باب: ایک شخص کوئی سامان بیچتا ہے، بعد میں اس سامان کا مالک کوئی اور نکل آتا ہے تو؟
)
Sunan-nasai:
The Book of Financial Transactions
(Chapter: If A Man Sells An Item And A Third Party Has More Right To It)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4679.
حضرت اسید بن حضیر بن سماک رضی اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فیصلہ فرمایا کہ جب کوئی آدمی اپنی چیز ایسے شخص کے ہاتھ میں پائے جو مشکوک اور متہم نہ ہو، اگر وہ چاہے تو اس سے وہ چیز اتنی رقم دے کر جتنی کی اس نے خریدی ہے لے لے۔ اور اگر چاہے تو (اصل) چور کا پیچھا کرے۔ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر ؓ نے بھی یہی فیصلہ فرمایا۔
تشریح:
(1) ”اپنی چیز“ جو چوری ہو چکی تھی یا کسی نے چھین لی تھی۔ (2) ”مشکوک اور متہم نہ ہو“ گویا وہ خود چور نہیں بلکہ اس نے چور سے خریدی ہے۔ ضروری نہیں کہ اسے اس کے چور ہونے کا علم ہو، البتہ اگر کسی کے چور ہونے کا علم ہو تو پھر اس سے کوئی چیز خریدنا ناجائز ہے کیونکہ غالب گمان یہی ہے کہ وہ چیز چوری کی ہو گی۔ (3) ”اتنی رقم دے کر جتنی کی اس نے خریدی ہے لے لے۔“ یہ نیکی کی تلقین ہے ورنہ وہ اس چیز کا اصل مالک ہے لیکن چونکہ دوسرے شخص کا بھی کوئی قصور نہیں، لہٰذا اس کی رقم بھی ضائع نہیں ہونی چاہیے۔ اگر اس کا قصور ثابت ہو، مثلاً: اس نے جاننے کے باوجود کہ یہ چیز چوری کی ہے، اس چیز کو خریدا ہو تو اسے تاوان ڈالا جا سکتا ہے۔ آئندہ حدیث میں اس حدیث کے خلاف حکم ہے کہ اصل مالک اپنی چیز لے جائے گا۔ خریدار بیچنے والے سے اپنی رقم وصول کرے گا۔ یہ روایت اصول کے مطابق ہے مگر خلفائے راشدین کا فیصلہ پہلی حدیث پر ہے۔ گویا حالات کے مطابق فیصلہ کیا جائے گا۔ اگر دوسرا شخص بالکل بے گناہ ہو تو پہلی حدیث کے مطابق فیصلہ کیا جائے گا، مثلاً: بیچنے والے کا علم نہیں ہو سکتا یا وہ بھاگ گیا ہو یا وہ مر چکا ہو وغیرہ۔ اور اگر اس کا بھی قصور ہو، مثلاً: اسے علم تھا کہ یہ چیز چوری کی ہے یا بیچنے والے سے رقم مل سکتی ہے تو پھر دوسری حدیث کے مطابق فیصلہ ہوگا۔ گویا دونوں احادیث کا محل ومقام الگ الگ ہے۔ واللہ أعلم! (4) یہ اہم بات یاد رکھنی چاہیے کہ اس حدیث کی سند میں امام نسائی رحمہ اللہ سے سہو ہوا ہے کہ انھوں نے صحابی کا نام ”اسید بن حضیر بن سماک“ بیان کیا ہے جو کہ بالکل غلط ہے۔ درست نام ہے: ’”اسید بن ظہیر“ اس غلطی پر امام مزی رحمہ اللہ نے اپنی معروف تالیف ”تہذیب الکمال“ میں تنبیہ فرمائی ہے۔ دیکھیے: (تھذیب الكمال: ۲: ۲۶۴، ۲۶۵) یہ صحابی اسید بن ظہیر ہی ہیں کیونکہ حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ تعالٰی عنہ تو حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالٰی عنہ کے دور خلافت میں فوت ہوئے ہیں اور ان کی نماز جنازہ بھی امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے پڑھائی ہے۔ ذرا سوچئے کہ جو شخص حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے زمانہ مبارک میں فوت ہو جائے، بھلا وہ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کا زمانہ کس طرح پا سکتا ہے؟
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4692
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4693
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4683
تمہید کتاب
