باب: علقمہ بن وائل کی روایت میں راویوں کے اختلاف کا بیان
)
Sunan-nasai:
The Book of Oaths (qasamah), Retaliation and Blood Money
(Chapter: Mentioning The Differences Reported In The Narration Of 'Alqamah Bin Wa'il)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4731.
حضرت بریدہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی کریم ﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا: اس آدمی نے میرے بھائی کو قتل کر ڈالا ہے۔ آپ نے فرمایا: ”جا اسے قتل کر دے، جیسے اس نے تیرے بھائی کو قتل کیا ہے۔“ وہ آدمی (قاتل) کہنے لگا: ”اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور مجھے معاف کر دو۔ اس سے تجھے بہت ثواب ملے گا۔ اور یہ (معافی) تیرے اور تیرے بھائی کے لیے قیامت کے دن بہت اچھی ثابت ہوگی۔ اس نے اسے چھوڑ دیا۔ نبی کریم ﷺ کو بتایا گیا۔ آپ نے قاتل سے پوچھا تو اس نے مقتول کے وارث سے جو کہا تھا آپ کو اس کی خبر دی۔ تو آپ نے اسے ڈانٹا (اور فرمایا:) ”تیرا قتل ہو جانا اس سلوک سے بہتر تھا جو مقتول قیامت کے دن تجھ سے کرے گا۔ وہ کہے گا: اے میرے رب اس سے پوچھیے کہ اس نے کس بنا پر مجھے قتل کیا تھا؟“
تشریح:
(1) ”تیرا قتل ہو جانا بہتر تھا“ گویا معافی مقتول اور اس کے ولی کے لیے تو بہتر اور افضل ہے مگر قاتل کے لیے نقصان دہ ہے کیونکہ مقتول اور اس کا ولی تو معافی کی وجہ سے جنت میں چلے جائیں گے مگر قاتل کو حساب دینا ہوگا اور عذاب سہنا ہوگا، بخلاف اس کے کہ اگر معاف نہ کیا جاتا اور قاتل کو قتل کر دیا جاتا تو قاتل کا گناہ تو معاف ہو جاتا، البتہ مقتول اور اس کے ولی کی معافی کی کوئی ضمانت نہ ہوتی۔ (2) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ عدالت سے سزا ہونے کے بعد بھی قاتل، مقتول کے وارث سے معافی کی درخواست کر سکتا ہے اور وہ چاہے تو معاف کر سکتا ہے کیونکہ یہ خالصتاً اسی کا حق ہے۔ اور یہ صرف قتل کے مسئلے میں ہے۔ چوری وغیرہ کے مسئلے میں عدالت میں کیس آنے سے پہلے تو معاف کر سکتا ہے بعد میں نہیں۔ جیسا کہ دوسری حدیث میں اس کی وضاحت ہے۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4744
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4745
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4735
تمہید کتاب
٭ تعریف: ’’قسامہ‘‘ اسم مصدر ہے جس کے معنی قسم اٹھانے کے ہیں۔ اصطلاحی طور پر قسامت ان مکرر (پچاس) قسموں کو کہا جاتا ہے جو کسی بے گناہ شخص کے قتل کے اثبات کے لیے دی جائیں۔ اور یہ قسمیں ایک شخص نہیں بلکہ متعدد افراد اٹھائیں گے۔٭ مشروعت: جب کوئی شخص کسی علاقے میں مقتول پایا جائے اور قاتل کا پتہ نہ چلے لیکن کوئی شخص یا قبیلہ متہم ہو تو ایسی صورت میں قسامت مشروع ہے۔ یہ شریعت کا ایک مستقل اصول ہے اور اس کے باقاعدہ احکام ہیں۔ قسم وقضا کے دیگر احکام سے اس کا حکم خاص ہے۔ اس کی مشروعیت کی دلیل اس باب میں مذکور روایات اور اجماع ہے۔