Sunan-nasai:
The Book of Oaths (qasamah), Retaliation and Blood Money
(Chapter: Diyah For Teeth)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4842.
حضرت عمرو بن شعیب کے پردادا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”سب دانت (دیت میں) بورابر ہیں۔“ یعنی ہر ایک میں پانچ پانچ اونٹ۔
تشریح:
(1) کسی بھی عضو کے فائدے کا صحیح تعین بہت مشکل کام ہے کیونکہ ایک عضو کئی کام دیتا ہے، مثلاً سامنے کے دانت کاٹنے کے کام بھی آتے ہیں اور مشکل وقت میں پکڑنے کے بھی۔ اسی طرح وہ چہرے کی زینت بھی ہیں، لہٰذا یہ نہیں کہا جا سکتا کہ کھانا کھانے میں ڈاڑھوں کا زیادہ حصہ ہے اور دانتوں کا کم، اس لیے ڈاڑھوں کی دیت زیادہ ہونی چاہیے۔ گویا اعضاء کے پورے فائدے کا تعین اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے، لہٰذا شریعت نے جو دیت مقرر کر دی ہے، وہی صحیح ہے۔ اس میں بحث نہیں کرنی چاہیے۔ (2) اگر کوئی شخص کسی کے تمام دانت توڑ دے تو اس کی دیت کتنی ہوگی؟ جمہور اہل علم اس بات کے قائل ہیں کہ ہر دانت کی دیت پانچ اونٹ ہوگی اس طرح کہ اگر کوئی شخص بتیس دانت توڑتا ہے تو اسے ایک سو ساٹھ (۱۶۰) اونٹ دیت دینا ہوگی۔ ڈاڑھیں اور دانت اس میں برابر ہیں۔ ان کی دلیل مذکورہ حدیث ہے۔ جبکہ اہل علم کی ایک جماعت اس بات کی قائل ہے کہ بارہ دانتوں میں پانچ پانچ اونٹ ہوں گے اور باقی بیس ڈاڑھوں میں ایک ایک اونٹ ہوگا۔ اور ایک قول یہ ہے کہ باقی ڈاڑھوں میں دو دو اونٹ ہوں گے۔ ان کی دلیل حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا ایک فیصلہ ہے کہ انھوں نے ڈاڑھوں میں ایک ایک اونٹ دیت مقرر کی۔ پھر یہ بھی کہ پہلے قول پر عمل کی صورت میں دیت جان کی دیت سے بھی بڑھ جائے گی۔ ابن عبدالبر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جہاں تک حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے فیصلے کا تعلق ہے تو ان سے یہ بھی مروی ہے کہ دانت اور داڑھیں برابر ہیں، اس لیے ان کا وہ فتویٰ قابل عمل ہوگا جو مرفوع حدیث کے مطابق ہے اور پھر حضرت معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ اگر حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو مرفوع حدیث کا علم ہوتا تو وہ بھی ڈاڑھوں میں پانچ پانچ اونٹوں کا فیصلہ فرماتے۔ رہی دوسری بات کہ اس طرح دیت جان کی دیت سے بڑھ جائے گی تو یہ نہ قیاس کے خلاف ہے نہ اصول کے بلکہ اصول کے عین مطابق ہے کہ ڈاڑھوں کو دانتوں پر قیاس کیا جائے، پھر اہل علم کے نزدیک ”اسنان“ کا اطلاق، اضراس پر بھی ہوتا ہے۔ پھر کئی صورتیں اور بھی ممکن ہیں جن میں دیت جان کی دیت سے بڑھ جاتی ہے، مثلاً: کسی شخص کی آنکھ نکال دی جائے اور دونوں ہاتھ کاٹ دیے۔ جائیں تو دیت جان کی دیت سے بڑھ جائے گی۔ مزید دیکھیے: (الاستذکار، لابن عبدالبر: ۲۵/ ۱۴۶-۱۴۸) ہمارے نزدیک جمہور اہل علم کا موقف ہی راجح ہے۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4856
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4857
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4846
تمہید کتاب
