باب: علقمہ بن وائل کی روایت میں راویوں کے اختلاف کا بیان
)
Sunan-nasai:
The Book of Oaths (qasamah), Retaliation and Blood Money
(Chapter: Mentioning The Differences Reported In The Narration Of 'Alqamah Bin Wa'il)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4729.
حضرت وائل رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک آدمی لایا گیا جس نے ایک آدمی کو قتل کر دیا تھا۔ آپ نے اسے مقتول کے ولی کے سپرد فرما دیا کہ (چاہے تو) قتل کر دے۔ پھر نبی کریم ﷺ نے اپنے ہم نشینوں سے کہا: ”قاتل مقتول دونوں آگ میں جائیں گے۔“ ایک آدمی اس کے پیچھے گیا اور اسے آپ کے فرمان کی خبر دی۔ جب اس نے اس کو یہ بتایا تو اس نے اسے چھوڑ دیا۔ جب اس نے چھوڑا تو میں نے دیکھا کہ وہ رسی گھسیٹتے ہوئے بھاگا جا رہا تھا۔ [فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِحَبِيبٍ فَقَالَ… الخ] میں نے یہ روایت حبیب سے بیان کی تو اس نے کہا: مجھ سے سعید بن اشوع نے بیان کیا کہ نبی ﷺ نے اس آدمی کو معاف کرنے کا حکم دیا۔
تشریح:
(1) [فَذَكَرْتُ…] کے قائل اسماعیل بن سالم ہیں۔ صحیح مسلم میں اس کی تصریح ہے۔ اسی طرح حبیب سے مراد حبیب بن ابی ثابت ہیں۔ اس کی تصریح اور وضاحت بھی صحیح مسلم میں موجود ہے۔ دیکھیے: (صحیح مسلم، القسامة والمحاربین، باب صحة الإقرار بالقتل وتمکین ولی القتیل من القصاص… الخ، حدیث: ۱۶۸۰) (2) ”دونوں آگ میں“ یہ مطلب نہیں کہ اگر اس نے اسے قتل کر دیا تو دونوں آگ میں جائیں گے۔ یہ معنیٰ مسلمات کے خلاف ہیں کیونکہ قتل کیے جانے کی صورت میں قاتل کا گناہ معاف ہو جائے گا کیونکہ قصاص لینے والا تو اپنا حق وصول کر لے گا۔ وہ آگ میں کیوں؟ بلکہ مطلب یہ ہے کہ اگر قاتل اور مقتول دونوں ایک دوسرے کے قتل کے درپے رہے ہوں تو وہ دونوں آگ میں جائیں گے۔ ضروری نہیں کہ صرف قاتل ہی قصور وار ہو، لہٰذا معاف کر دینا چاہیے۔ اس قسم کے الفاظ سے مقصود معافی کے جذبات کو ابھارنا تھا اور وہ مقصود حاصل ہوگیا۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4742
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4743
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4733
تمہید کتاب
٭ تعریف: ’’قسامہ‘‘ اسم مصدر ہے جس کے معنی قسم اٹھانے کے ہیں۔ اصطلاحی طور پر قسامت ان مکرر (پچاس) قسموں کو کہا جاتا ہے جو کسی بے گناہ شخص کے قتل کے اثبات کے لیے دی جائیں۔ اور یہ قسمیں ایک شخص نہیں بلکہ متعدد افراد اٹھائیں گے۔٭ مشروعت: جب کوئی شخص کسی علاقے میں مقتول پایا جائے اور قاتل کا پتہ نہ چلے لیکن کوئی شخص یا قبیلہ متہم ہو تو ایسی صورت میں قسامت مشروع ہے۔ یہ شریعت کا ایک مستقل اصول ہے اور اس کے باقاعدہ احکام ہیں۔ قسم وقضا کے دیگر احکام سے اس کا حکم خاص ہے۔ اس کی مشروعیت کی دلیل اس باب میں مذکور روایات اور اجماع ہے۔٭ شرائط: اہل علم کے اس بارے میں کئی اقوال ہیں، تاہم تین شرائط کا پایا جانا متفقہ طور پر ضروری ہے: (۱) جن کے خلاف قتل کا دعویٰ کیا گیا ہو غالب گمان یہ ہے کہ انھوں نے قتل کیا ہے۔ اور یہ چار طرح سے ممکن ہے۔ کوئی شخص قتل کی گواہی دے جس کی گواہی کا اعتبار نہ کیا جاتا ہو، واضح سبب موجود ہو، دشمنی ہو یا پھر جس علاقے میں مقتول پایا جائے اس علاقے والے قتل کرنے میں معروف ہوں۔ (2) جس کے خلاف دعویٰ دائر کیا گیا ہو وہ مکلف ہو، کسی دیوانے یا بچے کے بارے میں دعوے کا اعتبار نہیں ہوگا۔ (3)جس کے خلاف دعویٰ کیا گیا ہو اس کے قتل کرنے کا امکان بھی ہو، اگر یہ امکان نہ ہو، مثلاً: جن کے خلاف دعویٰ کیا گیا، وہ بہت زیادہ دور ہیں، تو پھر قسامت کے احکام لاگو نہیں ہوں گے۔٭ قسامت کا طریق کار: عمومی قضا میں طریقہ یہ ہوتا ہے کہ مدعی دلیل پیش کرتا ہے۔ اگر وہ دلیل پیش نہ کر سکے تو مدعی ٰ علیہ قسم اٹھا کر اپنے بریٔ الذمہ ہونے کا اظہار کرتا ہے۔ لیکن قسامت میں حاکم وقت مدعی سے پچاس قسموں کا مطالبہ کرتا ہے۔ اگر وہ قسمیں اٹھا لیں تو قصاص یا دیت کے حق دار ٹھہرتے ہیں۔ اور اگر نہ اٹھائیں تو پھر مدعی ٰ علیہ سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ اس کے پچاس قریبی یا متہم قبیلے کے پچاس افراد قسمیں اٹھا کر اپنی براء ت کا اظہار کریں کہ انھوں نے قتل کیا ہے نہ انہیں اس کا علم ہی ہے اگر وہ قسمیں اٹھائیں تو ان سے قصاص یا دیت ساقط ہو جائے گی۔حنابلہ، مالکیہ اور شوافع کا یہی موقف ہے، البتہ احناف کا موقف یہ ہے کہ قسامت میں بھی قسمیں لینے کا آغاز مدعیٰ علیہ فریق سے کیا جائے۔ اس اختلاف کی وجہ روایات کا بظاہر تعارض ہے، تاہم دلائل کے اعتبار سے ائمہ ثلاثہ کا موقف ہی اقرب الی الصواب ہے۔٭ ملاحظہ: مدعی فریق اگر قسمیں اٹھا لے تو پھر مدعی علیہ فریق سے قسموں کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا بلکہ اس سے قصاص یا دیت لی جائے گی۔ دوسری صورت یہ ہے کہ مدعی فریق قسم نہ اٹھائے اور مدعی علیہ فریق قسم اٹھا لے کہ انھوں نے قتل نہیں کیا۔ اس صورت میں مدعی فریق کو کچھ نہیں ملے گا۔ تیسری صورت یہ ہے کہ مدعی علیہ فریق قسمیں کھانے کے لیے تیار ہے لیکن مدعی فریق ان کی قسموں کا (ان کے کافر یا فاسق ہونے کی وجہ سے) اعتبار نہیں کرتا۔ اس صورت میں بھی مدعی علیہ فریق پر قصاص اور دیت نہیں ہوگی، تاہم اس صورت میں بہتر ہے کہ حکومت بیت المال سے مقتول کی دیت ادا کر دے تاکہ مسلمان کا خون رائیگاں نہ جائے۔
حضرت وائل رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک آدمی لایا گیا جس نے ایک آدمی کو قتل کر دیا تھا۔ آپ نے اسے مقتول کے ولی کے سپرد فرما دیا کہ (چاہے تو) قتل کر دے۔ پھر نبی کریم ﷺ نے اپنے ہم نشینوں سے کہا: ”قاتل مقتول دونوں آگ میں جائیں گے۔“ ایک آدمی اس کے پیچھے گیا اور اسے آپ کے فرمان کی خبر دی۔ جب اس نے اس کو یہ بتایا تو اس نے اسے چھوڑ دیا۔ جب اس نے چھوڑا تو میں نے دیکھا کہ وہ رسی گھسیٹتے ہوئے بھاگا جا رہا تھا۔ [فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِحَبِيبٍ فَقَالَ… الخ] میں نے یہ روایت حبیب سے بیان کی تو اس نے کہا: مجھ سے سعید بن اشوع نے بیان کیا کہ نبی ﷺ نے اس آدمی کو معاف کرنے کا حکم دیا۔
