باب: جو شخص ظالم امیر ( حکمران ) کے سامنے کلمہ حق کہے اس کی فضیلت
)
Sunan-nasai:
The Book of al-Bay'ah
(Chapter: The Virtue Of The One Who Speaks The Truth Before An Unjust Ruler)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4209.
حضرت طارق بن شہاب رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبیٔ اکرم ﷺ سے پوچھا، جبکہ آپ ﷺ اپنا پاؤ مبارک رکاب میں رکھ چکے تھے: کون سا جہاد افضل ہے؟ آپ نے فرمایا: ”ظالم بادشاہ کے سامنے حق بات کہنا۔“
تشریح:
(1) یہ اس لیے افضل جہاد ہے کہ اس میں جان کا جانا یقینی ہوتا ہے، پھر میدان جنگ میں تو آدمی اپنا دفاع بھی کر سکتا ہے جبکہ یہاں وہ بھی ممکن نہیں۔ ہر لحاظ سے ہاتھ بندھے ہوتے ہیں۔ اور پھر برے طریقے سے مارا جاتا ہے۔ ایسے شخص کی حوصلہ افزائی کرنے والا بھی کوئی نہیں ہوتا۔ ملامت کرنے والے زیادہ ہوتے ہیں۔ (2) ”رکاب میں پاؤں رکھ چکے تھے“ یعنی اونٹ پر سوار ہو رہے تھے۔ (3) ”ظالم بادشاہ“ جو کلمۂ حق کہنے والے کو برداشت نہ کرتا ہو۔
الحکم التفصیلی:
قلت : عطية ضعيف ، لكن يقوي حديثه هنا الطريق الآتية ، و هي :
الثانية : عن علي بن زيد بن جدعان عن أبي نضرة عنه مرفوعا .
أخرجه الحاكم ( 4 / 505 - 506 ) و الحميدي في " مسنده " ( 752 ) و أحمد
( 3 / 19 ، 61 ) بالروايتين و للحاكم الأخرى و قال :
" تفرد به ابن جدعان ، و لم يحتج به الشيخان " .
قال الذهبي في " تلخيصه " : " قلت : هو صالح الحديث " .
و قال في " الضعفاء " " حسن الحديث ، صاحب غرائب ، احتج به بعضهم " .
و قال أبو زرعة : ليس بقوي . و قال أحمد : ليس بشيء .
و أقول : هو حسن الحديث عند المتابعة كما هنا . و الله أعلم .
2 - حديث أبي أمامة يرويه صاحبه أبو غالب عنه قال :
" عرض لرسول الله صلى الله عليه وسلم رجل عند الجمرة الأولى فقال :
يا رسول الله أي الجهاد أفضل ؟ فسكت عنه ، فلما رمى الجمرة الثانية سأله ،
فسكت عنه ، فلما رمى جمرة العقبة وضع رجله في الغرز ليركب ، قال : أين السائل ؟
قال : أنا يا رسول الله ، قال : كلمة حق عند ذي سلطان جائر " .
أخرجه ابن ماجه ( 4012 ) و أحمد ( 5 / 251 ، 256 ) و المخلص في " بعض الخامس من
الفوائد " ( ق 260 / 1 ) و الروياني في " مسنده " ( 30 / 215 / 2 )
و أبو بكر بن سلمان الفقيه في " المنتقى من حديثه " ( ق 96 / 1 ) و أبو القاسم
السمرقندي في جزء من " الفوائد المنتقاة " ( ق 112 / 1 ) و ابن عدي ( 112 / 2 )
و البيهقي في " الشعب " ( 2 / 438 / 1 ) من طرق عن حماد بن سلمة عنه .
قلت : و هذا إسناد حسن ، و في أبي غالب خلاف لا ينزل حديثه عن رتبة الحسن ،
و حديثه هذا صحيح بشاهده المتقدم و الآتي .
3 - حديث طارق بن شهاب رضي الله عنه :
و هو صحابي رأى رسول الله صلى الله عليه وسلم و لم يسمع منه ، كما قال أبو داود
أخرجه النسائي ( 2 / 187 ) و أحمد ( 4 / 315 ) و البيهقي و الضياء المقدسي في
" الأحاديث المختارة " ( ق 21 / 2 ) .
