باب: ایک شخص کوئی سامان بیچتا ہے، بعد میں اس سامان کا مالک کوئی اور نکل آتا ہے تو؟
)
Sunan-nasai:
The Book of Financial Transactions
(Chapter: If A Man Sells An Item And A Third Party Has More Right To It)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4682.
حضرت سمرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جس عورت کا نکاح دو ولی (الگ الگ) جگہ کر دیں، وہ اس خاوند کی ہوگی جس سے پہلے نکاح ہوا۔ اور اگر کسی شخص نے ایک چیز دو آدمیوں کو (الگ الگ) بیچ دی تو وہ چیز اس کو ملے گی جس کو پہلے بیچی گئی ہے۔“
تشریح:
(1) ایک دفعہ بیچنے کے بعد پہلا مالک، مالک نہیں رہتا بلکہ خریدنے والا مالک بن جاتا ہے۔ اگر پہلا مالک دوسری جگہ بیچے گا تو کسی کی چیز بیچے گا، لہٰذا دوسری بیع معتبر نہیں ہوگی۔ اسی طرح چور یا ڈاکو کسی کی چیز بیچے تو وہ بیع معتبر نہیں ہوگی بلکہ وہ چیز اصل مالک کی رہے گی۔ اگر اصل مالک چیز تک پہنچ جائے تو وہ اسے بلا معاوضہ لے سکتا ہے۔ (دیکھیے فوائد ومسائل، حدیث: ۴۶۸۳) نکاح والے مسئلے میں بھی جب ایک ولی نے نکاح کر دیا تو دوسرے ولی کا تصرف غیر معتبر ہے۔ (2) اس حدیث کی عنوان کے ساتھ مناسبت نہیں ہے۔ مؤلف رحمہ اللہ کو اس حدیث کے لیے مستقل طور پر الگ ترجمۃ الباب قائم کرنا چاہیے تھا جس کے ساتھ حدیث کی مطابقت واضح ہوتی ہے۔
الحکم التفصیلی:
قلت : وهي رواية للدارقطني وللبيهقي وذكر في أخرى أن الشك من سعيد . وفي رواية رابعة عنده وعند ابن أبي شيبة من طريق سعيد به عن عقبة به . ولم يشك . وقال البيهقي " وقد تابعه أبان العطار عن قتادة في قوله عن عقبة بن عامر . صحيح رواية من رواه عن سمرة بن جندب " . قلت : وذلك لاتفاق جماعة من الثقات كما أشرنا آنفا على روايته عن قتادة . . . عن سمرة وقال الترمذي : " حديث حسن " . وقال الحاكم : * ( هامش ) * ( 1 ) كذا الأصل ولعل الصواب " أو " لأنه هكذا عند البيهقي وقد أطال النفس في طرقه وألفاظه . وليس الحديث في " الصغرى " للنسائي الا كما ذكرنا في الأعلى عن سمرة وحده فإنما هو إذن في " الكبرى " له ولم أقف على البيوع منها حتى نتحقق من هذا الحرف فيه . ( * )
" صحيح على شرط البخاري " . ووافقه الذهبي . وصححه أيضا أبو زرعة وأبو حاتم كما في " التلخيص " ( 3 / 165 ) للحافظ وقال : " وصحته متوقفة على ثبوت سماع الحسن من سمرة فإن رجاله ثقات " . قلت : بل صحته متوقفة على تصريح الحسن بالتحديث فإنه كان يدلس كما ذكره الحافظ نفسه في ترجمته من " التقريب " فلا يكفي والحالة هذه ثبوت سماعه من سمرة في الجملة بل لا بد من ثبوت خصوص سماعه في هذا الحديث كما هو ظاهر . 1911 - ( وروي نحوه عن علي ) . موقوف . أخرجه البيهقي ( 7 / 141 ) من طريق خلاس : " أن امرأة زوجها أولياؤها بالجزيرة من عبيد الله بن الحر وزوجها أهلها بعد ذلك بالكوفة فرفعوا ذلك إلى علي رضي الله عنه ففرق بينها وبين زوجها الاخر وردها إلى زوجها الأول وجعل لها صداقها بما أصاب من فرجها وأمر زوجها الأول أن لا يقربها حتى تنقضي عدتها " . قلت : ورجاله ثقات لكنه منقطع خلاس لم يسمع من علي كما قال أحمد وغيره . وقد تابعه إبراهيم : أن امرأة زوجها . . . فذكره نحوه باختصار . وهذا منقطع أيضا فإن إبراهبم - وهو ابن يزيد النخعي - لم يدرك عليا رضي الله عنه . أخرجه ابن أبي شيبة في " المصنف " ( 7 / 5 / 1 ) : حدثنا جرير عن منصور عن إبراهيم . وهذا إسناد رجاله ثقات أيضا مع انقطاعه
