Sunan-nasai:
The Book of Financial Transactions
(Chapter: Selling A Mukatib)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4655.
حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ بریرہ عائشہ کے پاس آئی۔ وہ اپنی کتابت کے بارے میں ان سے کچھ مدد کی طلب گار تھی۔ حضرت عائشہ ؓ نے اسے فرمایا: اپنے مالکوں کے پاس جا، اگر وہ راضی ہوں کہ میں تیری طرف سے کتابت کی پوری رقم یکمشت ادا کر دوں اور تو میری طرف سے آزاد ہو جائے تو میں تیار ہوں۔ بریرہ نے یہ بات اپنے مالکان سے ذکر کی تو انھوں نے انکار کر دیا۔ اور کہنے لگے: اگر وہ تجھے آزاد کر کے ثواب حاصل کرنا چاہتی ہیں تو بڑی خوشی سے کریں لیکن ولا کا حق ہمارا ہو گا۔ حضرت عائشہ ؓ نے یہ بات رسول اللہ ﷺ سے ذکر کی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”خرید کر آزاد کر دے۔ ولا کا حق اسی کا ہے جو آزاد کرے۔“ پھر رسول اللہ ﷺ نے (خطبے میں) فرمایا: ”ان لوگوں کا کیا حال ہے جو ایسی شرطیں لگاتے ہیں جو کتاب اللہ کی رو سے جائز نہیں۔ جو شخص بھی ایسی شرط لگاتا ہے، جو کتاب اللہ کی رو سے جائز نہیں، وہ شرط اس کے حق میں نہیں مانی جائے گی، خواہ سو دفعہ شرط لگا لے۔ اللہ تعالیٰ کی نافذ کردہ شرط (حکم) زیادہ معتبر اور مضبوط ہے۔“
تشریح:
(1) یہ روایت اور اس پر بحث تفصیلاً گزر چکی ہے۔ (دیکھیے حدیث: ۳۴۸۱) یہاں بحث طلب مسئلہ یہ ہے کہ کیا مکاتب غلام بیچا جا سکتا ہے؟ مکاتب اس غلام کو کہتے ہیں جس سے اس کا مالک طے کر لے کہ تو اتنی رقم اتنی قسطوں میں (یا یکمشت) اتنے عرصے تک ادا کر دے تو تجھے آزادی مل جائے گی۔ ظاہر ہے یہ ایک معاہدہ ہے جسے توڑا نہیں جا سکتا الا یہ کہ وہ غلام راضی ہو جسے اس معاہدے کا مفاد ہے۔ اور واضح بات ہے کہ وہ تبھی راضی ہو گا اگر اسے فوری آزادی کا یقین دلا دیا جائے۔ ایسی صورت میں جب معاہدے سے بڑھ کر غلام کو مفاد حاصل ہو رہا ہو اور دونوں فریق راضی ہوں تو اسے فوری آزادی کے لیے بیچنے میں کوئی حرج نہیں جیسا کہ مندرجہ بالا روایات میں ذکر ہے۔ ہاں، مالکان اپنے مفاد کی خاطر اس کی مرضی کے بغیر اسے کسی دوسرے کو نہیں بیچ سکتے کیونکہ یہ غدر اور وعدہ خلافی ہے جس میں حکومت مداخلت کر سکتی ہے۔ (2) اس روایت کے مفصل فوائد و مسائل کے لیے ملا حظہ فرما ئیں فوائد و مسائل، حدیث: ۴۶۴۶
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4668
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4669
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4659
تمہید کتاب
