Sunan-nasai:
The Book of al-'Aqiqah
(Chapter: When should the 'Aqiqah be performed?)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4220.
حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: ”ہر بچہ اپنے عقیقے کے عوض گروی ہوتا ہے۔ ساتویں دن اس کی طرف سے جانور ذبح کیا جائے، سر منڈوایا جائے اور اس کا نام رکھا جائے۔“
تشریح:
(1) ”گروی ہوتا ہے“ جس طرح گروی شدہ چیز کو معاوضہ دے کر چھڑانا ضروری ہوتا ہے، اسی طرح بچے کی آزادی کے لیے عقیقہ کرنا ضروری ہے، البتہ اس بات میں اختلاف ہے کہ ”آزادی“ کا کیا مطلب ہے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ گروی شدہ بچہ اگر فوت ہوگیا تو وہ ماں باپ کی سفارش نہیں کرے گا کیونکہ گروی شدہ چیز سے مالک فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔ اسے چھڑانے کے بعد ہی فائدہ حاصل کرسکتا ہے جبکہ حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے شیطان کے چنگل سے چھڑانا مراد لیا ہے۔ (2) ”ساتویں دن“ گویا اس سے پہلے عقیقہ نہیں ہوسکتا۔ بالفرض اگر ساتویں دن عقیقہ نہ ہوسکے تو امام مالک کا خیال ہے کہ بعد میں نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اس کا وقت گزر گیا، جیسے قربانی کا وقت گزر جائے بعد میں قربانی نہیں کی جاسکتی۔ دیگر ائمہ کا خیال ہے کہ اگر ساتویں دن عقیقہ نہ ہوسکے تو اگلے ساتویں دن، یعنی چودھویں دن عقیقہ کیا جائے۔ اگر اس دن بھی عقیقہ نہ ہو سکے تو اکیسویں دن عقیقہ کیا جائے۔ اس مفہوم کی ایک مرفوع حدیث بیہقی میں آتی ہے مگر اس کا راوی ضعیف ہے۔ اسی طرح حضرت عائشہ ؓ کا قول بھی اسی مفہوم کے ساتھ مستدرک حاکم میں آتا ہے، لیکن وہ بھی انقطاع کی وجہ سے ضعیف ہے تفصیل کے لیے دیکھیے:(الإرواء، حديث:۱۱۷۰) اس لیے سنت ساتویں دن ہی ہے، تاہم اگر اس روز ممکن نہ ہوتو بعد میں کسی روز بھی کیا جاسکتا ہے۔ اس کا حکم بھی قربانی والا ہوگا، یعنی اس سے سب کھا سکتے ہیں۔ گھر والے بھی اور دوسرے بھی۔ امیر بھی اور فقیر بھی۔ (3) ”نام رکھا جائے“ ساتویں دن نام رکھنا مستحب ہے‘ البتہ ساتویں دن سے پہلے اور بعد میں بھی رکھا جاسکتا ہے۔ (4) اگر بچہ ساتویں دن سے پہلے ہی فوت ہو جائے ظاہربات یہی ہے کہ اس کا عقیقہ کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ عقیقے کے وقت تک زندہ نہیں رہا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4231
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
-1
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4225
تمہید کتاب
عقیقہ اس جانور کو کہا جاتا ہے جو بچے کی پیدائش کے ساتویں دن بچے کی طرف سے بطور شکرانہ ذبحڈ کیا جائے۔ یہ مسنون عمل ہے۔ جو صاحب استطاعت ہو، اسے ضرور عقیقہ کرنا چاہیے ورنہ بچے پر بوجھ رہتا ہے۔ استطاعت نہ ہو تو الگ بات ہے۔ اس کے مسنون ہونے پر امت متفق ہے۔ امام ابوحنیفہ عقیقے کو اچھا نہیں سمجھتے تھے۔ بلکہ وہ عقیقے کو امر جاہلیت، یعنی قبل از اسلام کی ایک رسم قرار دیتے تھے۔ اس کی وجہ شاید یہ ہو کہ عقیقے کی بابت وارد فرامینِ رسول ان کے علم میں نہ آ سکے ہوں۔ و اللہ اعلم۔
حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: ”ہر بچہ اپنے عقیقے کے عوض گروی ہوتا ہے۔ ساتویں دن اس کی طرف سے جانور ذبح کیا جائے، سر منڈوایا جائے اور اس کا نام رکھا جائے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) ”گروی ہوتا ہے“ جس طرح گروی شدہ چیز کو معاوضہ دے کر چھڑانا ضروری ہوتا ہے، اسی طرح بچے کی آزادی کے لیے عقیقہ کرنا ضروری ہے، البتہ اس بات میں اختلاف ہے کہ ”آزادی“ کا کیا مطلب ہے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ گروی شدہ بچہ اگر فوت ہوگیا تو وہ ماں باپ کی سفارش نہیں کرے گا کیونکہ گروی شدہ چیز سے مالک فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔ اسے چھڑانے کے بعد ہی فائدہ حاصل کرسکتا ہے جبکہ حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے شیطان کے چنگل سے چھڑانا مراد لیا ہے۔ (2) ”ساتویں دن“ گویا اس سے پہلے عقیقہ نہیں ہوسکتا۔ بالفرض اگر ساتویں دن عقیقہ نہ ہوسکے تو امام مالک کا خیال ہے کہ بعد میں نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اس کا وقت گزر گیا، جیسے قربانی کا وقت گزر جائے بعد میں قربانی نہیں کی جاسکتی۔ دیگر ائمہ کا خیال ہے کہ اگر ساتویں دن عقیقہ نہ ہوسکے تو اگلے ساتویں دن، یعنی چودھویں دن عقیقہ کیا جائے۔ اگر اس دن بھی عقیقہ نہ ہو سکے تو اکیسویں دن عقیقہ کیا جائے۔ اس مفہوم کی ایک مرفوع حدیث بیہقی میں آتی ہے مگر اس کا راوی ضعیف ہے۔ اسی طرح حضرت عائشہ ؓ کا قول بھی اسی مفہوم کے ساتھ مستدرک حاکم میں آتا ہے، لیکن وہ بھی انقطاع کی وجہ سے ضعیف ہے تفصیل کے لیے دیکھیے:(الإرواء، حديث:۱۱۷۰) اس لیے سنت ساتویں دن ہی ہے، تاہم اگر اس روز ممکن نہ ہوتو بعد میں کسی روز بھی کیا جاسکتا ہے۔ اس کا حکم بھی قربانی والا ہوگا، یعنی اس سے سب کھا سکتے ہیں۔ گھر والے بھی اور دوسرے بھی۔ امیر بھی اور فقیر بھی۔ (3) ”نام رکھا جائے“ ساتویں دن نام رکھنا مستحب ہے‘ البتہ ساتویں دن سے پہلے اور بعد میں بھی رکھا جاسکتا ہے۔ (4) اگر بچہ ساتویں دن سے پہلے ہی فوت ہو جائے ظاہربات یہی ہے کہ اس کا عقیقہ کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ عقیقے کے وقت تک زندہ نہیں رہا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
سمرہ بن جندب ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ہر بچہ اپنے عقیقہ کے بدلے گروی ہے۱؎ اس کی طرف سے ساتویں روز ذبح کیا جائے۲؎ ، اس کا سر مونڈا جائے، اور اس کا نام رکھا جائے.“
حدیث حاشیہ:
۱؎ : اسی حدیث سے استدلال کرتے ہوئے بعض علماء عقیقہ کے فرض ہونے کے قائل ہیں، کیونکہ اس میں بچے کے عقیقہ کے بدلے گروی باقی رہ جانے کی بات ہے، اور گروی رہنے کا مطلب علماء نے یہ بیان کیا ہے کہ جس لڑکے کا عقیقہ نہ کیا جائے اور وہ بلوغت سے پہلے مر جائے تو وہ قیامت کے دن اپنے ماں باپ کی سفارش (شفاعت) نہیں کرے گا، بعض علماء نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ جس طرح رہن رکھی ہوئی چیز کے بدلے کی ادائیگی ضروری ہے اسی طرح ذبح (عقیقہ) ضروری ہے، وغیرہ وغیرہ۔ ۲؎ : اگر ساتویں دن عقیقہ کی استطاعت نہیں ہو سکی تو چودہویں دن کرے، اور اگر اس دن میں نہ ہو سکے تو اکیسویں دن کرے، جیسا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مستدرک حاکم میں (۴/۲۳۸) صحیح سند سے مروی ہے، اگر اکیسویں دن بھی نہ ہو سکے تو جو لوگ واجب قرار دیتے ہیں ان کے نزدیک زندگی میں کسی دن بھی قضاء کرنا ہو گا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Qatadah, from Al-Hasan, from Samurh bin Jundab that the Messenger of Allah (ﷺ) said: "Every boy is in pledge for his 'Aqiqah, so slaughter (the animal) for him on the seventh day, and shave his head, and a name.