باب: بیع میں کوئی شرط لگالی جائے تو بیع اور شرط دونوں درست ہوں گے
)
Sunan-nasai:
The Book of Financial Transactions
(Chapter: A Sale In Which There Is A condition And Both The Sale and The Condition Are Valid.)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4637.
حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں ایک سفر میں نبی اکرمﷺ کے ساتھ تھا۔ میرا اونٹ چلنے سے عاجز آ گیا۔ میں نے سوچا، اسے (وہیں) چھوڑ دوں۔ اتنے میں رسول اللہ ﷺ مجھے پیچھے سے آ ملے۔ آپ نے اس کے لیے دعا بھی فرمائی اور اسے مارا بھی۔ پھر تو وہ ایسے چلنے لگا کہ (ساری زندگی) کبھی ایسا نہیں چلا تھا، پھر آپ نے فرمایا: ”یہ اونٹ ایک اوقیہ (چالیس در ہم) میں مجھے بیچ دے۔“ تو میں نے وہ اونٹ آپ کو ایک اوقیے میں بیچ دیا اور میں نے مدینہ منورہ تک سوار ہو کر جانے کی شرط لگا لی۔ جب ہم مدینہ منورہ پہنچے، میں آپ کے پاس اونٹ لے کر حاضر ہوا اور آپ سے قیمت طلب کی۔ میں قیمت لے کر واپس جانے لگا تو آپ نے مجھے واپس بلا بھیجا اور فرمایا: ”کیا تو سمجھتا ہے کہ میں نے تیرا اونٹ لینے کے لیے تجھے کم قیمت دی ہے؟ اپنا اونٹ بھی لے جا اور قیمت بھی۔“
تشریح:
مندرجہ ذیل فوائد و مسائل کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ اہم بات ضرور یاد رہنی چاہیے کہ اس باب کے تحت مذکور حدیث حدیثِ جابر کے نام سے معروف ہے۔ اس کے بہت سے طرق ہیں، لہٰذا ان طرق کے لحاظ سے الفاظ کی کمی بیشی اور تفصیل واجمال سب کا لحاظ رکھتے ہوئے یہ فوائد و مسائل تحریر کیے گئے ہیں۔ (1) سودا کرتے ہوئے اگر ایسی شرط لگائی جائے جو مقصودِ عقد کے منافی نہ ہو تو اس صورت میں بیع اور شرط جائز ہو گی، خواہ اس شرط سے خرید نے یا بیچنے والے کو اضافی فائدہ حاصل ہوتا ہو۔ (2) جس شخص کے پاس کوئی چیز ہو اس سے اس چیز کا سودا کرنا جائز ہے، نیز یہ حدیث سفر میں سودا کرنے کے جواز پر بھی دلالت کرتی ہے اور یہ کہ خرید و فروخت کے وقت، خریدار چیز کی قیمت بتا سکتا ہے کہ میں تمھاری چیز اتنی رقم میں خریدوں گا، یا تم مجھے اپنی فلاں چیز اتنی رقم کے عوض دے دو، اسی طرح سودا پکا ہونے سے پہلے، بیع (سودے) کی قیمت کم و بیش کرنے، کرانے کی بابت بحث کرنا درست ہے، البتہ یہ نا جائز ہے کہ کسی چیز کی قیمت، جائز حدود سے کم کرانے کے لیے اپنا اثر ور سوخ اور منصب و اختیار استعمال کیا جائے اور مالک کو نقصان پہنچایا جائے۔ (3) اس حدیث مبارکہ سے یہ اہم مسئلہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ صحت بیع (سودا درست ہونے) کے لیے مبیع قبضے میں لینا شرط نہیں جیسا کہ خود رسول اللہ ﷺ نے سودا کرکے مبیع، یعنی اونٹ اپنے قبضے میں نہیں لیا بلکہ وہ مدینے تک سواری کے لیے حضرت جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے پاس ہی رہا، البتہ یہ ضروری ہے کہ اس خریدی ہوئی چیز کو قبضے میں لینے سے پہلے آگے فروخت نہ کیا جائے ایسا کرنا شرعاً نا جائز اور حرام ہے۔ (4) عمر اور مرتبے میں بڑی شخصیت کو جائز معاملے میں ”نہیں“ کہا جا سکتا ہے جیسا کہ سیدنا جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے رسول اللہ ﷺ کے جواب میں پہلے کہا: یہ بے ادبی یا گستاخی نہیں۔ (5) یہ حدیث اس مسئلے پر بھی دلالت کرتی ہے کہ نیک اور صالح عمل کا اظہار کرنا جبکہ وہ افراط و تفریط اور فخر و ریا، نیز اپنی بڑائی بیان کرنے کی غرض سے نہ ہو شرعاً مباح اور جائز ہے۔ اگر ایسا کرنے کا مقصد اپنی نیکی اور پارسائی کا اظہار ہو یا بطور فخر ایسا کیا جائے تو یہ نا جائز اور انتہائی قبیح عمل ہے۔ اس سے احتراز کرنا ضروری اور واجب ہے۔ (6) اس حدیث مبارکہ سے، بوقت ضرورت جانوروں کو مارنے کا جواز نکلتا ہے۔ اگرچہ جانور غیر مکلف ہیں، تا ہم ان کی ”اصلاح“ کے لیے انھین ”سزا“ دی جا سکتی ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے بذاتِ خود، اپنے دستِ مبارکہ سے اونٹ کو مارا تھا۔ یہ یاد رہے کہ یہ طریقہ اس وقت استعمال کیا جائے جب جانور تھکاوٹ کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنی ضد کی وجہ سے تنگ کر رہا ہو۔ (7) حاکم وقت، یا دیگر ذمہ داران کو اپنے ماتحت اشخاص کے حالات کا جائزہ لیتے رہنا چاہیے۔ ان کی مالی معاونت کرنی چاہیے، نیز ہر وقت احساس کے جذبے سے معمور رہنا چاہیے جیسا کہ رسول اکرم ﷺ نے حضرت جابر کے ساتھ۔ (8) قرض کی ادائیگی میں کسی دوسرے شخص کو وکیل بنانا درست ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کو فرمایا تھا کہ جابر کو ادائیگی کر دو۔ ثمن کا وزن کرنا مشتری کے ذمے ہے۔ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ادھار چیز خریدنا شرعاً درست اور جائز ہے۔ (9) ضرورت کے وقت چوپائے مسجد کے صحن میں داخل کیے جا سکتے ہیں۔ اسی طرح دیگر سازو سامان بھی مسجد کے صحن میں رکھا جا سکتا ہے۔ (10) اس حدیث مبارکہ سے یہ مسئلہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کسی شخص کا عطیہ قبول کرنے سے پہلے، اس پر رد کیا جا سکتا ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ حضرت جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنے اونٹ کی بابت کہا: اے اللہ کے رسول! یہ آپ کا ہے لیکن آپ نے فرمایا: لا، بَلْبعْنِيهِ ”نہیں (میں بلا قیمت قبول نہیں کرتا) بلکہ یہ اونٹ مجھے بیچ دو۔“ (11) اس حدیث مبارکہ سے یہ اہم مسئلہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ صحابہ کرام رسول اللہ ﷺ کے تبرکات کی حفاظت کا خاص اہتمام فرمایا کرتے تھے جیسا کہ سیدنا جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا: [لَمْ يُفارِقنِي فجعلْتُه فيكِيسٍ]”رسول اللہ ﷺ کی جانب سے زیادہ دیا ہوا قیراط مجھ سے کبھی جدا نہیں ہوا، میں نے اسے ایک تھیلی میں ڈال دیا۔