// ضعيف الجامع الصغير ( 2224 ) ، ضعيف سنن الترمذي ( 189 / 1122 ) ، المشكاة ( 3156 ) ، ضعيف أبي داود ( 449 / 2088 ) //
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4695
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4696
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4686
تمہید کتاب
اَلْبُیُوْع، جمع ہے اَلْبَیْعُ کی۔ اس کے معنی ہیں: خرید، فروخت، فروختگی۔ (دیکھئے: القاموس الوحید، مادہ [بیع] البیع، دراصل مصدر ہے: باع يبيعه بيعا،ومبيعاً فهو بَائِعٌ وَ بَیِّعٌ۔ البیوع کو جمع لایا گیا ہے جبکہ مصدر سے تثنیہ اور جمع نہیں لائے جاتے؟ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی انواع و اقسام بہت زیادہ ہیں، اس لیے اسے جمع لایا گیا ہے۔البیع اضداد میں سے ہے جیسا کہ اَلشِّرَاء اضداد میں سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ دونوں، یعنی البیع اور الشراء ایک دوسرے کے معنی میں بھی استعمال ہوتے ہیں۔ اسی لیے متعاقدین، یعنی خرید و فروخت کرنے والے دونوں اشخاص پر لفظ بائع کا اطلاق ہوتا ہے۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ جب البائع کا لفظ بولا جائے تو متبادر الی الذہن (فوری طور پر ذہن میں آنے والا) فروخت کنندہ ہی ہوتا ہے، تاہم بیچنے اور خریدنے والے، دونوں پر اس لفظ کا اطلاق درست ہے۔ عربی میں لفظ البیع کا اطلاق المبیع پر بھی کیا جاتا ہے، مثلاً: کہا جاتا ہے: بیع جید، بمعنی مبیع جید یعنی یہ مبیع (فروخت شدہ چیز) بہترین اور عمدہ ہے۔امام ابو العباس قرطبی فرماتے ہیں: اَلْبَیْعُ لُغَۃً باع کا مصدر ہے۔ کہا جاتا ہے: بَاعَ کَذَا بِکَذَا، یعنی اس نے فلاں چیز فلاں کے عوض بیچی۔ مطلب یہ کہ اس نے مُعَوَّضْ دیا اور اس کا عوض لیا۔ جب کوئی شخص ایک چیز دے کر اس کے بدلے میں کوئی چیز لیتا ہے تو اس کا تقاضا ہے کہ کوئی بائع ہو جو اس چیز کا اصل مالک ہوتا ہے یا مالک کا قائم مقام۔ اسی طرح اس کا یہ بھی تقاضا ہے کہ کوئی مبتاع (خریدار) بھی ہو۔ مُبْتَاع وہ شخص ہوتا ہے جو ثَمَن خرچ کر کے مبیع حاصل کرتا ہے اور یہ مبیع چونکہ ثمن کے عوض لی جاتی ہے، اس لیے یہ مَثْمُوْن ہوتی ہے۔ اس طرح ارکان بیع چار ہوئے ہیں: اَلْبَائِعُ (بیچنے والا) اَلْمُبْتَاعُ (خریدار) اَلثَّمَنُ (قیمت)، اور اَلْمَثْمُوْن (قیمت کے عوض میں لی ہوئی چیز)۔ دیکھئے: (المفہم: 4/360)حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: البیوع جمع ہے بیع کی۔ اور جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ اس کی مختلف انواع ہیں۔ البیع کے معنی ہیں: نَقْلُ مِلْکٍ إِلَی الْغَیْرِ بِثَمَنٍ ثمن، یعنی قیمت کے بدلے میں کسی چیز کی ملکیت دوسرے کی طرف منتقل کرنا اور اس قبولیت ملک کو شراء کہتے ہیں، تاہم البیع اور الشراء دونوں کا اطلاق ایک دوسرے پر بھی ہوتا ہے۔ مزید فرماتے ہیں کہ تمام مسلمانوں کا خرید و فروخت کے جواز پر اجماع ہے۔ حکمت کا تقاضا بھی یہی ہے کیونکہ عموماً ایسا ہوتا ہے کہ ایک چیز کسی انسان کے پاس ہوتی ہے اور کوئی دوسرا شخص اس کا ضرورت مند ہوتا ہے جبکہ پہلا شخص، یعنی مالک اپنی چیز (بلا معاوضہ) دوسرے پر خرچ کرنے (یا دینے) کے لیے تیار نہیں ہوتا، لہٰذا شریعت نے بذریعہ بیع اس چیز تک پہنچنے کا ایسا جائز ذریعہ مہیا کر دیا ہے جس میں قطعاً کوئی حرج نہیں۔ اس (بیع) کا جواز قرآن کریم سے ثابت ہے۔ ارشاد ربانی ہے: { وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا} (البقرۃ 2:275) ’’اللہ نے بیع (خرید و فروخت) کو حلال فرما دیا ہے اور سود کو حرام ٹھہرا دیا۔‘‘ (فتح الباری: 4/364، طبع دار السلام، الریاض)امام ابن قدامہ فرماتے ہیں: کسی چیز کا مالک بننے یا کسی اور کو مالک بنانے کے لیے مال کے بدلے مال کا تبادلہ بیع کہلاتا ہے۔ بیع، کتاب و سنت اور اجماع کی رو سے جائز ہے۔ قرآنِ کریم کی رو سے تو اس طرح کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے: { وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ} (البقرۃ 2:275)’’اللہ نے بیع کو حلال کیا ہے۔‘‘ سنت، یعنی حدیث کی رو سے بھی بیع جائز ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: [اَلْبَیِّعَانِ بِالْخِیَارِ مَا لَمْ یَتَفَرَّقَا] ’’دونوں سودا کرنے والے جب تک ایک دوسرے سے الگ اور جدا نہ ہوں (اس وقت تک) انہیں (سودا ختم کرنے کا) اختیار ہے۔ (صحیح البخاری، البیوع، حدیث: 2109، 2110، و صحیح مسلم، البیوع، حدیث: 1532) نیز تمام مسلمانوں کا اس کے جائز ہونے پر اجماع ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھئے: (ذخیرۃ العقبٰی شرح سنن النسائی: 34/2-75)
حضرت سمرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جس عورت کا نکاح دو ولی (الگ الگ) جگہ کر دیں، وہ اس خاوند کی ہوگی جس سے پہلے نکاح ہوا۔ اور اگر کسی شخص نے ایک چیز دو آدمیوں کو (الگ الگ) بیچ دی تو وہ چیز اس کو ملے گی جس کو پہلے بیچی گئی ہے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) ایک دفعہ بیچنے کے بعد پہلا مالک، مالک نہیں رہتا بلکہ خریدنے والا مالک بن جاتا ہے۔ اگر پہلا مالک دوسری جگہ بیچے گا تو کسی کی چیز بیچے گا، لہٰذا دوسری بیع معتبر نہیں ہوگی۔ اسی طرح چور یا ڈاکو کسی کی چیز بیچے تو وہ بیع معتبر نہیں ہوگی بلکہ وہ چیز اصل مالک کی رہے گی۔ اگر اصل مالک چیز تک پہنچ جائے تو وہ اسے بلا معاوضہ لے سکتا ہے۔ (دیکھیے فوائد ومسائل، حدیث: ۴۶۸۳) نکاح والے مسئلے میں بھی جب ایک ولی نے نکاح کر دیا تو دوسرے ولی کا تصرف غیر معتبر ہے۔ (2) اس حدیث کی عنوان کے ساتھ مناسبت نہیں ہے۔ مؤلف رحمہ اللہ کو اس حدیث کے لیے مستقل طور پر الگ ترجمۃ الباب قائم کرنا چاہیے تھا جس کے ساتھ حدیث کی مطابقت واضح ہوتی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
سمرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”کسی عورت کی شادی دو ولیوں نے کر دی تو وہ ان میں پہلے شوہر کی ہو گی، اور جس نے کوئی چیز دو آدمیوں سے بیچی تو وہ چیز ان میں سے پہلے کی ہو گی۔“
حدیث حاشیہ:
۱؎ : پہلے ولی کے ذریعے ہونے والے نکاح کا اعتبار ہو گا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Sammurah that the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) said: "A man has more right to his own wealth when he finds it, and the buyer should pursue the one who sold it to him.