باب: بیچنے اور خریدنے والے میں قیمت کا اختلاف ہو جائے تو؟
)
Sunan-nasai:
The Book of Financial Transactions
(Chapter: When The Two Parties To a Transaction disagree About The Price)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4649.
حضرت عبد الملک بن عبید سے روایت ہے کہ ہم حضرت ابو عبیدہ بن عبد اللہ بن مسعود کی مجلس میں حاضر تھے کہ ان کے پاس دو آدمی آئے۔ انھوں نے آپس میں کسی سامان کا سودا کیا تھا۔ ایک کہہ رہا تھا: میں نے اتنے میں لیا۔ دوسرا کہہ رہا تھا: میں نے اتنے کا بیچا۔ حضرت ابو عبیدہ فرمانے لگے: حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ کے پاس ایسا مسئلہ پیش ہوا تھا تو انھوں نے فرمایا تھا: میں رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر تھا کہ آپ کے پاس اسی قسم کا مقدمہ لایا گیا۔ آپ نے حکم دیا کہ بیچنے والے سے قسم لی جائے، پھر خریدنے والے کو اختیار ہو گا، چاہے اس بھاؤ میں لے لے یا پھر سودا چھوڑ دے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4662
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4663
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4653
تمہید کتاب
اَلْبُیُوْع، جمع ہے اَلْبَیْعُ کی۔ اس کے معنی ہیں: خرید، فروخت، فروختگی۔ (دیکھئے: القاموس الوحید، مادہ [بیع] البیع، دراصل مصدر ہے: باع يبيعه بيعا،ومبيعاً فهو بَائِعٌ وَ بَیِّعٌ۔ البیوع کو جمع لایا گیا ہے جبکہ مصدر سے تثنیہ اور جمع نہیں لائے جاتے؟ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی انواع و اقسام بہت زیادہ ہیں، اس لیے اسے جمع لایا گیا ہے۔البیع اضداد میں سے ہے جیسا کہ اَلشِّرَاء اضداد میں سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ دونوں، یعنی البیع اور الشراء ایک دوسرے کے معنی میں بھی استعمال ہوتے ہیں۔ اسی لیے متعاقدین، یعنی خرید و فروخت کرنے والے دونوں اشخاص پر لفظ بائع کا اطلاق ہوتا ہے۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ جب البائع کا لفظ بولا جائے تو متبادر الی الذہن (فوری طور پر ذہن میں آنے والا) فروخت کنندہ ہی ہوتا ہے، تاہم بیچنے اور خریدنے والے، دونوں پر اس لفظ کا اطلاق درست ہے۔ عربی میں لفظ البیع کا اطلاق المبیع پر بھی کیا جاتا ہے، مثلاً: کہا جاتا ہے: بیع جید، بمعنی مبیع جید یعنی یہ مبیع (فروخت شدہ چیز) بہترین اور عمدہ ہے۔امام ابو العباس قرطبی فرماتے ہیں: اَلْبَیْعُ لُغَۃً باع کا مصدر ہے۔ کہا جاتا ہے: بَاعَ کَذَا بِکَذَا، یعنی اس نے فلاں چیز فلاں کے عوض بیچی۔ مطلب یہ کہ اس نے مُعَوَّضْ دیا اور اس کا عوض لیا۔ جب کوئی شخص ایک چیز دے کر اس کے بدلے میں کوئی چیز لیتا ہے تو اس کا تقاضا ہے کہ کوئی بائع ہو جو اس چیز کا اصل مالک ہوتا ہے یا مالک کا قائم مقام۔ اسی طرح اس کا یہ بھی تقاضا ہے کہ کوئی مبتاع (خریدار) بھی ہو۔ مُبْتَاع وہ شخص ہوتا ہے جو ثَمَن خرچ کر کے مبیع حاصل کرتا ہے اور یہ مبیع چونکہ ثمن کے عوض لی جاتی ہے، اس لیے یہ مَثْمُوْن ہوتی ہے۔ اس طرح ارکان بیع چار ہوئے ہیں: اَلْبَائِعُ (بیچنے والا) اَلْمُبْتَاعُ (خریدار) اَلثَّمَنُ (قیمت)، اور اَلْمَثْمُوْن (قیمت کے عوض میں لی ہوئی چیز)۔ دیکھئے: (المفہم: 4/360)حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: البیوع جمع ہے بیع کی۔ اور جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ اس کی مختلف انواع ہیں۔ البیع کے معنی ہیں: نَقْلُ مِلْکٍ إِلَی الْغَیْرِ بِثَمَنٍ ثمن، یعنی قیمت کے بدلے میں کسی چیز کی ملکیت دوسرے کی طرف منتقل کرنا اور اس قبولیت ملک کو شراء کہتے ہیں، تاہم البیع اور الشراء دونوں کا اطلاق ایک دوسرے پر بھی ہوتا ہے۔ مزید فرماتے ہیں کہ تمام مسلمانوں کا خرید و فروخت کے جواز پر اجماع ہے۔ حکمت کا تقاضا بھی یہی ہے کیونکہ عموماً ایسا ہوتا ہے کہ ایک چیز کسی انسان کے پاس ہوتی ہے اور کوئی دوسرا شخص اس کا ضرورت مند ہوتا ہے جبکہ پہلا شخص، یعنی مالک اپنی چیز (بلا معاوضہ) دوسرے پر خرچ کرنے (یا دینے) کے لیے تیار نہیں ہوتا، لہٰذا شریعت نے بذریعہ بیع اس چیز تک پہنچنے کا ایسا جائز ذریعہ مہیا کر دیا ہے جس میں قطعاً کوئی حرج نہیں۔ اس (بیع) کا جواز قرآن کریم سے ثابت ہے۔ ارشاد ربانی ہے: { وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا} (البقرۃ 2:275) ’’اللہ نے بیع (خرید و فروخت) کو حلال فرما دیا ہے اور سود کو حرام ٹھہرا دیا۔‘‘ (فتح الباری: 4/364، طبع دار السلام، الریاض)امام ابن قدامہ فرماتے ہیں: کسی چیز کا مالک بننے یا کسی اور کو مالک بنانے کے لیے مال کے بدلے مال کا تبادلہ بیع کہلاتا ہے۔ بیع، کتاب و سنت اور اجماع کی رو سے جائز ہے۔ قرآنِ کریم کی رو سے تو اس طرح کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے: { وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ} (البقرۃ 2:275)’’اللہ نے بیع کو حلال کیا ہے۔‘‘ سنت، یعنی حدیث کی رو سے بھی بیع جائز ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: [اَلْبَیِّعَانِ بِالْخِیَارِ مَا لَمْ یَتَفَرَّقَا] ’’دونوں سودا کرنے والے جب تک ایک دوسرے سے الگ اور جدا نہ ہوں (اس وقت تک) انہیں (سودا ختم کرنے کا) اختیار ہے۔ (صحیح البخاری، البیوع، حدیث: 2109، 2110، و صحیح مسلم، البیوع، حدیث: 1532) نیز تمام مسلمانوں کا اس کے جائز ہونے پر اجماع ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھئے: (ذخیرۃ العقبٰی شرح سنن النسائی: 34/2-75)
حضرت عبد الملک بن عبید سے روایت ہے کہ ہم حضرت ابو عبیدہ بن عبد اللہ بن مسعود کی مجلس میں حاضر تھے کہ ان کے پاس دو آدمی آئے۔ انھوں نے آپس میں کسی سامان کا سودا کیا تھا۔ ایک کہہ رہا تھا: میں نے اتنے میں لیا۔ دوسرا کہہ رہا تھا: میں نے اتنے کا بیچا۔ حضرت ابو عبیدہ فرمانے لگے: حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ کے پاس ایسا مسئلہ پیش ہوا تھا تو انھوں نے فرمایا تھا: میں رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر تھا کہ آپ کے پاس اسی قسم کا مقدمہ لایا گیا۔ آپ نے حکم دیا کہ بیچنے والے سے قسم لی جائے، پھر خریدنے والے کو اختیار ہو گا، چاہے اس بھاؤ میں لے لے یا پھر سودا چھوڑ دے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبدالملک بن عبید کہتے ہیں کہ ہم ابوعبیدہ بن عبداللہ بن مسعود کے پاس حاضر ہوئے، ان کے پاس دو آدمی آئے جنہوں نے ایک سامان کی خرید و فروخت کر رکھی تھی، ان میں سے ایک نے کہا: میں نے اسے اتنے اور اتنے میں لیا ہے، دوسرے نے کہا: میں نے اسے اتنے اور اتنے میں بیچا ہے تو ابوعبیدہ نے کہا: ابن مسعود ؓ کے پاس بھی ایسا ہی مقدمہ آیا تو انہوں نے کہا: میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ کے پاس ایسا ہی مقدمہ آیا۔ تو آپ ﷺ نے بائع کو قسم کھانے کا حکم دیا پھر (فرمایا: خریدار) کو اختیار ہے، چاہے تو اسے لے اور چاہے تو چھوڑ دے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that 'Abdul-Malik bin'Ubaid said: "We were with Abu 'Ubaidah bin 'Abdullah bin Mas'ud when two men who were involved in a transaction came to him. One of them said: 'I bought it for such and such', and the other said; 'I sold it to him for such and such,' Abu 'Ubaidah said" 'something like this was brought to Ibn Mas'ud, and he said; I was with something like this was brought to him. He told the seller to swear an oath, them he gave the purchaser the choice; If he wished, he could buy it, and if he wished he could cancel (the transaction).