باب: تیز دھار آلے کی بجائے کسی اور چیز سے قصاص لینا
)
Sunan-nasai:
The Book of Oaths (qasamah), Retaliation and Blood Money
(Chapter: Retaliation With Something Other Than The Sword)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4779.
حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ ایک یہودی نے ایک لڑکی کے کانوں میں بالیاں دیکھیں تو (ان کو حاصل کرنے کے لیے) اس نے لڑکی کو ایک پتھر سے مار ڈالا۔ اس بچی کو نبی اکرم ﷺ کے پاس لایا گیا تو اس میں کچھ جان باقی تھی۔ آپ نے اس سے پوچھا: ”تجھے فلاں نے قتل کیا ہے؟“ اس نے سر کے اشارے سے کہا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: ”فلاں نے قتل کیا ہے؟“ اس نے سر کے اشارے سے کہا: نہیں۔ آپ نے پھر (تیسری بار) اس سے پوچھا: ”کیا تجھے فلاں نے قتل کیا ہے؟“ اس نے سر کے اشارے سے کہا: جی ہاں۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کو بلا بھیجا اور اسے دو پتھروں کے درمیان قتل کر دیا۔
تشریح:
معلوم ہوا یہ ضروری نہیں کہ قصاص تلوار سے ہی لیا جائے، قصاص تو بذات خود بھی مماثلت کا تقاضا کرتا ہے، اس لیے اگر قاتل نے مقتول کو درد ناک طریقے سے قتل کیا ہو تو اسے بھی درد ناک طریقے ہی سے قتل کیا جائے گا۔ رہی حدیث [لا قَوَدَإلا بالسَّيفِ]”قصاص تلوار کے بغیر نہیں لیا جائے گا۔“ تو یہ ضعیف ہے۔ یہ بھی ثابت ہوا کہ قتل کسی بھی چیز سے ہو، اگر نیت قتل کی ہو تو قصاص لیا جا سکتا ہے کیونکہ اعتبار نیت کا ہے نہ کہ آلہ قتل کا بلکہ تلوار کے علاوہ تو قتل مزید دردن اک ہو جاتا ہے اور ظالمانہ بھی۔ مزید تفصیل احادیث: ۴۰۲۹، ۴۰۵۰، ۴۷۴۳ میں ملاحظہ فرمائیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4792
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4793
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4783
تمہید کتاب
٭ تعریف: ’’قسامہ‘‘ اسم مصدر ہے جس کے معنی قسم اٹھانے کے ہیں۔ اصطلاحی طور پر قسامت ان مکرر (پچاس) قسموں کو کہا جاتا ہے جو کسی بے گناہ شخص کے قتل کے اثبات کے لیے دی جائیں۔ اور یہ قسمیں ایک شخص نہیں بلکہ متعدد افراد اٹھائیں گے۔٭ مشروعت: جب کوئی شخص کسی علاقے میں مقتول پایا جائے اور قاتل کا پتہ نہ چلے لیکن کوئی شخص یا قبیلہ متہم ہو تو ایسی صورت میں قسامت مشروع ہے۔ یہ شریعت کا ایک مستقل اصول ہے اور اس کے باقاعدہ احکام ہیں۔ قسم وقضا کے دیگر احکام سے اس کا حکم خاص ہے۔ اس کی مشروعیت کی دلیل اس باب میں مذکور روایات اور اجماع ہے۔٭ شرائط: اہل علم کے اس بارے میں کئی اقوال ہیں، تاہم تین شرائط کا پایا جانا متفقہ طور پر ضروری ہے: (۱) جن کے خلاف قتل کا دعویٰ کیا گیا ہو غالب گمان یہ ہے کہ انھوں نے قتل کیا ہے۔ اور یہ چار طرح سے ممکن ہے۔ کوئی شخص قتل کی گواہی دے جس کی گواہی کا اعتبار نہ کیا جاتا ہو، واضح سبب موجود ہو، دشمنی ہو یا پھر جس علاقے میں مقتول پایا جائے اس علاقے والے قتل کرنے میں معروف ہوں۔ (2) جس کے خلاف دعویٰ دائر کیا گیا ہو وہ مکلف ہو، کسی دیوانے یا بچے کے بارے میں دعوے کا اعتبار نہیں ہوگا۔ (3)جس کے خلاف دعویٰ کیا گیا ہو اس کے قتل کرنے کا امکان بھی ہو، اگر یہ امکان نہ ہو، مثلاً: جن کے خلاف دعویٰ کیا گیا، وہ بہت زیادہ دور ہیں، تو پھر قسامت کے احکام لاگو نہیں ہوں گے۔٭ قسامت کا طریق کار: عمومی قضا میں طریقہ یہ ہوتا ہے کہ مدعی دلیل پیش کرتا ہے۔ اگر وہ دلیل پیش نہ کر سکے تو مدعی ٰ علیہ قسم اٹھا کر اپنے بریٔ الذمہ ہونے کا اظہار کرتا ہے۔ لیکن قسامت میں حاکم وقت مدعی سے پچاس قسموں کا مطالبہ کرتا ہے۔ اگر وہ قسمیں اٹھا لیں تو قصاص یا دیت کے حق دار ٹھہرتے ہیں۔ اور اگر نہ اٹھائیں تو پھر مدعی ٰ علیہ سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ اس کے پچاس قریبی یا متہم قبیلے کے پچاس افراد قسمیں اٹھا کر اپنی براء ت کا اظہار کریں کہ انھوں نے قتل کیا ہے نہ انہیں اس کا علم ہی ہے اگر وہ قسمیں اٹھائیں تو ان سے قصاص یا دیت ساقط ہو جائے گی۔حنابلہ، مالکیہ اور شوافع کا یہی موقف ہے، البتہ احناف کا موقف یہ ہے کہ قسامت میں بھی قسمیں لینے کا آغاز مدعیٰ علیہ فریق سے کیا جائے۔ اس اختلاف کی وجہ روایات کا بظاہر تعارض ہے، تاہم دلائل کے اعتبار سے ائمہ ثلاثہ کا موقف ہی اقرب الی الصواب ہے۔٭ ملاحظہ: مدعی فریق اگر قسمیں اٹھا لے تو پھر مدعی علیہ فریق سے قسموں کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا بلکہ اس سے قصاص یا دیت لی جائے گی۔ دوسری صورت یہ ہے کہ مدعی فریق قسم نہ اٹھائے اور مدعی علیہ فریق قسم اٹھا لے کہ انھوں نے قتل نہیں کیا۔ اس صورت میں مدعی فریق کو کچھ نہیں ملے گا۔ تیسری صورت یہ ہے کہ مدعی علیہ فریق قسمیں کھانے کے لیے تیار ہے لیکن مدعی فریق ان کی قسموں کا (ان کے کافر یا فاسق ہونے کی وجہ سے) اعتبار نہیں کرتا۔ اس صورت میں بھی مدعی علیہ فریق پر قصاص اور دیت نہیں ہوگی، تاہم اس صورت میں بہتر ہے کہ حکومت بیت المال سے مقتول کی دیت ادا کر دے تاکہ مسلمان کا خون رائیگاں نہ جائے۔
حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ ایک یہودی نے ایک لڑکی کے کانوں میں بالیاں دیکھیں تو (ان کو حاصل کرنے کے لیے) اس نے لڑکی کو ایک پتھر سے مار ڈالا۔ اس بچی کو نبی اکرم ﷺ کے پاس لایا گیا تو اس میں کچھ جان باقی تھی۔ آپ نے اس سے پوچھا: ”تجھے فلاں نے قتل کیا ہے؟“ اس نے سر کے اشارے سے کہا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: ”فلاں نے قتل کیا ہے؟“ اس نے سر کے اشارے سے کہا: نہیں۔ آپ نے پھر (تیسری بار) اس سے پوچھا: ”کیا تجھے فلاں نے قتل کیا ہے؟“ اس نے سر کے اشارے سے کہا: جی ہاں۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کو بلا بھیجا اور اسے دو پتھروں کے درمیان قتل کر دیا۔
