Sunan-nasai:
The Book of al-Bay'ah
(Chapter: The Inner Circle Of The Imam)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4203.
حضرت ابو ایوب رضی اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: ”جو بھی نبی مبعوث ہوئے یا جو ان کے بعد خلیفہ بنے، ان کے مشیر دو قسم کے ہوتے تھے۔ ایک مشیر تو ان کو نیکی کا حکم دیتے تھے او برائی سے روکتے تھے اور دوسرے ان کو خراب کرنے کی پوری کوشش کرتے تھے۔ جو شخص برے مشیر سے بچ گیا، وہ حقیقتاً بچ گیا۔“
تشریح:
(1) ”مشیر“ عربی میں لفظ بطانۃ استعمال ہوا ہے۔ اس کے لفظی معنیٰ رازدان اور مشیر کے ہیں۔ گہرے دوست کو بھی بطانۃ کہہ لیا جاتا ہے کیونکہ یہ بھی راز دان ہوتا ہے۔ (2) ”حقیقتاً بچ گیا“ دنیا میں خرابی، ذلت اور رسوائی سے اور آخرت میں اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور عذاب سے۔ خلق بھی راضی، خالق بھی راضی۔
الحکم التفصیلی:
قلت : و قوله : " المستشار مؤتمن " . أخرجه أبو داود ( 5128 ) و ابن ماجة (
3745 ) أيضا من هذا الوجه . و ابن ماجة أيضا ( 3746 ) و الدارمي ( 2 / 219 )
و ابن حبان ( 1991 ) و أحمد ( 5 / 274 ) عن أبي مسعود الأنصاري مرفوعا . و سنده
حسن في " الشواهد " ، و زعم أبو حاتم في " العلل " ( 2 / 274 ) أنه أخطأ ، و لم
يتبين لي وجهه ، فراجعه . و الترمذي أيضا ( 2 / 135 ) من حديث أم سلمة
و استغربه . و أبو نعيم في " الحلية " ( 6 / 190 ) عن سمرة . و الطحاوي أيضا
و أحمد في " الزهد " ( ص 32 ) عن أبي سلمة بن عبد الرحمن مرسلا كما يأتي . و في
الحديث عند الترمذي و الحاكم زيادة : " لا تذبحن ذات در " . و هي في حديث أبي
سلمة أيضا . ثم إن الحديث قد اختلف فيه على أبي سلمة ، فرواه ابنه عمرو بن أبي
سلمة عن أبيه مرسلا بالقصة ، لكن ليس فيه حديث الترجمة . أخرجه أحمد و الطحاوي
كما تقدم ، و عمر هذا فيه ضعف فلا يعتد بمخالفته ، لاسيما و قد تابع عبد الملك
ابن عمير الزهري عند النسائي ( 2 / 186 ) و الطحاوي ( 3 / 22 - 23 ) و أحمد ( 2
/ 237 و 289 ) من طرق عنه عن أبي سلمة عن أبي هريرة به . و علقه البخاري ( 4 /
401 ) . و خالفهم يونس فقال : عن ابن شهاب عن أبي سلمة عن أبي سعيد الخدري
مرفوعا بلفظ : " ما بعث الله من نبي ، و لا استخلف من خليفة ، إلا كانت له
بطانتان : بطانة تأمره بالمعروف و تحضه عليه ، و بطانة تأمره بالشر و تحضه عليه
، فالمعصوم من عصم الله " . أخرجه البخاري ( 4 / 255 / 401 ) و النسائي
و الطحاوي ( 3 / 22 ) و أحمد ( 3 / 39 و 88 ) . و تابعه جمع عند البخاري معلقا
و الطحاوي موصولا كلهم عن الزهري به . و يظهر لي من اتفاق كل من الطائفتين -
و جميعهم ثقة - على أن لأبي سلمة فيه شيخين ، و هما أبو هريرة ، و أبو سعيد .
