Sunan-nasai:
The Book of Oaths (qasamah), Retaliation and Blood Money
(Chapter: Retaliation For A Slap)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4775.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے حضرت عباس کے جاہلی دور کے ایک جد امجد کو برا بھلا کہا۔ حضرت عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اسے تھپڑ رسید کر دیا۔ اس آدمی کے قبیلے والے آئے اور کہنے لگے: یہ بھی انھیں تھپڑ مارے گا جس طرح انھوں نے اسے تھپڑ مارا ہے حتیٰ کہ انھوں نے اسلحہ پہن لیا۔ یہ بات نبی اکرم ﷺ تک پہنچی۔ آپ منبر پر چڑھے اور فرمایا: ”اے لوگو! تم روئے زمین پر بسنے والے لوگوں میں سے کس شخص کو اللہ تعالیٰ کے نزدیک زیادہ معزز ومحترم سمجھتے ہو؟“ انھوں نے کہا: آپ کو۔ آپ نے فرمایا: ”پھر سن لو! عباس مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں۔ ہمارے فوت شدہ آباؤ اجداد کو برا نہ کہو۔ اس طرح تم ہم میں سے زندہ افراد کو تکلیف پہنچاؤ گے۔“ وہ لوگ آپ کے پاس حاضر ہوئے اور کہا: ہم آپ کی ناراضی سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے ہیں۔ (معاف فرما دیجئے اور) اللہ تعالیٰ سے ہمارے لیے بخش کی دعا فرمائیے۔
تشریح:
مذکورہ حدیث اگرچہ ضعیف ہے، تاہم ایسے معاملات میں قصاص صحیح احادیث سے ثابت ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4788
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4789
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4779
تمہید کتاب
٭ تعریف: ’’قسامہ‘‘ اسم مصدر ہے جس کے معنی قسم اٹھانے کے ہیں۔ اصطلاحی طور پر قسامت ان مکرر (پچاس) قسموں کو کہا جاتا ہے جو کسی بے گناہ شخص کے قتل کے اثبات کے لیے دی جائیں۔ اور یہ قسمیں ایک شخص نہیں بلکہ متعدد افراد اٹھائیں گے۔٭ مشروعت: جب کوئی شخص کسی علاقے میں مقتول پایا جائے اور قاتل کا پتہ نہ چلے لیکن کوئی شخص یا قبیلہ متہم ہو تو ایسی صورت میں قسامت مشروع ہے۔ یہ شریعت کا ایک مستقل اصول ہے اور اس کے باقاعدہ احکام ہیں۔ قسم وقضا کے دیگر احکام سے اس کا حکم خاص ہے۔ اس کی مشروعیت کی دلیل اس باب میں مذکور روایات اور اجماع ہے۔٭ شرائط: اہل علم کے اس بارے میں کئی اقوال ہیں، تاہم تین شرائط کا پایا جانا متفقہ طور پر ضروری ہے: (۱) جن کے خلاف قتل کا دعویٰ کیا گیا ہو غالب گمان یہ ہے کہ انھوں نے قتل کیا ہے۔ اور یہ چار طرح سے ممکن ہے۔ کوئی شخص قتل کی گواہی دے جس کی گواہی کا اعتبار نہ کیا جاتا ہو، واضح سبب موجود ہو، دشمنی ہو یا پھر جس علاقے میں مقتول پایا جائے اس علاقے والے قتل کرنے میں معروف ہوں۔ (2) جس کے خلاف دعویٰ دائر کیا گیا ہو وہ مکلف ہو، کسی دیوانے یا بچے کے بارے میں دعوے کا اعتبار نہیں ہوگا۔ (3)جس کے خلاف دعویٰ کیا گیا ہو اس کے قتل کرنے کا امکان بھی ہو، اگر یہ امکان نہ ہو، مثلاً: جن کے خلاف دعویٰ کیا گیا، وہ بہت زیادہ دور ہیں، تو پھر قسامت کے احکام لاگو نہیں ہوں گے۔٭ قسامت کا طریق کار: عمومی قضا میں طریقہ یہ ہوتا ہے کہ مدعی دلیل پیش کرتا ہے۔ اگر وہ دلیل پیش نہ کر سکے تو مدعی ٰ علیہ قسم اٹھا کر اپنے بریٔ الذمہ ہونے کا اظہار کرتا ہے۔ لیکن قسامت میں حاکم وقت مدعی سے پچاس قسموں کا مطالبہ کرتا ہے۔ اگر وہ قسمیں اٹھا لیں تو قصاص یا دیت کے حق دار ٹھہرتے ہیں۔ اور اگر نہ اٹھائیں تو پھر مدعی ٰ علیہ سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ اس کے پچاس قریبی یا متہم قبیلے کے پچاس افراد قسمیں اٹھا کر اپنی براء ت کا اظہار کریں کہ انھوں نے قتل کیا ہے نہ انہیں اس کا علم ہی ہے اگر وہ قسمیں اٹھائیں تو ان سے قصاص یا دیت ساقط ہو جائے گی۔حنابلہ، مالکیہ اور شوافع کا یہی موقف ہے، البتہ احناف کا موقف یہ ہے کہ قسامت میں بھی قسمیں لینے کا آغاز مدعیٰ علیہ فریق سے کیا جائے۔ اس اختلاف کی وجہ روایات کا بظاہر تعارض ہے، تاہم دلائل کے اعتبار سے ائمہ ثلاثہ کا موقف ہی اقرب الی الصواب ہے۔٭ ملاحظہ: مدعی فریق اگر قسمیں اٹھا لے تو پھر مدعی علیہ فریق سے قسموں کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا بلکہ اس سے قصاص یا دیت لی جائے گی۔ دوسری صورت یہ ہے کہ مدعی فریق قسم نہ اٹھائے اور مدعی علیہ فریق قسم اٹھا لے کہ انھوں نے قتل نہیں کیا۔ اس صورت میں مدعی فریق کو کچھ نہیں ملے گا۔ تیسری صورت یہ ہے کہ مدعی علیہ فریق قسمیں کھانے کے لیے تیار ہے لیکن مدعی فریق ان کی قسموں کا (ان کے کافر یا فاسق ہونے کی وجہ سے) اعتبار نہیں کرتا۔ اس صورت میں بھی مدعی علیہ فریق پر قصاص اور دیت نہیں ہوگی، تاہم اس صورت میں بہتر ہے کہ حکومت بیت المال سے مقتول کی دیت ادا کر دے تاکہ مسلمان کا خون رائیگاں نہ جائے۔
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے حضرت عباس کے جاہلی دور کے ایک جد امجد کو برا بھلا کہا۔ حضرت عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اسے تھپڑ رسید کر دیا۔ اس آدمی کے قبیلے والے آئے اور کہنے لگے: یہ بھی انھیں تھپڑ مارے گا جس طرح انھوں نے اسے تھپڑ مارا ہے حتیٰ کہ انھوں نے اسلحہ پہن لیا۔ یہ بات نبی اکرم ﷺ تک پہنچی۔ آپ منبر پر چڑھے اور فرمایا: ”اے لوگو! تم روئے زمین پر بسنے والے لوگوں میں سے کس شخص کو اللہ تعالیٰ کے نزدیک زیادہ معزز ومحترم سمجھتے ہو؟“ انھوں نے کہا: آپ کو۔ آپ نے فرمایا: ”پھر سن لو! عباس مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں۔ ہمارے فوت شدہ آباؤ اجداد کو برا نہ کہو۔ اس طرح تم ہم میں سے زندہ افراد کو تکلیف پہنچاؤ گے۔“ وہ لوگ آپ کے پاس حاضر ہوئے اور کہا: ہم آپ کی ناراضی سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے ہیں۔ (معاف فرما دیجئے اور) اللہ تعالیٰ سے ہمارے لیے بخش کی دعا فرمائیے۔
حدیث حاشیہ:
مذکورہ حدیث اگرچہ ضعیف ہے، تاہم ایسے معاملات میں قصاص صحیح احادیث سے ثابت ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عباس ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے ان کے جاہلیت کے کسی باپ دادا کو برا بھلا کہا تو عباس ؓ نے اسے تھپڑ مار دیا، اس کے آدمیوں نے آ کر کہا: وہ لوگ بھی انہیں تھپڑ ماریں گے جیسا کہ انہوں نے مارا ہے اور ہتھیار اٹھا لیے۔ یہ بات نبی اکرم ﷺ تک پہنچی تو آپ منبر پر چڑھے اور فرمایا: ”لوگو! تم جانتے ہو کہ زمین والوں میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ باعزت کون ہے؟“ انہوں نے کہا: آپ، آپ نے فرمایا: ”تو عباس میرے ہیں اور میں عباس کا ہوں، تم لوگ ہمارے مردوں کو برا بھلا نہ کہو جس سے ہمارے زندوں کو تکلیف ہو“، ان لوگوں نے آ کر کہا: اللہ کے رسول! ہم آپ کے غصے سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں ، ہمارے لیے مغفرت کی دعا فرمائیے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Ibn 'Abbad narrated that: a man slandered one of his forefathers from the time of the Jahiliyyah, and Al-'Abbas slapped him. His people came and said: "Let him slap him as he slapped him," and they prepared for quarrel. News of that reached the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم), and he ascended the Minbar and said: "O People, which of the people of the Earth do you know to be the most noble before Allah?" They said: "You." He said: "Al-Abbas belongs to me and I to him. Do not defame our dead or offend our living." Those people came and said: "O Messenger of Allah, we seek refuge with Allah from your anger; pray to give us.