اَلْبُیُوْع، جمع ہے اَلْبَیْعُ کی۔ اس کے معنی ہیں: خرید، فروخت، فروختگی۔ (دیکھئے: القاموس الوحید، مادہ [بیع] البیع، دراصل مصدر ہے: باع يبيعه بيعا،ومبيعاً فهو بَائِعٌ وَ بَیِّعٌ۔ البیوع کو جمع لایا گیا ہے جبکہ مصدر سے تثنیہ اور جمع نہیں لائے جاتے؟ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی انواع و اقسام بہت زیادہ ہیں، اس لیے اسے جمع لایا گیا ہے۔البیع اضداد میں سے ہے جیسا کہ اَلشِّرَاء اضداد میں سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ دونوں، یعنی البیع اور الشراء ایک دوسرے کے معنی میں بھی استعمال ہوتے ہیں۔ اسی لیے متعاقدین، یعنی خرید و فروخت کرنے والے دونوں اشخاص پر لفظ بائع کا اطلاق ہوتا ہے۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ جب البائع کا لفظ بولا جائے تو متبادر الی الذہن (فوری طور پر ذہن میں آنے والا) فروخت کنندہ ہی ہوتا ہے، تاہم بیچنے اور خریدنے والے، دونوں پر اس لفظ کا اطلاق درست ہے۔ عربی میں لفظ البیع کا اطلاق المبیع پر بھی کیا جاتا ہے، مثلاً: کہا جاتا ہے: بیع جید، بمعنی مبیع جید یعنی یہ مبیع (فروخت شدہ چیز) بہترین اور عمدہ ہے۔امام ابو العباس قرطبی فرماتے ہیں: اَلْبَیْعُ لُغَۃً باع کا مصدر ہے۔ کہا جاتا ہے: بَاعَ کَذَا بِکَذَا، یعنی اس نے فلاں چیز فلاں کے عوض بیچی۔ مطلب یہ کہ اس نے مُعَوَّضْ دیا اور اس کا عوض لیا۔ جب کوئی شخص ایک چیز دے کر اس کے بدلے میں کوئی چیز لیتا ہے تو اس کا تقاضا ہے کہ کوئی بائع ہو جو اس چیز کا اصل مالک ہوتا ہے یا مالک کا قائم مقام۔ اسی طرح اس کا یہ بھی تقاضا ہے کہ کوئی مبتاع (خریدار) بھی ہو۔ مُبْتَاع وہ شخص ہوتا ہے جو ثَمَن خرچ کر کے مبیع حاصل کرتا ہے اور یہ مبیع چونکہ ثمن کے عوض لی جاتی ہے، اس لیے یہ مَثْمُوْن ہوتی ہے۔ اس طرح ارکان بیع چار ہوئے ہیں: اَلْبَائِعُ (بیچنے والا) اَلْمُبْتَاعُ (خریدار) اَلثَّمَنُ (قیمت)، اور اَلْمَثْمُوْن (قیمت کے عوض میں لی ہوئی چیز)۔ دیکھئے: (المفہم: 4/360)حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: البیوع جمع ہے بیع کی۔ اور جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ اس کی مختلف انواع ہیں۔ البیع کے معنی ہیں: نَقْلُ مِلْکٍ إِلَی الْغَیْرِ بِثَمَنٍ ثمن، یعنی قیمت کے بدلے میں کسی چیز کی ملکیت دوسرے کی طرف منتقل کرنا اور اس قبولیت ملک کو شراء کہتے ہیں، تاہم البیع اور الشراء دونوں کا اطلاق ایک دوسرے پر بھی ہوتا ہے۔ مزید فرماتے ہیں کہ تمام مسلمانوں کا خرید و فروخت کے جواز پر اجماع ہے۔ حکمت کا تقاضا بھی یہی ہے کیونکہ عموماً ایسا ہوتا ہے کہ ایک چیز کسی انسان کے پاس ہوتی ہے اور کوئی دوسرا شخص اس کا ضرورت مند ہوتا ہے جبکہ پہلا شخص، یعنی مالک اپنی چیز (بلا معاوضہ) دوسرے پر خرچ کرنے (یا دینے) کے لیے تیار نہیں ہوتا، لہٰذا شریعت نے بذریعہ بیع اس چیز تک پہنچنے کا ایسا جائز ذریعہ مہیا کر دیا ہے جس میں قطعاً کوئی حرج نہیں۔ اس (بیع) کا جواز قرآن کریم سے ثابت ہے۔ ارشاد ربانی ہے: { وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا} (البقرۃ 2:275) ’’اللہ نے بیع (خرید و فروخت) کو حلال فرما دیا ہے اور سود کو حرام ٹھہرا دیا۔‘‘ (فتح الباری: 4/364، طبع دار السلام، الریاض)امام ابن قدامہ فرماتے ہیں: کسی چیز کا مالک بننے یا کسی اور کو مالک بنانے کے لیے مال کے بدلے مال کا تبادلہ بیع کہلاتا ہے۔ بیع، کتاب و سنت اور اجماع کی رو سے جائز ہے۔ قرآنِ کریم کی رو سے تو اس طرح کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے: { وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ} (البقرۃ 2:275)’’اللہ نے بیع کو حلال کیا ہے۔‘‘ سنت، یعنی حدیث کی رو سے بھی بیع جائز ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: [اَلْبَیِّعَانِ بِالْخِیَارِ مَا لَمْ یَتَفَرَّقَا] ’’دونوں سودا کرنے والے جب تک ایک دوسرے سے الگ اور جدا نہ ہوں (اس وقت تک) انہیں (سودا ختم کرنے کا) اختیار ہے۔ (صحیح البخاری، البیوع، حدیث: 2109، 2110، و صحیح مسلم، البیوع، حدیث: 1532) نیز تمام مسلمانوں کا اس کے جائز ہونے پر اجماع ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھئے: (ذخیرۃ العقبٰی شرح سنن النسائی: 34/2-75)
حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ بریرہ عائشہ کے پاس آئی۔ وہ اپنی کتابت کے بارے میں ان سے کچھ مدد کی طلب گار تھی۔ حضرت عائشہ ؓ نے اسے فرمایا: اپنے مالکوں کے پاس جا، اگر وہ راضی ہوں کہ میں تیری طرف سے کتابت کی پوری رقم یکمشت ادا کر دوں اور تو میری طرف سے آزاد ہو جائے تو میں تیار ہوں۔ بریرہ نے یہ بات اپنے مالکان سے ذکر کی تو انھوں نے انکار کر دیا۔ اور کہنے لگے: اگر وہ تجھے آزاد کر کے ثواب حاصل کرنا چاہتی ہیں تو بڑی خوشی سے کریں لیکن ولا کا حق ہمارا ہو گا۔ حضرت عائشہ ؓ نے یہ بات رسول اللہ ﷺ سے ذکر کی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”خرید کر آزاد کر دے۔ ولا کا حق اسی کا ہے جو آزاد کرے۔“ پھر رسول اللہ ﷺ نے (خطبے میں) فرمایا: ”ان لوگوں کا کیا حال ہے جو ایسی شرطیں لگاتے ہیں جو کتاب اللہ کی رو سے جائز نہیں۔ جو شخص بھی ایسی شرط لگاتا ہے، جو کتاب اللہ کی رو سے جائز نہیں، وہ شرط اس کے حق میں نہیں مانی جائے گی، خواہ سو دفعہ شرط لگا لے۔ اللہ تعالیٰ کی نافذ کردہ شرط (حکم) زیادہ معتبر اور مضبوط ہے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) یہ روایت اور اس پر بحث تفصیلاً گزر چکی ہے۔ (دیکھیے حدیث: ۳۴۸۱) یہاں بحث طلب مسئلہ یہ ہے کہ کیا مکاتب غلام بیچا جا سکتا ہے؟ مکاتب اس غلام کو کہتے ہیں جس سے اس کا مالک طے کر لے کہ تو اتنی رقم اتنی قسطوں میں (یا یکمشت) اتنے عرصے تک ادا کر دے تو تجھے آزادی مل جائے گی۔ ظاہر ہے یہ ایک معاہدہ ہے جسے توڑا نہیں جا سکتا الا یہ کہ وہ غلام راضی ہو جسے اس معاہدے کا مفاد ہے۔ اور واضح بات ہے کہ وہ تبھی راضی ہو گا اگر اسے فوری آزادی کا یقین دلا دیا جائے۔ ایسی صورت میں جب معاہدے سے بڑھ کر غلام کو مفاد حاصل ہو رہا ہو اور دونوں فریق راضی ہوں تو اسے فوری آزادی کے لیے بیچنے میں کوئی حرج نہیں جیسا کہ مندرجہ بالا روایات میں ذکر ہے۔ ہاں، مالکان اپنے مفاد کی خاطر اس کی مرضی کے بغیر اسے کسی دوسرے کو نہیں بیچ سکتے کیونکہ یہ غدر اور وعدہ خلافی ہے جس میں حکومت مداخلت کر سکتی ہے۔ (2) اس روایت کے مفصل فوائد و مسائل کے لیے ملا حظہ فرما ئیں فوائد و مسائل، حدیث: ۴۶۴۶