فكان يرويه تارة عن هذا و تارة عن هذا ، فتلقاهما الزهري عنه ثم تلقاه عنه كل
من الشيخين من أحد الوجهين ، و هو الذي مال إليه الحافظ في " الفتح " ( 13 /
166 ) . و يقوي الوجه الأول متابعة عبد الملك بن عمير للزهري عليه . و الله
أعلم . و له شيخ ثالث ، فقد قال عبيد الله بن أبي جعفر حدثني صفوان عن أبي سلمة
عن أبي أيوب قال : سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول : فذكره نحوه . علقه
البخاري ، و وصله النسائي و الطحاوي أيضا - لكن وقع في إسناده خلط - و الطبراني
في " المعجم الكبير " ( 3895 )
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4214
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4214
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4208
تمہید کتاب
یہ کتاب بیعت کے مسائل پر مشتمل ہے۔اس سے ماقبل کتاب‘تقسیم فے کے سائل کے متعلق ہے۔ان دونوں کے مابین مناسبت یہ ہے کجہ مال فے اور مال غنیمت اس وقت تقسیم ہوگا جب اسے کوئی تقسیم کرنے والا بھی ہو۔چونکہ تقسیم کی نازک اور گرانبا ذمہ داری امام اور امیر ہی کی ہوتی ہے‘اس لیے امیر کا تعین مسلمانوں پر واجب ہے۔اور یہ بات بالکل واضح ہے کہ جب امیر کا تعین ہوگا تو لامحالہ اس کی بیعت بھی ہوگی۔لیکن مسلمانوں کا امام اور امیر ایسا شخص ہونا چاہیے جو اس حساس اور نازک ذإہ داری کا ای،ایل ہوکیونکہ مسلمانوں کے تمام امور کی انجام دہی کا انحصارامیر وخلیفہ ہی لپر ہوتا ہے‘قوم وملت کی ترقی فلاح و بہبود اوعر ملکی انتظام وانصرام کا محورومرکز اس کی ذات ہوتی ہے۔حدودوتعزیرات کی تنفیذ ملک میں قیام امن کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے اور یہ صرف خلیفہ ہی کرسکتا ہے ۔ لیکن یہ تبھی ممکن ہے جب وہ شرعی طور شرائط خلیفہ کا حامل ہو‘لہٰذا جب اس منصب کے حامل شخص کا انتخاب ہوگا تو ہر مسلمان کے لیے ضروری ہوگا کہ اس کی بیعت کرے۔یہ بیعت دراصل اس قلبی اعتماد کا ظہار ہوتی ہے جس کی بنیاد پر کسی کو امیر اور امام تسلیم کیا جاتا ہے‘زنیز یہ عہد بھی ہوتا ہے کہ اہم اس وقت تک آپ کی بات سنیں گے اور اطاعت بجالائیں گے جب تک آپ اﷲ تعالیٰ کی رضا کے متلاشی اور اس کے قرب کے حصول کے لیے مسلسل جدوجہد کرتے رہیں گے۔جب تک اﷲ کی اطاعت لپر کاربندر رہیں گےبیعت کا مفہوم ومعنی ہم بھی خلوص نیت کے ساتھ آپ کے اطاعت گزار رہیں گے۔اگر آپ نے اﷲ سے وفانہ کی تو ہم سے بھی وفا کی امید نہ رکھیں کیونکہ رسول اﷲﷺ کا فرمان:[لا طاعة لمن لم يطع الله]’’اﷲ کے نافرمان کی قطعاََ کوئی اطاعت نہیں۔‘‘(سودا) سے ماخوذہے۔بیع کرتے وقت لوگ عموماََ ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ لیتے ہیں۔بعیت(معاہدہ) بیعت دراصل ایک عہد ہوتا ہے۔اس کی اہمیت کے پیش نظر ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑا جاتا ہے تاکہ خلاف ورزی نہ ہو۔بیعت کا دستور اسلام سے پہلے کا دستور اسلام سے پہلے بھی تھا۔اسلام نے بھی اس کو قائم رکھا۔ رسول اﷲﷺ سے تین قسم کی بیعت ثابت ہے:اسلام قبول کرتے وقت بیعت‘جہاد کے وقت بیعت اور شریعت کے اوامرو نواہی کے بارے میں بیعت۔بعض اوقات آپ نے تجدید عہد کے وقت بھی بیعت لی ہے۔رسول اﷲﷺ کی وفات کے بعد خلفاء نے بیعت خلافت لی‘یعنی نئے خلیفہ کے انتخاب کے بعد اہم عہدیدار ان اور معاشرے کے اہم فراد نئے خلیفہ سے بیعت کرتے تھتے کہ ہم آپ کی خلافت کو تسلیم کرتے ہیں اور آپ کی حتی الامکان اطاعت کریں گے۔بیعت جہاد بھی قائم رہی جو عام طور پر امام کا نائب کسی بہت اہم موقع پر لیتا تھا۔بیعت اسلام(اسلام قبول کرتے وقت) اور بیعت اطاعت (شریعت کے اوا مرونواہی کی پابندی)ختم ہوگئیں۔معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ نے ان دوبیعتوں کو رسول اﷲﷺ کے ساتھ خاص سمجھا۔ اگرچہ صحابہ سے یہ بات صرا حناََ ثابت نہیں مگر ان کا عمل اس بات پر دلالت کرتا ہے‘لہٰذا بہتر ہے کہ ان دوبیعتوں (بیعت اسلام اور بیعت اطاعت)سے لپر ہیز کیا جائے۔البتہ بیعت خلافت اور بیعت جہاد مشروع اور باقی ہیں،لیکن بیعت اسلام اور بیعت اطاعت کو بھی قطعاََ ممنوع نہیں کہا جاسکتا۔بعض صوفیاء نے جو بیعت سلسلہ ایجاد کی ہے کہ جب کوئی شخص ان کا مرید بنتا ہے تو وہ اس سے بیعت لیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اب یہ ہمارے سلسلے میں داخل ہوگیا ہے‘مثلاََ:سلسلئہ چشتیہ سلسلئہ نقش بندیہ،سلسلہ قادرییہ ،سلسلئہ سہروردیہ اور پنج پیر یہ و سلسلئہ غوثیہ وغیرہ‘ تو یہ بیعت ایجاد بندہ اور خیر القرون کے بعد کی خود ساختہ چیز ہے۔اس کو ثبوت صحابہ کرام‘تالبعیں عظام‘ائمہ دین اور محد ثین وفقہاء سے نہیں ملتا ‘اس لیے اس سے پرہیز واجب ہے خصوصاََ جب کہ ایسی بیعت کرنے والابیعت کا مفہوم و معنی سمجھتا ہے کہ اب مجھ پر اس سلسلے کی تمام پابندیوں پر عمل کرنا لازم ہے‘خواہ وہ شریعت کے مطابق ہوں یا اس سے ٹکرارہی ہوں جب کہ قرآن وحدیث کی روسے انسان کسی بھی انسان کی غیر مشروط اطاعت نہیں کرسکتا بلکہ اس میں شریعت کی قید لگانا ضروری ہے‘یعنی میں تیری اطاعت کروں گا بشرطیکہ شریعت اسلامیہ کی خلاف ورشی نہ ہومگر بیعت سلاسل میں پابندی ناپید ہوتی ہے بلکہ اسے نامناسب خیال کیا جاتا ہے۔بیعت سلسلہ کو بیعت اسلام پر قطعاََ قیاس نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اسلام دین الہٰی ہے اور سلسلہ ایک انسانی حلقہ فکرو عمل۔باقی رہی بیعت اطاعت تو وہ دراصل بیعت اسلام ہی کی تجدید ہے کیونکہ اطاعت سے مراد شریعت اسلامیہ ہی کی اطاعت ہے‘لہٰذا بیعت سلسلہ کو اس پر بھی قیاس نہیں کیا جاسکتا‘نیز اس بیعت سلسلہ سے امت میں گروہ بندی اور تفریق پیدا ہوتی ہے جس سے روکا گیا ہے۔
حضرت ابو ایوب رضی اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: ”جو بھی نبی مبعوث ہوئے یا جو ان کے بعد خلیفہ بنے، ان کے مشیر دو قسم کے ہوتے تھے۔ ایک مشیر تو ان کو نیکی کا حکم دیتے تھے او برائی سے روکتے تھے اور دوسرے ان کو خراب کرنے کی پوری کوشش کرتے تھے۔ جو شخص برے مشیر سے بچ گیا، وہ حقیقتاً بچ گیا۔“
حدیث حاشیہ:
(1) ”مشیر“ عربی میں لفظ بطانۃ استعمال ہوا ہے۔ اس کے لفظی معنیٰ رازدان اور مشیر کے ہیں۔ گہرے دوست کو بھی بطانۃ کہہ لیا جاتا ہے کیونکہ یہ بھی راز دان ہوتا ہے۔ (2) ”حقیقتاً بچ گیا“ دنیا میں خرابی، ذلت اور رسوائی سے اور آخرت میں اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور عذاب سے۔ خلق بھی راضی، خالق بھی راضی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوایوب انصاری ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ”کوئی نبی ایسا نہیں بھیجا گیا اور نہ اس کے بعد کوئی خلیفہ ایسا ہوا جس کے دو مشیر و راز دار نہ ہوں۔ ایک مشیر و راز دار اسے بھلائی کا حکم دیتا اور برائی سے روکتا ہے اور دوسرا اسے بگاڑنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتا ۔ لہٰذا جو خراب مشیر سے بچ گیا وہ (برائی اور فساد سے) بچ گیا.“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Abu Ayyub said; "I heard the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) say: 'No Prophet ؑ has ever been sent, nor has there been any Khalifah after him, but he has two groups of advisers, a group that tells him to do good and a group that tells him to do evil. Whoever is protected from the evil group, then he is indeed protected.