Sunan-nasai:
The Book of Financial Transactions
(Chapter: Selling Something From The Spoils Of War Prior to Its distribution)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4645.
حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مال غنیمت کی تقسیم سے پہلے اس کا سودا کرنے سے منع فرمایا۔ اور (اسی طرح نئی خریدی ہوئی) حاملہ لونڈیوں کے ساتھ جماع کرنے سے منع فرمایا حتیٰ کہ وہ اپنے پیٹ کا بچہ جن دیں، نیز آپ نے ہر کچلی والے درندے کا گوشت کھانے سے منع فرمایا۔
تشریح:
(1) ”مالِ غنیمت کی تقسم“جاہلیت میں رواج تھا کہ جنگ میں حصہ لینے والا شخص کسی دوسرے شخص سے کہتا کہ مجھے مالِ غنیمت میں سے جو حصہ ملے گا، میں تجھے اتنے میں فروخت کرتا ہوں، حالانکہ نہ وہ ابھی تک اپنے حصے کا مالک بنا ہوتا تھا اور نہ یہ علم ہی ہوتا تھا کہ اس کے حصے میں کیا آئے گا۔ ظاہر ہے کہ شریعت مجہول اور غیر مملوک چیز کی فروخت کی اجازت قطعاً نہیں دیتی۔ (2) ”حاملہ لونڈی“ یعنی جس لونڈی کو اس کے سابقہ خاوند یا مالک سے حمل ٹھہر چکا ہو۔ وہ جنگ میں کسی کے ہاتھ لگ جائے یا کوئی شخص اسے خرید لے تو جب تک بچہ پیدا نہیں ہو جاتا، نئے مالک کے لیے اس سے جماع کرنا حرام ہے کیونکہ وہ حمل کسی اور شخص کا ہے۔ اس کو اس میں دخل اندازی کا حق نہیں۔ (3) ”کچلی والے“ کچلی نوکیلے دانت کو کہتے ہیں جو درمیان والے چار دانتوں کے دونوں اطراف ایک ایک ہوتا ہے۔ یہاں اس سے مراد شکاری جانور ہے جسے ہم درندہ کہتے ہیں کیونکہ درندے میں یہ دانت لازماً ہوتے ہیں جبکہ غیر شکاری میں یہ دانت نہیں ہوتے۔ شکاری جانور کی حرمت کی وجہ پیچھے گزر چکی ہے۔
الحکم التفصیلی:
الارواہ:1302
قلت : وهذا إسناد رجاله كلهم ثقات رجال البخاري غير رشدين وهو
ابن سعد وهو ضعيف لسوء حفظه . لكن يقويه أنه جاء من طريق أخرى يرويه إسماعيل بن عياش عن الحجاج بن أرطاة عن داود بن أبي هند عن الشعبي عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم : " أنه نهى في وقعة أوطاس أن يقع الرجل على حامل حتى تضع " . أخرجه الطبراني في " المعجم الصغير " ( ص 52 ) وفي " الأوسط " كما في " المجمع " ( 5 / 4 ) والدارقطني في " الأفراد " ( 2 / 10 / 1 ) وقالا : " تفرد به إسماعيل بن عياش " . قلت : وهو ضعيف في روايته عن غير الشاميين وهذه منها فإن الحجاج ابن أرطاة كوفي وهو مدلس وقد عنعنه . وقد اضطرب إسماعيل عليه فرواه مرة هكذا ومرة قال : عن الحجاج بن أرطاة عن الزهري عن أنس بن مالك عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال : " لا تطؤوا السبايا حتى يحضن ولا الحوامل حتى يضعن ولا تولهوا والدا عن ولده " . أخرجه الدارقطني في " الأفراد " أيضا . وجملة القول أن الحديث بهذه الشواهد صحيح بلا ريب .
