باب: جو شخص ہجرت کرنے کے بعد دوبارہ اعرابی بن جائے
)
Sunan-nasai:
The Book of al-Bay'ah
(Chapter: Returning To The Desert Life After Having Emigrated)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4186.
حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ تعالٰی عنہ جحاج کے پاس تشریف لے گئے۔ اس نے کہا: اے ابن اکوع! تم مرتد ہوگئے ہو اور ایک کلمہ کہا جس کے معنیٰ تھے کہ(مدینہ چھوڑ کر) بادیہ میں رہنے لگے ہو؟ انھوں نے فرمایا: نہیں بلکہ رسول اﷲ ﷺ نے مجھے(اپنے بعد) بادیہ میں رہنے کی اجازت دی تھی۔
تشریح:
(1) باب کے ساتھ حدیث کی مناسبت اس طرح بنتی ہے کہ ہجرت کرنے کے بعد بادیہ نشینی نبی ﷺ کی اجازت کے بغیر جائز نہیں ہے۔ (2) یہ حدیث مبارکہ حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ تعالٰی عنہ کے صبر اور ان کی جرأت پر بھی دلالت کرتی ہے کہ انھوں نے جحاج کی بے ادبی پر صبر کیا، اور پھر اسے جواب بھی دیا۔ جحاج بنوامیہ کے دور کا ایک ظالم اور گستاخ گورنر تھا۔ حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر صحابی سے اس کا انداز تخاطب اس کے تکبر اور گستاخی کی واضح دلیل ہے۔ اسے اقتدار کے نشے نے چھوٹے بڑے کی تمیز بھلا دی تھی۔ نتیجہ یہ ہے کہ کوئی بھی اسے اچھے لفظوں سے یاد نہیں کرتا بلکہ لعنت تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔ بے ادبی انسان کی خوبیوں کو چھپا دیتی ہے۔ (3) ”بادیہ“ مراد صحرائی علاقہ ہے، یعنی آبادیوں سے باہر کھلے اور آزاد علاقے۔ ان میں رہنے والے کو بدوی یا اعرابی کہتے ہیں۔ (4) حجاج کا اعتراض فضول تھا۔ کوئی شخص کسی بھی جگہ رہائش اختیار رکھ سکتا ہے۔ حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ تعالٰی عنہ کوئی مہاجر نہیں تھے کہ مدینہ چھوڑ کر اپنے سابقہ گھر چلے گئے ہوں اور ان پر اعتراض ہوسکے۔ بہت سے مہاجر صحابہ بھی مدینہ چھوڑ کر دوسرے علاقوں میں آباد ہوگئے تھے۔ خیر انھوں نے تو نبی ﷺ سے اجازت بھی لے رکھی تھی اور پھر وہ فوت بھی مدینہ منورہ ہی ہوئے۔ رضي اللہ عنه وأرضاہ
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4197
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4197
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4191
تمہید کتاب
یہ کتاب بیعت کے مسائل پر مشتمل ہے۔اس سے ماقبل کتاب‘تقسیم فے کے سائل کے متعلق ہے۔ان دونوں کے مابین مناسبت یہ ہے کجہ مال فے اور مال غنیمت اس وقت تقسیم ہوگا جب اسے کوئی تقسیم کرنے والا بھی ہو۔چونکہ تقسیم کی نازک اور گرانبا ذمہ داری امام اور امیر ہی کی ہوتی ہے‘اس لیے امیر کا تعین مسلمانوں پر واجب ہے۔اور یہ بات بالکل واضح ہے کہ جب امیر کا تعین ہوگا تو لامحالہ اس کی بیعت بھی ہوگی۔لیکن مسلمانوں کا امام اور امیر ایسا شخص ہونا چاہیے جو اس حساس اور نازک ذإہ داری کا ای،ایل ہوکیونکہ مسلمانوں کے تمام امور کی انجام دہی کا انحصارامیر وخلیفہ ہی لپر ہوتا ہے‘قوم وملت کی ترقی فلاح و بہبود اوعر ملکی انتظام وانصرام کا محورومرکز اس کی ذات ہوتی ہے۔حدودوتعزیرات کی تنفیذ ملک میں قیام امن کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے اور یہ صرف خلیفہ ہی کرسکتا ہے ۔ لیکن یہ تبھی ممکن ہے جب وہ شرعی طور شرائط خلیفہ کا حامل ہو‘لہٰذا جب اس منصب کے حامل شخص کا انتخاب ہوگا تو ہر مسلمان کے لیے ضروری ہوگا کہ اس کی بیعت کرے۔