Sunan-nasai:
The Book of Financial Transactions
(Chapter: Selling A Mudabbar)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4652.
حضرت جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ بنو عذرہ کے ایک آدمی نے اپنا ایک غلام مدبر کیا۔ یہ بات رسول اللہ ﷺ کو پہنچی تو آپ نے فرمایا: ”کیا تیرے پاس اس کے علاوہ کوئی اور مال ہے؟“ اس نے کہا: نہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”کون شخص مجھ سے یہ (غلام) خریدتا ہے؟“ حضرت نعیم بن عبد اللہ عدوی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اسے آٹھ سو درہم میں خرید لیا۔ وہ رقم رسول اللہ ﷺ کے پاس لے کر آئے۔ آپ نے وہ اس کے سپرد کر دی اور فرمایا: ”پہلے اپنے آپ پر خرچ کر، پھر اگر کچھ بچ جائے تو وہ تیرے اہل و عیال کے لیے ہے، پھر اگر تیرے اہل و عیال سے کچھ بچ جائے تو تیرے رشتہ داروں کا حق ہے، البتہ اگر تیرے رشتہ داروں سے بھی کچھ بچ جائے تو ایسے ایسے اور ایسے، یعنی اپنے آگے، اپنے دائیں اور اپنے بائیں (اللہ کے راستے میں خرچ کر)۔“
تشریح:
(1) اس مسئلے میں اہل علم کا اختلاف ہے کہ مدبر کو بیچا جا سکتا ہے یا نہیں؟ امام شافعی رحمہ اللہ اور اہل الحدیث (محدثین کرام کی جماعت) اس کو جائز قرار دیتے ہیں۔ مذکورہ احادیث اس کی واضح دلیل ہیں۔ (2) یہ حدیث مبارکہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ نفلی صدقے میں افضل یہ ہے کہ اسے خیر و بھلائی کی مختلف انواع میں تقسیم کیا جائے، یعنی جو مصلحت کا تقاضا ہو، ادھر ہی خرچ کرنا چاہیے۔ کوئی خاص جہت معین نہیں کرنی چاہیے کہ صدقہ کرنے والا یہ کہے میں صرف فلاں مد ہی میں خرچ کروں گا اس کے علاوہ کہیں بھی خرچ نہیں کروں گا، خواہ اس کی ضرورت ہی ہو۔ (3) امیر و حاکم کو یہ اختیار حاصل ہے کہ لوگوں کے ذمے سے قرض چکانے کے لیے ان کے مال فروخت کر کے ان کے قرض ادا کر دے اور باقی رقم ان کی دیگر ضروریات پوری کرنے کے لیے ان کے سپرد کر دے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے کیا تھا۔ (4) شرعی حکمران کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کم عقل اور نادان شخص پر پابندی لگا دے کہ وہ اپنا مال فروخت نہیں کر سکتا، نیز اسے یہ اختیار بھی حاصل ہے کہ ایسے شخص کے اپنے مال میں کیے ہوئے تصرف کو کا لعدم کر دے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4665
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4666
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4656
تمہید کتاب
اَلْبُیُوْع، جمع ہے اَلْبَیْعُ کی۔ اس کے معنی ہیں: خرید، فروخت، فروختگی۔ (دیکھئے: القاموس الوحید، مادہ [بیع] البیع، دراصل مصدر ہے: باع يبيعه بيعا،ومبيعاً فهو بَائِعٌ وَ بَیِّعٌ۔ البیوع کو جمع لایا گیا ہے جبکہ مصدر سے تثنیہ اور جمع نہیں لائے جاتے؟ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی انواع و اقسام بہت زیادہ ہیں، اس لیے اسے جمع لایا گیا ہے۔البیع اضداد میں سے ہے جیسا کہ اَلشِّرَاء اضداد میں سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ دونوں، یعنی البیع اور الشراء ایک دوسرے کے معنی میں بھی استعمال ہوتے ہیں۔ اسی لیے متعاقدین، یعنی خرید و فروخت کرنے والے دونوں اشخاص پر لفظ بائع کا اطلاق ہوتا ہے۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ جب البائع کا لفظ بولا جائے تو متبادر الی الذہن (فوری طور پر ذہن میں آنے والا) فروخت کنندہ ہی ہوتا ہے، تاہم بیچنے اور خریدنے والے، دونوں پر اس لفظ کا اطلاق درست ہے۔ عربی میں لفظ البیع کا اطلاق المبیع پر بھی کیا جاتا ہے، مثلاً: کہا جاتا ہے: بیع جید، بمعنی مبیع جید یعنی یہ مبیع (فروخت شدہ چیز) بہترین اور عمدہ ہے۔