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4658
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4659
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4649
تمہید کتاب
اَلْبُیُوْع، جمع ہے اَلْبَیْعُ کی۔ اس کے معنی ہیں: خرید، فروخت، فروختگی۔ (دیکھئے: القاموس الوحید، مادہ [بیع] البیع، دراصل مصدر ہے: باع يبيعه بيعا،ومبيعاً فهو بَائِعٌ وَ بَیِّعٌ۔ البیوع کو جمع لایا گیا ہے جبکہ مصدر سے تثنیہ اور جمع نہیں لائے جاتے؟ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی انواع و اقسام بہت زیادہ ہیں، اس لیے اسے جمع لایا گیا ہے۔البیع اضداد میں سے ہے جیسا کہ اَلشِّرَاء اضداد میں سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ دونوں، یعنی البیع اور الشراء ایک دوسرے کے معنی میں بھی استعمال ہوتے ہیں۔ اسی لیے متعاقدین، یعنی خرید و فروخت کرنے والے دونوں اشخاص پر لفظ بائع کا اطلاق ہوتا ہے۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ جب البائع کا لفظ بولا جائے تو متبادر الی الذہن (فوری طور پر ذہن میں آنے والا) فروخت کنندہ ہی ہوتا ہے، تاہم بیچنے اور خریدنے والے، دونوں پر اس لفظ کا اطلاق درست ہے۔ عربی میں لفظ البیع کا اطلاق المبیع پر بھی کیا جاتا ہے، مثلاً: کہا جاتا ہے: بیع جید، بمعنی مبیع جید یعنی یہ مبیع (فروخت شدہ چیز) بہترین اور عمدہ ہے۔امام ابو العباس قرطبی فرماتے ہیں: اَلْبَیْعُ لُغَۃً باع کا مصدر ہے۔ کہا جاتا ہے: بَاعَ کَذَا بِکَذَا، یعنی اس نے فلاں چیز فلاں کے عوض بیچی۔ مطلب یہ کہ اس نے مُعَوَّضْ دیا اور اس کا عوض لیا۔ جب کوئی شخص ایک چیز دے کر اس کے بدلے میں کوئی چیز لیتا ہے تو اس کا تقاضا ہے کہ کوئی بائع ہو جو اس چیز کا اصل مالک ہوتا ہے یا مالک کا قائم مقام۔ اسی طرح اس کا یہ بھی تقاضا ہے کہ کوئی مبتاع (خریدار) بھی ہو۔ مُبْتَاع وہ شخص ہوتا ہے جو ثَمَن خرچ کر کے مبیع حاصل کرتا ہے اور یہ مبیع چونکہ ثمن کے عوض لی جاتی ہے، اس لیے یہ مَثْمُوْن ہوتی ہے۔ اس طرح ارکان بیع چار ہوئے ہیں: اَلْبَائِعُ (بیچنے والا) اَلْمُبْتَاعُ (خریدار) اَلثَّمَنُ (قیمت)، اور اَلْمَثْمُوْن (قیمت کے عوض میں لی ہوئی چیز)۔ دیکھئے: (المفہم: 4/360)حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: البیوع جمع ہے بیع کی۔ اور جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ اس کی مختلف انواع ہیں۔ البیع کے معنی ہیں: نَقْلُ مِلْکٍ إِلَی الْغَیْرِ بِثَمَنٍ ثمن، یعنی قیمت کے بدلے میں کسی چیز کی ملکیت دوسرے کی طرف منتقل کرنا اور اس قبولیت ملک کو شراء کہتے ہیں، تاہم البیع اور الشراء دونوں کا اطلاق ایک دوسرے پر بھی ہوتا ہے۔ مزید فرماتے ہیں کہ تمام مسلمانوں کا خرید و فروخت کے جواز پر اجماع ہے۔ حکمت کا تقاضا بھی یہی ہے کیونکہ عموماً ایسا ہوتا ہے کہ ایک چیز کسی انسان کے پاس ہوتی ہے اور کوئی دوسرا شخص اس کا ضرورت مند ہوتا ہے جبکہ پہلا شخص، یعنی مالک اپنی چیز (بلا معاوضہ) دوسرے پر خرچ کرنے (یا دینے) کے لیے تیار نہیں ہوتا، لہٰذا شریعت نے بذریعہ بیع اس چیز تک پہنچنے کا ایسا جائز ذریعہ مہیا کر دیا ہے جس میں قطعاً کوئی حرج نہیں۔ اس (بیع) کا جواز قرآن کریم سے ثابت ہے۔ ارشاد ربانی ہے: { وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا} (البقرۃ 2:275) ’’اللہ نے بیع (خرید و فروخت) کو حلال فرما دیا ہے اور سود کو حرام ٹھہرا دیا۔