باب: امارت ( اور عہدے) کی حرص و خواہش ناپسندیدہ ہے
)
Sunan-nasai:
The Book of al-Bay'ah
(Chapter: It is disliked to be eager for positions of Authority)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4211.
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ نبیٔ اکرم ؓ نے فرمایا: ”عنقریب تم لوگ امارت (اقتدار و سرداری) کی حرص کرو گے اور بلاشبہ یہ (قیامت کے دن) ندامت و شرمندگی اور حسرت و افسوس (کا سبب) ہو گی۔ یہ دودھ پلاتے اچھی لگتی ہے مگر دودھ چھڑاتے ہوئے بری محسوس ہوتی ہے۔“ (اس کی ابتدا اچھی معلوم ہوتی ہے لیکن انجام برا ہو گا)۔
تشریح:
(1) باب کے ساتھ حدیث کی مناسبت بالکل واضح ہے کہ امارت، یعنی اقتدار و سرداری کی حرص و ہوس شرعاً ناپسندیدہ اور مذموم ہے۔ (2) رسول اللہ ﷺ اپنے مذکورہ بالا فرمان سے امت کو یہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ جس کام کے انجام میں دکھ، تکلیف اور رنج و الم ہو، اسے معمولی اور زوال پذیر لذت و راحت کی خاطر ہرگز اختیار نہیں کرنا چاہیے۔ (3) اس حدیث مبارکہ سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ دنیوی لذات کے بجائے اخروی سعادت کے حصول اور آخرت کے عذاب سے خلاصی کی کوشش کرنی چاہیے کیونکہ اصل مقصدِ حیات اور کامیابی دنیا کی لذتوں کا حصول نہیں بلکہ عذاب آخرت سے بچاؤ اور جنت میں داخل ہے۔ (4) ”ندامت و شرمندگی اور حسرت و افسوس“ آخرت میں یا دنیا ہی میں کیونکہ جب اقتدار چھن جاتا ہے تو عموماً عذاب سہنا پڑتا ہے۔ تخت یا تختہ۔ (5) ”دودھ پلاتے ہوئے“ حدیث میں مذکور اس مثال میں امارت کو ماں سے تشبیہ دی گئی ہے اور حریصِ امارت کو بچے سے۔ ماں جب تک دودھ پلاتی ہے، بچہ ماں سے خوب خوش رہتا ہے اور جب وہ دودھ چھڑا دیتی ہے تو کاٹ کھانے کو دوڑتا ہے۔ اقتدار کا بھی یہی حال ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4222
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4222
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4216
تمہید کتاب
یہ کتاب بیعت کے مسائل پر مشتمل ہے۔اس سے ماقبل کتاب‘تقسیم فے کے سائل کے متعلق ہے۔ان دونوں کے مابین مناسبت یہ ہے کجہ مال فے اور مال غنیمت اس وقت تقسیم ہوگا جب اسے کوئی تقسیم کرنے والا بھی ہو۔چونکہ تقسیم کی نازک اور گرانبا ذمہ داری امام اور امیر ہی کی ہوتی ہے‘اس لیے امیر کا تعین مسلمانوں پر واجب ہے۔اور یہ بات بالکل واضح ہے کہ جب امیر کا تعین ہوگا تو لامحالہ اس کی بیعت بھی ہوگی۔لیکن مسلمانوں کا امام اور امیر ایسا شخص ہونا چاہیے جو اس حساس اور نازک ذإہ داری کا ای،ایل ہوکیونکہ مسلمانوں کے تمام امور کی انجام دہی کا انحصارامیر وخلیفہ ہی لپر ہوتا ہے‘قوم وملت کی ترقی فلاح و بہبود اوعر ملکی انتظام وانصرام کا محورومرکز اس کی ذات ہوتی ہے۔حدودوتعزیرات کی تنفیذ ملک میں قیام امن کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے اور یہ صرف خلیفہ ہی کرسکتا ہے ۔ لیکن یہ تبھی ممکن ہے جب وہ شرعی طور شرائط خلیفہ کا حامل ہو‘لہٰذا جب اس منصب کے حامل شخص کا انتخاب ہوگا تو ہر مسلمان کے لیے ضروری ہوگا کہ اس کی بیعت کرے۔