اَلْبُیُوْع، جمع ہے اَلْبَیْعُ کی۔ اس کے معنی ہیں: خرید، فروخت، فروختگی۔ (دیکھئے: القاموس الوحید، مادہ [بیع] البیع، دراصل مصدر ہے: باع يبيعه بيعا،ومبيعاً فهو بَائِعٌ وَ بَیِّعٌ۔ البیوع کو جمع لایا گیا ہے جبکہ مصدر سے تثنیہ اور جمع نہیں لائے جاتے؟ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی انواع و اقسام بہت زیادہ ہیں، اس لیے اسے جمع لایا گیا ہے۔البیع اضداد میں سے ہے جیسا کہ اَلشِّرَاء اضداد میں سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ دونوں، یعنی البیع اور الشراء ایک دوسرے کے معنی میں بھی استعمال ہوتے ہیں۔ اسی لیے متعاقدین، یعنی خرید و فروخت کرنے والے دونوں اشخاص پر لفظ بائع کا اطلاق ہوتا ہے۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ جب البائع کا لفظ بولا جائے تو متبادر الی الذہن (فوری طور پر ذہن میں آنے والا) فروخت کنندہ ہی ہوتا ہے، تاہم بیچنے اور خریدنے والے، دونوں پر اس لفظ کا اطلاق درست ہے۔ عربی میں لفظ البیع کا اطلاق المبیع پر بھی کیا جاتا ہے، مثلاً: کہا جاتا ہے: بیع جید، بمعنی مبیع جید یعنی یہ مبیع (فروخت شدہ چیز) بہترین اور عمدہ ہے۔امام ابو العباس قرطبی فرماتے ہیں: اَلْبَیْعُ لُغَۃً باع کا مصدر ہے۔ کہا جاتا ہے: بَاعَ کَذَا بِکَذَا، یعنی اس نے فلاں چیز فلاں کے عوض بیچی۔ مطلب یہ کہ اس نے مُعَوَّضْ دیا اور اس کا عوض لیا۔ جب کوئی شخص ایک چیز دے کر اس کے بدلے میں کوئی چیز لیتا ہے تو اس کا تقاضا ہے کہ کوئی بائع ہو جو اس چیز کا اصل مالک ہوتا ہے یا مالک کا قائم مقام۔ اسی طرح اس کا یہ بھی تقاضا ہے کہ کوئی مبتاع (خریدار) بھی ہو۔ مُبْتَاع وہ شخص ہوتا ہے جو ثَمَن خرچ کر کے مبیع حاصل کرتا ہے اور یہ مبیع چونکہ ثمن کے عوض لی جاتی ہے، اس لیے یہ مَثْمُوْن ہوتی ہے۔ اس طرح ارکان بیع چار ہوئے ہیں: اَلْبَائِعُ (بیچنے والا) اَلْمُبْتَاعُ (خریدار) اَلثَّمَنُ (قیمت)، اور اَلْمَثْمُوْن (قیمت کے عوض میں لی ہوئی چیز)۔ دیکھئے: (المفہم: 4/360)حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: البیوع جمع ہے بیع کی۔ اور جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ اس کی مختلف انواع ہیں۔ البیع کے معنی ہیں: نَقْلُ مِلْکٍ إِلَی الْغَیْرِ بِثَمَنٍ ثمن، یعنی قیمت کے بدلے میں کسی چیز کی ملکیت دوسرے کی طرف منتقل کرنا اور اس قبولیت ملک کو شراء کہتے ہیں، تاہم البیع اور الشراء دونوں کا اطلاق ایک دوسرے پر بھی ہوتا ہے۔ مزید فرماتے ہیں کہ تمام مسلمانوں کا خرید و فروخت کے جواز پر اجماع ہے۔ حکمت کا تقاضا بھی یہی ہے کیونکہ عموماً ایسا ہوتا ہے کہ ایک چیز کسی انسان کے پاس ہوتی ہے اور کوئی دوسرا شخص اس کا ضرورت مند ہوتا ہے جبکہ پہلا شخص، یعنی مالک اپنی چیز (بلا معاوضہ) دوسرے پر خرچ کرنے (یا دینے) کے لیے تیار نہیں ہوتا، لہٰذا شریعت نے بذریعہ بیع اس چیز تک پہنچنے کا ایسا جائز ذریعہ مہیا کر دیا ہے جس میں قطعاً کوئی حرج نہیں۔ اس (بیع) کا جواز قرآن کریم سے ثابت ہے۔ ارشاد ربانی ہے: { وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا} (البقرۃ 2:275) ’’اللہ نے بیع (خرید و فروخت) کو حلال فرما دیا ہے اور سود کو حرام ٹھہرا دیا۔‘‘ (فتح الباری: 4/364، طبع دار السلام، الریاض)امام ابن قدامہ فرماتے ہیں: کسی چیز کا مالک بننے یا کسی اور کو مالک بنانے کے لیے مال کے بدلے مال کا تبادلہ بیع کہلاتا ہے۔ بیع، کتاب و سنت اور اجماع کی رو سے جائز ہے۔ قرآنِ کریم کی رو سے تو اس طرح کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے: { وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ} (البقرۃ 2:275)’’اللہ نے بیع کو حلال کیا ہے۔‘‘ سنت، یعنی حدیث کی رو سے بھی بیع جائز ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: [اَلْبَیِّعَانِ بِالْخِیَارِ مَا لَمْ یَتَفَرَّقَا] ’’دونوں سودا کرنے والے جب تک ایک دوسرے سے الگ اور جدا نہ ہوں (اس وقت تک) انہیں (سودا ختم کرنے کا) اختیار ہے۔ (صحیح البخاری، البیوع، حدیث: 2109، 2110، و صحیح مسلم، البیوع، حدیث: 1532) نیز تمام مسلمانوں کا اس کے جائز ہونے پر اجماع ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھئے: (ذخیرۃ العقبٰی شرح سنن النسائی: 34/2-75)
