Sunan-nasai:
The Book of al-Fara' and al-'Atirah
(Chapter: There Is No Fara ' And No 'Atirah)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4225.
حضرت زید بن اسلم سے روایت ہے کہ لوگوں نے کہا: اے اﷲ کے رسول! فرع کے بارے میں کیا حکم ہے؟ آپ نے فرمایا: ”(اﷲ کے نام پر) ٹھیک ہے لیکن اگر تو اسے (ذبح کرنے کی بجائے) چھوڑ دے (بڑا ہونے دے) حتیٰ کہ وہ جوان اونٹ ہوجائے، پھر تو اسے اﷲ تعالیٰ کے راستے میں کسی کو سواری کے لیے دے یا کسی بیوہ کو دے دے تو یہ بہتر ہے اس سے کہ تو اسے (پیدا ہوتے ہی) ذبح کرڈالے جبکہ اس کا گوشت اس کے بالوں ہی سے لگا ہو، اور تو اپنے (دودھ کے) برتن کو اوندھا کردے اور اپنی اونٹنی (اس کی ماں) کو بلاوجہ پریشان کرے۔“ لوگوں نے پوچھا: اے اﷲ کے رسول! عتیرہ؟ آپ نے فرمایا: ”عتیرہ بھی حق ہے۔ (وہ بھی ٹھیک ہے)۔“ ابو عبدالرحمن (امام نسائی ؓ) نے فرمایا: (راوی حدیث) ابو علی حنفی (اور اس کے بھائی) وہ چار ہیں۔ ان میں سے ایک ابوبکر ہے، ایک بشر ہے اور ایک شریک ہے، نیز ایک اور ہے (اس کا نام عمیرہے)۔
تشریح:
(1) آپ کا مقصود یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے نام پر ذبح کرنا تو ٹھیک ہے مگر وہ کام کرنا چاہیے جس کے کرنے سے زیادہ فائدہ ہو۔ لوگ بچہ پیدا ہوتے ہی اسے ذبح کردیتے لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا تھا۔ گوشت صرف چھیچھڑوں کی صورت میں ہوتا تھا جو کھانے کے قابل بھی نہیں ہوتا تھا۔ اور اس قدر قلیل کہ گوشت پوست میں امتیاز مشکل سے ہوتا تھا۔ اونٹنی غم کی وجہ سے دودھ سے بھی جواب دے دیتی تھی۔ گویا کسی کو بھی فائدہ نہ ہوا۔ الٹا گھر کا نقصان ہوگا، لہٰذا بہتر یہ ہے کہ اسے بڑا ہونے دیا جائے حتیٰ کہ جب وہ سواری کے قابل ہوجائے تو پھر جہاد فی سبیل اﷲ میں سواری کے لیے دیا جائے، کسی بیوہ کودے دیا جائے یا وہ جانور کسی محتاج ومسکین کو دے دیا جائے تاکہ وہ اس سے فائدہ اٹھائے۔ (2) فرع، یعنی جانور کا پہلا بچہ پیدا ہونے یا سو جانور پورے ہونے پر جانور ذبح کرنا، درست ہے۔ اسلام سے پہلے اس قسم کا جانور بتوں اور معبودانِ باطلہ کی خوشنودی حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا اور انھی کی خاطر ذبح کیا جاتا، لیکن اسلام میں اس تصور کو جڑے اکھیڑ دیا گیا۔ غیر اﷲ کے لیے جانور ذبح کرنا حرام قرار دیا گیا جبکہ اﷲ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لیے بطور صدقہ جانور ذبح کرنا مستحب ٹھہرایا گیا۔ یہ اب بھی مستحب اور حصول ثواب و دفع مصیبت کا بہترین ذریعہ ہے۔ واللہ أعلم (3) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ صدقہ کرنا صرف یہ نہیں کہ جانور ذبح کرکے اس کا گوشت لوگوں کو کھلا دیا جائے بلکہ فی سبیل اﷲ کا مفہوم بہت وسیع ہے اور اس میں بہت سی بہتر صورتیں موجود ہیں جو صدقہ کرنے والے کے لیے کہیں زیادہ اجر وثواب کا سبب ہیں۔ (4) جانوروں کے نو زائدہ بچوں کو ذبح کرنا یا ان کی ماؤں سے جدا کرنا قطعاََ پسندیدہ نہیں۔ ایک تو اس لیے کہ اس سے ماں کو تکلیف پہنچتی ہے اور وہ بے چین وبے قرار ہوتی ہے اور دوسرا اس لیے بھی کہ ایسا کرنے سے اس بچے کی ماں کا دودھ بھی کم ہو جاتا ہے۔
