... " . الحديث أخرجه البخاري فليس صريحا
في أن النساء كن يصافحنه صلى الله عليه وسلم فلا يرد بمثله النص الصريح من قوله
صلى الله عليه وسلم هذا و فعله أيضا الذي روته أميمة بنت رقيقة و عائشة و ابن
عمر كما يأتي . قال الحافظ : " و كأن عائشة أشارت بذلك إلى الرد على ما جاء عن
أم عطية ، فعند ابن خزيمة و ابن حبان و البزار و الطبري و ابن مردويه من طريق
إسماعيل بن عبد الرحمن عن جدته أم عطية في قصة المبايعة ، قال : فمد يده من
خارج البيت و مددنا أيدينا من داخل البيت ، ثم قال : اللهم أشهد . و كذا الحديث
الذي بعده حيث قالت فيه " قبضت منا امرأة يدها ، فإنه يشعر بأنهن كن يبايعنه
بأيديهن . و يمكن الجواب عن الأول بأن مد الأيدي من وراء الحجاب إشارة إلى وقوع
المبايعة و إن لم تقع مصافحة . و عن الثاني بأن المراد بقبض اليد التأخر عن
القبول ، أو كانت المبايعة تقع بحائل ، فقد روى أبو داود في " المراسيل " عن
الشعبي أن النبي صلى الله عليه وسلم حين بايع النساء أتى ببرد قطري فوضعه على
يده و قال : لا أصافح النساء .... " . ثم ذكر بقية الأحاديث بمعناه و كلها
مراسيل لا تقوم الحجة بها . و ما ذكره من الجواب عن حديثي أم عطية هو العمدة
على أن حديثها من طريق إسماعيل بن عبد الرحمن ليس بالقوي لأن إسماعيل هذا ليس
بالمشهور و إنما يستشهد به كما بينته في " حجاب المرأة المسلمة " ( ص 26 طبع
المكتب الإسلامي ) . و جملة القول أنه لم يصح عنه صلى الله عليه وسلم أنه صافح
امرأة قط حتى و لا في المبايعة فضلا عن المصافحة عند الملاقاة ، فاحتجاج البعض
لجوازها بحديث أم عطية الذي ذكرته مع أن المصافحة لم تذكر فيه و إعراضه عن
الأحاديث الصريحة في تنزهه صلى الله عليه وسلم عن المصافحة لأمر لا يصدر من
مؤمن مخلص ، لاسيما
و هناك الوعيد الشديد فيمن يمس امرأة لا تحل له كما تقدم في الحديث ( 229 ) .
و يشهد لحديث أميمة بنت رقيقة الحديث الآتي . و بعد كتابة ما تقدم رأيت إسحاق
بن منصور المروزي قال في " مسائل أحمد و إسحاق " ( 211 / 1 ) : " قلت ( يعني
لأحمد ) : تكره مصافحة النساء قال : أكرهه . قال إسحاق : كما قال ، عجوز كانت
أو غير عجوز إنما بايعهن النبي صلى الله عليه وسلم على يده الثوب " .
ثم رأيت في " المستدرك " ( 2 / 486 ) من طريق إسماعيل بن أبي أويس حدثني أخي عن
سليمان بن بلال عن ابن عجلان عن أبيه عن فاطمة بنت عتبة بن ربيعة بن عبد شمس .
" أن أبا حذيفة بن عتبة رضي الله عنه أتى بها و بهند بنت عتبة رسول الله صلى
الله عليه وسلم تبايعه ، فقالت : أخذ علينا ، فشرط علينا ، قالت : قلت له : يا
ابن عم هل علمت في قومك من هذه العاهات أو الهنات شيئا ؟ قال أبو حذيفة : إيها
فبايعنه ، فإن بهذا يبايع ، و هكذا يشترط . فقالت : هند : لا أبايعك على السرقة
إني أسرق من مال زوجي فكف النبي صلى الله عليه وسلم يده و كفت يدها حتى أرسل
إلى أبي سفيان ، فتحلل لها منه ، فقال أبو سفيان : أما الرطب فنعم و أما اليابس
فلا و لا نعمة ! قالت : فبايعناه ثم قالت فاطمة : ما كانت قبة أبغض إلي من قبتك
و لا أحب أن يبيحها الله و ما فيها و و الله ما من قبة أحب إلي أن يعمرها الله
يبارك و فيها من قبتك ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم . و أيضا و الله لا
يؤمن أحدكم حتى أكون أحب إليه من ولده و والده " .
