Sunan-nasai:
The Book of Salah
(Chapter: Making A Pledge To Offer The Five Daily Prayers)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
460.
حضرت عوف بن مالک اشجعی ؓ نے کہا: ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس (بیٹھے) تھے کہ آپ نےفرمایا: ”کیا تم رسول اللہ ﷺ کی بیعت نہیں کرتے؟“ آپ نے یہ جملہ تین دفعہ دہرایا تو ہم نے اپنے ہاتھ آگے بڑھائے اور آپ سے بیعت کی، پھر ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم نے آپ کی بیعت تو کرلی ہے مگر یہ کس بات پر ہے؟ آپ نےفرمایا: ”اس بات پر کہ تم اللہ تعالیٰ کی عبادت کروگے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراؤ گے اور پانچ نمازیں پڑھوگے۔“ اور آپ نے ایک بات آہستہ کہی: ”تم کسی سے کچھ نہیں مانگو گے۔“
تشریح:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور اقدس میں چار قسم کی بیعت رائج تھی: ٭بیعت اسلام، یعنی اسلام لاتے وقت۔ ٭ہجرت کرنے کے لیے بیعت۔ ٭بیعت جہاد، یعنی کسی لڑائی کے وقت، مثلاً : صلح حدیبیہ کے وقت۔ ٭بیعت اطاعت، یعنی اللہ تعالیٰ کے اوامر ونواہی کی پابندی کے لیے جیسا کہ مندرجہ بالا حدیث میں ذکر ہے۔ پھر بیعت اسلام کی بجائے بیعت خلافت شروع ہوگئی۔ بیعت جہاد قائم رہی، البتہ بیعت اطاعت ختم ہوگئی، گویا کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص تھی۔ صحابہ کرام اور تابعین کے دور میں ایسا ہی رہا۔ بعد میں صوفیائے کرام نے بیعت لینا شروع کردی، اپنے سلسلے میں داخل کرنے کے لیے اور اپنی ہر بات کی اطاعت کرانے کے لیے، یہ ایک نئی چیز ہے، اگر یہ بیعت اطاعتِ شریعت ہے تو جواز ہوسکتا ہے مگر صحابہ و تابعین نے ایسے نہیں کیا، لہٰذا مستحسن نہیں۔ اور اگر یہ اپنی اطاعت کی بیعت ہے تو ممنوع ہے کیونکہ شریعت اسلامیہ میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کوئی مطاع نہیں کہ اس کی اطاعت مطلقاً جائز ہو۔ بیعت سے متعلق دیگر احکام و مسائل بالتفصیل کتاب البیعۃ میں ملاحظہ فرمائیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
460
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
459
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
461
تمہید کتاب
امام نسائی طہارت اور اس سے متعلق دیگر احکام و مسائل بیان کرنے کے بعد ایسی عبادت سے متعلق احکام و مسائل بیان کرنا چاہتے ہیں کہ جس سے پہلے طہارت شرط ہے اور وہ عبادت نماز ہے جس کی بابت احادیث میں مروی ہے کہ دین اسلام میں شہادتین کے اقرار کے بعد نماز دین کا اہم ترین رکن ہے اور حقوق اللہ میں سے اسی کا سب سے پہلے حساب ہوگا ذیل میں اسی عبادت کی لغوی و اصطلاحی تعریف اور اس کی فرضیت و اہمیت کی احادیث کی روشنی میں واضح کیا گیا ہے تاکہ قارئین احکام و مسائل جاننے اور پڑھنے سے قبل اس کی اہمیت اور فضیلت بھی جان لیں ۔صلاة (نماز) کے لغوی معنی’’ دعا‘‘ پر مشتمل ہے اس لیے اسے اس نام سے موسوم کیا گیا ہے ۔