Sunan-nasai:
The Book of Oaths (qasamah), Retaliation and Blood Money
(Chapter: Cases Of Retaliation Between Free Men And Slaves)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4734.
حضرت قیس بن عباد سے روایت ہے کہ میں اور حضرت قیس بن عباد سے روایت ہے کہ میں اور اشتر نخعی حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے پاس گئے۔ ہم نے کہا: کیا نبی کریم ﷺ نے آپ کو کوئی خصوصی وصیت فرمائی ہے جو دوسرے لوگوں کو نہ فرمائی ہو؟ انھوں نے کہا: نہیں، البتہ میری اس تحریر میں کچھ لکھا ہے۔ پھر انھوں نے اپنی تلوار کی میان سے وہ تحریر نکالی تو اس میں لکھا تھا: ”تمام ایمان والوں کے خون برابر ہیں۔ اور وہ سب اپنے دشمن کے خلاف یکمشت ہیں۔ ان میں سے کم مرتبہ والا عام شخص بھی کسی کو پناہ دے سکتا ہے۔ آگاہ رہو! کسی مومن کو کافر کے بدلے قتل نہ کیا جائے اور نہ کسی ذمی کو جب تک وہ ہماری پناہ میں ہے۔ جو دشمن بغاوت کرے گا، اسے اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ جو شخص کسی باغی کو پناہ مہیا کرے، اس پر اللہ تعالیٰ، فرشتوں اور سب لوگوں کی لعنت ہے۔“
تشریح:
(1) مومن کو کافر کے بدلے کسی صورت میں قتل نہیں کیا جا سکتا، خواہ مقتول ذمی ہی ہو کیونکہ مسلمان اور کافر کے خون برابر نہیں۔ البتہ ذمی کا قتل چونکہ عہد اور پناہ کی خلاف ورزی ہے، لہٰذا اس کی دیت دی جائے گی ورنہ آخرت میں منجانب اللہ سزا ہوگی۔ حکومت بھی تقریباً قید وغیرہ کی سزا دے سکتی ہے۔ واللہ أعلم! احناف ذمی کے بدلے مسلمان کے قتل کے قائل ہیں۔ وہ اس روایت کو حربی کافر، یعنی دشمن ملک کے کافر کے بارے میں قرار دیتے ہیں، حالانکہ دشمن ملک کے کافر کے بدلے تو قتل کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ (2) اس حدیث سے رافضیوں کی تردید ہوتی ہے جو کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کو کچھ خصوصی وصیتیں کی تھیں، نیز معلوم ہوا کہ جرم کی سزا صرف اور صرف مجرم کو ملے گی کسی دوسرے شخص کو نہیں۔ ہمارے معاشرے میں جو اندھا قانون ہے کہ کرے کوئی بھرے کوئی، تو یہ شرعاً ناجائز اور حرام ہے۔ ارشاد الٰہی ہے: ﴿وَلا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى﴾(فاطر: ۳۵: ۱۸)”کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا (قطعاً) کوئی بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ (خواہ وہ اس کا کتنا ہی قرابت دار کیوں نہ ہو)۔“ اللہ کے قانون میں اس کی ذرہ بھر گنجائش نہیں بلکہ ایسا کرنے والا، مجرم اور لائق سزا قرار پاتا ہے۔ (3) تمام مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں۔ ایک دوسرے کو قوت باہم پہنچائیں، نیز وہ اپنے دشمنوں کے خلاف متحد ہوں۔ (4) جس طرح جرم کرنا گناہ ہے اسی طرح کسی مجرم کی پشت پناہی کرنا یا اسے قرار واقعی سزا سے بچانا اور اس کی سفارش وغیرہ کرنا بھی گناہ ہے۔ مزید برآں یہ بھی کہ اگر کوئی شخص باغی اور ایسے خطرناک مجرم کو پناہ اور تحفظ دے تو یہ پناہ اور تحفظ دینے والا شخص ملعون اور لعنتی ہے۔ اس شخص پر لعنت ہے اللہ تعالیٰ کی، اس کے فرشتوں کی اور تمام انسانوں کی۔ اس میں ان حضرات کے لیے لمحہ فکریہ ہے جو مجرموں کو تحفظ دیتے ہیں کہ وہ جھوٹی ناموری کے لیے لعنت اور پھٹکار کے مستحق ٹھہرتے ہیں۔ (5) ”خصوصی وصیت“ بعض بے دین لوگوں نے مشہور کر رکھا تھا کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کو اصل وحی کی تعلیم دی ہے۔ باقی لوگوں کے پاس ناقص وحی ہے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اس کی نفی فرمائی کہ میرے پاس صرف ایک تحریر ہے۔ وہ بھی دیکھ لو تاکہ کوئی شک وشبہ نہ رہے۔ اس تحریر میں ایسے مسائل تھے جو سب لوگوں سے تعلق رکھتے تھے اور لوگوں کو الگ طور سے بھی معلوم تھے۔ (6) ”خون برابر ہیں“ اس سے مصنف رحمہ اللہ نے استدلال فرمایا ہے کہ آزاد اور غلام مومن کا خون برابر ہے، لہٰذا انھیں ایک دوسرے کے بدلے قتل کیا جا سکتا ہے۔ یہی موقف سعید بن مسیب، ابراہیم نخعی، قتادہ، سفیان ثوری اور ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بھی اسی موقف کو راجح قرار دیا ہے کیونکہ مذکورہ حدیث کے مطابق مسلمانوں کے خون برابر ہیں۔ اس کے برعکس اہل علم کی ایک جماعت کے نزدیک آزاد کو غلام کے بدلے قتل نہیں کیا جائے گا۔ اس میں سرفہرست سیدنا ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہ کا نام آتا ہے لیکن ان سے صحیح سند سے ثابت نہیں ہے، نیز اس بارے میں وارد تمام احادیث بھی ضعیف ہیں۔ اس لیے راجح بات یہی ہے کہ آزاد آدمی اگر غلام کو قتل کر دے تو اسے قصاصاً قتل کیا جائے گا الا یہ کہ اس کے ورثاء دیت پر راضی ہو جائیں یا معاف کر دیں۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرة العقبیٰ، شرح سنن النسائي، للأتبوبي: ۳۶/ ۱۹) (7) ”یکمشت ہیں۔“ یعنی مسلمانوں کو کفار کے مقابلے میں یکمشت رہنا چاہیے۔ آپس میں انتشار یا دشمن کی سازش کا شکار نہیں ہونا چاہیے اور نہ کفار کو دوست بنانا چاہیے۔ رسول اللہ ﷺ نے کیسی بہترین مثال ارشاد فرمائی ہے کہ مومن ایک ہاتھ کی انگلیوں کی طرح ہیں جو ضرورت ہو تو یکجان ہو کر زبردست مکا بن جاتی ہیں۔ (8) ”پناہ دے سکتا ہے“ جو دوسرے مسلمانوں کو تسلیم کرنا ہوگی، خواہ پناہ دینے والا عام فوجی یا عام مسلمان ہو۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4747
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4748
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4738
تمہید کتاب
٭ تعریف: ’’قسامہ‘‘ اسم مصدر ہے جس کے معنی قسم اٹھانے کے ہیں۔ اصطلاحی طور پر قسامت ان مکرر (پچاس) قسموں کو کہا جاتا ہے جو کسی بے گناہ شخص کے قتل کے اثبات کے لیے دی جائیں۔ اور یہ قسمیں ایک شخص نہیں بلکہ متعدد افراد اٹھائیں گے۔٭ مشروعت: جب کوئی شخص کسی علاقے میں مقتول پایا جائے اور قاتل کا پتہ نہ چلے لیکن کوئی شخص یا قبیلہ متہم ہو تو ایسی صورت میں قسامت مشروع ہے۔ یہ شریعت کا ایک مستقل اصول ہے اور اس کے باقاعدہ احکام ہیں۔ قسم وقضا کے دیگر احکام سے اس کا حکم خاص ہے۔ اس کی مشروعیت کی دلیل اس باب میں مذکور روایات اور اجماع ہے۔٭ شرائط: اہل علم کے اس بارے میں کئی اقوال ہیں، تاہم تین شرائط کا پایا جانا متفقہ طور پر ضروری ہے: (۱) جن کے خلاف قتل کا دعویٰ کیا گیا ہو غالب گمان یہ ہے کہ انھوں نے قتل کیا ہے۔ اور یہ چار طرح سے ممکن ہے۔ کوئی شخص قتل کی گواہی دے جس کی گواہی کا اعتبار نہ کیا جاتا ہو، واضح سبب موجود ہو، دشمنی ہو یا پھر جس علاقے میں مقتول پایا جائے اس علاقے والے قتل کرنے میں معروف ہوں۔ (2) جس کے خلاف دعویٰ دائر کیا گیا ہو وہ مکلف ہو، کسی دیوانے یا بچے کے بارے میں دعوے کا اعتبار نہیں ہوگا۔ (3)جس کے خلاف دعویٰ کیا گیا ہو اس کے قتل کرنے کا امکان بھی ہو، اگر یہ امکان نہ ہو، مثلاً: جن کے خلاف دعویٰ کیا گیا، وہ بہت زیادہ دور ہیں، تو پھر قسامت کے احکام لاگو نہیں ہوں گے۔٭ قسامت کا طریق کار: عمومی قضا میں طریقہ یہ ہوتا ہے کہ مدعی دلیل پیش کرتا ہے۔ اگر وہ دلیل پیش نہ کر سکے تو مدعی ٰ علیہ قسم اٹھا کر اپنے بریٔ الذمہ ہونے کا اظہار کرتا ہے۔ لیکن قسامت میں حاکم وقت مدعی سے پچاس قسموں کا مطالبہ کرتا ہے۔ اگر وہ قسمیں اٹھا لیں تو قصاص یا دیت کے حق دار ٹھہرتے ہیں۔ اور اگر نہ اٹھائیں تو پھر مدعی ٰ علیہ سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ اس کے پچاس قریبی یا متہم قبیلے کے پچاس افراد قسمیں اٹھا کر اپنی براء ت کا اظہار کریں کہ انھوں نے قتل کیا ہے نہ انہیں اس کا علم ہی ہے اگر وہ قسمیں اٹھائیں تو ان سے قصاص یا دیت ساقط ہو جائے گی۔حنابلہ، مالکیہ اور شوافع کا یہی موقف ہے، البتہ احناف کا موقف یہ ہے کہ قسامت میں بھی قسمیں لینے کا آغاز مدعیٰ علیہ فریق سے کیا جائے۔ اس اختلاف کی وجہ روایات کا بظاہر تعارض ہے، تاہم دلائل کے اعتبار سے ائمہ ثلاثہ کا موقف ہی اقرب الی الصواب ہے۔٭ ملاحظہ: مدعی فریق اگر قسمیں اٹھا لے تو پھر مدعی علیہ فریق سے قسموں کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا بلکہ اس سے قصاص یا دیت لی جائے گی۔ دوسری صورت یہ ہے کہ مدعی فریق قسم نہ اٹھائے اور مدعی علیہ فریق قسم اٹھا لے کہ انھوں نے قتل نہیں کیا۔ اس صورت میں مدعی فریق کو کچھ نہیں ملے گا۔ تیسری صورت یہ ہے کہ مدعی علیہ فریق قسمیں کھانے کے لیے تیار ہے لیکن مدعی فریق ان کی قسموں کا (ان کے کافر یا فاسق ہونے کی وجہ سے) اعتبار نہیں کرتا۔ اس صورت میں بھی مدعی علیہ فریق پر قصاص اور دیت نہیں ہوگی، تاہم اس صورت میں بہتر ہے کہ حکومت بیت المال سے مقتول کی دیت ادا کر دے تاکہ مسلمان کا خون رائیگاں نہ جائے۔
حضرت قیس بن عباد سے روایت ہے کہ میں اور حضرت قیس بن عباد سے روایت ہے کہ میں اور اشتر نخعی حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے پاس گئے۔ ہم نے کہا: کیا نبی کریم ﷺ نے آپ کو کوئی خصوصی وصیت فرمائی ہے جو دوسرے لوگوں کو نہ فرمائی ہو؟ انھوں نے کہا: نہیں، البتہ میری اس تحریر میں کچھ لکھا ہے۔ پھر انھوں نے اپنی تلوار کی میان سے وہ تحریر نکالی تو اس میں لکھا تھا: ”تمام ایمان والوں کے خون برابر ہیں۔ اور وہ سب اپنے دشمن کے خلاف یکمشت ہیں۔ ان میں سے کم مرتبہ والا عام شخص بھی کسی کو پناہ دے سکتا ہے۔ آگاہ رہو! کسی مومن کو کافر کے بدلے قتل نہ کیا جائے اور نہ کسی ذمی کو جب تک وہ ہماری پناہ میں ہے۔ جو دشمن بغاوت کرے گا، اسے اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ جو شخص کسی باغی کو پناہ مہیا کرے، اس پر اللہ تعالیٰ، فرشتوں اور سب لوگوں کی لعنت ہے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) مومن کو کافر کے بدلے کسی صورت میں قتل نہیں کیا جا سکتا، خواہ مقتول ذمی ہی ہو کیونکہ مسلمان اور کافر کے خون برابر نہیں۔ البتہ ذمی کا قتل چونکہ عہد اور پناہ کی خلاف ورزی ہے، لہٰذا اس کی دیت دی جائے گی ورنہ آخرت میں منجانب اللہ سزا ہوگی۔ حکومت بھی تقریباً قید وغیرہ کی سزا دے سکتی ہے۔ واللہ أعلم! احناف ذمی کے بدلے مسلمان کے قتل کے قائل ہیں۔ وہ اس روایت کو حربی کافر، یعنی دشمن ملک کے کافر کے بارے میں قرار دیتے ہیں، حالانکہ دشمن ملک کے کافر کے بدلے تو قتل کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ (2) اس حدیث سے رافضیوں کی تردید ہوتی ہے جو کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کو کچھ خصوصی وصیتیں کی تھیں، نیز معلوم ہوا کہ جرم کی سزا صرف اور صرف مجرم کو ملے گی کسی دوسرے شخص کو نہیں۔ ہمارے معاشرے میں جو اندھا قانون ہے کہ کرے کوئی بھرے کوئی، تو یہ شرعاً ناجائز اور حرام ہے۔ ارشاد الٰہی ہے: ﴿وَلا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى﴾(فاطر: ۳۵: ۱۸)”کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا (قطعاً) کوئی بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ (خواہ وہ اس کا کتنا ہی قرابت دار کیوں نہ ہو)۔“ اللہ کے قانون میں اس کی ذرہ بھر گنجائش نہیں بلکہ ایسا کرنے والا، مجرم اور لائق سزا قرار پاتا ہے۔ (3) تمام مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں۔ ایک دوسرے کو قوت باہم پہنچائیں، نیز وہ اپنے دشمنوں کے خلاف متحد ہوں۔ (4) جس طرح جرم کرنا گناہ ہے اسی طرح کسی مجرم کی پشت پناہی کرنا یا اسے قرار واقعی سزا سے بچانا اور اس کی سفارش وغیرہ کرنا بھی گناہ ہے۔ مزید برآں یہ بھی کہ اگر کوئی شخص باغی اور ایسے خطرناک مجرم کو پناہ اور تحفظ دے تو یہ پناہ اور تحفظ دینے والا شخص ملعون اور لعنتی ہے۔ اس شخص پر لعنت ہے اللہ تعالیٰ کی، اس کے فرشتوں کی اور تمام انسانوں کی۔ اس میں ان حضرات کے لیے لمحہ فکریہ ہے جو مجرموں کو تحفظ دیتے ہیں کہ وہ جھوٹی ناموری کے لیے لعنت اور پھٹکار کے مستحق ٹھہرتے ہیں۔ (5) ”خصوصی وصیت“ بعض بے دین لوگوں نے مشہور کر رکھا تھا کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کو اصل وحی کی تعلیم دی ہے۔ باقی لوگوں کے پاس ناقص وحی ہے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اس کی نفی فرمائی کہ میرے پاس صرف ایک تحریر ہے۔ وہ بھی دیکھ لو تاکہ کوئی شک وشبہ نہ رہے۔ اس تحریر میں ایسے مسائل تھے جو سب لوگوں سے تعلق رکھتے تھے اور لوگوں کو الگ طور سے بھی معلوم تھے۔ (6) ”خون برابر ہیں“ اس سے مصنف رحمہ اللہ نے استدلال فرمایا ہے کہ آزاد اور غلام مومن کا خون برابر ہے، لہٰذا انھیں ایک دوسرے کے بدلے قتل کیا جا سکتا ہے۔ یہی موقف سعید بن مسیب، ابراہیم نخعی، قتادہ، سفیان ثوری اور ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بھی اسی موقف کو راجح قرار دیا ہے کیونکہ مذکورہ حدیث کے مطابق مسلمانوں کے خون برابر ہیں۔ اس کے برعکس اہل علم کی ایک جماعت کے نزدیک آزاد کو غلام کے بدلے قتل نہیں کیا جائے گا۔ اس میں سرفہرست سیدنا ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہ کا نام آتا ہے لیکن ان سے صحیح سند سے ثابت نہیں ہے، نیز اس بارے میں وارد تمام احادیث بھی ضعیف ہیں۔ اس لیے راجح بات یہی ہے کہ آزاد آدمی اگر غلام کو قتل کر دے تو اسے قصاصاً قتل کیا جائے گا الا یہ کہ اس کے ورثاء دیت پر راضی ہو جائیں یا معاف کر دیں۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرة العقبیٰ، شرح سنن النسائي، للأتبوبي: ۳۶/ ۱۹) (7) ”یکمشت ہیں۔“ یعنی مسلمانوں کو کفار کے مقابلے میں یکمشت رہنا چاہیے۔ آپس میں انتشار یا دشمن کی سازش کا شکار نہیں ہونا چاہیے اور نہ کفار کو دوست بنانا چاہیے۔ رسول اللہ ﷺ نے کیسی بہترین مثال ارشاد فرمائی ہے کہ مومن ایک ہاتھ کی انگلیوں کی طرح ہیں جو ضرورت ہو تو یکجان ہو کر زبردست مکا بن جاتی ہیں۔ (8) ”پناہ دے سکتا ہے“ جو دوسرے مسلمانوں کو تسلیم کرنا ہوگی، خواہ پناہ دینے والا عام فوجی یا عام مسلمان ہو۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
قیس بن عباد کہتے ہیں کہ میں اور اشتر علی ؓ کے پاس گئے تو ہم نے کہا: کیا نبی اکرم ﷺ نے آپ کو کوئی ایسی خاص بات بتائی جو عام لوگوں کو نہیں بتائی؟ انہوں نے کہا: نہیں، سوائے اس کے کہ جو میری اس کتاب میں موجود ہے ۱؎ پھر انہوں نے اپنی تلوار کی نیام سے ایک تحریر نکالی، اس میں لکھا تھا: ”سب مسلمانوں کا خون برابر ہے ۲؎، اور وہ غیروں کے مقابل (باہمی نصرت و معاونت میں) گویا ایک ہاتھ ہیں، اور ان میں کا ایک ادنیٰ آدمی بھی ان سب کی طرف سے عہد و امان کی ذمہ داری لے سکتا ہے ۳؎ آگاہ رہو! کہ کوئی مومن کسی کافر کے بدلے قتل نہیں کیا جائے گا، اور نہ ہی کوئی ذمی معاہد جب تک وہ معاہد ہے قتل کیا جائے گا، اور جو شخص کوئی نئی بات نکالے گا تو اس کی ذمہ داری اسی کے اوپر ہو گی، اور جو نئی بات نکالے گا یا نئی بات نکالنے والے کسی شخص کو پناہ دے گا تو اس پر اللہ کی، فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہے۔
حدیث حاشیہ:
۱؎ : یعنی اگر میرے لیے کوئی خاص بات ہوتی تو میری اس کتاب میں ضرور ہوتی، جب کہ اس کتاب میں جو کچھ ہے وہ میرے لیے خاص نہیں ہے بلکہ عام ہے، یہ اور بات ہے کہ اوروں کو چھوڑ کر مجھے اسے لکھنے کا حکم دیا گیا۔ ۲؎ : اس سے ثابت ہوتا ہے کہ آزاد آدمی اور غلام کے درمیان بھی قصاص کا حکم جاری ہو گا۔ ۳؎ : یعنی کوئی ادنیٰ مسلمان بھی کسی کافر کو پناہ دیدے تو کوئی مسلمان اسے توڑ نہیں سکتا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Qais bin 'Ubad said: "Al-Ashtar and I went to 'Ali (RA) with him, and said: Did the Prophet of Allah tell you anything that he did not tell to all the people?' He said: 'No, except what is in this letter of mine.' He brought out a letter from the sheath of his sword and it said therein: "The lives of the believers are equal in value, and they are one against others, and they hasten to support the asylum granted by the least of them. But no believer may be killed in return for a disbeliever, nor one with a covenant while his convenant is in effect. Whoever commits an offense then the blame is on himself, and whoever gives sanctuary to an offender, then upon him will be the curse of Allah, the angels and all the people.