باب: کیا کسی شخص کو دوسرے کے جرم میں پکڑا جا سکتا ہے؟
)
Sunan-nasai:
The Book of Oaths (qasamah), Retaliation and Blood Money
(Chapter: Can Anyone Be Blamed For The sin Of Another?)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4838.
بنی یربوع کے ایک آدمی نے کہا: ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچے تو آپ لوگوں سے خطاب فرما رہے تھے۔ (ہمیں دیکھ کر) کچھ لوگ کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے: اے اللہ کے رسول! یہ فلاں قبیلے کے لوگ ہیں۔ انھوں نے فلاں صحابی کو قتل کیا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”کسی ایک شخص کا جرم دوسرے کے ذمے نہیں لگایا جا سکتا۔“
تشریح:
الحکم التفصیلی:
قلت : والأسانيد إلى أبي الشعثاء صحيحة فالظاهر أن له فيه إسنادين فتارة يرويه عن أ بيه عن الرجل الثعلبي وتارة عن الأسود بن هلال
عنه . وكله صحيح . والله أعلم . والرجل سماه سفيان ثعلبة بن زهدم فإن كان محفوظا فذاك وإلا فجهالة الصحابي لا تضر كما هو معلوم . 4 - حديث طارق المحاربي . يرويه جامع بن شداد عنه به مثل حديث ثعلبة . أخرجه النسائي وابن ماجه ( 267 0 ) والحاكم ( 2 / 611 - 612 ) وقال : ( صحيح الاسناد ) . ووافقه الذهبي . قلت : وإسناده جيد . 5 - حديث الخشخاش العنبري . يرويه حصين بن أبي الحر عنه مثل حديث أبى رمثة مختصرا . أخرجة ابن ماجه ( 2671 ) وأحمد ( 4 / 344 - 345 ) وهذا سياقه : ثنا هشيم أنا يونس بن عبيد - عن حصين بن أبي الحر . قلت : وهذا سند صحيح رجاله رجال الشيخين غير الحصين وهو ثقة . 6 - حديث أسامة بن شريك يرويه زياد بن علاقة عنه مرفوعا مختصرا بلفظ : ( لاتجنى نفس على أخرى ) . أخرجه ابن ماجه ( 2672 ) . قلت : وإسناده حسن . 7 - حديث لقيط بن عامر يرويه دلهم بن الأسود بن عبد الله بن حاجب بن عامر بن المنتفق العقيلي عن أبيه عن عمه لقيط بن عامر . قال عامر : وحدثنيه أبو الأسود عن عاصم بن لقيط أن لقيطا خرج وافدا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم . . . فذكر الحديث بطوله وفيه :
( . . . ولا يجني عليك إلا نفسك ) . أخرجه أحمد ! 4 / 13 - 14 ) . وإسناده لا بأس به في الشواهد .
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4852
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4853
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4842
تمہید کتاب
٭ تعریف: ’’قسامہ‘‘ اسم مصدر ہے جس کے معنی قسم اٹھانے کے ہیں۔ اصطلاحی طور پر قسامت ان مکرر (پچاس) قسموں کو کہا جاتا ہے جو کسی بے گناہ شخص کے قتل کے اثبات کے لیے دی جائیں۔ اور یہ قسمیں ایک شخص نہیں بلکہ متعدد افراد اٹھائیں گے۔٭ مشروعت: جب کوئی شخص کسی علاقے میں مقتول پایا جائے اور قاتل کا پتہ نہ چلے لیکن کوئی شخص یا قبیلہ متہم ہو تو ایسی صورت میں قسامت مشروع ہے۔ یہ شریعت کا ایک مستقل اصول ہے اور اس کے باقاعدہ احکام ہیں۔ قسم وقضا کے دیگر احکام سے اس کا حکم خاص ہے۔ اس کی مشروعیت کی دلیل اس باب میں مذکور روایات اور اجماع ہے۔٭ شرائط: اہل علم کے اس بارے میں کئی اقوال ہیں، تاہم تین شرائط کا پایا جانا متفقہ طور پر ضروری ہے: (۱) جن کے خلاف قتل کا دعویٰ کیا گیا ہو غالب گمان یہ ہے کہ انھوں نے قتل کیا ہے۔ اور یہ چار طرح سے ممکن ہے۔ کوئی شخص قتل کی گواہی دے جس کی گواہی کا اعتبار نہ کیا جاتا ہو، واضح سبب موجود ہو، دشمنی ہو یا پھر جس علاقے میں مقتول پایا جائے اس علاقے والے قتل کرنے میں معروف ہوں۔ (2) جس کے خلاف دعویٰ دائر کیا گیا ہو وہ مکلف ہو، کسی دیوانے یا بچے کے بارے میں دعوے کا اعتبار نہیں ہوگا۔ (3)جس کے خلاف دعویٰ کیا گیا ہو اس کے قتل کرنے کا امکان بھی ہو، اگر یہ امکان نہ ہو، مثلاً: جن کے خلاف دعویٰ کیا گیا، وہ بہت زیادہ دور ہیں، تو پھر قسامت کے احکام لاگو نہیں ہوں گے۔٭ قسامت کا طریق کار: عمومی قضا میں طریقہ یہ ہوتا ہے کہ مدعی دلیل پیش کرتا ہے۔ اگر وہ دلیل پیش نہ کر سکے تو مدعی ٰ علیہ قسم اٹھا کر اپنے بریٔ الذمہ ہونے کا اظہار کرتا ہے۔ لیکن قسامت میں حاکم وقت مدعی سے پچاس قسموں کا مطالبہ کرتا ہے۔ اگر وہ قسمیں اٹھا لیں تو قصاص یا دیت کے حق دار ٹھہرتے ہیں۔ اور اگر نہ اٹھائیں تو پھر مدعی ٰ علیہ سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ اس کے پچاس قریبی یا متہم قبیلے کے پچاس افراد قسمیں اٹھا کر اپنی براء ت کا اظہار کریں کہ انھوں نے قتل کیا ہے نہ انہیں اس کا علم ہی ہے اگر وہ قسمیں اٹھائیں تو ان سے قصاص یا دیت ساقط ہو جائے گی۔حنابلہ، مالکیہ اور شوافع کا یہی موقف ہے، البتہ احناف کا موقف یہ ہے کہ قسامت میں بھی قسمیں لینے کا آغاز مدعیٰ علیہ فریق سے کیا جائے۔ اس اختلاف کی وجہ روایات کا بظاہر تعارض ہے، تاہم دلائل کے اعتبار سے ائمہ ثلاثہ کا موقف ہی اقرب الی الصواب ہے۔٭ ملاحظہ: مدعی فریق اگر قسمیں اٹھا لے تو پھر مدعی علیہ فریق سے قسموں کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا بلکہ اس سے قصاص یا دیت لی جائے گی۔ دوسری صورت یہ ہے کہ مدعی فریق قسم نہ اٹھائے اور مدعی علیہ فریق قسم اٹھا لے کہ انھوں نے قتل نہیں کیا۔ اس صورت میں مدعی فریق کو کچھ نہیں ملے گا۔ تیسری صورت یہ ہے کہ مدعی علیہ فریق قسمیں کھانے کے لیے تیار ہے لیکن مدعی فریق ان کی قسموں کا (ان کے کافر یا فاسق ہونے کی وجہ سے) اعتبار نہیں کرتا۔ اس صورت میں بھی مدعی علیہ فریق پر قصاص اور دیت نہیں ہوگی، تاہم اس صورت میں بہتر ہے کہ حکومت بیت المال سے مقتول کی دیت ادا کر دے تاکہ مسلمان کا خون رائیگاں نہ جائے۔
بنی یربوع کے ایک آدمی نے کہا: ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچے تو آپ لوگوں سے خطاب فرما رہے تھے۔ (ہمیں دیکھ کر) کچھ لوگ کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے: اے اللہ کے رسول! یہ فلاں قبیلے کے لوگ ہیں۔ انھوں نے فلاں صحابی کو قتل کیا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”کسی ایک شخص کا جرم دوسرے کے ذمے نہیں لگایا جا سکتا۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
بنی یربوع کے ایک شخص کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے، آپ لوگوں سے گفتگو فرما رہے تھے، کچھ لوگوں نے آپ کے سامنے کھڑے ہو کر کہا: اللہ کے رسول! یہ بنی فلاں ہیں جنہوں نے فلاں کو قتل کیا تھا، تو آپ نے فرمایا: ”کسی نفس پر کسی کا قصور نہیں ہو گا۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Ash'ath, from his father that a man from among Banu Tha'labah bin Yarbu' said: "We came to the Messenger of Allah (ﷺ) when he was speaking to the people, and some people stood up and said: 'O Messenger of Allah, these are Banu Tha'labah who killed so and so.' The Messenger of Allah (ﷺ) said: 'No soul is affected by the sin of another.