Sunan-nasai:
The Book of Hunting and Slaughtering
(Chapter: The Kind of Dogs Which Are To Be Killed)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4280.
حضرت عبداللہ بن مغفل ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”اگر یہ بات نہ ہوتی کہ کتے بھی ایک مخلوق ہیں تو میں ان سب کے قتل کا حکم دیتا۔ اب تم خالص سیاہ کتے کو قتل کرو۔ جو لوگ بھی ایسا کتا رکھیں جو نہ تو کھیتی یا جانوروں کی حفاظت کے لیے ہو اور نہ شکار کے لیے تو ان کی نیکیوں سے ہر روز ایک قیراط کی کمی ہوتی رہے گی۔
تشریح:
(1) کھيتي اور جانوروں کي حفاظت کے ليے اور شکار کرنے کي خاطر کتا رکھا جا سکتا ہے۔ اس صورت ميں انسان گناہ گار نہيں ہوگا۔ اسي طرح اشد ضرورت کي بنا پر گھر کي رکھوالي کے ليے بھي اس کي اجازت ہو سکتي ہے جس نے مذکورہ صورتوں کے علاوہ کتا رکھا تو وہ شخص بہت گناہ گار ہوگا اور نہايت خسارے ميں ہے اس ليے کہ بلا ضرورت کتا رکھنے والے شخص کے نيک اعمال ميں سے روزانہ ايک قيراط وزن کم کرديا جاتا ہےذرا سوچيے کہ يہ کس قدر عظيم نقصان ہے۔ (2) انسان کو نيک اعمال کرکےان کي حفاظت کرتے رہنا چاہيے‘ اور ايسے برے اعمال سے گريز کرنا چاہيے جنکي وجہ سے نيک اعمال کي بربادي لازم آتي ہو۔ دوسرے لفظوں ميں ہم يہ کہہ سکتے ہيں کہ زيادہ سے زيادہ نيک اعمال کرنے اور برے اعمال سے بچنے کي ترغيب بھي اس حديث ميں معلوم ہوتي ہے۔ (3) اس حديث ميں اللہ تعالیٰ کے اس عظيم لطف و کرم کي طرف بھي اشارہ ہے جو وہ اپني معزز مخلوق انسان پر فرماتا ہے‘ يعني جس چيز سے لوگوں کو کسي قسم کا فائدہ ہو سکتا ہے اسے ان کے ليے مباح اور جائز فرما دينا. سبحان الله و بحمده، سبحان الله العظيم. (4) اس سے يہ بھي معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ نے اپني امت کے ليے ان کي معاش و معاد کے تمام امور، جن کے وہ محتاج اور ضرورت مند تھے، بيان فرما ديے۔ (5) اس حديث مبارکہ سے يہ اصول اور قاعدہ معلوم ہوا کہ نفع نقصان دونوں کي حامل چيز ميں اگر مصلحت راجح ہو تو اسے ترجيح حاصل ہوگي، يعني مصلحتِ راجحہ کا لحاظ رکھا جائے گا۔ تفصيل اس اجمال کي يہ ہے کہ کتے ميں نفع و نقصان کي دونوں صفات پائي جاتي ہيں۔ عام طور پر اس ميں نقصان و فساد والي صفت کا غلبہ ہوتا ہے، اس ليے کتا رکھنے سے احتراز کا حکم ديا گيا ہے، تا ہم جہاں اس سے لوگوں کو فائدہ پہنچنا راجح تھا، وہاں عام حکم سے استشنا فرما ديا گيا۔ واللہ أعلم (6) ”ايک مخلوق“ عربي میں أمة من الأمم يعني امتوں ميں سے ايک امت، کے الفاظ ہيں اللہ تعالي نے کسي مخلوق کو بے فائدہ نہيں بنايا، خواہ وقتي طور پر کسي کے ليے نقصان دہ ثانت ہو مگر مجموعي طور پر ہر مخلوق انسان کے ليے بلا واسطہ بالواسطہ مفيد ہے، مثلاََ: کتے حفاظت کا کام ديتے ہيں۔ شکار بھي کرتے ہيں۔ بعض ايسے مقامات ہوتے ہيں جہاں کتوں کے علاوہ شکار کيا ہي نہيں جا سکتا۔ اور بھي بہت سے فوائد ہيں جن کو اللہ تعالیٰ ہي جانتا ہے جو خالق و رازق ہے، اس ليے کسي بھي مخلوق کو مکمل طور پر ختم کر دينا حکمت الہٰيہ کے منافي ہے، نيز يہ انساني بقا کے بھي خلاف ہے، لہٰذا صرف موذي کو ختم کيا جائے، مثلاََ: باؤلا کتا، بہت کاٹنے والا کتا يا آوارہ اور فالتو کتا وغيرہ۔ (7) ”خالص سياہ کتا“ يہ بہت ڈراؤنا ہوتا ہے۔ ايک حديث ميں يوں بيان کيا گيا ہے کہ”کالا کتا شيطان ہے۔“ جس طرح برے اور شرارتي انسان کو شيطان کہہ ديا جاتا ہے، اسي طرح ڈراؤنے اور موذي کتے کو بھي شيطان کہا جا سکتا ہے۔ شيطان کسي کا نام نہيں بلکہ يہ وصف ہے۔ جس ميں بھي پايا جائے، وہ شيطان ہے۔ (8) ”ايک قيراط“ ايک قيراط سے مراد کيا ہے؟ اس ميں تفصيل ہے اور وہ اس طرح کہ قيراط کا اطلاق دو طرح کے وزن پر ہوتا تھا۔ ايک انتہائي معمولي وزن پر اور دوسرے انتہائي غير معمولي وزن پر۔ معمولي وزن پر اس طرح کہ ايک دينار بيس قيراط کا ہوتا ہے، اور دينار ساڑھے چار ماشے، يعني ۴.۳۷۴ گرام کا ہوتا ہے. گويا ايک قيراط کا وزن تقربياََ ۲۲۰ ملي گرام بنتا ہے۔ دوسري قسم کا قيراط وہ ہے جسے رسول اللہ ﷺ نے احد پہاڑ کے برابر قرار ديا ہے۔ اس کي مقدار کو اللہ تعالیٰ ہي جانتا ہے۔ يہاں اس حديث ميں قيراط سے مراد کون سا قيراط ہے؟ تو اس کي بابت اہل علم کي آراء مختلف ہيں۔ بعض اہل علم نے اس معمولي وزن مراد ليا ہے جبکہ بعض نے غير معمولي وزن۔ ہمارا رجحان پہلي رائے کي طرف ہے۔ اس کي ايک وجہ تو يہ ہے کہ شريعت مطہرہ کا مزاج نرمي کرنا ہے، سختي اور شدت نہيں اور نرمي پہلي صورت ميں ہے نہ کہ دوسري ميں۔ دوسري وجہ يہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مطلقاََ قيراط فرمايا ہے، کسي قسم کا تعين نہيں کيا، يہ تو معلوم بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم اور اس کي رحمت، اس کے غصے اور سزا سے کہيں زيادہ وسيع ہے، اس ليے سزا ميں تخفيقف اور فضل ميں تکثير والے ضابطے کي بنياد پر بھي يہي بات راجح معلوم ہوتي ہے کہ قيراط سے مراد پہلي صورت ہوگی اور يہي ارحم الراحمين کے فضل و کرم اور اس کي رحمت و مہرباني کا تقاضا ہے ﴿وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ﴾ (الأعراف:۱۵۶/۷) اس سب کچھ کے باوجود حتمي اور يقيني طور پر صرف ايک بات کہي جا سکتي ہے کہ اللہ ہي کے علم ميں ہے کہ اس حديث ميں قيراط سے مراد کونسا قيراط ہے؟ بہر حال ايک مومن شخص کو اس سے بھي بچنا چاہيے کہ وہ کسي ايسے کام کا مرتکب ہو کہ جس کي وجہ سے اس کے نيک اعمال ميں سے ذرہ بھر کمي کر دي جائے۔أعاذنا الله منه (9) ”کمي ہوتي رہے گي“ يعني ہر روز کي ہوئی نيکيوں ميں سے اتني مقدار ضائع ہوتي رہے گي کيونکہ ضرورت کے بغير کتا گھر والوں کے ليے بھي نقصان دہ ہے اور گزرنے والوں کے ليے بھي؟ مزيد برآں يہ کہ کتے ميں باؤلا ہونے کے امکانات بھي ہوتے ہيں۔ ايسي صورت ميں وہ لوگوں کے ليے خوف ناک اذيت اور موت کا سبب بھي بنے گا۔ بہر حال بے فائدہ کتا رکھنے والے کے ليے يہ حديث بہت بڑي و عيد ہے۔
حضرت عبداللہ بن مغفل ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”اگر یہ بات نہ ہوتی کہ کتے بھی ایک مخلوق ہیں تو میں ان سب کے قتل کا حکم دیتا۔ اب تم خالص سیاہ کتے کو قتل کرو۔ جو لوگ بھی ایسا کتا رکھیں جو نہ تو کھیتی یا جانوروں کی حفاظت کے لیے ہو اور نہ شکار کے لیے تو ان کی نیکیوں سے ہر روز ایک قیراط کی کمی ہوتی رہے گی۔
حدیث حاشیہ:
