باب: دیت کے مسائل کے بارے میں حضرت عمرو بن حزم کی حدیث اور راویوں کا اختلاف
)
Sunan-nasai:
The Book of Oaths (qasamah), Retaliation and Blood Money
(Chapter: Mentioning The Hadith of 'Amr Bin Hazm concerning Blood Money, and different Versions)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4855.
حضرت ابن شہاب (زہری) سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ کی وہ تحریر پڑھی ہے جو آپ نے حضرت عمرو بن حزم رضی اللہ تعالٰی عنہ کو نجران کا حاکم بناتے وقت لکھ کر دی تھی۔ یہ تحریر حضرت ابوبکر بن حزم کے پاس تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے لکھا تھا کہ یہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی طرف سے (احکام کا) بیان ہے: ”اے ایمان والو! عہد پورے کرو۔“ پھر آپ نے چند آیات لکھیں۔ حتیٰ کہ یہاں تک پہنچے: ﴿إِنَّ اللَّهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ﴾ ”بے شک اللہ بہت جلد حساب لینے والا ہے۔“ پھر آپ نے تحریر فرمایا تھا کہ یہ زخموں وغیرہ (کی دیت) کے بارے میں ایک تحریر ہے۔ جان (ختم کر دینے کی صورت) میں دیت سو اونٹ ہوگی۔ باقی روایت حسب سابق ہے۔
تشریح:
(1) نجران یمن کا ایک علاقہ تھا۔ سابقہ احادیث میں بھی یمن والوں سے مراد اہل نجران ہی ہیں۔ وہاں تین قبیلوں کے تین سردار تھے جس کی تفصیل حدیث نمبر ۴۸۵۷ میں گزر چکی ہے۔ حضرت عمرو بن حزم رضی اللہ تعالٰی عنہ کو آپ نے نگران اعلیٰ بنا کر بھیجا تھا۔ (2) ”چند آیات“ یہ سورۂ مائدہ کی ابتدائی چار آیات ہیں۔ ان میں بھی کچھ شرعی احکام بیان ہوئے ہیں۔ (3) آپ لکھنا نہیں جانتے تھے۔ یہ قطعی بات ہے، لہٰذا اگر کہیں لکھنے کا ذکر ہے تو مراد لکھوانا ہے۔ آپ ہمیشہ دوسروں سے لکھواتے تھے۔ (4) یہ روایت مرسل ہے اور مرسل کے بارے میں محدثین کا صحیح موقف یہی ہے کہ یہ ضعیف ہے، تاہم عمرو بن حزم رضی اللہ تعالٰی عنہ کی کتاب قرون اولیٰ میں معروف تھی۔ اور ان کی آل کے پاس بھی رہی۔ پھر اس روایت کے متن کے شواہد بھی صحیح احادیث میں موجود ہیں، اس لیے نفس سند حدیث پر حسن یا صحیح کا حکم تو محل نظر ہے، تاہم اس میں مذکورہ احکام دیگر احادیث کی تائید کی بنا پر قابل استدلال ہیں۔
الحکم التفصیلی:
الارواہ:2212
قلت : يريد أن الحكم بن موسى أخطأ على يحيى بن حمزة في قوله ( سليمان بن داود ) والصواب قول ابن بكار عنه ( سليمان بن أ رقم ) وقد تقدم في آخر نواقص الوضوء ما يؤيد ذلك فليرجع إليه من شاء . والصواب في الحديث الأرسال وإسناده مرسلا صحيح كما سبق بيانه هناك .