قال الحاكم : " صحيح الإسناد " . و وافقه الذهبي .
قلت : و إسناده حسن و في محمد بن عجلان و إسماعيل بن أبي أويس كلام لا يضر إن
شاء الله تعالى . و هذا الحديث يؤيد أن المبايعة كانت تقع بينه صلى الله عليه
وسلم و بين النساء بمد الأيدي كما تقدم عن الحافظ لا بالمصافحة ، إذ لو وقعت
لذكرها الراوي كما هو ظاهر . فلا اختلاف بينه أيضا و بين حديث الباب و الحديث
الآتي
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4192
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4192
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4186
تمہید کتاب
یہ کتاب بیعت کے مسائل پر مشتمل ہے۔اس سے ماقبل کتاب‘تقسیم فے کے سائل کے متعلق ہے۔ان دونوں کے مابین مناسبت یہ ہے کجہ مال فے اور مال غنیمت اس وقت تقسیم ہوگا جب اسے کوئی تقسیم کرنے والا بھی ہو۔چونکہ تقسیم کی نازک اور گرانبا ذمہ داری امام اور امیر ہی کی ہوتی ہے‘اس لیے امیر کا تعین مسلمانوں پر واجب ہے۔اور یہ بات بالکل واضح ہے کہ جب امیر کا تعین ہوگا تو لامحالہ اس کی بیعت بھی ہوگی۔لیکن مسلمانوں کا امام اور امیر ایسا شخص ہونا چاہیے جو اس حساس اور نازک ذإہ داری کا ای،ایل ہوکیونکہ مسلمانوں کے تمام امور کی انجام دہی کا انحصارامیر وخلیفہ ہی لپر ہوتا ہے‘قوم وملت کی ترقی فلاح و بہبود اوعر ملکی انتظام وانصرام کا محورومرکز اس کی ذات ہوتی ہے۔حدودوتعزیرات کی تنفیذ ملک میں قیام امن کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے اور یہ صرف خلیفہ ہی کرسکتا ہے ۔ لیکن یہ تبھی ممکن ہے جب وہ شرعی طور شرائط خلیفہ کا حامل ہو‘لہٰذا جب اس منصب کے حامل شخص کا انتخاب ہوگا تو ہر مسلمان کے لیے ضروری ہوگا کہ اس کی بیعت کرے۔یہ بیعت دراصل اس قلبی اعتماد کا ظہار ہوتی ہے جس کی بنیاد پر کسی کو امیر اور امام تسلیم کیا جاتا ہے‘زنیز یہ عہد بھی ہوتا ہے کہ اہم اس وقت تک آپ کی بات سنیں گے اور اطاعت بجالائیں گے جب تک آپ اﷲ تعالیٰ کی رضا کے متلاشی اور اس کے قرب کے حصول کے لیے مسلسل جدوجہد کرتے رہیں گے۔جب تک اﷲ کی اطاعت لپر کاربندر رہیں گےبیعت کا مفہوم ومعنی ہم بھی خلوص نیت کے ساتھ آپ کے اطاعت گزار رہیں گے۔اگر آپ نے اﷲ سے وفانہ کی تو ہم سے بھی وفا کی امید نہ رکھیں کیونکہ رسول اﷲﷺ کا فرمان:[لا طاعة لمن لم يطع الله]’’اﷲ کے نافرمان کی قطعاََ کوئی اطاعت نہیں۔‘‘(سودا) سے ماخوذہے۔بیع کرتے وقت لوگ عموماََ ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ لیتے ہیں۔بعیت(معاہدہ) بیعت دراصل ایک عہد ہوتا ہے۔اس کی اہمیت کے پیش نظر ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑا جاتا ہے تاکہ خلاف ورزی نہ ہو۔بیعت کا دستور اسلام سے پہلے کا دستور اسلام سے پہلے بھی تھا۔اسلام نے بھی اس کو قائم رکھا۔ رسول اﷲﷺ سے تین قسم کی بیعت ثابت ہے:اسلام قبول کرتے وقت بیعت‘جہاد کے وقت بیعت اور شریعت کے اوامرو نواہی کے بارے میں بیعت۔بعض اوقات آپ نے تجدید عہد کے وقت بھی بیعت لی ہے۔رسول اﷲﷺ کی وفات کے بعد خلفاء نے بیعت خلافت لی‘یعنی نئے خلیفہ کے انتخاب کے بعد اہم عہدیدار ان اور معاشرے کے اہم فراد نئے خلیفہ سے بیعت کرتے تھتے کہ ہم آپ کی خلافت کو تسلیم کرتے ہیں اور آپ کی حتی الامکان اطاعت کریں گے۔بیعت جہاد بھی قائم رہی جو عام طور پر امام کا نائب کسی بہت اہم موقع پر لیتا تھا۔بیعت اسلام(اسلام قبول کرتے وقت) اور بیعت اطاعت (شریعت کے اوا مرونواہی کی پابندی)ختم ہوگئیں۔معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ نے ان دوبیعتوں کو رسول اﷲﷺ کے ساتھ خاص سمجھا۔ اگرچہ صحابہ سے یہ بات صرا حناََ ثابت نہیں مگر ان کا عمل اس بات پر دلالت کرتا ہے‘لہٰذا بہتر ہے کہ ان دوبیعتوں (بیعت اسلام اور بیعت اطاعت)سے لپر ہیز کیا جائے۔البتہ بیعت خلافت اور بیعت جہاد مشروع اور باقی ہیں،لیکن بیعت اسلام اور بیعت اطاعت کو بھی قطعاََ ممنوع نہیں کہا جاسکتا۔بعض صوفیاء نے جو بیعت سلسلہ ایجاد کی ہے کہ جب کوئی شخص ان کا مرید بنتا ہے تو وہ اس سے بیعت لیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اب یہ ہمارے سلسلے میں داخل ہوگیا ہے‘مثلاََ:سلسلئہ چشتیہ سلسلئہ نقش بندیہ،سلسلہ قادرییہ ،سلسلئہ سہروردیہ اور پنج پیر یہ و سلسلئہ غوثیہ وغیرہ‘ تو یہ بیعت ایجاد بندہ اور خیر القرون کے بعد کی خود ساختہ چیز ہے۔اس کو ثبوت صحابہ کرام‘تالبعیں عظام‘ائمہ دین اور محد ثین وفقہاء سے نہیں ملتا ‘اس لیے اس سے پرہیز واجب ہے خصوصاََ جب کہ ایسی بیعت کرنے والابیعت کا مفہوم و معنی سمجھتا ہے کہ اب مجھ پر اس سلسلے کی تمام پابندیوں پر عمل کرنا لازم ہے‘خواہ وہ شریعت کے مطابق ہوں یا اس سے ٹکرارہی ہوں جب کہ قرآن وحدیث کی روسے انسان کسی بھی انسان کی غیر مشروط اطاعت نہیں کرسکتا بلکہ اس میں شریعت کی قید لگانا ضروری ہے‘یعنی میں تیری اطاعت کروں گا بشرطیکہ شریعت اسلامیہ کی خلاف ورشی نہ ہومگر بیعت سلاسل میں پابندی ناپید ہوتی ہے بلکہ اسے نامناسب خیال کیا جاتا ہے۔بیعت سلسلہ کو بیعت اسلام پر قطعاََ قیاس نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اسلام دین الہٰی ہے اور سلسلہ ایک انسانی حلقہ فکرو عمل۔باقی رہی بیعت اطاعت تو وہ دراصل بیعت اسلام ہی کی تجدید ہے کیونکہ اطاعت سے مراد شریعت اسلامیہ ہی کی اطاعت ہے‘لہٰذا بیعت سلسلہ کو اس پر بھی قیاس نہیں کیا جاسکتا‘نیز اس بیعت سلسلہ سے امت میں گروہ بندی اور تفریق پیدا ہوتی ہے جس سے روکا گیا ہے۔
حضرت امیمہ بنت رقیقہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں کچھ انصاری عورتوں کی معیت مٰں نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ ہم آپ سے بیعت ہونا چاہتی تھیں۔ ہم نے عرض کی: اے اﷲ کے رسول! ہم آپ سے بیعت کرتی ہیں کہ ہم اﷲ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں بنائیں گی، چوری نہیں کریں گی، زنا نہیں کریں گی، اپنی طرف سے جھوٹ گھڑ کر کسی پر بہتان طرازی نہیں کریں گی اور کسی نیک کام میں آپ کی نافرمانی نہیں کریں گی۔ آپ نے فرمایا: ”اپنی طاقت اور وسعت کے مطابق (تم پابند ہوگی)۔“ ہم نے کہا: اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ ہم پر(ہم سے بھی) زیادہ مہربان بیعت سے متعلق احکام ومسائل اور رحم فرمانے والے ہیں۔ اے اﷲ کے رسول! اجازت دیجیے کہ ہم آپ کے دست مبارک پر بیعت کریں۔ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: ”میں عورتوں سے ہاتھ نہیں ملاتا۔ میرا زبانی طور پر سو عورتوں سے(بیعت کی) بات چیت کرنا ایسے ہی ہے جیسے ہر ہر عورت سے الگ طور پر بات چیت کروں۔“
