تشریح:
(1) باب کے ساتھ حدیث کی مناسبت بالکل واضح ہے کہ امارت، یعنی اقتدار و سرداری کی حرص و ہوس شرعاً ناپسندیدہ اور مذموم ہے۔
(2) رسول اللہ ﷺ اپنے مذکورہ بالا فرمان سے امت کو یہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ جس کام کے انجام میں دکھ، تکلیف اور رنج و الم ہو، اسے معمولی اور زوال پذیر لذت و راحت کی خاطر ہرگز اختیار نہیں کرنا چاہیے۔
(3) اس حدیث مبارکہ سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ دنیوی لذات کے بجائے اخروی سعادت کے حصول اور آخرت کے عذاب سے خلاصی کی کوشش کرنی چاہیے کیونکہ اصل مقصدِ حیات اور کامیابی دنیا کی لذتوں کا حصول نہیں بلکہ عذاب آخرت سے بچاؤ اور جنت میں داخل ہے۔
(4) ”ندامت و شرمندگی اور حسرت و افسوس“ آخرت میں یا دنیا ہی میں کیونکہ جب اقتدار چھن جاتا ہے تو عموماً عذاب سہنا پڑتا ہے۔ تخت یا تختہ۔
(5) ”دودھ پلاتے ہوئے“ حدیث میں مذکور اس مثال میں امارت کو ماں سے تشبیہ دی گئی ہے اور حریصِ امارت کو بچے سے۔ ماں جب تک دودھ پلاتی ہے، بچہ ماں سے خوب خوش رہتا ہے اور جب وہ دودھ چھڑا دیتی ہے تو کاٹ کھانے کو دوڑتا ہے۔ اقتدار کا بھی یہی حال ہے۔