Sunan-nasai:
The Book of Salah
(Chapter: Observing The Five Daily Prayers)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
461.
ابن محیریز سے روایت ہے کہ بنوکنانہ کے ایک آدمی نے، جسے مخدجی کہا جاتا تھا، شام کے علاقے میں ایک آدمی کو، جس کی کنیت ابومحمد تھی، یہ کہتے ہوئے سنا کہ وتر واجب ہے۔ مخدجی نے کہا: میں حضرت عبادہ بن صامت ؓ کے پاس گیا جب کہ وہ مسجد کو جارہے تھے۔ میں نے ان کو آگے سے روک لیا اور ابومحمد کے قول کی خبردی۔ حضرت عبادہ ؓ کہنے لگے: ابومحمد نے غلط کہا ہے۔ میں نے اللہ کے رسول ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: ”پانچ نمازیں ہیں جو اللہ تعالیٰ نے بندوں پر فرض کی ہیں، جو آدمی انھیں ادا کرے، ان میں سے کسی کو ان کی حیثیت ہلکی سمجھ کر ضائع نہ کرے تو اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کے لیے وعدہ ہوچکا ہے کہ وہ اسے جنت میں داخل فرمائے گا۔ اور جو شخص ان کو ادا نہ کرے تو اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کے لیے کوئی عہد نہیں۔ چاہے اسے عذاب دے، چاہے جنت میں داخل کرے۔“
تشریح:
(1)احناف وتر کو واجب کہتے ہیں مگر ان کا استدلال ایسی روایات سے ہے جو کمزور ہیں یا وہ ایک سے زائد معانی کا احتمال رکھتی ہیں، جب کہ ان کے مقابلے میں صحیح اور قطعی روایات جو تواتر کو پہنچتی ہیں، پانچ نمازوں کی فرضیت کا اعلان کرتی ہیں اور زائد کی فرضیت ووجوب کی نفی کرتی ہیں، لہٰذا ان کی بات صحیح نہیں، بلکہ اسے سنت مؤکدہ کہنا چاہیے جسے بلاوجہ ترک نہیں کیا جاسکتا۔ (2)وتر کے معنی عربی میں ”طاق“ کے ہیں۔ تعداد رکعات کا لحاظ رکھتے ہوئے اس نماز کو وتر کہا جاتا ہے۔ (3)حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ کا استدلال واضح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صریح طور پر پانچ نمازوں کی فرضیت کا اظہار فرمایا اور انھیں دخول جنت کا لازمی سبب بتایا ہے۔ اگر وتر فرض ہوتا تو آپ اس کا بھی ذکر فرماتے۔ (4) [أَدْخَلَهُ اللہ الْجَنَّةَ] کیونکہ نماز دوسرے فرائض کی ادائیگی اور منہیات سے اجتناب کا سبب بنتی ہے، بلکہ ضامن ہے، اس لیے نمازی کے لیے دخول جنت کا انعام ہے، اولاً ہو یا ثانیاً۔ (5) ”چاہے تو جنت میں داخل کرے۔“ یہ اللہ تعالیٰ کی کمال رحمت ہے کہ اپنے حقوق میں کوتاہی پر بازپرس نہ کرے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
461
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
460
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
462
تمہید کتاب
امام نسائی طہارت اور اس سے متعلق دیگر احکام و مسائل بیان کرنے کے بعد ایسی عبادت سے متعلق احکام و مسائل بیان کرنا چاہتے ہیں کہ جس سے پہلے طہارت شرط ہے اور وہ عبادت نماز ہے جس کی بابت احادیث میں مروی ہے کہ دین اسلام میں شہادتین کے اقرار کے بعد نماز دین کا اہم ترین رکن ہے اور حقوق اللہ میں سے اسی کا سب سے پہلے حساب ہوگا ذیل میں اسی عبادت کی لغوی و اصطلاحی تعریف اور اس کی فرضیت و اہمیت کی احادیث کی روشنی میں واضح کیا گیا ہے تاکہ قارئین احکام و مسائل جاننے اور پڑھنے سے قبل اس کی اہمیت اور فضیلت بھی جان لیں ۔