یہ بیعت دراصل اس قلبی اعتماد کا ظہار ہوتی ہے جس کی بنیاد پر کسی کو امیر اور امام تسلیم کیا جاتا ہے‘زنیز یہ عہد بھی ہوتا ہے کہ اہم اس وقت تک آپ کی بات سنیں گے اور اطاعت بجالائیں گے جب تک آپ اﷲ تعالیٰ کی رضا کے متلاشی اور اس کے قرب کے حصول کے لیے مسلسل جدوجہد کرتے رہیں گے۔جب تک اﷲ کی اطاعت لپر کاربندر رہیں گےبیعت کا مفہوم ومعنی ہم بھی خلوص نیت کے ساتھ آپ کے اطاعت گزار رہیں گے۔اگر آپ نے اﷲ سے وفانہ کی تو ہم سے بھی وفا کی امید نہ رکھیں کیونکہ رسول اﷲﷺ کا فرمان:[لا طاعة لمن لم يطع الله]’’اﷲ کے نافرمان کی قطعاََ کوئی اطاعت نہیں۔‘‘(سودا) سے ماخوذہے۔بیع کرتے وقت لوگ عموماََ ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ لیتے ہیں۔بعیت(معاہدہ) بیعت دراصل ایک عہد ہوتا ہے۔اس کی اہمیت کے پیش نظر ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑا جاتا ہے تاکہ خلاف ورزی نہ ہو۔بیعت کا دستور اسلام سے پہلے کا دستور اسلام سے پہلے بھی تھا۔اسلام نے بھی اس کو قائم رکھا۔ رسول اﷲﷺ سے تین قسم کی بیعت ثابت ہے:اسلام قبول کرتے وقت بیعت‘جہاد کے وقت بیعت اور شریعت کے اوامرو نواہی کے بارے میں بیعت۔بعض اوقات آپ نے تجدید عہد کے وقت بھی بیعت لی ہے۔رسول اﷲﷺ کی وفات کے بعد خلفاء نے بیعت خلافت لی‘یعنی نئے خلیفہ کے انتخاب کے بعد اہم عہدیدار ان اور معاشرے کے اہم فراد نئے خلیفہ سے بیعت کرتے تھتے کہ ہم آپ کی خلافت کو تسلیم کرتے ہیں اور آپ کی حتی الامکان اطاعت کریں گے۔بیعت جہاد بھی قائم رہی جو عام طور پر امام کا نائب کسی بہت اہم موقع پر لیتا تھا۔بیعت اسلام(اسلام قبول کرتے وقت) اور بیعت اطاعت (شریعت کے اوا مرونواہی کی پابندی)ختم ہوگئیں۔معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ نے ان دوبیعتوں کو رسول اﷲﷺ کے ساتھ خاص سمجھا۔ اگرچہ صحابہ سے یہ بات صرا حناََ ثابت نہیں مگر ان کا عمل اس بات پر دلالت کرتا ہے‘لہٰذا بہتر ہے کہ ان دوبیعتوں (بیعت اسلام اور بیعت اطاعت)سے لپر ہیز کیا جائے۔البتہ بیعت خلافت اور بیعت جہاد مشروع اور باقی ہیں،لیکن بیعت اسلام اور بیعت اطاعت کو بھی قطعاََ ممنوع نہیں کہا جاسکتا۔بعض صوفیاء نے جو بیعت سلسلہ ایجاد کی ہے کہ جب کوئی شخص ان کا مرید بنتا ہے تو وہ اس سے بیعت لیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اب یہ ہمارے سلسلے میں داخل ہوگیا ہے‘مثلاََ:سلسلئہ چشتیہ سلسلئہ نقش بندیہ،سلسلہ قادرییہ ،سلسلئہ سہروردیہ اور پنج پیر یہ و سلسلئہ غوثیہ وغیرہ‘ تو یہ بیعت ایجاد بندہ اور خیر القرون کے بعد کی خود ساختہ چیز ہے۔اس کو ثبوت صحابہ کرام‘تالبعیں عظام‘ائمہ دین اور محد ثین وفقہاء سے نہیں ملتا ‘اس لیے اس سے پرہیز واجب ہے خصوصاََ جب کہ ایسی بیعت کرنے والابیعت کا مفہوم و معنی سمجھتا ہے کہ اب مجھ پر اس سلسلے کی تمام پابندیوں پر عمل کرنا لازم ہے‘خواہ وہ شریعت کے مطابق ہوں یا اس سے ٹکرارہی ہوں جب کہ قرآن وحدیث کی روسے انسان کسی بھی انسان کی غیر مشروط اطاعت نہیں کرسکتا بلکہ اس میں شریعت کی قید لگانا ضروری ہے‘یعنی میں تیری اطاعت کروں گا بشرطیکہ شریعت اسلامیہ کی خلاف ورشی نہ ہومگر بیعت سلاسل میں پابندی ناپید ہوتی ہے بلکہ اسے نامناسب خیال کیا جاتا ہے۔