باب: وہ جانور کھانا حرام ہے جس پر بسم اللہ نہ پڑھی گئی ہو
)
Sunan-nasai:
The Book of Hunting and Slaughtering
(Chapter: The Prohibition Of Eating That Over Which The Name Of Allah Has Not Been mentioned)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4264.
حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے معراض تیر کے شکار کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا: ”جو جانور تو تیر کی نوک سے شکار کرے، وہ تو کھا لے اور جو جانور اس کے پہلو سے شکار کرے (وہ نہ کھا کیونکہ) وہ چوٹ سے مرا ہے۔“ میں نے آپ سے کتے (کے شکار) کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا: ”جب تو اپنا کتا چھوڑے اور وہ جانور کو جا پکڑے لیکن خود نہ کھائے تو تو اسے کھا سکتا ہے کیونکہ کتے کا پکڑنا بھی ذبح ہی ہے۔ اور اگر تیرے کتے کے ساتھ کوئی اور کتا مل جائے اور تجھے خطرہ ہو کہ شاید اس کے ساتھ اس نے بھی پکڑا ہے اور مار دیا ہے تو تو نہ کھا کیونکہ تو نے اپنے کتے کو چھوڑتے وقت بسم اللہ پڑھی ہے، دوسرے کتے پر نہیں۔“
تشریح:
معراض ایک خاص قسم کا تیر ہوتا تھا جس کے نہ تو پر ہوتے تھے نہ نوک۔ بس ایک چھڑی سمجھ لیجیے۔ اس کی چوٹ سے شکار مر جاتا تھا جبکہ تیر کے شکار میں ضروری ہے کہ تیر کی نوک لگے تاکہ جانور خون نکل کر ختم ہو۔ اگر تیر بسم اللہ پڑھ کر چھوڑا گیا ہو تو خون نکل کر ختم ہونے کی وجہ سے یہ ذبح کے قائم مقام ہے، لہٰذا اس کا کھانا جائز ہے، البتہ چوٹ لگے تو پھر ذبح شرط ہے ورنہ وہ جانور حرام ہو گا۔ بندوق سے کیے گئے شکار کا بھی یہی حکم ہے۔
حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے معراض تیر کے شکار کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا: ”جو جانور تو تیر کی نوک سے شکار کرے، وہ تو کھا لے اور جو جانور اس کے پہلو سے شکار کرے (وہ نہ کھا کیونکہ) وہ چوٹ سے مرا ہے۔“ میں نے آپ سے کتے (کے شکار) کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا: ”جب تو اپنا کتا چھوڑے اور وہ جانور کو جا پکڑے لیکن خود نہ کھائے تو تو اسے کھا سکتا ہے کیونکہ کتے کا پکڑنا بھی ذبح ہی ہے۔ اور اگر تیرے کتے کے ساتھ کوئی اور کتا مل جائے اور تجھے خطرہ ہو کہ شاید اس کے ساتھ اس نے بھی پکڑا ہے اور مار دیا ہے تو تو نہ کھا کیونکہ تو نے اپنے کتے کو چھوڑتے وقت بسم اللہ پڑھی ہے، دوسرے کتے پر نہیں۔“
حدیث حاشیہ:
معراض ایک خاص قسم کا تیر ہوتا تھا جس کے نہ تو پر ہوتے تھے نہ نوک۔ بس ایک چھڑی سمجھ لیجیے۔ اس کی چوٹ سے شکار مر جاتا تھا جبکہ تیر کے شکار میں ضروری ہے کہ تیر کی نوک لگے تاکہ جانور خون نکل کر ختم ہو۔ اگر تیر بسم اللہ پڑھ کر چھوڑا گیا ہو تو خون نکل کر ختم ہونے کی وجہ سے یہ ذبح کے قائم مقام ہے، لہٰذا اس کا کھانا جائز ہے، البتہ چوٹ لگے تو پھر ذبح شرط ہے ورنہ وہ جانور حرام ہو گا۔ بندوق سے کیے گئے شکار کا بھی یہی حکم ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عدی بن حاتم ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے «معراض» (بے پر کے تیر) کے شکار کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا: ”اگر اسے نوک لگی ہو تو کھاؤ اور اگر اسے آڑی لگی ہو تو وہ «موقوذہ» ہے“۱؎ میں نے آپ سے کتے کے (شکار کے) بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا: ”جب تم (شکار پر) کتا دوڑاؤ پھر وہ اسے پکڑے اور اس میں سے کھایا نہ ہو تو تم اسے کھاؤ اس لیے کہ اس کا پکڑ لینا ہی گویا شکار کو ذبح کرنا ہے۔ لیکن اگر تمہارے کتے کے ساتھ کوئی اور کتا ہو اور تمہیں اندیشہ ہو کہ تمہارے کتے کے ساتھ دوسرے کتے نے بھی پکڑا ہو اور وہ شکار مر گیا ہو تو مت کھاؤ۔ اس لیے کہ تم نے بسم اللہ صرف اپنے کتے پر پڑھی تھی دوسرے کتے پہ نہیں۔
حدیث حاشیہ:
1؎ : یعنی جو شکار کسی بھاری چیز سے مارا گیا ہو جیسے لاٹھی یا پتھر وغیرہ سے، یا کوئی جانور چھت وغیرہ سے گر کر مر جائے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that `Adiyy bin Abi Hatim said: "I asked the Messenger of Allah (ﷺ) about hunting with a Mi`rad. He said: 'If you strike (the game) with its sharp point, then eat, but if you strike it with its broad side, then the animal has been killed with a blow.' I asked him about dogs and he said: 'If you release your dog and he catches (the game) but does not eat it, then eat, because his catching it is its slaughter. If you find another dog with your dog and you fear that it caught (the game) with him and killed it, then do not eat, for you said the name of Allah over your dog, but you did not say His name over the other one.