٭ تعریف: ’’قسامہ‘‘ اسم مصدر ہے جس کے معنی قسم اٹھانے کے ہیں۔ اصطلاحی طور پر قسامت ان مکرر (پچاس) قسموں کو کہا جاتا ہے جو کسی بے گناہ شخص کے قتل کے اثبات کے لیے دی جائیں۔ اور یہ قسمیں ایک شخص نہیں بلکہ متعدد افراد اٹھائیں گے۔٭ مشروعت: جب کوئی شخص کسی علاقے میں مقتول پایا جائے اور قاتل کا پتہ نہ چلے لیکن کوئی شخص یا قبیلہ متہم ہو تو ایسی صورت میں قسامت مشروع ہے۔ یہ شریعت کا ایک مستقل اصول ہے اور اس کے باقاعدہ احکام ہیں۔ قسم وقضا کے دیگر احکام سے اس کا حکم خاص ہے۔ اس کی مشروعیت کی دلیل اس باب میں مذکور روایات اور اجماع ہے۔٭ شرائط: اہل علم کے اس بارے میں کئی اقوال ہیں، تاہم تین شرائط کا پایا جانا متفقہ طور پر ضروری ہے: (۱) جن کے خلاف قتل کا دعویٰ کیا گیا ہو غالب گمان یہ ہے کہ انھوں نے قتل کیا ہے۔ اور یہ چار طرح سے ممکن ہے۔ کوئی شخص قتل کی گواہی دے جس کی گواہی کا اعتبار نہ کیا جاتا ہو، واضح سبب موجود ہو، دشمنی ہو یا پھر جس علاقے میں مقتول پایا جائے اس علاقے والے قتل کرنے میں معروف ہوں۔ (2) جس کے خلاف دعویٰ دائر کیا گیا ہو وہ مکلف ہو، کسی دیوانے یا بچے کے بارے میں دعوے کا اعتبار نہیں ہوگا۔ (3)جس کے خلاف دعویٰ کیا گیا ہو اس کے قتل کرنے کا امکان بھی ہو، اگر یہ امکان نہ ہو، مثلاً: جن کے خلاف دعویٰ کیا گیا، وہ بہت زیادہ دور ہیں، تو پھر قسامت کے احکام لاگو نہیں ہوں گے۔٭ قسامت کا طریق کار: عمومی قضا میں طریقہ یہ ہوتا ہے کہ مدعی دلیل پیش کرتا ہے۔ اگر وہ دلیل پیش نہ کر سکے تو مدعی ٰ علیہ قسم اٹھا کر اپنے بریٔ الذمہ ہونے کا اظہار کرتا ہے۔ لیکن قسامت میں حاکم وقت مدعی سے پچاس قسموں کا مطالبہ کرتا ہے۔ اگر وہ قسمیں اٹھا لیں تو قصاص یا دیت کے حق دار ٹھہرتے ہیں۔ اور اگر نہ اٹھائیں تو پھر مدعی ٰ علیہ سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ اس کے پچاس قریبی یا متہم قبیلے کے پچاس افراد قسمیں اٹھا کر اپنی براء ت کا اظہار کریں کہ انھوں نے قتل کیا ہے نہ انہیں اس کا علم ہی ہے اگر وہ قسمیں اٹھائیں تو ان سے قصاص یا دیت ساقط ہو جائے گی۔حنابلہ، مالکیہ اور شوافع کا یہی موقف ہے، البتہ احناف کا موقف یہ ہے کہ قسامت میں بھی قسمیں لینے کا آغاز مدعیٰ علیہ فریق سے کیا جائے۔ اس اختلاف کی وجہ روایات کا بظاہر تعارض ہے، تاہم دلائل کے اعتبار سے ائمہ ثلاثہ کا موقف ہی اقرب الی الصواب ہے۔٭ ملاحظہ: مدعی فریق اگر قسمیں اٹھا لے تو پھر مدعی علیہ فریق سے قسموں کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا بلکہ اس سے قصاص یا دیت لی جائے گی۔ دوسری صورت یہ ہے کہ مدعی فریق قسم نہ اٹھائے اور مدعی علیہ فریق قسم اٹھا لے کہ انھوں نے قتل نہیں کیا۔ اس صورت میں مدعی فریق کو کچھ نہیں ملے گا۔ تیسری صورت یہ ہے کہ مدعی علیہ فریق قسمیں کھانے کے لیے تیار ہے لیکن مدعی فریق ان کی قسموں کا (ان کے کافر یا فاسق ہونے کی وجہ سے) اعتبار نہیں کرتا۔ اس صورت میں بھی مدعی علیہ فریق پر قصاص اور دیت نہیں ہوگی، تاہم اس صورت میں بہتر ہے کہ حکومت بیت المال سے مقتول کی دیت ادا کر دے تاکہ مسلمان کا خون رائیگاں نہ جائے۔