صلاة (نماز) کے لغوی معنی’’ دعا‘‘ پر مشتمل ہے اس لیے اسے اس نام سے موسوم کیا گیا ہے ۔(سبل السلام:1/193) شرعی اصطلاح میں نماز چند اقوال و افعال کا نام ہے جن کا آغاز چند مخصوص شرائط کے ساتھ تکبیر تحریمہ سے ہوتا ہے اور اختتام سلام پر ۔دیکھیے: الفقه على المذاهب الأربعة ،ص:103،طبع جديد دارابن الهيثم)توحید و رسالت کے اقرار کے بعد ایک بالغ مسلمان مرد و عورت پانچ وقت اقامت صلاۃ کا پابند ہے ‘نیز نماز ارکان خمسہ میں سے اسلام کا دوسرا اہم رکن ہے لہذا جو شخص جانتے بوجھتے اس کی فرضیت کا منکر ہو‘وہ بالاتفاق دائرہ اسلام سے خارج ہوگا نماز مومن کی ایک اہم پہچان ہے یہ برائی اور بے ۔حیائی سے روکتی ہے اس کی مداومت و محافظت پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے فلاح و فوز کا وعدہ ہے بلوغت سے تا دم حیات انسان اس کا پابند ہے عذر کی صورت میں کیفیت ادا میں تو اس کی تخفیف ہے لیکن معافی قطعاً نہیں اس کا مقصد اعظم تو یاد الٰہی ہے لیکن عاجزی دور ماندگی کے اظہار کے لیے اللہ کے سامنے یہ ایک عمدہ صورت ہے یہ نفس کا سکون اورروح کی غذا ہے ہم و غم اور دکھ درد کا کامیاب علاج ہے مردن دلوں کی مایوسی اور ویرانی کے لیے آب حیات ہے راہ راست رب العالیمن سے مناجات کا ذریعہ ارو مومن کی معراج ہے بے صبری میں نسخۂ کیمیا اور مومن کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے ۔[جعلت قرة عيني فى الصلاةِ] بہر حال قرآن کریم کی بیسیوں آیات میں نماز کا حکم اس کی اہمیت کے لیے کافی ہے علاوہ ازیں احادیث میں اس کے احکام و اوامر اس کی اہمیت و وقعت کو چار چاند لگا دیتے ہیں لہذا تارک الصلاۃ یا اس کے حق میں سستی برتنے والے کے لیے بالکل گنجائش کا کوئی راستہ نہیں نکلتا یاد رہے نماز کی ادائیگی کے لیے ’’ اقامت‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے جو اپنے اندر وسیع تر مفہوم رکھتا ہے اور وہ یہ ہے کہ نماز اپنی حدودوقیود ‘فرائض و واجبات ‘شرائط اور مسنون طریقے کے مطابق ادا کی جائے تب مذکورہ بالا فوائد کا حصول ممکن اور اقامت صلاۃ کا اہتمام ہو سکتا ہے وگرنہ مرضی یا وقت گزاری کی نماز عنداللہ شرف قبولیت حاصل نہیں کر سکتی۔آپﷺ کا فرمان ہے ۔[خَمْسُ صَلَوَاتٍ افْتَرَضَهُنَّ اللَّهُ تَعَالَى مَنْ أَحْسَنَ وُضُوءَهُنَّ وَصَلَّاهُنَّ لِوَقْتِهِنَّ وَأَتَمَّ رُكُوعَهُنَّ وَخُشُوعَهُنَّ كَانَ لَهُ عَلَى اللَّهِ عَهْدٌ أَنْ يَغْفِرَ لَهُ، وَمَنْ لَمْ يَفْعَلْ فَلَيْسَ لَهُ عَلَى اللَّهِ عَهْدٌ، إِنْ شَاءَ غَفَرَ لَهُ وَإِنْ شَاءَ عَذَّبَهُ]’’جس شخص نے عمد طریقے سے ان (نمازوں) کا وضو کیا ‘ بروقت ان کی ادائیگی کی اور ان کے رکوع اور خشوع کو مکمل طور پر بجا لایا تو اس کے حق میں اللہ کا وعدہ اور ذمہ ہے کہ وہ اسے بخش دے گا ۔ اور جس نے (اس طرح) بجا آوری نہ کی تو اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا کوئی ذمہ نہیں ‘چاہے تو اسے بخش اور چاہے تو اسے عذاب دے۔‘‘(وانظر صحيح سنن أبي داود (مفصل) للالبانى ،حديث :452)نماز کی اہمیت وفضیلت سے متعلق کچھ دیگر احادیث بطور دیل و حجت کے حاضر خدمت ہیں:حضرت ابوہریرہ ٰ سے مروی حدیث میں ہے کہ آپﷺ نے پوچھا:” مجھے بتاؤ اگر تم میں سے کسی ایک کےگھر کے سامنے نہر بہہ رہی ہو اور وہ روزانہ اس میں پانچ مرتب نہاۓ کیا اس کے بدن پر میل کچیل باقی رہ جائے گا؟