یہ بیعت دراصل اس قلبی اعتماد کا ظہار ہوتی ہے جس کی بنیاد پر کسی کو امیر اور امام تسلیم کیا جاتا ہے‘زنیز یہ عہد بھی ہوتا ہے کہ اہم اس وقت تک آپ کی بات سنیں گے اور اطاعت بجالائیں گے جب تک آپ اﷲ تعالیٰ کی رضا کے متلاشی اور اس کے قرب کے حصول کے لیے مسلسل جدوجہد کرتے رہیں گے۔جب تک اﷲ کی اطاعت لپر کاربندر رہیں گےبیعت کا مفہوم ومعنی ہم بھی خلوص نیت کے ساتھ آپ کے اطاعت گزار رہیں گے۔اگر آپ نے اﷲ سے وفانہ کی تو ہم سے بھی وفا کی امید نہ رکھیں کیونکہ رسول اﷲﷺ کا فرمان:[لا طاعة لمن لم يطع الله]’’اﷲ کے نافرمان کی قطعاََ کوئی اطاعت نہیں۔‘‘(سودا) سے ماخوذہے۔بیع کرتے وقت لوگ عموماََ ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ لیتے ہیں۔بعیت(معاہدہ) بیعت دراصل ایک عہد ہوتا ہے۔اس کی اہمیت کے پیش نظر ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑا جاتا ہے تاکہ خلاف ورزی نہ ہو۔بیعت کا دستور اسلام سے پہلے کا دستور اسلام سے پہلے بھی تھا۔اسلام نے بھی اس کو قائم رکھا۔ رسول اﷲﷺ سے تین قسم کی بیعت ثابت ہے:اسلام قبول کرتے وقت بیعت‘جہاد کے وقت بیعت اور شریعت کے اوامرو نواہی کے بارے میں بیعت۔بعض اوقات آپ نے تجدید عہد کے وقت بھی بیعت لی ہے۔رسول اﷲﷺ کی وفات کے بعد خلفاء نے بیعت خلافت لی‘یعنی نئے خلیفہ کے انتخاب کے بعد اہم عہدیدار ان اور معاشرے کے اہم فراد نئے خلیفہ سے بیعت کرتے تھتے کہ ہم آپ کی خلافت کو تسلیم کرتے ہیں اور آپ کی حتی الامکان اطاعت کریں گے۔بیعت جہاد بھی قائم رہی جو عام طور پر امام کا نائب کسی بہت اہم موقع پر لیتا تھا۔بیعت اسلام(اسلام قبول کرتے وقت) اور بیعت اطاعت (شریعت کے اوا مرونواہی کی پابندی)ختم ہوگئیں۔معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ نے ان دوبیعتوں کو رسول اﷲﷺ کے ساتھ خاص سمجھا۔ اگرچہ صحابہ سے یہ بات صرا حناََ ثابت نہیں مگر ان کا عمل اس بات پر دلالت کرتا ہے‘لہٰذا بہتر ہے کہ ان دوبیعتوں (بیعت اسلام اور بیعت اطاعت)سے لپر ہیز کیا جائے۔البتہ بیعت خلافت اور بیعت جہاد مشروع اور باقی ہیں،لیکن بیعت اسلام اور بیعت اطاعت کو بھی قطعاََ ممنوع نہیں کہا جاسکتا۔بعض صوفیاء نے جو بیعت سلسلہ ایجاد کی ہے کہ جب کوئی شخص ان کا مرید بنتا ہے تو وہ اس سے بیعت لیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اب یہ ہمارے سلسلے میں داخل ہوگیا ہے‘مثلاََ:سلسلئہ چشتیہ سلسلئہ نقش بندیہ،سلسلہ قادرییہ ،سلسلئہ سہروردیہ اور پنج پیر یہ و سلسلئہ غوثیہ وغیرہ‘ تو یہ بیعت ایجاد بندہ اور خیر القرون کے بعد کی خود ساختہ چیز ہے۔اس کو ثبوت صحابہ کرام‘تالبعیں عظام‘ائمہ دین اور محد ثین وفقہاء سے نہیں ملتا ‘اس لیے اس سے پرہیز واجب ہے خصوصاََ جب کہ ایسی بیعت کرنے والابیعت کا مفہوم و معنی سمجھتا ہے کہ اب مجھ پر اس سلسلے کی تمام پابندیوں پر عمل کرنا لازم ہے‘خواہ وہ شریعت کے مطابق ہوں یا اس سے ٹکرارہی ہوں جب کہ قرآن وحدیث کی روسے انسان کسی بھی انسان کی غیر مشروط اطاعت نہیں کرسکتا بلکہ اس میں شریعت کی قید لگانا ضروری ہے‘یعنی میں تیری اطاعت کروں گا بشرطیکہ شریعت اسلامیہ کی خلاف ورشی نہ ہومگر بیعت سلاسل میں پابندی ناپید ہوتی ہے بلکہ اسے نامناسب خیال کیا جاتا ہے۔بیعت سلسلہ کو بیعت اسلام پر قطعاََ قیاس نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اسلام دین الہٰی ہے اور سلسلہ ایک انسانی حلقہ فکرو عمل۔باقی رہی بیعت اطاعت تو وہ دراصل بیعت اسلام ہی کی تجدید ہے کیونکہ اطاعت سے مراد شریعت اسلامیہ ہی کی اطاعت ہے‘لہٰذا بیعت سلسلہ کو اس پر بھی قیاس نہیں کیا جاسکتا‘نیز اس بیعت سلسلہ سے امت میں گروہ بندی اور تفریق پیدا ہوتی ہے جس سے روکا گیا ہے۔
حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ تعالٰی عنہ جحاج کے پاس تشریف لے گئے۔ اس نے کہا: اے ابن اکوع! تم مرتد ہوگئے ہو اور ایک کلمہ کہا جس کے معنیٰ تھے کہ(مدینہ چھوڑ کر) بادیہ میں رہنے لگے ہو؟ انھوں نے فرمایا: نہیں بلکہ رسول اﷲ ﷺ نے مجھے(اپنے بعد) بادیہ میں رہنے کی اجازت دی تھی۔
حدیث حاشیہ:
(1) باب کے ساتھ حدیث کی مناسبت اس طرح بنتی ہے کہ ہجرت کرنے کے بعد بادیہ نشینی نبی ﷺ کی اجازت کے بغیر جائز نہیں ہے۔ (2) یہ حدیث مبارکہ حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ تعالٰی عنہ کے صبر اور ان کی جرأت پر بھی دلالت کرتی ہے کہ انھوں نے جحاج کی بے ادبی پر صبر کیا، اور پھر اسے جواب بھی دیا۔ جحاج بنوامیہ کے دور کا ایک ظالم اور گستاخ گورنر تھا۔ حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر صحابی سے اس کا انداز تخاطب اس کے تکبر اور گستاخی کی واضح دلیل ہے۔ اسے اقتدار کے نشے نے چھوٹے بڑے کی تمیز بھلا دی تھی۔ نتیجہ یہ ہے کہ کوئی بھی اسے اچھے لفظوں سے یاد نہیں کرتا بلکہ لعنت تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔ بے ادبی انسان کی خوبیوں کو چھپا دیتی ہے۔ (3) ”بادیہ“ مراد صحرائی علاقہ ہے، یعنی آبادیوں سے باہر کھلے اور آزاد علاقے۔ ان میں رہنے والے کو بدوی یا اعرابی کہتے ہیں۔ (4) حجاج کا اعتراض فضول تھا۔ کوئی شخص کسی بھی جگہ رہائش اختیار رکھ سکتا ہے۔ حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ تعالٰی عنہ کوئی مہاجر نہیں تھے کہ مدینہ چھوڑ کر اپنے سابقہ گھر چلے گئے ہوں اور ان پر اعتراض ہوسکے۔ بہت سے مہاجر صحابہ بھی مدینہ چھوڑ کر دوسرے علاقوں میں آباد ہوگئے تھے۔ خیر انھوں نے تو نبی ﷺ سے اجازت بھی لے رکھی تھی اور پھر وہ فوت بھی مدینہ منورہ ہی ہوئے۔ رضي اللہ عنه وأرضاہ
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
سلمہ بن الاکوع ؓ سے روایت ہے کہ وہ حجاج کے پاس گئے تو اس نے کہا: ابن الاکوع! کیا آپ (ہجرت کی جگہ سے) ایڑیوں کے بل لوٹ گئے، اور ایک ایسا کلمہ کہا جس کے معنیٰ ہیں کہ آپ بادیہ (دیہات) چلے گئے۔ انہوں نے کہا: نہیں، مجھے تو رسول اللہ ﷺ نے بادیہ (دیہات) میں رہنے کی اجازت دی تھی.۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : گناہ کبیرہ میں سے ایک گناہ ”ہجرت کے بعد ہجرت والی جگہ کو چھوڑ دینا“ بھی ہے (اس سلسلے میں احادیث مروی ہیں) اسی کی طرف حجاج نے اشارہ کر کے سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ سے یہ بات کہی، جب کہ بات یہ تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلمہ کے قبیلہ والوں کو فتنہ سے بچنے کے لیے اس کی اجازت پہلے ہی دے دی تھی، اسی لیے امام بخاری نے اس حدیث پر «التعرب فی الفتنة»”فتنہ کے زمانہ میں دیہات میں چلا جانا“ کا باب باندھا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Salamah bin Al-Akwa ' that he entered upon Al-Hajjaj who said: O son of Al-Akwa, you have turned on your heels (i.e., deserted Islam) by staying in the desert with the Bedouins." He said: "No; the Messenger of Allah gave me permission to stay in the desert with the Bedouins.