(سبل السلام:1/193) شرعی اصطلاح میں نماز چند اقوال و افعال کا نام ہے جن کا آغاز چند مخصوص شرائط کے ساتھ تکبیر تحریمہ سے ہوتا ہے اور اختتام سلام پر ۔دیکھیے: الفقه على المذاهب الأربعة ،ص:103،طبع جديد دارابن الهيثم)توحید و رسالت کے اقرار کے بعد ایک بالغ مسلمان مرد و عورت پانچ وقت اقامت صلاۃ کا پابند ہے ‘نیز نماز ارکان خمسہ میں سے اسلام کا دوسرا اہم رکن ہے لہذا جو شخص جانتے بوجھتے اس کی فرضیت کا منکر ہو‘وہ بالاتفاق دائرہ اسلام سے خارج ہوگا نماز مومن کی ایک اہم پہچان ہے یہ برائی اور بے ۔حیائی سے روکتی ہے اس کی مداومت و محافظت پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے فلاح و فوز کا وعدہ ہے بلوغت سے تا دم حیات انسان اس کا پابند ہے عذر کی صورت میں کیفیت ادا میں تو اس کی تخفیف ہے لیکن معافی قطعاً نہیں اس کا مقصد اعظم تو یاد الٰہی ہے لیکن عاجزی دور ماندگی کے اظہار کے لیے اللہ کے سامنے یہ ایک عمدہ صورت ہے یہ نفس کا سکون اورروح کی غذا ہے ہم و غم اور دکھ درد کا کامیاب علاج ہے مردن دلوں کی مایوسی اور ویرانی کے لیے آب حیات ہے راہ راست رب العالیمن سے مناجات کا ذریعہ ارو مومن کی معراج ہے بے صبری میں نسخۂ کیمیا اور مومن کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے ۔[جعلت قرة عيني فى الصلاةِ] بہر حال قرآن کریم کی بیسیوں آیات میں نماز کا حکم اس کی اہمیت کے لیے کافی ہے علاوہ ازیں احادیث میں اس کے احکام و اوامر اس کی اہمیت و وقعت کو چار چاند لگا دیتے ہیں لہذا تارک الصلاۃ یا اس کے حق میں سستی برتنے والے کے لیے بالکل گنجائش کا کوئی راستہ نہیں نکلتا یاد رہے نماز کی ادائیگی کے لیے ’’ اقامت‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے جو اپنے اندر وسیع تر مفہوم رکھتا ہے اور وہ یہ ہے کہ نماز اپنی حدودوقیود ‘فرائض و واجبات ‘شرائط اور مسنون طریقے کے مطابق ادا کی جائے تب مذکورہ بالا فوائد کا حصول ممکن اور اقامت صلاۃ کا اہتمام ہو سکتا ہے وگرنہ مرضی یا وقت گزاری کی نماز عنداللہ شرف قبولیت حاصل نہیں کر سکتی۔آپﷺ کا فرمان ہے ۔[خَمْسُ صَلَوَاتٍ افْتَرَضَهُنَّ اللَّهُ تَعَالَى مَنْ أَحْسَنَ وُضُوءَهُنَّ وَصَلَّاهُنَّ لِوَقْتِهِنَّ وَأَتَمَّ رُكُوعَهُنَّ وَخُشُوعَهُنَّ كَانَ لَهُ عَلَى اللَّهِ عَهْدٌ أَنْ يَغْفِرَ لَهُ، وَمَنْ لَمْ يَفْعَلْ فَلَيْسَ لَهُ عَلَى اللَّهِ عَهْدٌ، إِنْ شَاءَ غَفَرَ لَهُ وَإِنْ شَاءَ عَذَّبَهُ]’’جس شخص نے عمد طریقے سے ان (نمازوں) کا وضو کیا ‘ بروقت ان کی ادائیگی کی اور ان کے رکوع اور خشوع کو مکمل طور پر بجا لایا تو اس کے حق میں اللہ کا وعدہ اور ذمہ ہے کہ وہ اسے بخش دے گا ۔ اور جس نے (اس طرح) بجا آوری نہ کی تو اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا کوئی ذمہ نہیں ‘چاہے تو اسے بخش اور چاہے تو اسے عذاب دے۔