باب: ایک سودے میں دو سودے کرنا اور اس سے مراد یہ ہے کہ بیچنے والا کہے کہ میں تجھے یہ سامان نقد سو درہم میں اور ادھار دو سور درہم میں بیچتا ہوں
)
Sunan-nasai:
The Book of Financial Transactions
(Chapter: Two Transactions In One, Which Is Where a Person Says: "I will Sell You This Produce For One Hundred Dirhams In Cash And Two Hundred Dirhams On Credit.")
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4632.
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک سودے میں دو سودوں سے منع فرمایا۔
تشریح:
ایک سودے میں دو سودوں کی ایک تفسیر تو مصنف رحمہ اللہ نے خود فرمائی ہے۔ اس کی کچھ بحث حدیث ۴۶۱۵ میں بیان ہو چکی ہے کہ اگر ادھار یا نقد ایک سودے پر بات طے ہو جائے تو نقد و ادھار قیمت کے فرق میں کوئی حرج نہیں کیونکہ یہ فرق فطری ہے، البتہ اگر کوئی ایک سودا طے نہ ہو، فلاں چیز بیچتا ہوں بشرطیکہ تو مجھے فلاں چیز بیچے۔ یہ جائز نہیں کیونکہ دوسری چیز کی فروخت کی شرط لگا کر ناجائز فائدہ اٹھایا جا رہا ہے۔ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے ”ایک بیع میں دو بیع“ کی تفسیر یہ کی ہے کہ (بائع مشتری کو کہے:) میں تجھے فلاں چیز ادھار سو روپے کی دیتا ہوں اور تجھ سے ابھی نقد اسی روپے کی لیتا ہوں۔ اور اگر اسے چیز کی بجائے ۸۰ روپے دے دے اور سال کے بعد سو روپے وصول کر لے۔ ظاہرہے یہ ایک بیع میں دو سودے ہو رہے ہیں۔ اور یہ صریح سود ہے۔ ایسی بیع فاسد ہو گی کیونکہ یہ در حقیقت بیع ہے ہی نہیں۔ نہ کوئی چیز بیچی یا خریدی جا رہی ہے بلکہ اسی روپے دے کر سال کے بعد سو روپے لیے جا رہے ہیں جو صریح سود ہے۔ عصر حاضر میں بھی بعض لوگ اس طرح کرتے ہیں۔ بیع کا لفظ تو صرف دھوکا دینے کے لیے بولا جا رہا ہے۔ ایسی صورت میں وہ اسی روپے ہی واپس کرے گا۔ اگر یہ سو روپے واپس لے گا تو یہ سود ہو گا۔ [فله أوكسَهُما أو الرِّبا] یہ آخری دو صورتیں اس حدیث (ایک سودے میں دو سودے) کی بہترین تفسیر ہیں اور یہ دونوں منع ہیں، البتہ پہلی صورت نقد و ادھار والی صحیح ہے۔ اگر سود ایک صورت میں طے ہو جائے تو ادھار اور نقد قیمت میں فرق ہو سکتا ہے کیونکہ یہ ایک بیع ہے، دو نہیں، لہٰذا یہ صورت اس حدیث کی صحیح تفسیر نہیں۔ ابہام باقی رہے، کوئی اور صورت طے نہ ہو تو اسے اس حدیث کے تحت لایا جا سکتا ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4645
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4646
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4636
تمہید کتاب
اَلْبُیُوْع، جمع ہے اَلْبَیْعُ کی۔ اس کے معنی ہیں: خرید، فروخت، فروختگی۔ (دیکھئے: القاموس الوحید، مادہ [بیع] البیع، دراصل مصدر ہے: باع يبيعه بيعا،ومبيعاً فهو بَائِعٌ وَ بَیِّعٌ۔ البیوع کو جمع لایا گیا ہے جبکہ مصدر سے تثنیہ اور جمع نہیں لائے جاتے؟ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی انواع و اقسام بہت زیادہ ہیں، اس لیے اسے جمع لایا گیا ہے۔