حضرت عمرو بن شعیب کے پردادا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”سب دانت (دیت میں) بورابر ہیں۔“ یعنی ہر ایک میں پانچ پانچ اونٹ۔
حدیث حاشیہ:
(1) کسی بھی عضو کے فائدے کا صحیح تعین بہت مشکل کام ہے کیونکہ ایک عضو کئی کام دیتا ہے، مثلاً سامنے کے دانت کاٹنے کے کام بھی آتے ہیں اور مشکل وقت میں پکڑنے کے بھی۔ اسی طرح وہ چہرے کی زینت بھی ہیں، لہٰذا یہ نہیں کہا جا سکتا کہ کھانا کھانے میں ڈاڑھوں کا زیادہ حصہ ہے اور دانتوں کا کم، اس لیے ڈاڑھوں کی دیت زیادہ ہونی چاہیے۔ گویا اعضاء کے پورے فائدے کا تعین اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے، لہٰذا شریعت نے جو دیت مقرر کر دی ہے، وہی صحیح ہے۔ اس میں بحث نہیں کرنی چاہیے۔ (2) اگر کوئی شخص کسی کے تمام دانت توڑ دے تو اس کی دیت کتنی ہوگی؟ جمہور اہل علم اس بات کے قائل ہیں کہ ہر دانت کی دیت پانچ اونٹ ہوگی اس طرح کہ اگر کوئی شخص بتیس دانت توڑتا ہے تو اسے ایک سو ساٹھ (۱۶۰) اونٹ دیت دینا ہوگی۔ ڈاڑھیں اور دانت اس میں برابر ہیں۔ ان کی دلیل مذکورہ حدیث ہے۔ جبکہ اہل علم کی ایک جماعت اس بات کی قائل ہے کہ بارہ دانتوں میں پانچ پانچ اونٹ ہوں گے اور باقی بیس ڈاڑھوں میں ایک ایک اونٹ ہوگا۔ اور ایک قول یہ ہے کہ باقی ڈاڑھوں میں دو دو اونٹ ہوں گے۔ ان کی دلیل حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا ایک فیصلہ ہے کہ انھوں نے ڈاڑھوں میں ایک ایک اونٹ دیت مقرر کی۔ پھر یہ بھی کہ پہلے قول پر عمل کی صورت میں دیت جان کی دیت سے بھی بڑھ جائے گی۔ ابن عبدالبر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جہاں تک حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے فیصلے کا تعلق ہے تو ان سے یہ بھی مروی ہے کہ دانت اور داڑھیں برابر ہیں، اس لیے ان کا وہ فتویٰ قابل عمل ہوگا جو مرفوع حدیث کے مطابق ہے اور پھر حضرت معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ اگر حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو مرفوع حدیث کا علم ہوتا تو وہ بھی ڈاڑھوں میں پانچ پانچ اونٹوں کا فیصلہ فرماتے۔ رہی دوسری بات کہ اس طرح دیت جان کی دیت سے بڑھ جائے گی تو یہ نہ قیاس کے خلاف ہے نہ اصول کے بلکہ اصول کے عین مطابق ہے کہ ڈاڑھوں کو دانتوں پر قیاس کیا جائے، پھر اہل علم کے نزدیک ”اسنان“ کا اطلاق، اضراس پر بھی ہوتا ہے۔ پھر کئی صورتیں اور بھی ممکن ہیں جن میں دیت جان کی دیت سے بڑھ جاتی ہے، مثلاً: کسی شخص کی آنکھ نکال دی جائے اور دونوں ہاتھ کاٹ دیے۔ جائیں تو دیت جان کی دیت سے بڑھ جائے گی۔ مزید دیکھیے: (الاستذکار، لابن عبدالبر: ۲۵/ ۱۴۶-۱۴۸) ہمارے نزدیک جمہور اہل علم کا موقف ہی راجح ہے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عمرو ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تمام دانت برابر ہیں، ہر ایک میں دیت پانچ پانچ اونٹ ہے۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from 'Amr bin shu'aib, from his father, that his grandfather said: The Messenger of Allah (ﷺ) said: "For teeth (the Diyah is ) the same, five camels for each.