Sunan-nasai:
The Book of Oaths (qasamah), Retaliation and Blood Money
(Chapter: Injuries That Expose The Bone)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4852.
حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: جب رسول اللہ ﷺ نے مکہ مکرمہ فتح کیا تو اپنے خطبے میں ارشاد فرمایا: ”ہڈی کو ننگا کر دینے والے زخموں میں دیت پانچ پانچ اونٹ ہے۔“
تشریح:
اگر چمڑا اور گوشت کٹ کر ہڈی نظر آنے لگے لیکن ہڈی کا نقصان نہ ہوا ہو تو اس زخم کو عربی زبان میں موضحہ کہا جاتا ہے۔ یہ زخم معمولی ہوتا ہے اور جلدی ٹھیک ہو جاتا ہے، اس لیے اس کی دیت بھی معمولی، یعنی صرف پانچ اونٹ رکھی گئی ہے۔ اگر اس سے کم زخم ہو تو عدالت کوئی سی دیت جو پانچ اونٹ سے کم ہو، مقرر کر سکتی ہے۔ دیت انسانی عظمت کے پیش نظر رکھی گئی ہے کہ انسان خصوصاً مسلمان کو معمولی نہ سمجھا جائے۔ اگر اس کو خراش بھی آگئی تب بھی جرمانہ اور تاوان لاگو ہوگا۔ بعض فقہاء نے اس موضحہ میں پانچ اونٹ دیت رکھی ہے جو سر یا چہرے میں ہو۔ باقی جسم میں موضحہ کی دیت عدالت کی صوابدید پر موقوف کی ہے اور کہا ہے کہ وہ پانچ اونٹ سے کم ہوگی کیونکہ چہرہ افضل عضو ہے، اس لیے اس پر مارنا زیادہ جرم ہے۔ لیکن یہ تخصیص کسی حدیث میں نہیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4866
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4867
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4856
تمہید کتاب
٭ تعریف: ’’قسامہ‘‘ اسم مصدر ہے جس کے معنی قسم اٹھانے کے ہیں۔ اصطلاحی طور پر قسامت ان مکرر (پچاس) قسموں کو کہا جاتا ہے جو کسی بے گناہ شخص کے قتل کے اثبات کے لیے دی جائیں۔ اور یہ قسمیں ایک شخص نہیں بلکہ متعدد افراد اٹھائیں گے۔٭ مشروعت: جب کوئی شخص کسی علاقے میں مقتول پایا جائے اور قاتل کا پتہ نہ چلے لیکن کوئی شخص یا قبیلہ متہم ہو تو ایسی صورت میں قسامت مشروع ہے۔ یہ شریعت کا ایک مستقل اصول ہے اور اس کے باقاعدہ احکام ہیں۔ قسم وقضا کے دیگر احکام سے اس کا حکم خاص ہے۔ اس کی مشروعیت کی دلیل اس باب میں مذکور روایات اور اجماع ہے۔٭ شرائط: اہل علم کے اس بارے میں کئی اقوال ہیں، تاہم تین شرائط کا پایا جانا متفقہ طور پر ضروری ہے: (۱) جن کے خلاف قتل کا دعویٰ کیا گیا ہو غالب گمان یہ ہے کہ انھوں نے قتل کیا ہے۔ اور یہ چار طرح سے ممکن ہے۔ کوئی شخص قتل کی گواہی دے جس کی گواہی کا اعتبار نہ کیا جاتا ہو، واضح سبب موجود ہو، دشمنی ہو یا پھر جس علاقے میں مقتول پایا جائے اس علاقے والے قتل کرنے میں معروف ہوں۔ (2) جس کے خلاف دعویٰ دائر کیا گیا ہو وہ مکلف ہو، کسی دیوانے یا بچے کے بارے میں دعوے کا اعتبار نہیں ہوگا۔ (3)جس کے خلاف دعویٰ کیا گیا ہو اس کے قتل کرنے کا امکان بھی ہو، اگر یہ امکان نہ ہو، مثلاً: جن کے خلاف دعویٰ کیا گیا، وہ بہت زیادہ دور ہیں، تو پھر قسامت کے احکام لاگو نہیں ہوں گے۔٭ قسامت کا طریق کار: عمومی قضا میں طریقہ یہ ہوتا ہے کہ مدعی دلیل پیش کرتا ہے۔ اگر وہ دلیل پیش نہ کر سکے تو مدعی ٰ علیہ قسم اٹھا کر اپنے بریٔ الذمہ ہونے کا اظہار کرتا ہے۔ لیکن قسامت میں حاکم وقت مدعی سے پچاس قسموں کا مطالبہ کرتا ہے۔ اگر وہ قسمیں اٹھا لیں تو قصاص یا دیت کے حق دار ٹھہرتے ہیں۔ اور اگر نہ اٹھائیں تو پھر مدعی ٰ علیہ سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ اس کے پچاس قریبی یا متہم قبیلے کے پچاس افراد قسمیں اٹھا کر اپنی براء ت کا اظہار کریں کہ انھوں نے قتل کیا ہے نہ انہیں اس کا علم ہی ہے اگر وہ قسمیں اٹھائیں تو ان سے قصاص یا دیت ساقط ہو جائے گی۔حنابلہ، مالکیہ اور شوافع کا یہی موقف ہے، البتہ احناف کا موقف یہ ہے کہ قسامت میں بھی قسمیں لینے کا آغاز مدعیٰ علیہ فریق سے کیا جائے۔ اس اختلاف کی وجہ روایات کا بظاہر تعارض ہے، تاہم دلائل کے اعتبار سے ائمہ ثلاثہ کا موقف ہی اقرب الی الصواب ہے۔٭ ملاحظہ: مدعی فریق اگر قسمیں اٹھا لے تو پھر مدعی علیہ فریق سے قسموں کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا بلکہ اس سے قصاص یا دیت لی جائے گی۔ دوسری صورت یہ ہے کہ مدعی فریق قسم نہ اٹھائے اور مدعی علیہ فریق قسم اٹھا لے کہ انھوں نے قتل نہیں کیا۔ اس صورت میں مدعی فریق کو کچھ نہیں ملے گا۔ تیسری صورت یہ ہے کہ مدعی علیہ فریق قسمیں کھانے کے لیے تیار ہے لیکن مدعی فریق ان کی قسموں کا (ان کے کافر یا فاسق ہونے کی وجہ سے) اعتبار نہیں کرتا۔ اس صورت میں بھی مدعی علیہ فریق پر قصاص اور دیت نہیں ہوگی، تاہم اس صورت میں بہتر ہے کہ حکومت بیت المال سے مقتول کی دیت ادا کر دے تاکہ مسلمان کا خون رائیگاں نہ جائے۔
حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: جب رسول اللہ ﷺ نے مکہ مکرمہ فتح کیا تو اپنے خطبے میں ارشاد فرمایا: ”ہڈی کو ننگا کر دینے والے زخموں میں دیت پانچ پانچ اونٹ ہے۔“
حدیث حاشیہ:
اگر چمڑا اور گوشت کٹ کر ہڈی نظر آنے لگے لیکن ہڈی کا نقصان نہ ہوا ہو تو اس زخم کو عربی زبان میں موضحہ کہا جاتا ہے۔ یہ زخم معمولی ہوتا ہے اور جلدی ٹھیک ہو جاتا ہے، اس لیے اس کی دیت بھی معمولی، یعنی صرف پانچ اونٹ رکھی گئی ہے۔ اگر اس سے کم زخم ہو تو عدالت کوئی سی دیت جو پانچ اونٹ سے کم ہو، مقرر کر سکتی ہے۔ دیت انسانی عظمت کے پیش نظر رکھی گئی ہے کہ انسان خصوصاً مسلمان کو معمولی نہ سمجھا جائے۔ اگر اس کو خراش بھی آگئی تب بھی جرمانہ اور تاوان لاگو ہوگا۔ بعض فقہاء نے اس موضحہ میں پانچ اونٹ دیت رکھی ہے جو سر یا چہرے میں ہو۔ باقی جسم میں موضحہ کی دیت عدالت کی صوابدید پر موقوف کی ہے اور کہا ہے کہ وہ پانچ اونٹ سے کم ہوگی کیونکہ چہرہ افضل عضو ہے، اس لیے اس پر مارنا زیادہ جرم ہے۔ لیکن یہ تخصیص کسی حدیث میں نہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ نے فتح مکہ کیا تو خطبے میں فرمایا: ”ہر اس زخم میں جس میں ہڈی کھل جائے، دیت پانچ پانچ اونٹ ہیں۔“ ۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : بشرطیکہ یہ زخم چہرہ اور سر پر ہو، اگر ان کے علاوہ کسی اور جگہ میں ہے تو اس کا حکم دوسرا ہے، اور وہ یہ ہے کہ قاضی یا پنچ اپنی صوابدید سے جو فیصلہ کریں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from 'Amr bin Shu'aib that his father told him that 'Abdullah bin 'Amr said: "When the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) conquered Makkah , he said in his Khutbah: 'For any wound that exposes the bone, the diyah is five (camels) each.