حضرت اسید بن حضیر بن سماک رضی اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فیصلہ فرمایا کہ جب کوئی آدمی اپنی چیز ایسے شخص کے ہاتھ میں پائے جو مشکوک اور متہم نہ ہو، اگر وہ چاہے تو اس سے وہ چیز اتنی رقم دے کر جتنی کی اس نے خریدی ہے لے لے۔ اور اگر چاہے تو (اصل) چور کا پیچھا کرے۔ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر ؓ نے بھی یہی فیصلہ فرمایا۔
حدیث حاشیہ:
(1) ”اپنی چیز“ جو چوری ہو چکی تھی یا کسی نے چھین لی تھی۔ (2) ”مشکوک اور متہم نہ ہو“ گویا وہ خود چور نہیں بلکہ اس نے چور سے خریدی ہے۔ ضروری نہیں کہ اسے اس کے چور ہونے کا علم ہو، البتہ اگر کسی کے چور ہونے کا علم ہو تو پھر اس سے کوئی چیز خریدنا ناجائز ہے کیونکہ غالب گمان یہی ہے کہ وہ چیز چوری کی ہو گی۔ (3) ”اتنی رقم دے کر جتنی کی اس نے خریدی ہے لے لے۔“ یہ نیکی کی تلقین ہے ورنہ وہ اس چیز کا اصل مالک ہے لیکن چونکہ دوسرے شخص کا بھی کوئی قصور نہیں، لہٰذا اس کی رقم بھی ضائع نہیں ہونی چاہیے۔ اگر اس کا قصور ثابت ہو، مثلاً: اس نے جاننے کے باوجود کہ یہ چیز چوری کی ہے، اس چیز کو خریدا ہو تو اسے تاوان ڈالا جا سکتا ہے۔ آئندہ حدیث میں اس حدیث کے خلاف حکم ہے کہ اصل مالک اپنی چیز لے جائے گا۔ خریدار بیچنے والے سے اپنی رقم وصول کرے گا۔ یہ روایت اصول کے مطابق ہے مگر خلفائے راشدین کا فیصلہ پہلی حدیث پر ہے۔ گویا حالات کے مطابق فیصلہ کیا جائے گا۔ اگر دوسرا شخص بالکل بے گناہ ہو تو پہلی حدیث کے مطابق فیصلہ کیا جائے گا، مثلاً: بیچنے والے کا علم نہیں ہو سکتا یا وہ بھاگ گیا ہو یا وہ مر چکا ہو وغیرہ۔ اور اگر اس کا بھی قصور ہو، مثلاً: اسے علم تھا کہ یہ چیز چوری کی ہے یا بیچنے والے سے رقم مل سکتی ہے تو پھر دوسری حدیث کے مطابق فیصلہ ہوگا۔ گویا دونوں احادیث کا محل ومقام الگ الگ ہے۔ واللہ أعلم! (4) یہ اہم بات یاد رکھنی چاہیے کہ اس حدیث کی سند میں امام نسائی رحمہ اللہ سے سہو ہوا ہے کہ انھوں نے صحابی کا نام ”اسید بن حضیر بن سماک“ بیان کیا ہے جو کہ بالکل غلط ہے۔ درست نام ہے: ’”اسید بن ظہیر“ اس غلطی پر امام مزی رحمہ اللہ نے اپنی معروف تالیف ”تہذیب الکمال“ میں تنبیہ فرمائی ہے۔ دیکھیے: (تھذیب الكمال: ۲: ۲۶۴، ۲۶۵) یہ صحابی اسید بن ظہیر ہی ہیں کیونکہ حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ تعالٰی عنہ تو حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالٰی عنہ کے دور خلافت میں فوت ہوئے ہیں اور ان کی نماز جنازہ بھی امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے پڑھائی ہے۔ ذرا سوچئے کہ جو شخص حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے زمانہ مبارک میں فوت ہو جائے، بھلا وہ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کا زمانہ کس طرح پا سکتا ہے؟
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
اسید بن حضیر بن سماک ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فیصلہ کیا کہ اگر کوئی کسی شخص کے ہاتھ میں اپنی (چوری کی ہوئی) چیز پائے اور اس پر چوری کا الزام نہ ہو تو چاہے تو اتنی قیمت ادا کر کے اس سے لے لے جتنے میں اس نے اسے خریدا ہے اور چاہے تو چور کا پیچھا کرے، یہی فیصلہ ابوبکر اور عمر ؓ نے (بھی) کیا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated the Abu Sa'eed Al-Khudri said: "At the time of the Messenger of Allah (ﷺ), a man suffered loss of some fruit that he had purchased, and his debts increased. "The Messenger of Allah (ﷺ) said: 'Give him charity.' So the people gave him charity, but that was not enough to pay off his debts. 'The Messenger of Allah (ﷺ) said: 'Take what you find, but you have no right to more than that."' (meaning his creditors).