الحکم التفصیلی:
قلت : وهذا موصول لولا أن فيه الرجل الذي لم يسمه . الثاني : عن نبيشة الهذلي قال : ( قالوا : يا رسول الله إنا كنا نعتر عتيرة في الجاهلية فما تأمرنا ؟ قال : اذبحوا لله عزوجل في أي شهر ما كان وبروا الله تبارك وتعالى وأطعموا قالوا : يا رسول الله انا كنا نفرع في الجاهلية فرعا فما تأمرنا ؟ قال : في كل سائمة فرع تغذوه ماشيتك حتى إذا استحمل ذبحته فتصدقت بلحمه - قال خالد : أراه قال : على ابن السبيل - فإن ذلك هو خير ) . أخرجه أبو داود ( 2830 ) والنسائي ( 2 / 190 ) وابن ماجه ( 3167 ) والطحاوي في ( مشكل الاثار ) ( 1 / 465 ) والحاكم ( 4 / 235 ) والبيهقي ( 9 / 311 - 312 ) وأحمد ( 5 / 75 و 76 ) من طرق عن خالد الحذاء عن أبي المليح بن أسامة عنه . غير أن أبا داود أدخل بينهما أبا قلابة . وكلاهما صحيح إن شاء الله تعالى . فقد قال شعبة : عن خالد عن أبي قلابة عن أبي المليح . قال خالد : وأحسبني قد سمعته عن أبى المليح . وفي رراية : فلقيت أبا المليح فسألته فحدثني . . . أخرجه أحمد ( 5 / 76 ) . والنسائي بالرواية الاخرى . وقال الحاكم : ( صحيح الاسناد ) . ووافقه الذهبي . قلت : وهو قصور منهما فإنه صحيح على شرط الشيخين . وأخرجه الطبراني في ( الاوسط ) ( 1 / 128 / 2 ) عن معاوية بن واهب بن سوار ثنا عمي أنيس عن أيوب عن أبي قلابة عن أنس قال : قلت : فذكره دون قصة الفرع وقال : ( تفرد به معاوية بن واهب ) . قلت : ولم أعرفه . وهو عن أنس منكر الاسناد . الثالث : عن عائشة قالت :
( أمرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم في فرعة من الغنم من الخمسة واحدة ) . هكذا أخرجه أحمد ( 6 / 82 ) عن وهيب وأبو يعلى ( 15 / 1 ) عن يحيى ابن سليم والحاكم ( 4 / 235 - 236 ) عن حجاج بن محمد : ثنا ابن جريج ثلاثتهم عن ابن خيثم عن يوسف بن ماهك عن حفصة بنت عبد الرحمن عنها . وقال الحاكم : ( صحيح الاسناد ) . ووافقه الذهبي . قلت : وهو كما قالا لكن اضطرب في متنه فرواه من ذكرنا هكذا بلفظ : ( الخمسة ) . ورواه عبد الرزاق انبأ ابن جريج به بلفظ : ( خمسين ) . أخرجه البيهقى ( 9 / 312 ) وقال : ( كذا في كتابي وفي رواية حجاج بن محمد وغيره عن ابن جريج : في كل خمس واحدة . ورواه حماد بن سلمة عن عبد الله بن عثمان بن خيثم قال : من كل خمسين شاة شاة ) . قلت : ثم ساقه من طريق أبي داود وقد أخرجه هذا في سننه ( رقم 2833 ) : حدثنا موسى بن إسماعيل : ثنا حماد عن عبد الله بن عثمان بن خيثم به قلت : ولعل هذا اللفظ ( خمسين ) هو الارجح لانه يبعد جدا أن يكون في الزكاة من كل أربعين شاة وفي الفرع من كل خمس شاة . فتأمل . هذا وقد أفادت هذه الاحاديث مشروعية الفرع وهو الذبح أول النتاج ى :
