تشریح:
(1) امام صاحب رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ سودے پر یا سودا کرتے وقت گواہ بھی بنائے جائیں تو اس کی گنجائش ہے۔ اس استدلال پر ایک اعتراض وارد ہوتا ہے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے: ﴿وَأَشْهِدُوا إِذَا تَبَايَعْتُمْ﴾ ”اور جب تم باہم خرید وفروخت کرو تو گواہ بنا لو۔“ اس جگہ لفظ ﴿وَأَشْهِدُوا﴾ فرمایا گیا ہے اور یہ امر کا صیغہ ہے جبکہ امر وجوب کے لیے ہوتا ہے ۔ دریں صورت کس طرح یہ گنجائش نکلتی ہے کہ گواہ نہ بنائے جائیں اور سودا کر لیا جائے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جب قرینہ صارفہ (امر وجوب سے استحباب وغیرہ کی طرف پھیرنے والی دلیل) آ جائے تو پھر وجوب ختم ہو جاتا ہے جیسا کہ مذکورہ حدیث میں اعرابی اور اور نبی اکرم ﷺ کے واقعہ سے ظاہر ہوتا ہے۔ گواہ بنانا مستحب ہے، ضروری نہیں، تاہم ادھار سودا ہو یا قرض ہو یا سودے وغیرہ میں نسیان و تنازع کا خدشہ ہو تو گواہ بنانا، تحریر تیار کرنا مؤکد چیز ہے۔
(2) سیدنا خزیمہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی فضیلت و منقبت ثابت ہوتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کی گواہی کو دو مسلمان مردوں کو گواہی کے برابر قرار دیا۔ ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ
(3) یہ حدیث مبارکہ رسول اللہﷺ کی کسرنفسی اور انتہائی تواضع پر واضح دلیل ہے کہ آپ اپنے دنیوی کام کاج بذات خود سر انجام دیتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ کی اس تواضع میں امت کے لیے بہت بڑا سبق ہے کہ اپنے کام خود کرنا ہی عظمت اور بڑائی ہے نہ کہ دوسروں سے کرانا اور ان پر انحصار کرنا۔