٭ شرائط: اہل علم کے اس بارے میں کئی اقوال ہیں، تاہم تین شرائط کا پایا جانا متفقہ طور پر ضروری ہے: (۱) جن کے خلاف قتل کا دعویٰ کیا گیا ہو غالب گمان یہ ہے کہ انھوں نے قتل کیا ہے۔ اور یہ چار طرح سے ممکن ہے۔ کوئی شخص قتل کی گواہی دے جس کی گواہی کا اعتبار نہ کیا جاتا ہو، واضح سبب موجود ہو، دشمنی ہو یا پھر جس علاقے میں مقتول پایا جائے اس علاقے والے قتل کرنے میں معروف ہوں۔ (2) جس کے خلاف دعویٰ دائر کیا گیا ہو وہ مکلف ہو، کسی دیوانے یا بچے کے بارے میں دعوے کا اعتبار نہیں ہوگا۔ (3)جس کے خلاف دعویٰ کیا گیا ہو اس کے قتل کرنے کا امکان بھی ہو، اگر یہ امکان نہ ہو، مثلاً: جن کے خلاف دعویٰ کیا گیا، وہ بہت زیادہ دور ہیں، تو پھر قسامت کے احکام لاگو نہیں ہوں گے۔٭ قسامت کا طریق کار: عمومی قضا میں طریقہ یہ ہوتا ہے کہ مدعی دلیل پیش کرتا ہے۔ اگر وہ دلیل پیش نہ کر سکے تو مدعی ٰ علیہ قسم اٹھا کر اپنے بریٔ الذمہ ہونے کا اظہار کرتا ہے۔ لیکن قسامت میں حاکم وقت مدعی سے پچاس قسموں کا مطالبہ کرتا ہے۔ اگر وہ قسمیں اٹھا لیں تو قصاص یا دیت کے حق دار ٹھہرتے ہیں۔ اور اگر نہ اٹھائیں تو پھر مدعی ٰ علیہ سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ اس کے پچاس قریبی یا متہم قبیلے کے پچاس افراد قسمیں اٹھا کر اپنی براء ت کا اظہار کریں کہ انھوں نے قتل کیا ہے نہ انہیں اس کا علم ہی ہے اگر وہ قسمیں اٹھائیں تو ان سے قصاص یا دیت ساقط ہو جائے گی۔حنابلہ، مالکیہ اور شوافع کا یہی موقف ہے، البتہ احناف کا موقف یہ ہے کہ قسامت میں بھی قسمیں لینے کا آغاز مدعیٰ علیہ فریق سے کیا جائے۔ اس اختلاف کی وجہ روایات کا بظاہر تعارض ہے، تاہم دلائل کے اعتبار سے ائمہ ثلاثہ کا موقف ہی اقرب الی الصواب ہے۔٭ ملاحظہ: مدعی فریق اگر قسمیں اٹھا لے تو پھر مدعی علیہ فریق سے قسموں کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا بلکہ اس سے قصاص یا دیت لی جائے گی۔ دوسری صورت یہ ہے کہ مدعی فریق قسم نہ اٹھائے اور مدعی علیہ فریق قسم اٹھا لے کہ انھوں نے قتل نہیں کیا۔ اس صورت میں مدعی فریق کو کچھ نہیں ملے گا۔ تیسری صورت یہ ہے کہ مدعی علیہ فریق قسمیں کھانے کے لیے تیار ہے لیکن مدعی فریق ان کی قسموں کا (ان کے کافر یا فاسق ہونے کی وجہ سے) اعتبار نہیں کرتا۔ اس صورت میں بھی مدعی علیہ فریق پر قصاص اور دیت نہیں ہوگی، تاہم اس صورت میں بہتر ہے کہ حکومت بیت المال سے مقتول کی دیت ادا کر دے تاکہ مسلمان کا خون رائیگاں نہ جائے۔
حضرت بریدہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی کریم ﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا: اس آدمی نے میرے بھائی کو قتل کر ڈالا ہے۔ آپ نے فرمایا: ”جا اسے قتل کر دے، جیسے اس نے تیرے بھائی کو قتل کیا ہے۔“ وہ آدمی (قاتل) کہنے لگا: ”اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور مجھے معاف کر دو۔ اس سے تجھے بہت ثواب ملے گا۔ اور یہ (معافی) تیرے اور تیرے بھائی کے لیے قیامت کے دن بہت اچھی ثابت ہوگی۔ اس نے اسے چھوڑ دیا۔ نبی کریم ﷺ کو بتایا گیا۔ آپ نے قاتل سے پوچھا تو اس نے مقتول کے وارث سے جو کہا تھا آپ کو اس کی خبر دی۔ تو آپ نے اسے ڈانٹا (اور فرمایا:) ”تیرا قتل ہو جانا اس سلوک سے بہتر تھا جو مقتول قیامت کے دن تجھ سے کرے گا۔ وہ کہے گا: اے میرے رب اس سے پوچھیے کہ اس نے کس بنا پر مجھے قتل کیا تھا؟“