‘‘(وانظر صحيح سنن أبي داود (مفصل) للالبانى ،حديث :452)نماز کی اہمیت وفضیلت سے متعلق کچھ دیگر احادیث بطور دیل و حجت کے حاضر خدمت ہیں:حضرت ابوہریرہ ٰ سے مروی حدیث میں ہے کہ آپﷺ نے پوچھا:” مجھے بتاؤ اگر تم میں سے کسی ایک کےگھر کے سامنے نہر بہہ رہی ہو اور وہ روزانہ اس میں پانچ مرتب نہاۓ کیا اس کے بدن پر میل کچیل باقی رہ جائے گا؟‘‘ صحابہ کرام نے جواب دیا: نہیں۔ تب آپ ﷺنے فرمایا: ’پانچ نمازوں کی مثال ایسے ہی ہے۔ اللہ تعالی ان کی وجہ سے خطاؤں کو مٹا دیتا ہے۔ (صحیح البخاري، مواقيت الصلاة)حديث:۵۲۸، وصحيح مسلم المساجد حديث:۲۹۷) نیز حضرت عبداللہ بن مسعود سے منقول ہے رسول ﷺ نے فرمایا: (گناہوں کی وجہ سے) تم جلتے ہو جھلستے ہو۔ جب تم صبح کی نماز پڑھتے ہو تو یہ گناہوں کو دھو ڈالتی ہے پھر تم جھلستے ہی رہتے ہو یہاں تک کہ ظہر کی نماز پڑھتے ہو تو یہ خطاؤں کو دھو ڈالتی ہے۔ پھر تم ( گناہوں کی وجہ سے )آگ میں جلتے جھلتے ہو اور جب صبح کی نماز پڑتے ہو تو یہ گناہوں کو دھوڈالتی ہے عصر کی نماز پڑھ لیتے ہو تو یہ انھیں دھو دیتی ہے۔ پھر (خطاؤں کی تپش سے )جلتے ہو حتی کہ تم عشاء کی نماز پڑھتے ہو تو یہ نماز ان (گناہوں) کو دھو ڈالتی ہے پھر تم سو جاتے ہو تمہارا کچھ بھی نہیں لکھا جاتا یہاں تک کہ تم بیدار ہو جاؤ(المعجم الكبير للطبرانى ،حديث:8739 موقوفا والاوسط له،ٍحديث:2224- وصحيح الترغيب والترهيب،حديث :357) نيز حضرت انس بن مالك سے مروی ہے رسول اللہﷺ نے فرمایا :’’اللہ تعالیٰ کا ایک فرشتہ ہر نماز کے وقت منادی کرتا ہے اے بنی نوع انسان! تم نے جو آگ بھڑکائی ہے اسے بجھانے کے لیے اٹھو یعنی نماز پر پر‘‘ (المعجم الاوسط للطبرانى ،حديث 9452 وانظر صحيح الترغيب والترهيب، حديث :358)اسی طرح آپ کا فرمان ہے کہ جب بندۂ مسلمان نماز پڑھتا ہے تو اس کی خطائیں اس کے سر پر بلند ہوتی ہیں جب بھی وہ سجدہ کرتا ہے تو اس سے گرتی جاتی ہیں بالآخرجب وہ نماز سے فارغ ہو جاتا ہے تو اس کی لغزشیں گر (معاف ہو)چکی ہوتی ہیں ۔‘‘ترک صلاۃ یا اس میں کمی کوتاہی یا سستی کفریہ و تیرہ اور منافقانہ روش ہے نبئ اکرمﷺ نے بندے اور کفر و شرک کے درمیان حد امتیاز ترک صلاۃ کو قرار دیا ہے ۔صحیح مسلم الایمان حدیث 82) امیرالمؤمنین عمر فاروق جب زخمی تھے ‘انھوں نے نماز ادا کی اور فرمایا دجو شخص نماز نہیں پڑھتا اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔‘‘یہ تو تھی نماز کی فرضیت اور اہمیت و فضیلت جبکہ نماز کے دیگر احکام و مسائل امام نسائی نے بیان کیے ہیں جن کی تفصیل آگے اپنے اپنے مقام پر آئے گی ۔ انشاءاللہ۔
حضرت عوف بن مالک اشجعی ؓ نے کہا: ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس (بیٹھے) تھے کہ آپ نےفرمایا: ”کیا تم رسول اللہ ﷺ کی بیعت نہیں کرتے؟“ آپ نے یہ جملہ تین دفعہ دہرایا تو ہم نے اپنے ہاتھ آگے بڑھائے اور آپ سے بیعت کی، پھر ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم نے آپ کی بیعت تو کرلی ہے مگر یہ کس بات پر ہے؟ آپ نےفرمایا: ”اس بات پر کہ تم اللہ تعالیٰ کی عبادت کروگے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراؤ گے اور پانچ نمازیں پڑھوگے۔“ اور آپ نے ایک بات آہستہ کہی: ”تم کسی سے کچھ نہیں مانگو گے۔“