‘‘ صحابہ کرام نے جواب دیا: نہیں۔ تب آپ ﷺنے فرمایا: ’پانچ نمازوں کی مثال ایسے ہی ہے۔ اللہ تعالی ان کی وجہ سے خطاؤں کو مٹا دیتا ہے۔ (صحیح البخاري، مواقيت الصلاة)حديث:۵۲۸، وصحيح مسلم المساجد حديث:۲۹۷) نیز حضرت عبداللہ بن مسعود سے منقول ہے رسول ﷺ نے فرمایا: (گناہوں کی وجہ سے) تم جلتے ہو جھلستے ہو۔ جب تم صبح کی نماز پڑھتے ہو تو یہ گناہوں کو دھو ڈالتی ہے پھر تم جھلستے ہی رہتے ہو یہاں تک کہ ظہر کی نماز پڑھتے ہو تو یہ خطاؤں کو دھو ڈالتی ہے۔ پھر تم ( گناہوں کی وجہ سے )آگ میں جلتے جھلتے ہو اور جب صبح کی نماز پڑتے ہو تو یہ گناہوں کو دھوڈالتی ہے عصر کی نماز پڑھ لیتے ہو تو یہ انھیں دھو دیتی ہے۔ پھر (خطاؤں کی تپش سے )جلتے ہو حتی کہ تم عشاء کی نماز پڑھتے ہو تو یہ نماز ان (گناہوں) کو دھو ڈالتی ہے پھر تم سو جاتے ہو تمہارا کچھ بھی نہیں لکھا جاتا یہاں تک کہ تم بیدار ہو جاؤ(المعجم الكبير للطبرانى ،حديث:8739 موقوفا والاوسط له،ٍحديث:2224- وصحيح الترغيب والترهيب،حديث :357) نيز حضرت انس بن مالك سے مروی ہے رسول اللہﷺ نے فرمایا :’’اللہ تعالیٰ کا ایک فرشتہ ہر نماز کے وقت منادی کرتا ہے اے بنی نوع انسان! تم نے جو آگ بھڑکائی ہے اسے بجھانے کے لیے اٹھو یعنی نماز پر پر‘‘ (المعجم الاوسط للطبرانى ،حديث 9452 وانظر صحيح الترغيب والترهيب، حديث :358)اسی طرح آپ کا فرمان ہے کہ جب بندۂ مسلمان نماز پڑھتا ہے تو اس کی خطائیں اس کے سر پر بلند ہوتی ہیں جب بھی وہ سجدہ کرتا ہے تو اس سے گرتی جاتی ہیں بالآخرجب وہ نماز سے فارغ ہو جاتا ہے تو اس کی لغزشیں گر (معاف ہو)چکی ہوتی ہیں ۔‘‘ترک صلاۃ یا اس میں کمی کوتاہی یا سستی کفریہ و تیرہ اور منافقانہ روش ہے نبئ اکرمﷺ نے بندے اور کفر و شرک کے درمیان حد امتیاز ترک صلاۃ کو قرار دیا ہے ۔صحیح مسلم الایمان حدیث 82) امیرالمؤمنین عمر فاروق جب زخمی تھے ‘انھوں نے نماز ادا کی اور فرمایا دجو شخص نماز نہیں پڑھتا اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔‘‘یہ تو تھی نماز کی فرضیت اور اہمیت و فضیلت جبکہ نماز کے دیگر احکام و مسائل امام نسائی نے بیان کیے ہیں جن کی تفصیل آگے اپنے اپنے مقام پر آئے گی ۔ انشاءاللہ۔
ابن محیریز سے روایت ہے کہ بنوکنانہ کے ایک آدمی نے، جسے مخدجی کہا جاتا تھا، شام کے علاقے میں ایک آدمی کو، جس کی کنیت ابومحمد تھی، یہ کہتے ہوئے سنا کہ وتر واجب ہے۔ مخدجی نے کہا: میں حضرت عبادہ بن صامت ؓ کے پاس گیا جب کہ وہ مسجد کو جارہے تھے۔ میں نے ان کو آگے سے روک لیا اور ابومحمد کے قول کی خبردی۔ حضرت عبادہ ؓ کہنے لگے: ابومحمد نے غلط کہا ہے۔ میں نے اللہ کے رسول ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: ”پانچ نمازیں ہیں جو اللہ تعالیٰ نے بندوں پر فرض کی ہیں، جو آدمی انھیں ادا کرے، ان میں سے کسی کو ان کی حیثیت ہلکی سمجھ کر ضائع نہ کرے تو اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کے لیے وعدہ ہوچکا ہے کہ وہ اسے جنت میں داخل فرمائے گا۔ اور جو شخص ان کو ادا نہ کرے تو اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کے لیے کوئی عہد نہیں۔ چاہے اسے عذاب دے، چاہے جنت میں داخل کرے۔“
