Sunan-nasai:
The Book of Oaths (qasamah), Retaliation and Blood Money
(Chapter: The Diyah For A Woman's Fetus)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4814.
حضرت عبداللہ بن بریدہ نے بیان کیا کہ ایک عورت نے دوسری عورت کو پتھر دے مارا جس سے اس کا حمل ضائع ہوگیا۔ یہ مقدمہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے پیش کیا گیا تو آپ نے اس بچے کی دیت پانچ سو بکریاں مقرر فرمائی، نیز اس دن آپ نے خذف سے روک دیا۔ امام ابوعبدالرحمن (نسائی ؓ ) بیان کرتے ہیں: یہ وہم ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ان کا ارادہ ایک سو بکریاں کہنے کا ہو (لیکن غلطی سے پانچ سو بکریاں کہہ دیں)۔ اور خذف، یعنی کنکری پھینکنے کی ممانعت تو عبداللہ بن بریدة، عن عبداللہ بن مغفل سے مروی ہے۔ (اور وہ اگلی حدیث: ۴۸۱۹ ہی میں ہے)۔
تشریح:
امام نسائی رحمہ اللہ کی طرح یہی بات امام ابوداؤد رحمہ اللہ نے بھی اپنی سنن میں مذکورہ (پانچ سو بکریوں والی روایت بیان کرنے کے بعد فرمائی ہے۔ دیکھیے: (سنن أبي داود، الدیات، باب دیة الجنین، حدیث: ۴۵۷۸) احادیث صحیحہ کے معارض ہونے کے علاوہ مذکورہ حدیث ہے بھی مرسل جیسا کہ پہلے بھی بیان ہو چکا ہے، اس لیے یہ قابل حجت نہیں۔ اصل مسئلہ وہی ہے جس کی وضاحت حدیث: ۴۸۱۷ کے فوائد ومسائل کے تحت ہو چکی ہے۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4828
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4829
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4818
تمہید کتاب
٭ تعریف: ’’قسامہ‘‘ اسم مصدر ہے جس کے معنی قسم اٹھانے کے ہیں۔ اصطلاحی طور پر قسامت ان مکرر (پچاس) قسموں کو کہا جاتا ہے جو کسی بے گناہ شخص کے قتل کے اثبات کے لیے دی جائیں۔ اور یہ قسمیں ایک شخص نہیں بلکہ متعدد افراد اٹھائیں گے۔٭ مشروعت: جب کوئی شخص کسی علاقے میں مقتول پایا جائے اور قاتل کا پتہ نہ چلے لیکن کوئی شخص یا قبیلہ متہم ہو تو ایسی صورت میں قسامت مشروع ہے۔ یہ شریعت کا ایک مستقل اصول ہے اور اس کے باقاعدہ احکام ہیں۔ قسم وقضا کے دیگر احکام سے اس کا حکم خاص ہے۔ اس کی مشروعیت کی دلیل اس باب میں مذکور روایات اور اجماع ہے۔٭ شرائط: اہل علم کے اس بارے میں کئی اقوال ہیں، تاہم تین شرائط کا پایا جانا متفقہ طور پر ضروری ہے: (۱) جن کے خلاف قتل کا دعویٰ کیا گیا ہو غالب گمان یہ ہے کہ انھوں نے قتل کیا ہے۔ اور یہ چار طرح سے ممکن ہے۔ کوئی شخص قتل کی گواہی دے جس کی گواہی کا اعتبار نہ کیا جاتا ہو، واضح سبب موجود ہو، دشمنی ہو یا پھر جس علاقے میں مقتول پایا جائے اس علاقے والے قتل کرنے میں معروف ہوں۔ (2) جس کے خلاف دعویٰ دائر کیا گیا ہو وہ مکلف ہو، کسی دیوانے یا بچے کے بارے میں دعوے کا اعتبار نہیں ہوگا۔ (3)جس کے خلاف دعویٰ کیا گیا ہو اس کے قتل کرنے کا امکان بھی ہو، اگر یہ امکان نہ ہو، مثلاً: جن کے خلاف دعویٰ کیا گیا، وہ بہت زیادہ دور ہیں، تو پھر قسامت کے احکام لاگو نہیں ہوں گے۔٭ قسامت کا طریق کار: عمومی قضا میں طریقہ یہ ہوتا ہے کہ مدعی دلیل پیش کرتا ہے۔ اگر وہ دلیل پیش نہ کر سکے تو مدعی ٰ علیہ قسم اٹھا کر اپنے بریٔ الذمہ ہونے کا اظہار کرتا ہے۔ لیکن قسامت میں حاکم وقت مدعی سے پچاس قسموں کا مطالبہ کرتا ہے۔ اگر وہ قسمیں اٹھا لیں تو قصاص یا دیت کے حق دار ٹھہرتے ہیں۔ اور اگر نہ اٹھائیں تو پھر مدعی ٰ علیہ سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ اس کے پچاس قریبی یا متہم قبیلے کے پچاس افراد قسمیں اٹھا کر اپنی براء ت کا اظہار کریں کہ انھوں نے قتل کیا ہے نہ انہیں اس کا علم ہی ہے اگر وہ قسمیں اٹھائیں تو ان سے قصاص یا دیت ساقط ہو جائے گی۔