باب: دیت کے مسائل کے بارے میں حضرت عمرو بن حزم کی حدیث اور راویوں کا اختلاف
)
Sunan-nasai:
The Book of Oaths (qasamah), Retaliation and Blood Money
(Chapter: Mentioning The Hadith of 'Amr Bin Hazm concerning Blood Money, and different Versions)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4854.
حضرت عمرو بن حزم رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے یمن والوں کی طرف ایک تحریر لکھ کر بھیجی جس میں فرائض وسنن اور دیت کے مسائل تھے۔ آپ نے یہ تحریر حضرت عمرو بن حزم کے ہاتھ بھیجی تھی اور یہ یمن والوں کو پڑھ کر سنائی گئی۔ یہ اس کا مضمون ہے۔ پھر راوی نے سابقہ روایت کی طرح بیان کیا مگر اس نے کہا: ایک آنکھ میں نصف دیت (پچاس اونٹ) ہے۔ ایک ہاتھ میں نصف دیت ہے اور ایک پاؤں میں نصف دیت ہے۔ امام ابوعبدالرحمن (نسائی ؓ ) بیان کرتے ہیں کہ یہ روایت درست ہونے کے زیادہ قریب ہے۔ واللہ أعلم! اور سلیمان بن ارقم متروک الحدیث ہے۔ اور یہی روایت یونس (بن یزید) نے امام زہری ؓ سے مرسلاً بیان کی ہے جیسا کہ درج ذیل روایت ہے۔
تشریح:
الحکم التفصیلی:
الارواہ:2212
قلت : يريد أن الحكم بن موسى أخطأ على يحيى بن حمزة في قوله ( سليمان بن داود ) والصواب قول ابن بكار عنه ( سليمان بن أ رقم ) وقد تقدم في آخر نواقص الوضوء ما يؤيد ذلك فليرجع إليه من شاء . والصواب في الحديث الأرسال وإسناده مرسلا صحيح كما سبق بيانه هناك .
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4868
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4869
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4858
تمہید کتاب
٭ تعریف: ’’قسامہ‘‘ اسم مصدر ہے جس کے معنی قسم اٹھانے کے ہیں۔ اصطلاحی طور پر قسامت ان مکرر (پچاس) قسموں کو کہا جاتا ہے جو کسی بے گناہ شخص کے قتل کے اثبات کے لیے دی جائیں۔ اور یہ قسمیں ایک شخص نہیں بلکہ متعدد افراد اٹھائیں گے۔٭ مشروعت: جب کوئی شخص کسی علاقے میں مقتول پایا جائے اور قاتل کا پتہ نہ چلے لیکن کوئی شخص یا قبیلہ متہم ہو تو ایسی صورت میں قسامت مشروع ہے۔ یہ شریعت کا ایک مستقل اصول ہے اور اس کے باقاعدہ احکام ہیں۔ قسم وقضا کے دیگر احکام سے اس کا حکم خاص ہے۔ اس کی مشروعیت کی دلیل اس باب میں مذکور روایات اور اجماع ہے۔٭ شرائط: اہل علم کے اس بارے میں کئی اقوال ہیں، تاہم تین شرائط کا پایا جانا متفقہ طور پر ضروری ہے: (۱) جن کے خلاف قتل کا دعویٰ کیا گیا ہو غالب گمان یہ ہے کہ انھوں نے قتل کیا ہے۔ اور یہ چار طرح سے ممکن ہے۔ کوئی شخص قتل کی گواہی دے جس کی گواہی کا اعتبار نہ کیا جاتا ہو، واضح سبب موجود ہو، دشمنی ہو یا پھر جس علاقے میں مقتول پایا جائے اس علاقے والے قتل کرنے میں معروف ہوں۔ (2) جس کے خلاف دعویٰ دائر کیا گیا ہو وہ مکلف ہو، کسی دیوانے یا بچے کے بارے میں دعوے کا اعتبار نہیں ہوگا۔ (3)جس کے خلاف دعویٰ کیا گیا ہو اس کے قتل کرنے کا امکان بھی ہو، اگر یہ امکان نہ ہو، مثلاً: جن کے خلاف دعویٰ کیا گیا، وہ بہت زیادہ دور ہیں، تو پھر قسامت کے احکام لاگو نہیں ہوں گے۔٭ قسامت کا طریق کار: عمومی قضا میں طریقہ یہ ہوتا ہے کہ مدعی دلیل پیش کرتا ہے۔ اگر وہ دلیل پیش نہ کر سکے تو مدعی ٰ علیہ قسم اٹھا کر اپنے بریٔ الذمہ ہونے کا اظہار کرتا ہے۔ لیکن قسامت میں حاکم وقت مدعی سے پچاس قسموں کا مطالبہ کرتا ہے۔ اگر وہ قسمیں اٹھا لیں تو قصاص یا دیت کے حق دار ٹھہرتے ہیں۔ اور اگر نہ اٹھائیں تو پھر مدعی ٰ علیہ سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ اس کے پچاس قریبی یا متہم قبیلے کے پچاس افراد قسمیں اٹھا کر اپنی براء ت کا اظہار کریں کہ انھوں نے قتل کیا ہے نہ انہیں اس کا علم ہی ہے اگر وہ قسمیں اٹھائیں تو ان سے قصاص یا دیت ساقط ہو جائے گی۔حنابلہ، مالکیہ اور شوافع کا یہی موقف ہے، البتہ احناف کا موقف یہ ہے کہ قسامت میں بھی قسمیں لینے کا آغاز مدعیٰ علیہ فریق سے کیا جائے۔ اس اختلاف کی وجہ روایات کا بظاہر تعارض ہے، تاہم دلائل کے اعتبار سے ائمہ ثلاثہ کا موقف ہی اقرب الی الصواب ہے۔٭ ملاحظہ: مدعی فریق اگر قسمیں اٹھا لے تو پھر مدعی علیہ فریق سے قسموں کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا بلکہ اس سے قصاص یا دیت لی جائے گی۔ دوسری صورت یہ ہے کہ مدعی فریق قسم نہ اٹھائے اور مدعی علیہ فریق قسم اٹھا لے کہ انھوں نے قتل نہیں کیا۔ اس صورت میں مدعی فریق کو کچھ نہیں ملے گا۔ تیسری صورت یہ ہے کہ مدعی علیہ فریق قسمیں کھانے کے لیے تیار ہے لیکن مدعی فریق ان کی قسموں کا (ان کے کافر یا فاسق ہونے کی وجہ سے) اعتبار نہیں کرتا۔ اس صورت میں بھی مدعی علیہ فریق پر قصاص اور دیت نہیں ہوگی، تاہم اس صورت میں بہتر ہے کہ حکومت بیت المال سے مقتول کی دیت ادا کر دے تاکہ مسلمان کا خون رائیگاں نہ جائے۔
حضرت عمرو بن حزم رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے یمن والوں کی طرف ایک تحریر لکھ کر بھیجی جس میں فرائض وسنن اور دیت کے مسائل تھے۔ آپ نے یہ تحریر حضرت عمرو بن حزم کے ہاتھ بھیجی تھی اور یہ یمن والوں کو پڑھ کر سنائی گئی۔ یہ اس کا مضمون ہے۔ پھر راوی نے سابقہ روایت کی طرح بیان کیا مگر اس نے کہا: ایک آنکھ میں نصف دیت (پچاس اونٹ) ہے۔ ایک ہاتھ میں نصف دیت ہے اور ایک پاؤں میں نصف دیت ہے۔ امام ابوعبدالرحمن (نسائی ؓ ) بیان کرتے ہیں کہ یہ روایت درست ہونے کے زیادہ قریب ہے۔ واللہ أعلم! اور سلیمان بن ارقم متروک الحدیث ہے۔ اور یہی روایت یونس (بن یزید) نے امام زہری ؓ سے مرسلاً بیان کی ہے جیسا کہ درج ذیل روایت ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عمرو بن حزم ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اہل یمن کو ایک کتاب لکھی جس میں فرائض، سنن اور دیات کا ذکر تھا۔ اسے عمرو بن حزم کے ساتھ بھیجا، چنانچہ وہ اہل یمن کو پڑھ کر سنائی گئی۔ جس کا مضمون یہ تھا۔ پھر انہوں نے اسی طرح بیان کیا، سوائے اس کے کہ انہوں نے کہا: ایک آنکھ میں دیت آدھی ہے۔ ایک ہاتھ میں آدھی دیت ہے اور ایک پاؤں میں دیت آدھی ہے۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں: یہ روایت زیادہ قرین صواب ہے۔ واللہ أعلم۔ اور سلیمان بن ارقم متروک الحدیث ہیں، اس حدیث کو یونس نے زہری سے مرسلاً روایت کیا ہے۔ ۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : اور یہی زیادہ صحیح ہے، ان کی روایت آگے آ رہی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Abi Bakr bin Muhammad bin 'Amr bin Hazm, from his father, from his grandfather, that: the Messenger of Allah (ﷺ) wrote a letter to the people of Yemen included in which were the rules of inheritance, the sunan and the (rules concerning) blood money. He sent it with 'Amr bin Hazm and it was read to the people of Yemen. This is a copy of it. And he mentioned something similar, except that he said: "And for one eye, half the Diyah must be paid; for one hand, half thediyah must be paid; for one foot, half the diyah must be paid. " (Daif)