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4869
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4870
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4859
تمہید کتاب
٭ تعریف: ’’قسامہ‘‘ اسم مصدر ہے جس کے معنی قسم اٹھانے کے ہیں۔ اصطلاحی طور پر قسامت ان مکرر (پچاس) قسموں کو کہا جاتا ہے جو کسی بے گناہ شخص کے قتل کے اثبات کے لیے دی جائیں۔ اور یہ قسمیں ایک شخص نہیں بلکہ متعدد افراد اٹھائیں گے۔٭ مشروعت: جب کوئی شخص کسی علاقے میں مقتول پایا جائے اور قاتل کا پتہ نہ چلے لیکن کوئی شخص یا قبیلہ متہم ہو تو ایسی صورت میں قسامت مشروع ہے۔ یہ شریعت کا ایک مستقل اصول ہے اور اس کے باقاعدہ احکام ہیں۔ قسم وقضا کے دیگر احکام سے اس کا حکم خاص ہے۔ اس کی مشروعیت کی دلیل اس باب میں مذکور روایات اور اجماع ہے۔٭ شرائط: اہل علم کے اس بارے میں کئی اقوال ہیں، تاہم تین شرائط کا پایا جانا متفقہ طور پر ضروری ہے: (۱) جن کے خلاف قتل کا دعویٰ کیا گیا ہو غالب گمان یہ ہے کہ انھوں نے قتل کیا ہے۔ اور یہ چار طرح سے ممکن ہے۔ کوئی شخص قتل کی گواہی دے جس کی گواہی کا اعتبار نہ کیا جاتا ہو، واضح سبب موجود ہو، دشمنی ہو یا پھر جس علاقے میں مقتول پایا جائے اس علاقے والے قتل کرنے میں معروف ہوں۔ (2) جس کے خلاف دعویٰ دائر کیا گیا ہو وہ مکلف ہو، کسی دیوانے یا بچے کے بارے میں دعوے کا اعتبار نہیں ہوگا۔ (3)جس کے خلاف دعویٰ کیا گیا ہو اس کے قتل کرنے کا امکان بھی ہو، اگر یہ امکان نہ ہو، مثلاً: جن کے خلاف دعویٰ کیا گیا، وہ بہت زیادہ دور ہیں، تو پھر قسامت کے احکام لاگو نہیں ہوں گے۔٭ قسامت کا طریق کار: عمومی قضا میں طریقہ یہ ہوتا ہے کہ مدعی دلیل پیش کرتا ہے۔ اگر وہ دلیل پیش نہ کر سکے تو مدعی ٰ علیہ قسم اٹھا کر اپنے بریٔ الذمہ ہونے کا اظہار کرتا ہے۔ لیکن قسامت میں حاکم وقت مدعی سے پچاس قسموں کا مطالبہ کرتا ہے۔ اگر وہ قسمیں اٹھا لیں تو قصاص یا دیت کے حق دار ٹھہرتے ہیں۔ اور اگر نہ اٹھائیں تو پھر مدعی ٰ علیہ سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ اس کے پچاس قریبی یا متہم قبیلے کے پچاس افراد قسمیں اٹھا کر اپنی براء ت کا اظہار کریں کہ انھوں نے قتل کیا ہے نہ انہیں اس کا علم ہی ہے اگر وہ قسمیں اٹھائیں تو ان سے قصاص یا دیت ساقط ہو جائے گی۔حنابلہ، مالکیہ اور شوافع کا یہی موقف ہے، البتہ احناف کا موقف یہ ہے کہ قسامت میں بھی قسمیں لینے کا آغاز مدعیٰ علیہ فریق سے کیا جائے۔ اس اختلاف کی وجہ روایات کا بظاہر تعارض ہے، تاہم دلائل کے اعتبار سے ائمہ ثلاثہ کا موقف ہی اقرب الی الصواب ہے۔٭ ملاحظہ: مدعی فریق اگر قسمیں اٹھا لے تو پھر مدعی علیہ فریق سے قسموں کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا بلکہ اس سے قصاص یا دیت لی جائے گی۔ دوسری صورت یہ ہے کہ مدعی فریق قسم نہ اٹھائے اور مدعی علیہ فریق قسم اٹھا لے کہ انھوں نے قتل نہیں کیا۔ اس صورت میں مدعی فریق کو کچھ نہیں ملے گا۔ تیسری صورت یہ ہے کہ مدعی علیہ فریق قسمیں کھانے کے لیے تیار ہے لیکن مدعی فریق ان کی قسموں کا (ان کے کافر یا فاسق ہونے کی وجہ سے) اعتبار نہیں کرتا۔ اس صورت میں بھی مدعی علیہ فریق پر قصاص اور دیت نہیں ہوگی، تاہم اس صورت میں بہتر ہے کہ حکومت بیت المال سے مقتول کی دیت ادا کر دے تاکہ مسلمان کا خون رائیگاں نہ جائے۔