حنابلہ، مالکیہ اور شوافع کا یہی موقف ہے، البتہ احناف کا موقف یہ ہے کہ قسامت میں بھی قسمیں لینے کا آغاز مدعیٰ علیہ فریق سے کیا جائے۔ اس اختلاف کی وجہ روایات کا بظاہر تعارض ہے، تاہم دلائل کے اعتبار سے ائمہ ثلاثہ کا موقف ہی اقرب الی الصواب ہے۔٭ ملاحظہ: مدعی فریق اگر قسمیں اٹھا لے تو پھر مدعی علیہ فریق سے قسموں کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا بلکہ اس سے قصاص یا دیت لی جائے گی۔ دوسری صورت یہ ہے کہ مدعی فریق قسم نہ اٹھائے اور مدعی علیہ فریق قسم اٹھا لے کہ انھوں نے قتل نہیں کیا۔ اس صورت میں مدعی فریق کو کچھ نہیں ملے گا۔ تیسری صورت یہ ہے کہ مدعی علیہ فریق قسمیں کھانے کے لیے تیار ہے لیکن مدعی فریق ان کی قسموں کا (ان کے کافر یا فاسق ہونے کی وجہ سے) اعتبار نہیں کرتا۔ اس صورت میں بھی مدعی علیہ فریق پر قصاص اور دیت نہیں ہوگی، تاہم اس صورت میں بہتر ہے کہ حکومت بیت المال سے مقتول کی دیت ادا کر دے تاکہ مسلمان کا خون رائیگاں نہ جائے۔
حضرت عبداللہ بن بریدہ نے بیان کیا کہ ایک عورت نے دوسری عورت کو پتھر دے مارا جس سے اس کا حمل ضائع ہوگیا۔ یہ مقدمہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے پیش کیا گیا تو آپ نے اس بچے کی دیت پانچ سو بکریاں مقرر فرمائی، نیز اس دن آپ نے خذف سے روک دیا۔ امام ابوعبدالرحمن (نسائی ؓ ) بیان کرتے ہیں: یہ وہم ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ان کا ارادہ ایک سو بکریاں کہنے کا ہو (لیکن غلطی سے پانچ سو بکریاں کہہ دیں)۔ اور خذف، یعنی کنکری پھینکنے کی ممانعت تو عبداللہ بن بریدة، عن عبداللہ بن مغفل سے مروی ہے۔ (اور وہ اگلی حدیث: ۴۸۱۹ ہی میں ہے)۔
حدیث حاشیہ:
امام نسائی رحمہ اللہ کی طرح یہی بات امام ابوداؤد رحمہ اللہ نے بھی اپنی سنن میں مذکورہ (پانچ سو بکریوں والی روایت بیان کرنے کے بعد فرمائی ہے۔ دیکھیے: (سنن أبي داود، الدیات، باب دیة الجنین، حدیث: ۴۵۷۸) احادیث صحیحہ کے معارض ہونے کے علاوہ مذکورہ حدیث ہے بھی مرسل جیسا کہ پہلے بھی بیان ہو چکا ہے، اس لیے یہ قابل حجت نہیں۔ اصل مسئلہ وہی ہے جس کی وضاحت حدیث: ۴۸۱۷ کے فوائد ومسائل کے تحت ہو چکی ہے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن بریدہ سے روایت ہے کہ ایک عورت نے ایک عورت کو پتھر پھینک کر مارا، پتھر لگا عورت کا حمل گر گیا، چنانچہ مقدمہ نبی اکرم ﷺ تک پہنچا، تو آپ نے اس بچے کی دیت پانچ سو بکریاں ۱؎ مقرر کیں، اور اس دن سے آپ نے پتھر پھینکنے سے منع فرمایا۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں: یہ وہم ہے، صحیح سو بکریاں ہیں، (پانچ سو نہیں) اور پتھر پھینکنے کی ممانعت سے متعلق حدیث عبداللہ بن بریدہ ہی کے واسطہ سے: عبداللہ بن مغفل ؓ سے مروی ہے (جو آگے آ رہی ہے)۔
حدیث حاشیہ:
۱؎ : اگلی روایات (رقم ۴۸۲۰ و ۴۸۲۱) میں”ایک غرہ“ یعنی ایک غلام یا باندی کا ذکر ہے، ہو سکتا ہے اس وقت ایک غلام یا باندی کی قیمت سو بکریوں کے مساوی ہوتی ہو۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
"Abdullah bin Buraidah narrated that: a woman threw pebbles at another woman and the woman who was struck miscarried. The matter was referred to the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) and he set the blood money for her child at five hundred sheep. And on that day, he forbade throwing pebbles. (Sahih) Abu 'Abdur-Rahman (An-Nasa'i) said: This is an error, and it must be that the intent was one hundred camels. And the prohibition of throwing pebbles has been related from 'Abdullah bin Buraidah, from 'Abdullah bin Mughaffal.