قلت : و إسناده " صحيح " و مراسيل الصحابة حجة .
( تنبيه )
أورده السيوطي في " الجامع الصغير " من رواية ابن ماجه عن أبي سعيد . و أحمد
و ابن ماجه و الطبراني في " الكبير " و البيهقي في " الشعب " عن أبي أمامة .
و أحمد و النسائي و البيهقي أيضا عن طارق .
فقال المناوي في " شرحه " : " و قضية صنيع المؤلف أن هذا هو الحديث بكماله ،
و لا كذلك ، بل تمامه عند مخرجه ابن ماجه كأبي داود : أو أمير جائر " .
فأقول : هذه الزيادة ليست عند ابن ماجه أصلا . ثم هي ليست من صلب الحديث ، بل
شك من بعض رواة أبي داود بدليل عدم ورودها عند غيره من حديث أبي سعيد و لا عن
غيره ممن ذكرنا ، فلا طائل إذن في استدراكها على السيوطي ، نعم هي عند الخطيب
في " التاريخ " ( 7 / 239 ) من طريق عطية عن أبي سعيد . فهي ضعيفة منكرة لتفرد
عطية بها .
4 - حديث جابر :
أخرجه العقيلي في " الضعفاء " ( 321 ) من طريق عمار بن إسحاق أخي محمد بن إسحاق
عن محمد بن المنكدر عنه مثل حديث أبي أمامة و قال :
" عمار بن إسحاق لا يتابع على حديثه ، و ليس بمشهور بالنقل ، و آخر الحديث قد
روي بإسناد أصلح من هذا في أفضل العمل كلمة حق عند إمام جائر " .
5 - الزهري .
قال المناوي قال البيهقي :
" و له شاهد مرسل بإسناد جيد ، ثم ساقه عن الزهري بلفظ : أفضل الجهاد كلمة عدل
عند إمام جائر " .
قلت : و لم أره عند البيهقي في " الشعب " من مرسل الزهري ، و إنما من مرسل طارق
بن شهاب المتقدمة .
6 - ثم وجدته من حديثه بكر بن خنيس عن عبد الله بن عبيد بن عمير عن أبيه عن جده
مرفوعا أخرجه الحاكم ( 3 / 626 ) و سكت عليه ، و ضعفه الذهبي ، و علته بكر هذا
فإنه ضعيف
ابن ماجة ( 4011 ) // ، الصحيحة ( 491 ) ، المشكاة ( 3705
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4220
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4220
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4214
تمہید کتاب
یہ کتاب بیعت کے مسائل پر مشتمل ہے۔اس سے ماقبل کتاب‘تقسیم فے کے سائل کے متعلق ہے۔ان دونوں کے مابین مناسبت یہ ہے کجہ مال فے اور مال غنیمت اس وقت تقسیم ہوگا جب اسے کوئی تقسیم کرنے والا بھی ہو۔چونکہ تقسیم کی نازک اور گرانبا ذمہ داری امام اور امیر ہی کی ہوتی ہے‘اس لیے امیر کا تعین مسلمانوں پر واجب ہے۔اور یہ بات بالکل واضح ہے کہ جب امیر کا تعین ہوگا تو لامحالہ اس کی بیعت بھی ہوگی۔لیکن مسلمانوں کا امام اور امیر ایسا شخص ہونا چاہیے جو اس حساس اور نازک ذإہ داری کا ای،ایل ہوکیونکہ مسلمانوں کے تمام امور کی انجام دہی کا انحصارامیر وخلیفہ ہی لپر ہوتا ہے‘قوم وملت کی ترقی فلاح و بہبود اوعر ملکی انتظام وانصرام کا محورومرکز اس کی ذات ہوتی ہے۔حدودوتعزیرات کی تنفیذ ملک میں قیام امن کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے اور یہ صرف خلیفہ ہی کرسکتا ہے ۔ لیکن یہ تبھی ممکن ہے جب وہ شرعی طور شرائط خلیفہ کا حامل ہو‘لہٰذا جب اس منصب کے حامل شخص کا انتخاب ہوگا تو ہر مسلمان کے لیے ضروری ہوگا کہ اس کی بیعت کرے۔