بیعت سلسلہ کو بیعت اسلام پر قطعاََ قیاس نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اسلام دین الہٰی ہے اور سلسلہ ایک انسانی حلقہ فکرو عمل۔باقی رہی بیعت اطاعت تو وہ دراصل بیعت اسلام ہی کی تجدید ہے کیونکہ اطاعت سے مراد شریعت اسلامیہ ہی کی اطاعت ہے‘لہٰذا بیعت سلسلہ کو اس پر بھی قیاس نہیں کیا جاسکتا‘نیز اس بیعت سلسلہ سے امت میں گروہ بندی اور تفریق پیدا ہوتی ہے جس سے روکا گیا ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ نبیٔ اکرم ؓ نے فرمایا: ”عنقریب تم لوگ امارت (اقتدار و سرداری) کی حرص کرو گے اور بلاشبہ یہ (قیامت کے دن) ندامت و شرمندگی اور حسرت و افسوس (کا سبب) ہو گی۔ یہ دودھ پلاتے اچھی لگتی ہے مگر دودھ چھڑاتے ہوئے بری محسوس ہوتی ہے۔“ (اس کی ابتدا اچھی معلوم ہوتی ہے لیکن انجام برا ہو گا)۔
حدیث حاشیہ:
(1) باب کے ساتھ حدیث کی مناسبت بالکل واضح ہے کہ امارت، یعنی اقتدار و سرداری کی حرص و ہوس شرعاً ناپسندیدہ اور مذموم ہے۔ (2) رسول اللہ ﷺ اپنے مذکورہ بالا فرمان سے امت کو یہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ جس کام کے انجام میں دکھ، تکلیف اور رنج و الم ہو، اسے معمولی اور زوال پذیر لذت و راحت کی خاطر ہرگز اختیار نہیں کرنا چاہیے۔ (3) اس حدیث مبارکہ سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ دنیوی لذات کے بجائے اخروی سعادت کے حصول اور آخرت کے عذاب سے خلاصی کی کوشش کرنی چاہیے کیونکہ اصل مقصدِ حیات اور کامیابی دنیا کی لذتوں کا حصول نہیں بلکہ عذاب آخرت سے بچاؤ اور جنت میں داخل ہے۔ (4) ”ندامت و شرمندگی اور حسرت و افسوس“ آخرت میں یا دنیا ہی میں کیونکہ جب اقتدار چھن جاتا ہے تو عموماً عذاب سہنا پڑتا ہے۔ تخت یا تختہ۔ (5) ”دودھ پلاتے ہوئے“ حدیث میں مذکور اس مثال میں امارت کو ماں سے تشبیہ دی گئی ہے اور حریصِ امارت کو بچے سے۔ ماں جب تک دودھ پلاتی ہے، بچہ ماں سے خوب خوش رہتا ہے اور جب وہ دودھ چھڑا دیتی ہے تو کاٹ کھانے کو دوڑتا ہے۔ اقتدار کا بھی یہی حال ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”عنقریب تم لوگ امارت و سرداری کی خواہش کرو گے لیکن وہ باعث ندامت و حسرت ہو گی، اس لیے کہ دودھ پلانے والی کتنی اچھی ہوتی ہے، اور دودھ چھڑانے والی کتنی بری ہوتی ہے.“۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : یعنی حکومت ملتے وقت وہ بھلی لگتی ہے اور جاتے وقت بری لگتی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Abu Hurairah (RA) that the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) said: "You will become keen for positions of authority, but that will become a regret and loss. What a good life they will live, but how hard it will be for them when they die.