امام ابو العباس قرطبی فرماتے ہیں: اَلْبَیْعُ لُغَۃً باع کا مصدر ہے۔ کہا جاتا ہے: بَاعَ کَذَا بِکَذَا، یعنی اس نے فلاں چیز فلاں کے عوض بیچی۔ مطلب یہ کہ اس نے مُعَوَّضْ دیا اور اس کا عوض لیا۔ جب کوئی شخص ایک چیز دے کر اس کے بدلے میں کوئی چیز لیتا ہے تو اس کا تقاضا ہے کہ کوئی بائع ہو جو اس چیز کا اصل مالک ہوتا ہے یا مالک کا قائم مقام۔ اسی طرح اس کا یہ بھی تقاضا ہے کہ کوئی مبتاع (خریدار) بھی ہو۔ مُبْتَاع وہ شخص ہوتا ہے جو ثَمَن خرچ کر کے مبیع حاصل کرتا ہے اور یہ مبیع چونکہ ثمن کے عوض لی جاتی ہے، اس لیے یہ مَثْمُوْن ہوتی ہے۔ اس طرح ارکان بیع چار ہوئے ہیں: اَلْبَائِعُ (بیچنے والا) اَلْمُبْتَاعُ (خریدار) اَلثَّمَنُ (قیمت)، اور اَلْمَثْمُوْن (قیمت کے عوض میں لی ہوئی چیز)۔ دیکھئے: (المفہم: 4/360)حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: البیوع جمع ہے بیع کی۔ اور جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ اس کی مختلف انواع ہیں۔ البیع کے معنی ہیں: نَقْلُ مِلْکٍ إِلَی الْغَیْرِ بِثَمَنٍ ثمن، یعنی قیمت کے بدلے میں کسی چیز کی ملکیت دوسرے کی طرف منتقل کرنا اور اس قبولیت ملک کو شراء کہتے ہیں، تاہم البیع اور الشراء دونوں کا اطلاق ایک دوسرے پر بھی ہوتا ہے۔ مزید فرماتے ہیں کہ تمام مسلمانوں کا خرید و فروخت کے جواز پر اجماع ہے۔ حکمت کا تقاضا بھی یہی ہے کیونکہ عموماً ایسا ہوتا ہے کہ ایک چیز کسی انسان کے پاس ہوتی ہے اور کوئی دوسرا شخص اس کا ضرورت مند ہوتا ہے جبکہ پہلا شخص، یعنی مالک اپنی چیز (بلا معاوضہ) دوسرے پر خرچ کرنے (یا دینے) کے لیے تیار نہیں ہوتا، لہٰذا شریعت نے بذریعہ بیع اس چیز تک پہنچنے کا ایسا جائز ذریعہ مہیا کر دیا ہے جس میں قطعاً کوئی حرج نہیں۔ اس (بیع) کا جواز قرآن کریم سے ثابت ہے۔ ارشاد ربانی ہے: { وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا} (البقرۃ 2:275) ’’اللہ نے بیع (خرید و فروخت) کو حلال فرما دیا ہے اور سود کو حرام ٹھہرا دیا۔‘‘ (فتح الباری: 4/364، طبع دار السلام، الریاض)امام ابن قدامہ فرماتے ہیں: کسی چیز کا مالک بننے یا کسی اور کو مالک بنانے کے لیے مال کے بدلے مال کا تبادلہ بیع کہلاتا ہے۔ بیع، کتاب و سنت اور اجماع کی رو سے جائز ہے۔ قرآنِ کریم کی رو سے تو اس طرح کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے: { وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ} (البقرۃ 2:275)’’اللہ نے بیع کو حلال کیا ہے۔‘‘ سنت، یعنی حدیث کی رو سے بھی بیع جائز ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: [اَلْبَیِّعَانِ بِالْخِیَارِ مَا لَمْ یَتَفَرَّقَا] ’’دونوں سودا کرنے والے جب تک ایک دوسرے سے الگ اور جدا نہ ہوں (اس وقت تک) انہیں (سودا ختم کرنے کا) اختیار ہے۔ (صحیح البخاری، البیوع، حدیث: 2109، 2110، و صحیح مسلم، البیوع، حدیث: 1532) نیز تمام مسلمانوں کا اس کے جائز ہونے پر اجماع ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھئے: (ذخیرۃ العقبٰی شرح سنن النسائی: 34/2-75)
حضرت جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ بنو عذرہ کے ایک آدمی نے اپنا ایک غلام مدبر کیا۔ یہ بات رسول اللہ ﷺ کو پہنچی تو آپ نے فرمایا: ”کیا تیرے پاس اس کے علاوہ کوئی اور مال ہے؟“ اس نے کہا: نہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”کون شخص مجھ سے یہ (غلام) خریدتا ہے؟“ حضرت نعیم بن عبد اللہ عدوی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اسے آٹھ سو درہم میں خرید لیا۔ وہ رقم رسول اللہ ﷺ کے پاس لے کر آئے۔ آپ نے وہ اس کے سپرد کر دی اور فرمایا: ”پہلے اپنے آپ پر خرچ کر، پھر اگر کچھ بچ جائے تو وہ تیرے اہل و عیال کے لیے ہے، پھر اگر تیرے اہل و عیال سے کچھ بچ جائے تو تیرے رشتہ داروں کا حق ہے، البتہ اگر تیرے رشتہ داروں سے بھی کچھ بچ جائے تو ایسے ایسے اور ایسے، یعنی اپنے آگے، اپنے دائیں اور اپنے بائیں (اللہ کے راستے میں خرچ کر)۔“