أن يكون لله تعالى ومشروعية الذبح في رجب وغيره بدون تمييز وتخصيص لرجب على ما سواه من الاشهر فلا تعارض بينها وبين الحديث المتقدم ( لا فرع ولا عتيرة ) لانه إنما أبطل صلى الله عليه وسلم به الفرع الذي كان أهل الجاهلية لاصنامهم والعتيرة وهى الذبيحة التى يخصون بها رجبا . والله أعلم
الارواه 1181
حضرت زید بن اسلم سے روایت ہے کہ لوگوں نے کہا: اے اﷲ کے رسول! فرع کے بارے میں کیا حکم ہے؟ آپ نے فرمایا: ”(اﷲ کے نام پر) ٹھیک ہے لیکن اگر تو اسے (ذبح کرنے کی بجائے) چھوڑ دے (بڑا ہونے دے) حتیٰ کہ وہ جوان اونٹ ہوجائے، پھر تو اسے اﷲ تعالیٰ کے راستے میں کسی کو سواری کے لیے دے یا کسی بیوہ کو دے دے تو یہ بہتر ہے اس سے کہ تو اسے (پیدا ہوتے ہی) ذبح کرڈالے جبکہ اس کا گوشت اس کے بالوں ہی سے لگا ہو، اور تو اپنے (دودھ کے) برتن کو اوندھا کردے اور اپنی اونٹنی (اس کی ماں) کو بلاوجہ پریشان کرے۔“ لوگوں نے پوچھا: اے اﷲ کے رسول! عتیرہ؟ آپ نے فرمایا: ”عتیرہ بھی حق ہے۔ (وہ بھی ٹھیک ہے)۔“ ابو عبدالرحمن (امام نسائی ؓ) نے فرمایا: (راوی حدیث) ابو علی حنفی (اور اس کے بھائی) وہ چار ہیں۔ ان میں سے ایک ابوبکر ہے، ایک بشر ہے اور ایک شریک ہے، نیز ایک اور ہے (اس کا نام عمیرہے)۔
حدیث حاشیہ:
(1) آپ کا مقصود یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے نام پر ذبح کرنا تو ٹھیک ہے مگر وہ کام کرنا چاہیے جس کے کرنے سے زیادہ فائدہ ہو۔ لوگ بچہ پیدا ہوتے ہی اسے ذبح کردیتے لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا تھا۔ گوشت صرف چھیچھڑوں کی صورت میں ہوتا تھا جو کھانے کے قابل بھی نہیں ہوتا تھا۔ اور اس قدر قلیل کہ گوشت پوست میں امتیاز مشکل سے ہوتا تھا۔ اونٹنی غم کی وجہ سے دودھ سے بھی جواب دے دیتی تھی۔ گویا کسی کو بھی فائدہ نہ ہوا۔ الٹا گھر کا نقصان ہوگا، لہٰذا بہتر یہ ہے کہ اسے بڑا ہونے دیا جائے حتیٰ کہ جب وہ سواری کے قابل ہوجائے تو پھر جہاد فی سبیل اﷲ میں سواری کے لیے دیا جائے، کسی بیوہ کودے دیا جائے یا وہ جانور کسی محتاج ومسکین کو دے دیا جائے تاکہ وہ اس سے فائدہ اٹھائے۔ (2) فرع، یعنی جانور کا پہلا بچہ پیدا ہونے یا سو جانور پورے ہونے پر جانور ذبح کرنا، درست ہے۔ اسلام سے پہلے اس قسم کا جانور بتوں اور معبودانِ باطلہ کی خوشنودی حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا اور انھی کی خاطر ذبح کیا جاتا، لیکن اسلام میں اس تصور کو جڑے اکھیڑ دیا گیا۔ غیر اﷲ کے لیے جانور ذبح کرنا حرام قرار دیا گیا جبکہ اﷲ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لیے بطور صدقہ جانور ذبح کرنا مستحب ٹھہرایا گیا۔ یہ اب بھی مستحب اور حصول ثواب و دفع مصیبت کا بہترین ذریعہ ہے۔ واللہ أعلم (3) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ صدقہ کرنا صرف یہ نہیں کہ جانور ذبح کرکے اس کا گوشت لوگوں کو کھلا دیا جائے بلکہ فی سبیل اﷲ کا مفہوم بہت وسیع ہے اور اس میں بہت سی بہتر صورتیں موجود ہیں جو صدقہ کرنے والے کے لیے کہیں زیادہ اجر وثواب کا سبب ہیں۔ (4) جانوروں کے نو زائدہ بچوں کو ذبح کرنا یا ان کی ماؤں سے جدا کرنا قطعاََ پسندیدہ نہیں۔ ایک تو اس لیے کہ اس سے ماں کو تکلیف پہنچتی ہے اور وہ بے چین وبے قرار ہوتی ہے اور دوسرا اس لیے بھی کہ ایسا کرنے سے اس بچے کی ماں کا دودھ بھی کم ہو جاتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
محمد بن عبداللہ بن عمرو اور زید بن اسلم سے روایت ہے لوگوں (صحابہ) نے عرض کیا: اللہ کے رسول! فرع کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”حق ہے، البتہ اگر تم اسے چھوڑ دو یہاں تک کہ وہ جوان ہو جائے اور تم اسے اللہ کی راہ میں دو، یا اسے کسی مسکین، بیوہ کو دے دو تو یہ بہتر ہے اس بات سے کہ تم اسے (بچہ کی شکل میں) ذبح کرو اور (اس کے کاٹے جانے کی وجہ سے) اس کا گوشت چمڑے سے لگ جائے۔“ (یعنی دبلی ہو جائے گی) پھر تم اپنا برتن اوندھا کر کے رکھو گے (کہ وہ دودھ دینے کے لائق ہی نہ ہو گی) اور تمہاری اونٹنی تکلیف میں رہے گی۔“ لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اور عتیرہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”عتیرہ بھی حق ہے۔“۱؎ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں: ابوعلی حنفی چار بھائی ہیں: ابوبکر، بشر، شریک اور ایک اور ہیں۔
حدیث حاشیہ:
۱؎ : یعنی باطل اور حرام نہیں ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
'Amr bin Shu'aib bin Muhammad bin 'Abdullah bin 'Amr (narrated) that his father and Zaid bin Aslam said: "O Messenger of Allah! (What about) the Fara'?" He said: "It is a duty, but if you leave it (the animal) until it becomes half-grown and you load upon it (in Jihad) in the cause of Allah or give it to a widow, that is better than if you slaughter it (when it is just born) and its flesh is difficult to separate from its skin, then you turn your vessel upside down (because you will no longer be able to get milk from the mother) and you cause your she-camel to grieve (at the loss of its young)." They said: "O Messenger of Allah, (what about) the 'Atirah?" He said: "The 'Atirah is a duty." (Hasan) Abu 'Abdur-Rahman (An-Nasa'i) said: Abu 'Ali Al-Hanafi (one of the narrators); they are four brothers: One of them is Abu Bakr, and Bishr, and Sharik, and the other.