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث مبارکہ سے ثابت ہوا ہے کہ عورتوں اور مردوں سے بیعت لینے میں فرق ہے۔ دونوں کی بیعت ایک جیسی نہیں ہے، یعنی بیعت کے وقت عورتوں سے ہاتھ ملانا حرام اور ناجائز ہے جبکہ مردوں سے حلال اور جائز ہے۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر رسول اﷲ ﷺ نے ہاتھ ملا کرصحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہ سے بیعت لی تھی۔ قرآن و حدیث میں اس کی صراحت موجود ہے۔ (2) رسول اﷲ ﷺ غیر محرم عورتوں سے مصافحہ نہیں کرتے تھے اگرچہ ضرورت کا تقاضا بھی ہوتا جیسا کہ آپ نے عورتوں سے بیعت لیتے وقت صرف زبان سے بیعت لینے پر اکتفا فرمایا ہے۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: اﷲ کی قسم! بیعت لیتے ہوئے بھی رسول اﷲ ﷺ کا ہاتھ مبارک کبھی کسی غیر محرم عورت کے ہاتھ کو نہیں لگا۔ (صحيح البخاري،التفسير،حديث:۴۸۹۱) بنا بریں کسی بھی نیک وپارسا اور برادری وغیرہ کے کے معزز اور بڑے شخص کے لیے جائز نہیں کہ وہ کسی غیر محرم عورت کے سر پر ہاتھ پھیرے یا کسی سے مصافحہ وغیرہ کرے۔ (3) نبی ﷺ کا جو حکم امت کے کسی ایک مرد یا ایک عورت کے لیے ہوتا ہے وہ امت کے تمام مردوں اور عورتوں کو شامل ہوتا ہے الا یہ کہ نبی ﷺ کسی کے لیے خود تخصیص فرما دیں۔ (4) ”عورتوں سے ہاتھ نہیں ملاتا“ نبی ﷺ کے اس طرز عمل میں ان نام نہاد پیروں کے لیے درس عبرت ہے جو مردوں عورتوں سے بلا امتیاز دستی بیعت لیتے ہیں۔ اگر یہ جائز ہوتا تو رسول ﷲ ﷺ اس سے پرہیز نہ فرماتے۔ اسی طرح مجالس وعظ و سماع میں عورتوں کا مردوں کے سامنے بلا جحاب بیٹھنا بھی شرعی مزاج سے متصادم ہے۔ (5) ”الگ الگ بات چیت کروں“ مقصود یہ ہے کہ زبانی بیعت بھی الگ الگ عورت سے نہیں ہوگی بلکہ تمام عورتوں سے بیک وقت زبانی عہد لیا جائے گا۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
امیمہ بنت رقیقہ ؓ کہتی ہیں کہ میں انصار کی چند عورتوں کے ساتھ نبی اکرم ﷺ کے پاس آئی تاکہ ہم بیعت کریں، ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم آپ سے بیعت کرتے ہیں کہ ہم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گے، نہ چوری کریں گے، نہ زنا کریں گے، اور نہ ایسی کوئی الزام تراشی کریں گے جسے ہم خود اپنے سے گھڑیں، نہ کسی معروف (بھلے کام) میں ہم آپ کی نافرمانی کریں گے، آپ نے فرمایا: ”اس میں جس کی تمہیں استطاعت ہو یا قدرت ہو“، ہم نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول ہم پر زیادہ مہربان ہیں، آئیے ہم آپ سے بیعت کریں، اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: ”میں عورتوں سے مصافحہ نہیں کرتا، میرا سو عورتوں سے کہنا ایک عورت سے کہنے کی طرح ہے یا ایک ایک عورت سے کہنے کے مانند ہے.“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Umaimah bint Ruqaiqah said: "I came to the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) with some other Ansari women to give our pledge. We said: 'O Messenger of Allah, we give you our pledge that we will not associate anything with Allah, we will not steal, we will not have unlawful sexual relations, we will not utter slander, fabricating from between our hands and feet, and we will not disobey you in goodness.' He said: 'As much as you can and are able.' We said: 'Allah and His Messenger are more merciful toward us. Com, let us give you our pledge, O Messenger of Allah! The Messenger of Allah said: 'I do not shake hands with women. Rather my word to a hundred women is like my word to one woman.