“ لیکن اس سلسلے میں یہ بات ضرور یاد رکھنی چاہے کہ تبرکات مستند ذریعے سے ثابت ہوں، خود ساختہ نہ ہوں، نیز تبرکات کے ناقلین بھی ثقہ ہوں، غیر معتبر لوگوں کے قصے کہانیوں پر بلا تحقیق اعتماد نہیں کرنا چاہیے۔ (12) حضرت جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی فضیلت بھی اس حدیث سے واضح ہوتی ہے کہ انھوں نے رسول اللہ ﷺ کی فرماں برداری کرتے ہوئے، ذاتی ضرورت کے باوجود اونٹ آپ کو بیچ دیا۔ (13) اس حدیث سے رسول اللہ ﷺ کے معجزے کا ثبوت بھی ملتا ہے۔ یاد رہے معجزے میں قدرت الہٰی کار فرما ہوتی ہے۔ اس میں انسانی اختیار نہیں ہوتا۔ (14) اس حدیث سے رسول اللہ ﷺ کے حسن اخلاق کا اثبات بھی بھی ہوتا ہے۔ آپ نے سیدنا جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو نہ صرف یہ کہ طے شدہ قیمت سے قیراط زیادہ دیا بلکہ وہ اونٹ بھی واپس کر دیا۔ ’ (15) ”شرط لگا لی“ گویا ایسی شرط بیع کے پکا ہونے کے منافی نہیں۔ امام احمد رحمہ اللہ اسی کے قائل ہیں۔ احناف اس شرط کو مقتضائے عقد کے خلاف سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ شرط نہیں تھی بلکہ رسول اللہ ﷺ کی طرف سے ان کے لیے رعایت تھی۔ کسی راوی نے غلطی سے شرط کہہ دیا لیکن احناف کی یہ توجیہ محدثین کے فیصلے کے خلاف ہے۔ اکثر راوی شرط بیان کرتے ہیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4650
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4651
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4641
تمہید کتاب
اَلْبُیُوْع، جمع ہے اَلْبَیْعُ کی۔ اس کے معنی ہیں: خرید، فروخت، فروختگی۔ (دیکھئے: القاموس الوحید، مادہ [بیع] البیع، دراصل مصدر ہے: باع يبيعه بيعا،ومبيعاً فهو بَائِعٌ وَ بَیِّعٌ۔ البیوع کو جمع لایا گیا ہے جبکہ مصدر سے تثنیہ اور جمع نہیں لائے جاتے؟ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی انواع و اقسام بہت زیادہ ہیں، اس لیے اسے جمع لایا گیا ہے۔البیع اضداد میں سے ہے جیسا کہ اَلشِّرَاء اضداد میں سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ دونوں، یعنی البیع اور الشراء ایک دوسرے کے معنی میں بھی استعمال ہوتے ہیں۔ اسی لیے متعاقدین، یعنی خرید و فروخت کرنے والے دونوں اشخاص پر لفظ بائع کا اطلاق ہوتا ہے۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ جب البائع کا لفظ بولا جائے تو متبادر الی الذہن (فوری طور پر ذہن میں آنے والا) فروخت کنندہ ہی ہوتا ہے، تاہم بیچنے اور خریدنے والے، دونوں پر اس لفظ کا اطلاق درست ہے۔ عربی میں لفظ البیع کا اطلاق المبیع پر بھی کیا جاتا ہے، مثلاً: کہا جاتا ہے: بیع جید، بمعنی مبیع جید یعنی یہ مبیع (فروخت شدہ چیز) بہترین اور عمدہ ہے۔امام ابو العباس قرطبی فرماتے ہیں: اَلْبَیْعُ لُغَۃً باع کا مصدر ہے۔ کہا جاتا ہے: بَاعَ کَذَا بِکَذَا، یعنی اس نے فلاں چیز فلاں کے عوض بیچی۔ مطلب یہ کہ اس نے مُعَوَّضْ دیا اور اس کا عوض لیا۔ جب کوئی شخص ایک چیز دے کر اس کے بدلے میں کوئی چیز لیتا ہے تو اس کا تقاضا ہے کہ کوئی بائع ہو جو اس چیز کا اصل مالک ہوتا ہے یا مالک کا قائم مقام۔ اسی طرح اس کا یہ بھی تقاضا ہے کہ کوئی مبتاع (خریدار) بھی ہو۔ مُبْتَاع وہ شخص ہوتا ہے جو ثَمَن خرچ کر کے مبیع حاصل کرتا ہے اور یہ مبیع چونکہ ثمن کے عوض لی جاتی ہے، اس لیے یہ مَثْمُوْن ہوتی ہے۔ اس طرح ارکان بیع چار ہوئے ہیں: اَلْبَائِعُ (بیچنے والا) اَلْمُبْتَاعُ (خریدار) اَلثَّمَنُ (قیمت)، اور اَلْمَثْمُوْن (قیمت کے عوض میں لی ہوئی چیز)۔ دیکھئے: (المفہم: 4/360)حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: البیوع جمع ہے بیع کی۔ اور جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ اس کی مختلف انواع ہیں۔ البیع کے معنی ہیں: نَقْلُ مِلْکٍ إِلَی الْغَیْرِ بِثَمَنٍ ثمن، یعنی قیمت کے بدلے میں کسی چیز کی ملکیت دوسرے کی طرف منتقل کرنا اور اس قبولیت ملک کو شراء کہتے ہیں، تاہم البیع اور الشراء دونوں کا اطلاق ایک دوسرے پر بھی ہوتا ہے۔ مزید فرماتے ہیں کہ تمام مسلمانوں کا خرید و فروخت کے جواز پر اجماع ہے۔ حکمت کا تقاضا بھی یہی ہے کیونکہ عموماً ایسا ہوتا ہے کہ ایک چیز کسی انسان کے پاس ہوتی ہے اور کوئی دوسرا شخص اس کا ضرورت مند ہوتا ہے جبکہ پہلا شخص، یعنی مالک اپنی چیز (بلا معاوضہ) دوسرے پر خرچ کرنے (یا دینے) کے لیے تیار نہیں ہوتا، لہٰذا شریعت نے بذریعہ بیع اس چیز تک پہنچنے کا ایسا جائز ذریعہ مہیا کر دیا ہے جس میں قطعاً کوئی حرج نہیں۔ اس (بیع) کا جواز قرآن کریم سے ثابت ہے۔ ارشاد ربانی ہے: { وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا} (البقرۃ 2:275) ’’اللہ نے بیع (خرید و فروخت) کو حلال فرما دیا ہے اور سود کو حرام ٹھہرا دیا۔‘‘ (فتح الباری: 4/364، طبع دار السلام، الریاض)امام ابن قدامہ فرماتے ہیں: کسی چیز کا مالک بننے یا کسی اور کو مالک بنانے کے لیے مال کے بدلے مال کا تبادلہ بیع کہلاتا ہے۔ بیع، کتاب و سنت اور اجماع کی رو سے جائز ہے۔ قرآنِ کریم کی رو سے تو اس طرح کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے: { وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ} (البقرۃ 2:275)’’اللہ نے بیع کو حلال کیا ہے۔‘‘ سنت، یعنی حدیث کی رو سے بھی بیع جائز ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: [اَلْبَیِّعَانِ بِالْخِیَارِ مَا لَمْ یَتَفَرَّقَا] ’’دونوں سودا کرنے والے جب تک ایک دوسرے سے الگ اور جدا نہ ہوں (اس وقت تک) انہیں (سودا ختم کرنے کا) اختیار ہے۔ (صحیح البخاری، البیوع، حدیث: 2109، 2110، و صحیح مسلم، البیوع، حدیث: 1532) نیز تمام مسلمانوں کا اس کے جائز ہونے پر اجماع ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھئے: (ذخیرۃ العقبٰی شرح سنن النسائی: 34/2-75)
حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں ایک سفر میں نبی اکرمﷺ کے ساتھ تھا۔ میرا اونٹ چلنے سے عاجز آ گیا۔ میں نے سوچا، اسے (وہیں) چھوڑ دوں۔ اتنے میں رسول اللہ ﷺ مجھے پیچھے سے آ ملے۔ آپ نے اس کے لیے دعا بھی فرمائی اور اسے مارا بھی۔ پھر تو وہ ایسے چلنے لگا کہ (ساری زندگی) کبھی ایسا نہیں چلا تھا، پھر آپ نے فرمایا: ”یہ اونٹ ایک اوقیہ (چالیس در ہم) میں مجھے بیچ دے۔“ تو میں نے وہ اونٹ آپ کو ایک اوقیے میں بیچ دیا اور میں نے مدینہ منورہ تک سوار ہو کر جانے کی شرط لگا لی۔ جب ہم مدینہ منورہ پہنچے، میں آپ کے پاس اونٹ لے کر حاضر ہوا اور آپ سے قیمت طلب کی۔ میں قیمت لے کر واپس جانے لگا تو آپ نے مجھے واپس بلا بھیجا اور فرمایا: ”کیا تو سمجھتا ہے کہ میں نے تیرا اونٹ لینے کے لیے تجھے کم قیمت دی ہے؟ اپنا اونٹ بھی لے جا اور قیمت بھی۔“
حدیث حاشیہ:
مندرجہ ذیل فوائد و مسائل کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ اہم بات ضرور یاد رہنی چاہیے کہ اس باب کے تحت مذکور حدیث حدیثِ جابر کے نام سے معروف ہے۔ اس کے بہت سے طرق ہیں، لہٰذا ان طرق کے لحاظ سے الفاظ کی کمی بیشی اور تفصیل واجمال سب کا لحاظ رکھتے ہوئے یہ فوائد و مسائل تحریر کیے گئے ہیں۔ (1) سودا کرتے ہوئے اگر ایسی شرط لگائی جائے جو مقصودِ عقد کے منافی نہ ہو تو اس صورت میں بیع اور شرط جائز ہو گی، خواہ اس شرط سے خرید نے یا بیچنے والے کو اضافی فائدہ حاصل ہوتا ہو۔ (2) جس شخص کے پاس کوئی چیز ہو اس سے اس چیز کا سودا کرنا جائز ہے، نیز یہ حدیث سفر میں سودا کرنے کے جواز پر بھی دلالت کرتی ہے اور یہ کہ خرید و فروخت کے وقت، خریدار چیز کی قیمت بتا سکتا ہے کہ میں تمھاری چیز اتنی رقم میں خریدوں گا، یا تم مجھے اپنی فلاں چیز اتنی رقم کے عوض دے دو، اسی طرح سودا پکا ہونے سے پہلے، بیع (سودے) کی قیمت کم و بیش کرنے، کرانے کی بابت بحث کرنا درست ہے، البتہ یہ نا جائز ہے کہ کسی چیز کی قیمت، جائز حدود سے کم کرانے کے لیے اپنا اثر ور سوخ اور منصب و اختیار استعمال کیا جائے اور مالک کو نقصان پہنچایا جائے۔ (3) اس حدیث مبارکہ سے یہ اہم مسئلہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ صحت بیع (سودا درست ہونے) کے لیے مبیع قبضے میں لینا شرط نہیں جیسا کہ خود رسول اللہ ﷺ نے سودا کرکے مبیع، یعنی اونٹ اپنے قبضے میں نہیں لیا بلکہ وہ مدینے تک سواری کے لیے حضرت جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے پاس ہی رہا، البتہ یہ ضروری ہے کہ اس خریدی ہوئی چیز کو قبضے میں لینے سے پہلے آگے فروخت نہ کیا جائے ایسا کرنا شرعاً نا جائز اور حرام ہے۔ (4) عمر اور مرتبے میں بڑی شخصیت کو جائز معاملے میں ”نہیں“ کہا جا سکتا ہے جیسا کہ سیدنا جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے رسول اللہ ﷺ کے جواب میں پہلے کہا: یہ بے ادبی یا گستاخی نہیں۔ (5) یہ حدیث اس مسئلے پر بھی دلالت کرتی ہے کہ نیک اور صالح عمل کا اظہار کرنا جبکہ وہ افراط و تفریط اور فخر و ریا، نیز اپنی بڑائی بیان کرنے کی غرض سے نہ ہو شرعاً مباح اور جائز ہے۔ اگر ایسا کرنے کا مقصد اپنی نیکی اور پارسائی کا اظہار ہو یا بطور فخر ایسا کیا جائے تو یہ نا جائز اور انتہائی قبیح عمل ہے۔ اس سے احتراز کرنا ضروری اور واجب ہے۔ (6) اس حدیث مبارکہ سے، بوقت ضرورت جانوروں کو مارنے کا جواز نکلتا ہے۔ اگرچہ جانور غیر مکلف ہیں، تا ہم ان کی ”اصلاح“ کے لیے انھین ”سزا“ دی جا سکتی ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے بذاتِ خود، اپنے دستِ مبارکہ سے اونٹ کو مارا تھا۔ یہ یاد رہے کہ یہ طریقہ اس وقت استعمال کیا جائے جب جانور تھکاوٹ کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنی ضد کی وجہ سے تنگ کر رہا ہو۔ (7) حاکم وقت، یا دیگر ذمہ داران کو اپنے ماتحت اشخاص کے حالات کا جائزہ لیتے رہنا چاہیے۔ ان کی مالی معاونت کرنی چاہیے، نیز ہر وقت احساس کے جذبے سے معمور رہنا چاہیے جیسا کہ رسول اکرم ﷺ نے حضرت جابر کے ساتھ۔ (8) قرض کی ادائیگی میں کسی دوسرے شخص کو وکیل بنانا درست ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کو فرمایا تھا کہ جابر کو ادائیگی کر دو۔ ثمن کا وزن کرنا مشتری کے ذمے ہے۔ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ادھار چیز خریدنا شرعاً درست اور جائز ہے۔ (9) ضرورت کے وقت چوپائے مسجد کے صحن میں داخل کیے جا سکتے ہیں۔ اسی طرح دیگر سازو سامان بھی مسجد کے صحن میں رکھا جا سکتا ہے۔ (10) اس حدیث مبارکہ سے یہ مسئلہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کسی شخص کا عطیہ قبول کرنے سے پہلے، اس پر رد کیا جا سکتا ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ حضرت جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنے اونٹ کی بابت کہا: اے اللہ کے رسول! یہ آپ کا ہے لیکن آپ نے فرمایا: لا، بَلْبعْنِيهِ ”نہیں (میں بلا قیمت قبول نہیں کرتا) بلکہ یہ اونٹ مجھے بیچ دو۔“ (11) اس حدیث مبارکہ سے یہ اہم مسئلہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ صحابہ کرام رسول اللہ ﷺ کے تبرکات کی حفاظت کا خاص اہتمام فرمایا کرتے تھے جیسا کہ سیدنا جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا: [لَمْ يُفارِقنِي فجعلْتُه فيكِيسٍ]”رسول اللہ ﷺ کی جانب سے زیادہ دیا ہوا قیراط مجھ سے کبھی جدا نہیں ہوا، میں نے اسے ایک تھیلی میں ڈال دیا۔“ لیکن اس سلسلے میں یہ بات ضرور یاد رکھنی چاہے کہ تبرکات مستند ذریعے سے ثابت ہوں، خود ساختہ نہ ہوں، نیز تبرکات کے ناقلین بھی ثقہ ہوں، غیر معتبر لوگوں کے قصے کہانیوں پر بلا تحقیق اعتماد نہیں کرنا چاہیے۔ (12) حضرت جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی فضیلت بھی اس حدیث سے واضح ہوتی ہے کہ انھوں نے رسول اللہ ﷺ کی فرماں برداری کرتے ہوئے، ذاتی ضرورت کے باوجود اونٹ آپ کو بیچ دیا۔ (13) اس حدیث سے رسول اللہ ﷺ کے معجزے کا ثبوت بھی ملتا ہے۔ یاد رہے معجزے میں قدرت الہٰی کار فرما ہوتی ہے۔ اس میں انسانی اختیار نہیں ہوتا۔ (14) اس حدیث سے رسول اللہ ﷺ کے حسن اخلاق کا اثبات بھی بھی ہوتا ہے۔ آپ نے سیدنا جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو نہ صرف یہ کہ طے شدہ قیمت سے قیراط زیادہ دیا بلکہ وہ اونٹ بھی واپس کر دیا۔ ’ (15) ”شرط لگا لی“ گویا ایسی شرط بیع کے پکا ہونے کے منافی نہیں۔ امام احمد رحمہ اللہ اسی کے قائل ہیں۔ احناف اس شرط کو مقتضائے عقد کے خلاف سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ شرط نہیں تھی بلکہ رسول اللہ ﷺ کی طرف سے ان کے لیے رعایت تھی۔ کسی راوی نے غلطی سے شرط کہہ دیا لیکن احناف کی یہ توجیہ محدثین کے فیصلے کے خلاف ہے۔ اکثر راوی شرط بیان کرتے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
جابر بن عبداللہ ؓ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھا، میرا اونٹ تھک کر چلنے سے عاجز آ گیا، تو میں نے چاہا کہ اسے چھوڑ دوں، اتنے میں رسول اللہ ﷺ مجھ سے آ ملے، آپ نے اس کے لیے دعا کی اور اسے تھپتھپایا، اب وہ ایسا چلا کہ اس طرح کبھی نہ چلا تھا، آپ نے فرمایا: ”اسے ایک اوقیہ (۴۰ درہم) میں مجھ سے بیچ دو“، میں نے کہا: نہیں (بلکہ وہ آپ ہی کا ہے)، آپ نے فرمایا: ”اسے مجھ سے بیچ دو“ تو میں نے ایک اوقیہ میں اسے آپ کے ہاتھ بیچ دیا اور مدینے تک اس پر سوار ہو کر جانے کی شرط لگائی۱؎، جب ہم مدینہ پہنچے تو میں اونٹ لے کر آپ کے پاس آیا اور اس کی قیمت چاہی، پھر میں لوٹا تو آپ نے مجھے بلا بھیجا، اور فرمایا: ”کیا تم سمجھتے ہو کہ میں نے کم قیمت لگائی تاکہ میں تمہارا اونٹ لے سکوں، لو اپنا اونٹ بھی لے لو اور اپنے درہم بھی۔“
حدیث حاشیہ:
۱؎ : یہ جائز شرط تھی اس لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر معاملہ کر لیا، یہی باب سے مناسبت ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Jabir bin 'Abdullah said: "I was with the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) on a journey, and my camel got tired. I thought I wanted to let it go, but the Messenger of "Allah met me and prayed for it (the camel) and hit it. Then it started to run like never before. He said: 'Sell it to me for one Uwqiyah.' I said" 'No.' He said: 'Sell it to me.' So I sold it to him for one Uwqiyah but stipulated an exception, to ride it until we reached al-Madinah. When we reached Al-Medinah, I brought the camel to him and asked him for its price, then I went back. He sent word to me saying; 'Do you think I bargained with you to take your camel?' Take your camel and your Dirhams.