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا یہ ضروری نہیں کہ قصاص تلوار سے ہی لیا جائے، قصاص تو بذات خود بھی مماثلت کا تقاضا کرتا ہے، اس لیے اگر قاتل نے مقتول کو درد ناک طریقے سے قتل کیا ہو تو اسے بھی درد ناک طریقے ہی سے قتل کیا جائے گا۔ رہی حدیث [لا قَوَدَإلا بالسَّيفِ]”قصاص تلوار کے بغیر نہیں لیا جائے گا۔“ تو یہ ضعیف ہے۔ یہ بھی ثابت ہوا کہ قتل کسی بھی چیز سے ہو، اگر نیت قتل کی ہو تو قصاص لیا جا سکتا ہے کیونکہ اعتبار نیت کا ہے نہ کہ آلہ قتل کا بلکہ تلوار کے علاوہ تو قتل مزید دردن اک ہو جاتا ہے اور ظالمانہ بھی۔ مزید تفصیل احادیث: ۴۰۲۹، ۴۰۵۰، ۴۷۴۳ میں ملاحظہ فرمائیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
انس ؓ کہتے ہیں کہ ایک یہودی نے ایک لڑکی کو زیور پہنے دیکھا تو اسے پتھر سے مار ڈالا، وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس لائی گئی، اس میں کچھ جان باقی تھی، آپ نے فرمایا: ”کیا تمہیں فلاں نے قتل کیا ہے؟“ (شعبہ نے اپنے سر سے اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ) اس نے کہا: نہیں، آپ نے فرمایا: ”کیا تمہیں فلاں نے قتل کیا ہے؟“ ( شعبہ نے اپنے سر سے اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ) اس نے کہا: نہیں، پھر آپ نے فرمایا: ”کیا تمہیں فلاں نے قتل کیا ہے؟“ ( پھر شعبہ نے سر کے اشارے سے کہا کہ) اس نے کہا: ہاں، تو رسول اللہ ﷺ نے اسے بلایا اور دو پتھروں کے درمیان کچل کر اسے مار ڈالا۔ ۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس یہودی سے تلوار کی بجائے پتھروں سے اس کا سر کچل کر قصاص لیا، اس سے ثابت ہوا کہ قصاص صرف تلوار ہی سے ضروری نہیں ہے (جیسا کہ حنفیہ کا قول ہے) بلکہ یہ تو ارشاد ربانی کے مطابق ہے «وَإِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوا بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُمْ بِهِ»(سورة النحل: 126)«فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَى عَلَيْكُمْ»(سورة البقرة: 194) حنفیہ حدیث «لا قَوَدَإلا بالسَّيفِ» یعنی: ”قصاص صرف تلوار ہی سے ہے“ سے استدلال کرتے ہیں، حالانکہ یہ حدیث ہر طریقے سے ضعیف ہے، بلکہ بقول امام ابوحاتم ”منکر“ ہے (کذا فی نیل الأوطار والإرواء رقم ۲۲۲۹)۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Anas, that: a Jew saw some jewelry on a girl, so he killed her with a rock. She was brought to the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) as she was breathing her last, and he said: "Did so and so kill you?" - Shu'bah (one of the narrators) gestured with his head, to show that she had gestured no. - He said: "Did so and so kill you?" - Shu'bah (one of the narrators) gestured with his head to show that she had gestured no. - He said: "Did so and so kill you?" - Shu'bah (one of the narrators) gestured with his head to show that she had gestured yes. - So the Messenger of Allah (ﷺ) called for him, and killed him with two rocks.