البیع اضداد میں سے ہے جیسا کہ اَلشِّرَاء اضداد میں سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ دونوں، یعنی البیع اور الشراء ایک دوسرے کے معنی میں بھی استعمال ہوتے ہیں۔ اسی لیے متعاقدین، یعنی خرید و فروخت کرنے والے دونوں اشخاص پر لفظ بائع کا اطلاق ہوتا ہے۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ جب البائع کا لفظ بولا جائے تو متبادر الی الذہن (فوری طور پر ذہن میں آنے والا) فروخت کنندہ ہی ہوتا ہے، تاہم بیچنے اور خریدنے والے، دونوں پر اس لفظ کا اطلاق درست ہے۔ عربی میں لفظ البیع کا اطلاق المبیع پر بھی کیا جاتا ہے، مثلاً: کہا جاتا ہے: بیع جید، بمعنی مبیع جید یعنی یہ مبیع (فروخت شدہ چیز) بہترین اور عمدہ ہے۔امام ابو العباس قرطبی فرماتے ہیں: اَلْبَیْعُ لُغَۃً باع کا مصدر ہے۔ کہا جاتا ہے: بَاعَ کَذَا بِکَذَا، یعنی اس نے فلاں چیز فلاں کے عوض بیچی۔ مطلب یہ کہ اس نے مُعَوَّضْ دیا اور اس کا عوض لیا۔ جب کوئی شخص ایک چیز دے کر اس کے بدلے میں کوئی چیز لیتا ہے تو اس کا تقاضا ہے کہ کوئی بائع ہو جو اس چیز کا اصل مالک ہوتا ہے یا مالک کا قائم مقام۔ اسی طرح اس کا یہ بھی تقاضا ہے کہ کوئی مبتاع (خریدار) بھی ہو۔ مُبْتَاع وہ شخص ہوتا ہے جو ثَمَن خرچ کر کے مبیع حاصل کرتا ہے اور یہ مبیع چونکہ ثمن کے عوض لی جاتی ہے، اس لیے یہ مَثْمُوْن ہوتی ہے۔ اس طرح ارکان بیع چار ہوئے ہیں: اَلْبَائِعُ (بیچنے والا) اَلْمُبْتَاعُ (خریدار) اَلثَّمَنُ (قیمت)، اور اَلْمَثْمُوْن (قیمت کے عوض میں لی ہوئی چیز)۔ دیکھئے: (المفہم: 4/360)حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: البیوع جمع ہے بیع کی۔ اور جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ اس کی مختلف انواع ہیں۔ البیع کے معنی ہیں: نَقْلُ مِلْکٍ إِلَی الْغَیْرِ بِثَمَنٍ ثمن، یعنی قیمت کے بدلے میں کسی چیز کی ملکیت دوسرے کی طرف منتقل کرنا اور اس قبولیت ملک کو شراء کہتے ہیں، تاہم البیع اور الشراء دونوں کا اطلاق ایک دوسرے پر بھی ہوتا ہے۔ مزید فرماتے ہیں کہ تمام مسلمانوں کا خرید و فروخت کے جواز پر اجماع ہے۔ حکمت کا تقاضا بھی یہی ہے کیونکہ عموماً ایسا ہوتا ہے کہ ایک چیز کسی انسان کے پاس ہوتی ہے اور کوئی دوسرا شخص اس کا ضرورت مند ہوتا ہے جبکہ پہلا شخص، یعنی مالک اپنی چیز (بلا معاوضہ) دوسرے پر خرچ کرنے (یا دینے) کے لیے تیار نہیں ہوتا، لہٰذا شریعت نے بذریعہ بیع اس چیز تک پہنچنے کا ایسا جائز ذریعہ مہیا کر دیا ہے جس میں قطعاً کوئی حرج نہیں۔ اس (بیع) کا جواز قرآن کریم سے ثابت ہے۔ ارشاد ربانی ہے: { وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا} (البقرۃ 2:275) ’’اللہ نے بیع (خرید و فروخت) کو حلال فرما دیا ہے اور سود کو حرام ٹھہرا دیا۔‘‘ (فتح الباری: 4/364، طبع دار السلام، الریاض)امام ابن قدامہ فرماتے ہیں: کسی چیز کا مالک بننے یا کسی اور کو مالک بنانے کے لیے مال کے بدلے مال کا تبادلہ بیع کہلاتا ہے۔ بیع، کتاب و سنت اور اجماع کی رو سے جائز ہے۔ قرآنِ کریم کی رو سے تو اس طرح کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے: { وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ} (البقرۃ 2:275)’’اللہ نے بیع کو حلال کیا ہے۔‘‘ سنت، یعنی حدیث کی رو سے بھی بیع جائز ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: [اَلْبَیِّعَانِ بِالْخِیَارِ مَا لَمْ یَتَفَرَّقَا] ’’دونوں سودا کرنے والے جب تک ایک دوسرے سے الگ اور جدا نہ ہوں (اس وقت تک) انہیں (سودا ختم کرنے کا) اختیار ہے۔ (صحیح البخاری، البیوع، حدیث: 2109، 2110، و صحیح مسلم، البیوع، حدیث: 1532) نیز تمام مسلمانوں کا اس کے جائز ہونے پر اجماع ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھئے: (ذخیرۃ العقبٰی شرح سنن النسائی: 34/2-75)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک سودے میں دو سودوں سے منع فرمایا۔
حدیث حاشیہ:
ایک سودے میں دو سودوں کی ایک تفسیر تو مصنف رحمہ اللہ نے خود فرمائی ہے۔ اس کی کچھ بحث حدیث ۴۶۱۵ میں بیان ہو چکی ہے کہ اگر ادھار یا نقد ایک سودے پر بات طے ہو جائے تو نقد و ادھار قیمت کے فرق میں کوئی حرج نہیں کیونکہ یہ فرق فطری ہے، البتہ اگر کوئی ایک سودا طے نہ ہو، فلاں چیز بیچتا ہوں بشرطیکہ تو مجھے فلاں چیز بیچے۔ یہ جائز نہیں کیونکہ دوسری چیز کی فروخت کی شرط لگا کر ناجائز فائدہ اٹھایا جا رہا ہے۔ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے ”ایک بیع میں دو بیع“ کی تفسیر یہ کی ہے کہ (بائع مشتری کو کہے:) میں تجھے فلاں چیز ادھار سو روپے کی دیتا ہوں اور تجھ سے ابھی نقد اسی روپے کی لیتا ہوں۔ اور اگر اسے چیز کی بجائے ۸۰ روپے دے دے اور سال کے بعد سو روپے وصول کر لے۔ ظاہرہے یہ ایک بیع میں دو سودے ہو رہے ہیں۔ اور یہ صریح سود ہے۔ ایسی بیع فاسد ہو گی کیونکہ یہ در حقیقت بیع ہے ہی نہیں۔ نہ کوئی چیز بیچی یا خریدی جا رہی ہے بلکہ اسی روپے دے کر سال کے بعد سو روپے لیے جا رہے ہیں جو صریح سود ہے۔ عصر حاضر میں بھی بعض لوگ اس طرح کرتے ہیں۔ بیع کا لفظ تو صرف دھوکا دینے کے لیے بولا جا رہا ہے۔ ایسی صورت میں وہ اسی روپے ہی واپس کرے گا۔ اگر یہ سو روپے واپس لے گا تو یہ سود ہو گا۔ [فله أوكسَهُما أو الرِّبا] یہ آخری دو صورتیں اس حدیث (ایک سودے میں دو سودے) کی بہترین تفسیر ہیں اور یہ دونوں منع ہیں، البتہ پہلی صورت نقد و ادھار والی صحیح ہے۔ اگر سود ایک صورت میں طے ہو جائے تو ادھار اور نقد قیمت میں فرق ہو سکتا ہے کیونکہ یہ ایک بیع ہے، دو نہیں، لہٰذا یہ صورت اس حدیث کی صحیح تفسیر نہیں۔ ابہام باقی رہے، کوئی اور صورت طے نہ ہو تو اسے اس حدیث کے تحت لایا جا سکتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک بیع میں دو بیع کرنے سے منع فرمایا ہے۔
حدیث حاشیہ:
۱؎ : اور دونوں میں کسی بات پر اتفاق نہ ہو سکا ہو، اگر کسی ایک پر اتفاق ہو گیا تو پھر یہ بیع حلال اور جائز ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Abu Hurairah said: "The Messenger of Allah (ﷺ) forbade two transactions in one.