‘‘ (فتح الباری: 4/364، طبع دار السلام، الریاض)امام ابن قدامہ فرماتے ہیں: کسی چیز کا مالک بننے یا کسی اور کو مالک بنانے کے لیے مال کے بدلے مال کا تبادلہ بیع کہلاتا ہے۔ بیع، کتاب و سنت اور اجماع کی رو سے جائز ہے۔ قرآنِ کریم کی رو سے تو اس طرح کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے: { وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ} (البقرۃ 2:275)’’اللہ نے بیع کو حلال کیا ہے۔‘‘ سنت، یعنی حدیث کی رو سے بھی بیع جائز ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: [اَلْبَیِّعَانِ بِالْخِیَارِ مَا لَمْ یَتَفَرَّقَا] ’’دونوں سودا کرنے والے جب تک ایک دوسرے سے الگ اور جدا نہ ہوں (اس وقت تک) انہیں (سودا ختم کرنے کا) اختیار ہے۔ (صحیح البخاری، البیوع، حدیث: 2109، 2110، و صحیح مسلم، البیوع، حدیث: 1532) نیز تمام مسلمانوں کا اس کے جائز ہونے پر اجماع ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھئے: (ذخیرۃ العقبٰی شرح سنن النسائی: 34/2-75)
حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مال غنیمت کی تقسیم سے پہلے اس کا سودا کرنے سے منع فرمایا۔ اور (اسی طرح نئی خریدی ہوئی) حاملہ لونڈیوں کے ساتھ جماع کرنے سے منع فرمایا حتیٰ کہ وہ اپنے پیٹ کا بچہ جن دیں، نیز آپ نے ہر کچلی والے درندے کا گوشت کھانے سے منع فرمایا۔
حدیث حاشیہ:
(1) ”مالِ غنیمت کی تقسم“جاہلیت میں رواج تھا کہ جنگ میں حصہ لینے والا شخص کسی دوسرے شخص سے کہتا کہ مجھے مالِ غنیمت میں سے جو حصہ ملے گا، میں تجھے اتنے میں فروخت کرتا ہوں، حالانکہ نہ وہ ابھی تک اپنے حصے کا مالک بنا ہوتا تھا اور نہ یہ علم ہی ہوتا تھا کہ اس کے حصے میں کیا آئے گا۔ ظاہر ہے کہ شریعت مجہول اور غیر مملوک چیز کی فروخت کی اجازت قطعاً نہیں دیتی۔ (2) ”حاملہ لونڈی“ یعنی جس لونڈی کو اس کے سابقہ خاوند یا مالک سے حمل ٹھہر چکا ہو۔ وہ جنگ میں کسی کے ہاتھ لگ جائے یا کوئی شخص اسے خرید لے تو جب تک بچہ پیدا نہیں ہو جاتا، نئے مالک کے لیے اس سے جماع کرنا حرام ہے کیونکہ وہ حمل کسی اور شخص کا ہے۔ اس کو اس میں دخل اندازی کا حق نہیں۔ (3) ”کچلی والے“ کچلی نوکیلے دانت کو کہتے ہیں جو درمیان والے چار دانتوں کے دونوں اطراف ایک ایک ہوتا ہے۔ یہاں اس سے مراد شکاری جانور ہے جسے ہم درندہ کہتے ہیں کیونکہ درندے میں یہ دانت لازماً ہوتے ہیں جبکہ غیر شکاری میں یہ دانت نہیں ہوتے۔ شکاری جانور کی حرمت کی وجہ پیچھے گزر چکی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عباس ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے تقسیم ہونے سے پہلے مال غنیمت بیچنے، حاملہ عورتوں ۱؎ کے ساتھ بچہ کی پیدائش سے پہلے جماع کرنے اور ہر دانت والے درندے کے گوشت (کھانے) سے منع فرمایا۔
حدیث حاشیہ:
۱؎ : مال غنیمت میں ملی ہوئی لونڈیاں مراد ہیں، اگر وہ حاملہ ہوں تو ان کو پانے والے مجاہد ان کے بچہ جننے کے بعد ہی ان سے مباشرت کر سکتے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Ibn 'Abbas said: "The Messenger of Allah (ﷺ) forbade selling something from the spoils of war prior to its distribution, having intercourse with a pregnant woman until she gives birth, and (eating) the flesh of any predator that has fangs.