حدیث حاشیہ:
(1) [فَذَكَرْتُ…] کے قائل اسماعیل بن سالم ہیں۔ صحیح مسلم میں اس کی تصریح ہے۔ اسی طرح حبیب سے مراد حبیب بن ابی ثابت ہیں۔ اس کی تصریح اور وضاحت بھی صحیح مسلم میں موجود ہے۔ دیکھیے: (صحیح مسلم، القسامة والمحاربین، باب صحة الإقرار بالقتل وتمکین ولی القتیل من القصاص… الخ، حدیث: ۱۶۸۰) (2) ”دونوں آگ میں“ یہ مطلب نہیں کہ اگر اس نے اسے قتل کر دیا تو دونوں آگ میں جائیں گے۔ یہ معنیٰ مسلمات کے خلاف ہیں کیونکہ قتل کیے جانے کی صورت میں قاتل کا گناہ معاف ہو جائے گا کیونکہ قصاص لینے والا تو اپنا حق وصول کر لے گا۔ وہ آگ میں کیوں؟ بلکہ مطلب یہ ہے کہ اگر قاتل اور مقتول دونوں ایک دوسرے کے قتل کے درپے رہے ہوں تو وہ دونوں آگ میں جائیں گے۔ ضروری نہیں کہ صرف قاتل ہی قصور وار ہو، لہٰذا معاف کر دینا چاہیے۔ اس قسم کے الفاظ سے مقصود معافی کے جذبات کو ابھارنا تھا اور وہ مقصود حاصل ہوگیا۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
وائل ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک آدمی لایا گیا، اس نے ایک شخص کو قتل کر دیا تھا، چنانچہ آپ نے اسے قتل کرنے کے لیے مقتول کے ولی کے حوالے کر دیا، پھر آپ نے اپنے ساتھ بیٹھنے والوں سے فرمایا: ”قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے“ ۱؎، ایک شخص اس وارث کے پیچھے گیا اور اسے خبر دی، جب اسے یہ معلوم ہوا تو اس نے قاتل کو چھوڑ دیا، جب اس نے قاتل کو چھوڑ دیا تاکہ وہ چلا جائے تو میں نے اسے دیکھا کہ وہ اپنی رسی گھسیٹ رہا ہے۔ میں نے اس کا ذکر حبیب سے کیا تو انہوں نے کہا: مجھ سے سعید بن اشوع نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں: انہوں نے بیان کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے اس شخص کو معاف کرنے کا حکم دیا تھا۔
حدیث حاشیہ:
۱؎ : یہ بات آپ نے خاص ان دونوں کے بارے میں نہیں کہی تھی، کیونکہ اس میں نہ تو مذکورہ مقتول کا کوئی قصور تھا، نہ ہی اس کے ولی کا جو اس کو بدلے میں قتل کرتا بلکہ آپ نے ولی کو معافی پر ابھارنے کے لیے یہ جملہ فرمایا تھا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from 'Alqamah bin Wa'il that: his father told them that a man who had killed another man was brought to the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) and he handed him over to their of the victim to kill him. Then the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) said to those who were sitting with him: "The killer and the slain will both be in Fire. "A man went after him and told him that, and when he told him that, he left him (let him go). He (the narrator) said: "I saw him dragging his string when he let him go. I mentioned that the Habib and he said: 'Sa'eed bin Ashwa' told me that the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) commanded the man to forgive him.