حضرت ابن شہاب (زہری) سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ کی وہ تحریر پڑھی ہے جو آپ نے حضرت عمرو بن حزم رضی اللہ تعالٰی عنہ کو نجران کا حاکم بناتے وقت لکھ کر دی تھی۔ یہ تحریر حضرت ابوبکر بن حزم کے پاس تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے لکھا تھا کہ یہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی طرف سے (احکام کا) بیان ہے: ”اے ایمان والو! عہد پورے کرو۔“ پھر آپ نے چند آیات لکھیں۔ حتیٰ کہ یہاں تک پہنچے: ﴿إِنَّ اللَّهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ﴾ ”بے شک اللہ بہت جلد حساب لینے والا ہے۔“ پھر آپ نے تحریر فرمایا تھا کہ یہ زخموں وغیرہ (کی دیت) کے بارے میں ایک تحریر ہے۔ جان (ختم کر دینے کی صورت) میں دیت سو اونٹ ہوگی۔ باقی روایت حسب سابق ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) نجران یمن کا ایک علاقہ تھا۔ سابقہ احادیث میں بھی یمن والوں سے مراد اہل نجران ہی ہیں۔ وہاں تین قبیلوں کے تین سردار تھے جس کی تفصیل حدیث نمبر ۴۸۵۷ میں گزر چکی ہے۔ حضرت عمرو بن حزم رضی اللہ تعالٰی عنہ کو آپ نے نگران اعلیٰ بنا کر بھیجا تھا۔ (2) ”چند آیات“ یہ سورۂ مائدہ کی ابتدائی چار آیات ہیں۔ ان میں بھی کچھ شرعی احکام بیان ہوئے ہیں۔ (3) آپ لکھنا نہیں جانتے تھے۔ یہ قطعی بات ہے، لہٰذا اگر کہیں لکھنے کا ذکر ہے تو مراد لکھوانا ہے۔ آپ ہمیشہ دوسروں سے لکھواتے تھے۔ (4) یہ روایت مرسل ہے اور مرسل کے بارے میں محدثین کا صحیح موقف یہی ہے کہ یہ ضعیف ہے، تاہم عمرو بن حزم رضی اللہ تعالٰی عنہ کی کتاب قرون اولیٰ میں معروف تھی۔ اور ان کی آل کے پاس بھی رہی۔ پھر اس روایت کے متن کے شواہد بھی صحیح احادیث میں موجود ہیں، اس لیے نفس سند حدیث پر حسن یا صحیح کا حکم تو محل نظر ہے، تاہم اس میں مذکورہ احکام دیگر احادیث کی تائید کی بنا پر قابل استدلال ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
محمد بن شہاب زہری کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کی وہ کتاب پڑھی جو آپ نے عمرو بن حزم ؓ کے لیے لکھی جب انہیں نجران کا والی بنا کر بھیجا، کتاب ابوبکر بن حزم کے پاس تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے لکھا تھا: یہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے بیان ہے: «يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَوْفُوا بِالْعُقُودِ» ”اے ایمان والو! عہد و پیماں پورے کرو۔“ (المائدہ: ۱) اور اس کے بعد کی آیات لکھیں یہاں تک کہ آپ «إِنَّ اللَّهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ» ”اللہ جلد حساب لینے والا ہے۔“ (المائدہ: ۴) تک پہنچے۔ پھر لکھا تھا: یہ زخموں کی کتاب ہے، ایک جان کی دیت سو اونٹ ہیں، پھر آگے اسی طرح ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Ibn shihab said: "I read the letter of the Messenger of allah which he wrote for 'Amr bin Hazm when he sent him to govern Najran. The letter was with Abu Bakr bin Hazm. The Messenger of Allah (ﷺ) wrote this; 'A statement from Allah and His Messenger; O you who believe! Fulfill (your) obligations, and he wrote the Verses until he reached. Verily, Allah is Swift in reckoning. Then he wrote: 'this is the book if retaliation: For a soul, one hundred camels, '''' and so on.