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ام المؤمنین عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ بریرہ ؓ عائشہ ؓ کے پاس آئیں، اپنی کتابت کے سلسلے میں ان کی مدد چاہتی تھیں، ان سے عائشہ ؓ نے کہا: تم اپنے گھر والوں (مالکوں) کے پاس لوٹ جاؤ، اب اگر وہ پسند کریں کہ میں تمہاری مکاتبت (کی رقم) ادا کر دوں اور تمہارا ولاء (حق وراثت) میرے لیے ہو گا تو میں ادا کر دوں گی، بریرہ ؓ نے اس کا تذکرہ اپنے گھر والوں سے کیا تو انہوں نے انکار کیا اور کہا: اگر وہ تمہارے ساتھ بھلائی کرنا چاہتی ہیں تو کریں البتہ تمہارا ولاء (ترکہ) ہمارے لیے ہو گا، عائشہ ؓ نے اس کا ذکر رسول اللہ ﷺ سے کیا تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا: ”انہیں خرید لو ۲؎ اور آزاد کر دو۔“ ولاء (وراثت) تو اسی کا ہے جس نے آزاد کیا، پھر آپ نے فرمایا: ”کیا حال ہے ان لوگوں کا جو ایسی شرطیں لگاتے ہیں جو اللہ کی کتاب (قرآن) میں نہیں ہیں، لہٰذا اگر کوئی ایسی شرط لگائے جو اللہ کی کتاب (قرآن) میں نہ ہو، تو وہ پوری نہ ہو گی گرچہ سو شرطیں لگائی گئی ہوں، اللہ کی شرط قبول کرنے اور اعتماد کرنے کے لائق ہے۔“
حدیث حاشیہ:
۱؎ : «مکاتب» : وہ غلام ہے جس کا مالک اس سے کہے کہ اگر تم اتنی اتنی رقم اتنی مدت میں، یا جب بھی کما کر ادا کر دے تو تم آزاد ہو۔ ۲؎ : بریرہ رضی اللہ عنہا نے چونکہ ابھی تک «مکاتبت» (معاہدہ آزادی) کی کوئی قسط ادا نہیں کی تھی، اس لیے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کل رقم ادا کر کے انہیں خرید لیا، یہی باب سے مناسبت ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from'Aishah (RA) that Barirah came to 'Aishah (RA) asking her to help her with her contract of manumission.' Aishah said: "Go back to your masters, and if they agree to let me pay off your contract of manumission, and let your loyalty be to me, then I will do it" Barirah told her masters about that, but they refused and said: "If she wants to seek reward (with Allah) by freeing you, let her do so, but your loyalty will be to us." She told the Messenger of Allah (ﷺ) about that , and the Messenger of Allah said to her; "Buy her and set her free, and loyalty belongs to the one who set the slave free," Then the Messenger of Allah (ﷺ) said: "What is the matter with people who stipulate conditions that are not in the Book of Allah? Whoever stipulates something that is not in the Book of Allah, it is not valid even if he stipulates one hundred conditions? The condition of Allah is more deserving of being followed and is more hinting.