یہ بیعت دراصل اس قلبی اعتماد کا ظہار ہوتی ہے جس کی بنیاد پر کسی کو امیر اور امام تسلیم کیا جاتا ہے‘زنیز یہ عہد بھی ہوتا ہے کہ اہم اس وقت تک آپ کی بات سنیں گے اور اطاعت بجالائیں گے جب تک آپ اﷲ تعالیٰ کی رضا کے متلاشی اور اس کے قرب کے حصول کے لیے مسلسل جدوجہد کرتے رہیں گے۔جب تک اﷲ کی اطاعت لپر کاربندر رہیں گےبیعت کا مفہوم ومعنی ہم بھی خلوص نیت کے ساتھ آپ کے اطاعت گزار رہیں گے۔اگر آپ نے اﷲ سے وفانہ کی تو ہم سے بھی وفا کی امید نہ رکھیں کیونکہ رسول اﷲﷺ کا فرمان:[لا طاعة لمن لم يطع الله]’’اﷲ کے نافرمان کی قطعاََ کوئی اطاعت نہیں۔‘‘(سودا) سے ماخوذہے۔بیع کرتے وقت لوگ عموماََ ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ لیتے ہیں۔بعیت(معاہدہ) بیعت دراصل ایک عہد ہوتا ہے۔اس کی اہمیت کے پیش نظر ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑا جاتا ہے تاکہ خلاف ورزی نہ ہو۔بیعت کا دستور اسلام سے پہلے کا دستور اسلام سے پہلے بھی تھا۔اسلام نے بھی اس کو قائم رکھا۔ رسول اﷲﷺ سے تین قسم کی بیعت ثابت ہے:اسلام قبول کرتے وقت بیعت‘جہاد کے وقت بیعت اور شریعت کے اوامرو نواہی کے بارے میں بیعت۔بعض اوقات آپ نے تجدید عہد کے وقت بھی بیعت لی ہے۔رسول اﷲﷺ کی وفات کے بعد خلفاء نے بیعت خلافت لی‘یعنی نئے خلیفہ کے انتخاب کے بعد اہم عہدیدار ان اور معاشرے کے اہم فراد نئے خلیفہ سے بیعت کرتے تھتے کہ ہم آپ کی خلافت کو تسلیم کرتے ہیں اور آپ کی حتی الامکان اطاعت کریں گے۔بیعت جہاد بھی قائم رہی جو عام طور پر امام کا نائب کسی بہت اہم موقع پر لیتا تھا۔بیعت اسلام(اسلام قبول کرتے وقت) اور بیعت اطاعت (شریعت کے اوا مرونواہی کی پابندی)ختم ہوگئیں۔معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ نے ان دوبیعتوں کو رسول اﷲﷺ کے ساتھ خاص سمجھا۔ اگرچہ صحابہ سے یہ بات صرا حناََ ثابت نہیں مگر ان کا عمل اس بات پر دلالت کرتا ہے‘لہٰذا بہتر ہے کہ ان دوبیعتوں (بیعت اسلام اور بیعت اطاعت)سے لپر ہیز کیا جائے۔البتہ بیعت خلافت اور بیعت جہاد مشروع اور باقی ہیں،لیکن بیعت اسلام اور بیعت اطاعت کو بھی قطعاََ ممنوع نہیں کہا جاسکتا۔بعض صوفیاء نے جو بیعت سلسلہ ایجاد کی ہے کہ جب کوئی شخص ان کا مرید بنتا ہے تو وہ اس سے بیعت لیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اب یہ ہمارے سلسلے میں داخل ہوگیا ہے‘مثلاََ:سلسلئہ چشتیہ سلسلئہ نقش بندیہ،سلسلہ قادرییہ ،سلسلئہ سہروردیہ اور پنج پیر یہ و سلسلئہ غوثیہ وغیرہ‘ تو یہ بیعت ایجاد بندہ اور خیر القرون کے بعد کی خود ساختہ چیز ہے۔اس کو ثبوت صحابہ کرام‘تالبعیں عظام‘ائمہ دین اور محد ثین وفقہاء سے نہیں ملتا ‘اس لیے اس سے پرہیز واجب ہے خصوصاََ جب کہ ایسی بیعت کرنے والابیعت کا مفہوم و معنی سمجھتا ہے کہ اب مجھ پر اس سلسلے کی تمام پابندیوں پر عمل کرنا لازم ہے‘خواہ وہ شریعت کے مطابق ہوں یا اس سے ٹکرارہی ہوں جب کہ قرآن وحدیث کی روسے انسان کسی بھی انسان کی غیر مشروط اطاعت نہیں کرسکتا بلکہ اس میں شریعت کی قید لگانا ضروری ہے‘یعنی میں تیری اطاعت کروں گا بشرطیکہ شریعت اسلامیہ کی خلاف ورشی نہ ہومگر بیعت سلاسل میں پابندی ناپید ہوتی ہے بلکہ اسے نامناسب خیال کیا جاتا ہے۔