حدیث حاشیہ:
(1) اس مسئلے میں اہل علم کا اختلاف ہے کہ مدبر کو بیچا جا سکتا ہے یا نہیں؟ امام شافعی رحمہ اللہ اور اہل الحدیث (محدثین کرام کی جماعت) اس کو جائز قرار دیتے ہیں۔ مذکورہ احادیث اس کی واضح دلیل ہیں۔ (2) یہ حدیث مبارکہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ نفلی صدقے میں افضل یہ ہے کہ اسے خیر و بھلائی کی مختلف انواع میں تقسیم کیا جائے، یعنی جو مصلحت کا تقاضا ہو، ادھر ہی خرچ کرنا چاہیے۔ کوئی خاص جہت معین نہیں کرنی چاہیے کہ صدقہ کرنے والا یہ کہے میں صرف فلاں مد ہی میں خرچ کروں گا اس کے علاوہ کہیں بھی خرچ نہیں کروں گا، خواہ اس کی ضرورت ہی ہو۔ (3) امیر و حاکم کو یہ اختیار حاصل ہے کہ لوگوں کے ذمے سے قرض چکانے کے لیے ان کے مال فروخت کر کے ان کے قرض ادا کر دے اور باقی رقم ان کی دیگر ضروریات پوری کرنے کے لیے ان کے سپرد کر دے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے کیا تھا۔ (4) شرعی حکمران کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کم عقل اور نادان شخص پر پابندی لگا دے کہ وہ اپنا مال فروخت نہیں کر سکتا، نیز اسے یہ اختیار بھی حاصل ہے کہ ایسے شخص کے اپنے مال میں کیے ہوئے تصرف کو کا لعدم کر دے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
جابر ؓ کہتے ہیں کہ بنی عذرہ کے ایک شخص نے اپنا ایک غلام بطور مدبر آزاد (یعنی مرنے کے بعد آزاد ہونے کی شرط پر) کر دیا، یہ بات رسول اللہ ﷺ کو معلوم ہوئی، تو آپ نے فرمایا: ”کیا تمہارے پاس اس کے علاوہ کوئی مال ہے؟“ اس نے کہا: نہیں، آپ نے فرمایا: ”اس غلام کو مجھ سے کون خریدے گا؟“ چنانچہ اسے نعیم بن عبداللہ عدوی ؓ نے آٹھ سو درہم میں خرید لیا، رسول اللہ ﷺ ان (دراہم) کو لے کر آئے اور اسے ادا کر دیا، پھر فرمایا: ”اپنی ذات سے شروع کرو اور اس پر صدقہ کرو، پھر کچھ بچ جائے تو وہ تمہارے گھر والوں کا ہے، تمہارے گھر والوں سے بچ جائے تو تمہارے رشتے داروں کے لیے ہے اور اگر تمہارے رشتے داروں سے بھی بچ جائے تو اس طرح اور اس طرح“، اپنے سامنے، اپنے دائیں اور بائیں اشارہ کرتے ہوئے۔
حدیث حاشیہ:
۱؎ : «مدبر»: وہ غلام ہے جس کا مالک اس سے کہے کہ تم میرے مرنے کے بعد آزاد ہو۔ اگر «مدبر» کرنے والا مالک محتاج ہو جائے تو اس «مدبّر» غلام کو بیچا جا سکتا ہے، جیسا کہ اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے، دیگر روایات سے پتہ چلتا ہے کہ وہ آدمی محتاج تھا اور اس پر قرض تھا، امام بخاری اور مؤلف نیز دیگر علماء مطلق طور پر «مدبر» کے بیچنے کو جائز مانتے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Jabir said: "A man from Banu 'Adhrah stated that a slave of his was to be set free after he died. News of that reached the Messenger of Allah (ﷺ) and he said: 'Do you have any other property basides him/' He said? 'No.' the Messenger of Allah (ﷺ) said; 'Who will buy him from me?' Nu'aim bin 'Abdullah Al-Adawi bought him for eight hundred Dirhams, which the Messenger of Allah (ﷺ) brought and gave to him (the former owner). Then the Messenger of Allah (ﷺ) said: 'Start with yourself and give charity to (yourself). If there is anything left over, then give it to your family; if there is anything left over from your family, then give it to your relatives; if there is anything left over from your relatives, then give it to such and such,' saying 'In front of you, to your right and to your left.