حدیث حاشیہ:
(1)احناف وتر کو واجب کہتے ہیں مگر ان کا استدلال ایسی روایات سے ہے جو کمزور ہیں یا وہ ایک سے زائد معانی کا احتمال رکھتی ہیں، جب کہ ان کے مقابلے میں صحیح اور قطعی روایات جو تواتر کو پہنچتی ہیں، پانچ نمازوں کی فرضیت کا اعلان کرتی ہیں اور زائد کی فرضیت ووجوب کی نفی کرتی ہیں، لہٰذا ان کی بات صحیح نہیں، بلکہ اسے سنت مؤکدہ کہنا چاہیے جسے بلاوجہ ترک نہیں کیا جاسکتا۔ (2)وتر کے معنی عربی میں ”طاق“ کے ہیں۔ تعداد رکعات کا لحاظ رکھتے ہوئے اس نماز کو وتر کہا جاتا ہے۔ (3)حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ کا استدلال واضح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صریح طور پر پانچ نمازوں کی فرضیت کا اظہار فرمایا اور انھیں دخول جنت کا لازمی سبب بتایا ہے۔ اگر وتر فرض ہوتا تو آپ اس کا بھی ذکر فرماتے۔ (4) [أَدْخَلَهُ اللہ الْجَنَّةَ] کیونکہ نماز دوسرے فرائض کی ادائیگی اور منہیات سے اجتناب کا سبب بنتی ہے، بلکہ ضامن ہے، اس لیے نمازی کے لیے دخول جنت کا انعام ہے، اولاً ہو یا ثانیاً۔ (5) ”چاہے تو جنت میں داخل کرے۔“ یہ اللہ تعالیٰ کی کمال رحمت ہے کہ اپنے حقوق میں کوتاہی پر بازپرس نہ کرے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابن محیریز سے روایت ہے کہ بنی کنانہ کے ایک آدمی نے جسے مخدجی کہا جاتا تھا شام میں ایک آدمی کو جس کی کنیت ابو محمد تھی کہتے سنا کہ وتر واجب ہے، مخدجی کہتے ہیں: تو میں عبادہ بن صامت ؓ کے پاس گیا، اور میں نے مسجد جاتے ہوئے انہیں راستے ہی میں روک لیا، اور انہیں ابو محمد کی بات بتائی، تو عبادہ ؓ نے کہا: ابو محمد نے جھوٹ کہا ہے، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے: ”اللہ نے اپنے بندوں پر پانچ نمازیں فرض کی ہیں، جو انہیں ادا کرے گا، اور ان میں سے کس کو ہلکا سمجھتے ہوئے ضائع نہیں کرے گا، تو اللہ کا اس سے پختہ وعدہ ہے کہ وہ اسے جنت میں داخل کرے گا، اور جس نے انہیں ادا نہیں کیا تو اللہ کا اس سے کوئی وعدہ نہیں ہے، اگر چاہے تو اسے عذاب دے، اور چاہے تو اسے جنت میں داخل کرے۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Ibn Muhairiz that a man from Banu Kinanah who was called Al-Mukhdaji heard a man in Ash-Sham, who was known as Abu Muhammad, saying that Witr was obligatory. Al-Mukhdaji said: “In the morning I went to ‘Ubadahh bin As-Samit, and I met him while he was on his way to the Masjid. I told him what Abu Muhammad said, and ‘Ubadahh said: ‘Abu Muhammad is wrong. I heard the Messenger of Allah (ﷺ) say: ‘Five prayers are those that Allah has decreed for (His) slaves, whoever does them, and does not neglect any of them out of disregard toward them, will have a promise from Allah that He will admit him to Paradise. And whoever does not do them will have no such promise from Allah; if He wills he will punish him and if He wills He will admit him to Paradise.” (Hasan)