بیعت سلسلہ کو بیعت اسلام پر قطعاََ قیاس نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اسلام دین الہٰی ہے اور سلسلہ ایک انسانی حلقہ فکرو عمل۔باقی رہی بیعت اطاعت تو وہ دراصل بیعت اسلام ہی کی تجدید ہے کیونکہ اطاعت سے مراد شریعت اسلامیہ ہی کی اطاعت ہے‘لہٰذا بیعت سلسلہ کو اس پر بھی قیاس نہیں کیا جاسکتا‘نیز اس بیعت سلسلہ سے امت میں گروہ بندی اور تفریق پیدا ہوتی ہے جس سے روکا گیا ہے۔
حضرت طارق بن شہاب رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبیٔ اکرم ﷺ سے پوچھا، جبکہ آپ ﷺ اپنا پاؤ مبارک رکاب میں رکھ چکے تھے: کون سا جہاد افضل ہے؟ آپ نے فرمایا: ”ظالم بادشاہ کے سامنے حق بات کہنا۔“
حدیث حاشیہ:
(1) یہ اس لیے افضل جہاد ہے کہ اس میں جان کا جانا یقینی ہوتا ہے، پھر میدان جنگ میں تو آدمی اپنا دفاع بھی کر سکتا ہے جبکہ یہاں وہ بھی ممکن نہیں۔ ہر لحاظ سے ہاتھ بندھے ہوتے ہیں۔ اور پھر برے طریقے سے مارا جاتا ہے۔ ایسے شخص کی حوصلہ افزائی کرنے والا بھی کوئی نہیں ہوتا۔ ملامت کرنے والے زیادہ ہوتے ہیں۔ (2) ”رکاب میں پاؤں رکھ چکے تھے“ یعنی اونٹ پر سوار ہو رہے تھے۔ (3) ”ظالم بادشاہ“ جو کلمۂ حق کہنے والے کو برداشت نہ کرتا ہو۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
طارق بن شہاب ؓ ۱؎ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی اکرم ﷺ سے سوال کیا اور وہ یا آپ اپنا پیر رکاب میں رکھے ہوئے تھے، کون سا جہاد افضل ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”ظالم حکمراں کے پاس حق اور سچ کہنا.“
حدیث حاشیہ:
1؎ : طارق بن شہاب رضی اللہ عنہ کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھنے کا شرف تو حاصل ہے مگر آپ سے خود کوئی حدیث نہیں سنی تھی، آپ کی روایت کسی اور صحابی کے واسطہ سے ہوتی ہے، اور اس صحابی کا نام نہ معلوم ہونے سے حدیث کی صحت میں فرق نہیں پڑتا۔ کیونکہ سارے صحابہ کرام ثقہ ہیں اور سند سے معلوم ثقہ، بالخصوص صحابی کا ساقط ہونا حدیث کی صحت میں موثر نہیں، اس لیے کہ سارے صحابہ ثقہ اور عدول ہیں، اس طرح کی حدیث جس میں حدیث نقل کرنے میں صحابی واسطہ صحابی کا ذکر کئے بغیر حدیث کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کر دے، علمائے حدیث کی اصطلاح میں ”مرسل صحابی“ کہتے ہیں، اور”مرسل صحابی“ مقبول و مستفید ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Tariq bin Shihab that: a man asked the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم), when he had put his leg in the stirrup: "Which kind of Jihad is best?'" He said: " a word of truth spoken before an unjust rulers.