حدیث حاشیہ:
(1) ”تیرا قتل ہو جانا بہتر تھا“ گویا معافی مقتول اور اس کے ولی کے لیے تو بہتر اور افضل ہے مگر قاتل کے لیے نقصان دہ ہے کیونکہ مقتول اور اس کا ولی تو معافی کی وجہ سے جنت میں چلے جائیں گے مگر قاتل کو حساب دینا ہوگا اور عذاب سہنا ہوگا، بخلاف اس کے کہ اگر معاف نہ کیا جاتا اور قاتل کو قتل کر دیا جاتا تو قاتل کا گناہ تو معاف ہو جاتا، البتہ مقتول اور اس کے ولی کی معافی کی کوئی ضمانت نہ ہوتی۔ (2) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ عدالت سے سزا ہونے کے بعد بھی قاتل، مقتول کے وارث سے معافی کی درخواست کر سکتا ہے اور وہ چاہے تو معاف کر سکتا ہے کیونکہ یہ خالصتاً اسی کا حق ہے۔ اور یہ صرف قتل کے مسئلے میں ہے۔ چوری وغیرہ کے مسئلے میں عدالت میں کیس آنے سے پہلے تو معاف کر سکتا ہے بعد میں نہیں۔ جیسا کہ دوسری حدیث میں اس کی وضاحت ہے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
بریدہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی اکرم ﷺ کے پاس آ کر کہا کہ اس شخص نے میرے بھائی کو مار ڈالا، آپ نے فرمایا: ”جاؤ اسے بھی مار ڈالو جیسا کہ اس نے تمہارے بھائی کو مارا ہے“، اس شخص نے اس سے کہا: اللہ سے ڈرو اور مجھے معاف کر دو، اس میں تمہیں زیادہ ثواب ملے گا اور یہ قیامت کے دن تمہارے لیے اور تمہارے بھائی کے لیے بہتر ہو گا، یہ سن کر اس نے اسے چھوڑ دیا، نبی اکرم ﷺ کو اس کی خبر ہوئی، آپ نے اس سے پوچھا تو اس نے جو کہا تھا، آپ سے بیان کیا، آپ نے اس سے زور سے فرمایا: ”سنو ! یہ تمہارے لیے اس سے بہتر ہے جو وہ قیامت کے دن تمہارے ساتھ معاملہ کرتا، وہ کہے گا (قیامت کے دن) اے میرے رب! اس سے پوچھ اس نے مجھے کس جرم میں قتل کیا۔“ ۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : یہ واقعہ مذکورہ واقعہ کے علاوہ ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from 'Abdullah bin Buraidah, from the father, that a man came to the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) and said: "This man killed my brother." He said: "Go and kill him as he killed your brother." The man said to him: "Fear Allah and let me go, for that will bring you a greater reward and will be better for you and your brother on the Day of Resurrection." So he let him go. The Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) was told about that, so he asked him about it, and he told him what he had said. He said: "Pardoning him would be better for you than what he would have done for you on the Day of Resurrection when he said: 'O Lord, ask him why he killed me.