حدیث حاشیہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور اقدس میں چار قسم کی بیعت رائج تھی: ٭بیعت اسلام، یعنی اسلام لاتے وقت۔ ٭ہجرت کرنے کے لیے بیعت۔ ٭بیعت جہاد، یعنی کسی لڑائی کے وقت، مثلاً : صلح حدیبیہ کے وقت۔ ٭بیعت اطاعت، یعنی اللہ تعالیٰ کے اوامر ونواہی کی پابندی کے لیے جیسا کہ مندرجہ بالا حدیث میں ذکر ہے۔ پھر بیعت اسلام کی بجائے بیعت خلافت شروع ہوگئی۔ بیعت جہاد قائم رہی، البتہ بیعت اطاعت ختم ہوگئی، گویا کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص تھی۔ صحابہ کرام اور تابعین کے دور میں ایسا ہی رہا۔ بعد میں صوفیائے کرام نے بیعت لینا شروع کردی، اپنے سلسلے میں داخل کرنے کے لیے اور اپنی ہر بات کی اطاعت کرانے کے لیے، یہ ایک نئی چیز ہے، اگر یہ بیعت اطاعتِ شریعت ہے تو جواز ہوسکتا ہے مگر صحابہ و تابعین نے ایسے نہیں کیا، لہٰذا مستحسن نہیں۔ اور اگر یہ اپنی اطاعت کی بیعت ہے تو ممنوع ہے کیونکہ شریعت اسلامیہ میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کوئی مطاع نہیں کہ اس کی اطاعت مطلقاً جائز ہو۔ بیعت سے متعلق دیگر احکام و مسائل بالتفصیل کتاب البیعۃ میں ملاحظہ فرمائیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عوف بن مالک اشجعی ؓ کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس تھے، آپ ﷺ نے فرمایا: ”کیا تم لوگ رسول اللہ ﷺ سے بیعت نہیں کرو گے؟ “ آپ نے اس بات کو تین مرتبہ دہرایا، تو ہم سب نے اپنا ہاتھ بڑھایا، اور آپ سے بیعت کی، پھر ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم نے آپ سے بیعت تو کر لی، لیکن یہ بیعت کس چیز پر ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”یہ بیعت اس بات پر ہے کہ تم اللہ کی عبادت کرو گے، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرو گے، پانچوں نمازیں ادا کرو گے“ ، اور آپ نے ایک اور بات آہستہ سے کہی کہ ”لوگوں سے کچھ مانگو گے نہیں۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
‘Awf bin Malik Al-Ashja`i said: “We were with the Messenger of Allah (ﷺ) , and he said: ‘Will you not pledge to the Messenger of Allah (ﷺ) ?‘ And he repeated it three times. So we stretched forth our hands to give our pledge. We said: ‘Messenger of Allah (ﷺ) , we are willing to give you our pledge, but on what?’ He said: ‘That you will worship Allah and not associate anything with him, and (offer) the five daily prayers.’ And he said, very quietly: ‘And you will not ask the people for anything.” (Sahih)