(1) کھيتي اور جانوروں کي حفاظت کے ليے اور شکار کرنے کي خاطر کتا رکھا جا سکتا ہے۔ اس صورت ميں انسان گناہ گار نہيں ہوگا۔ اسي طرح اشد ضرورت کي بنا پر گھر کي رکھوالي کے ليے بھي اس کي اجازت ہو سکتي ہے جس نے مذکورہ صورتوں کے علاوہ کتا رکھا تو وہ شخص بہت گناہ گار ہوگا اور نہايت خسارے ميں ہے اس ليے کہ بلا ضرورت کتا رکھنے والے شخص کے نيک اعمال ميں سے روزانہ ايک قيراط وزن کم کرديا جاتا ہےذرا سوچيے کہ يہ کس قدر عظيم نقصان ہے۔ (2) انسان کو نيک اعمال کرکےان کي حفاظت کرتے رہنا چاہيے‘ اور ايسے برے اعمال سے گريز کرنا چاہيے جنکي وجہ سے نيک اعمال کي بربادي لازم آتي ہو۔ دوسرے لفظوں ميں ہم يہ کہہ سکتے ہيں کہ زيادہ سے زيادہ نيک اعمال کرنے اور برے اعمال سے بچنے کي ترغيب بھي اس حديث ميں معلوم ہوتي ہے۔ (3) اس حديث ميں اللہ تعالیٰ کے اس عظيم لطف و کرم کي طرف بھي اشارہ ہے جو وہ اپني معزز مخلوق انسان پر فرماتا ہے‘ يعني جس چيز سے لوگوں کو کسي قسم کا فائدہ ہو سکتا ہے اسے ان کے ليے مباح اور جائز فرما دينا. سبحان الله و بحمده، سبحان الله العظيم. (4) اس سے يہ بھي معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ نے اپني امت کے ليے ان کي معاش و معاد کے تمام امور، جن کے وہ محتاج اور ضرورت مند تھے، بيان فرما ديے۔ (5) اس حديث مبارکہ سے يہ اصول اور قاعدہ معلوم ہوا کہ نفع نقصان دونوں کي حامل چيز ميں اگر مصلحت راجح ہو تو اسے ترجيح حاصل ہوگي، يعني مصلحتِ راجحہ کا لحاظ رکھا جائے گا۔ تفصيل اس اجمال کي يہ ہے کہ کتے ميں نفع و نقصان کي دونوں صفات پائي جاتي ہيں۔ عام طور پر اس ميں نقصان و فساد والي صفت کا غلبہ ہوتا ہے، اس ليے کتا رکھنے سے احتراز کا حکم ديا گيا ہے، تا ہم جہاں اس سے لوگوں کو فائدہ پہنچنا راجح تھا، وہاں عام حکم سے استشنا فرما ديا گيا۔ واللہ أعلم (6) ”ايک مخلوق“ عربي میں أمة من الأمم يعني امتوں ميں سے ايک امت، کے الفاظ ہيں اللہ تعالي نے کسي مخلوق کو بے فائدہ نہيں بنايا، خواہ وقتي طور پر کسي کے ليے نقصان دہ ثانت ہو مگر مجموعي طور پر ہر مخلوق انسان کے ليے بلا واسطہ بالواسطہ مفيد ہے، مثلاََ: کتے حفاظت کا کام ديتے ہيں۔ شکار بھي کرتے ہيں۔ بعض ايسے مقامات ہوتے ہيں جہاں کتوں کے علاوہ شکار کيا ہي نہيں جا سکتا۔ اور بھي بہت سے فوائد ہيں جن کو اللہ تعالیٰ ہي جانتا ہے جو خالق و رازق ہے، اس ليے کسي بھي مخلوق کو مکمل طور پر ختم کر دينا حکمت الہٰيہ کے منافي ہے، نيز يہ انساني بقا کے بھي خلاف ہے، لہٰذا صرف موذي کو ختم کيا جائے، مثلاََ: باؤلا کتا، بہت کاٹنے والا کتا يا آوارہ اور فالتو کتا وغيرہ۔ (7) ”خالص سياہ کتا“ يہ بہت ڈراؤنا ہوتا ہے۔ ايک حديث ميں يوں بيان کيا گيا ہے کہ”کالا کتا شيطان ہے۔“ جس طرح برے اور شرارتي انسان کو شيطان کہہ ديا جاتا ہے، اسي طرح ڈراؤنے اور موذي کتے کو بھي شيطان کہا جا سکتا ہے۔ شيطان کسي کا نام نہيں بلکہ يہ وصف ہے۔ جس ميں بھي پايا جائے، وہ شيطان ہے۔ (8) ”ايک قيراط“ ايک قيراط سے مراد کيا ہے؟ اس ميں تفصيل ہے اور وہ اس طرح کہ قيراط کا اطلاق دو طرح کے وزن پر ہوتا تھا۔ ايک انتہائي معمولي وزن پر اور دوسرے انتہائي غير معمولي وزن پر۔ معمولي وزن پر اس طرح کہ ايک دينار بيس قيراط کا ہوتا ہے، اور دينار ساڑھے چار ماشے، يعني ۴.۳۷۴ گرام کا ہوتا ہے. گويا ايک قيراط کا وزن تقربياََ ۲۲۰ ملي گرام بنتا ہے۔ دوسري قسم کا قيراط وہ ہے جسے رسول اللہ ﷺ نے احد پہاڑ کے برابر قرار ديا ہے۔ اس کي مقدار کو اللہ تعالیٰ ہي جانتا ہے۔ يہاں اس حديث ميں قيراط سے مراد کون سا قيراط ہے؟ تو اس کي بابت اہل علم کي آراء مختلف ہيں۔ بعض اہل علم نے اس معمولي وزن مراد ليا ہے جبکہ بعض نے غير معمولي وزن۔ ہمارا رجحان پہلي رائے کي طرف ہے۔ اس کي ايک وجہ تو يہ ہے کہ شريعت مطہرہ کا مزاج نرمي کرنا ہے، سختي اور شدت نہيں اور نرمي پہلي صورت ميں ہے نہ کہ دوسري ميں۔ دوسري وجہ يہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مطلقاََ قيراط فرمايا ہے، کسي قسم کا تعين نہيں کيا، يہ تو معلوم بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم اور اس کي رحمت، اس کے غصے اور سزا سے کہيں زيادہ وسيع ہے، اس ليے سزا ميں تخفيقف اور فضل ميں تکثير والے ضابطے کي بنياد پر بھي يہي بات راجح معلوم ہوتي ہے کہ قيراط سے مراد پہلي صورت ہوگی اور يہي ارحم الراحمين کے فضل و کرم اور اس کي رحمت و مہرباني کا تقاضا ہے ﴿وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ﴾ (الأعراف:۱۵۶/۷) اس سب کچھ کے باوجود حتمي اور يقيني طور پر صرف ايک بات کہي جا سکتي ہے کہ اللہ ہي کے علم ميں ہے کہ اس حديث ميں قيراط سے مراد کونسا قيراط ہے؟ بہر حال ايک مومن شخص کو اس سے بھي بچنا چاہيے کہ وہ کسي ايسے کام کا مرتکب ہو کہ جس کي وجہ سے اس کے نيک اعمال ميں سے ذرہ بھر کمي کر دي جائے۔أعاذنا الله منه (9) ”کمي ہوتي رہے گي“ يعني ہر روز کي ہوئی نيکيوں ميں سے اتني مقدار ضائع ہوتي رہے گي کيونکہ ضرورت کے بغير کتا گھر والوں کے ليے بھي نقصان دہ ہے اور گزرنے والوں کے ليے بھي؟ مزيد برآں يہ کہ کتے ميں باؤلا ہونے کے امکانات بھي ہوتے ہيں۔ ايسي صورت ميں وہ لوگوں کے ليے خوف ناک اذيت اور موت کا سبب بھي بنے گا۔ بہر حال بے فائدہ کتا رکھنے والے کے ليے يہ حديث بہت بڑي و عيد ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن مغفل ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اگر یہ بات نہ ہوتی کہ کتے بھی امتوں (مخلوقات) میں سے ایک امت (مخلوق) ہیں۱؎ تو میں ان سب کو قتل کا ضرور حکم دیتا، اس لیے تم ان میں سے بالکل کالے کتے کو (جس میں کسی اور رنگ کی ذرا بھی ملاوٹ نہ ہو) قتل کرو، اس لیے کہ جن لوگوں نے بھی کھیت، شکار یا جانوروں کی رکھوالی کرنے والے کتوں کے علاوہ کسی کتے کو رکھا تو ان کے اجر میں سے روزانہ ایک قیراط کم ہوتا ہے۔۲؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : یعنی اللہ تعالیٰ کی دیگر مخلوقات کی طرح یہ بھی ایک مخلوق ہیں۔ ۲؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ چوپایوں کی نگہبانی، زمین جائیداد کی حفاظت اور شکار کی خاطر کتوں کا پالنا درست ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated form 'Abdullah bin Mughaffal that the Messenger of Allah (ﷺ) said: "Were it not that dogs form one of the communities (or nations of creatures), I would have commanded that they be killed. But kill those that are all black. Any people who keep a dog, except for dogs used for farming, hunting or herding livestock, one Qirat will be deducted from their reward each day.