باب: دیت کے مسائل کے بارے میں حضرت عمرو بن حزم کی حدیث اور راویوں کا اختلاف
)
Sunan-nasai:
The Book of Oaths (qasamah), Retaliation and Blood Money
(Chapter: Mentioning The Hadith of 'Amr Bin Hazm concerning Blood Money, and different Versions)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4856.
حضرت زہری ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: میرے پاس حضرت ابوبکر بن حزم رسول اللہ ﷺ کی تحریر لے کر آئے جو چمڑے کے ٹکڑے پر لکھی ہوئی تھی کہ یہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی طرف سے (احکام کا) بیان ہے: ”اے ایمان والو! عہد پورے کرو۔“ پھر اس کے بعد کئی آیتیں پڑھیں۔ پھر کہا: (پھر لکھا تھا) کسی جان کو ختم کر دینے کی صورت میں دیت سو اونٹ ہوگی۔ ایک ہاتھ میں پچاس اونٹ ہیں۔ ایک آنکھ میں (آنکھ کی دیت) پچاس اونٹ ہیں اور ایک پاؤں کی دیت بھی پچاس اونٹ ہیں۔ دماغ تک پہنچ جانے والے زخم میں تہائی دیت ہے۔ اور پیٹ کے اندر تک پہنچ جانے والے زخم کی دیت بھی ایک تہائی ہے۔ ہڈی کو توڑ دینے والے زخم میں پندرہ اونٹ دیت ہے۔ انگلیوں کی دیت دس دس اونٹ ہے۔ دانتوں کی دیت پانچ پانچ اونٹ ہے۔ اور ہڈی کو ننگا کرنے والے زخم میں پانچ اونٹ دیت ہے۔
تشریح:
الحکم التفصیلی:
الارواہ:2212
قلت : يريد أن الحكم بن موسى أخطأ على يحيى بن حمزة في قوله ( سليمان بن داود ) والصواب قول ابن بكار عنه ( سليمان بن أ رقم ) وقد تقدم في آخر نواقص الوضوء ما يؤيد ذلك فليرجع إليه من شاء . والصواب في الحديث الأرسال وإسناده مرسلا صحيح كما سبق بيانه هناك .
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4870
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4871
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4860
تمہید کتاب
٭ تعریف: ’’قسامہ‘‘ اسم مصدر ہے جس کے معنی قسم اٹھانے کے ہیں۔ اصطلاحی طور پر قسامت ان مکرر (پچاس) قسموں کو کہا جاتا ہے جو کسی بے گناہ شخص کے قتل کے اثبات کے لیے دی جائیں۔ اور یہ قسمیں ایک شخص نہیں بلکہ متعدد افراد اٹھائیں گے۔٭ مشروعت: جب کوئی شخص کسی علاقے میں مقتول پایا جائے اور قاتل کا پتہ نہ چلے لیکن کوئی شخص یا قبیلہ متہم ہو تو ایسی صورت میں قسامت مشروع ہے۔ یہ شریعت کا ایک مستقل اصول ہے اور اس کے باقاعدہ احکام ہیں۔ قسم وقضا کے دیگر احکام سے اس کا حکم خاص ہے۔ اس کی مشروعیت کی دلیل اس باب میں مذکور روایات اور اجماع ہے۔٭ شرائط: اہل علم کے اس بارے میں کئی اقوال ہیں، تاہم تین شرائط کا پایا جانا متفقہ طور پر ضروری ہے: (۱) جن کے خلاف قتل کا دعویٰ کیا گیا ہو غالب گمان یہ ہے کہ انھوں نے قتل کیا ہے۔ اور یہ چار طرح سے ممکن ہے۔ کوئی شخص قتل کی گواہی دے جس کی گواہی کا اعتبار نہ کیا جاتا ہو، واضح سبب موجود ہو، دشمنی ہو یا پھر جس علاقے میں مقتول پایا جائے اس علاقے والے قتل کرنے میں معروف ہوں۔ (2) جس کے خلاف دعویٰ دائر کیا گیا ہو وہ مکلف ہو، کسی دیوانے یا بچے کے بارے میں دعوے کا اعتبار نہیں ہوگا۔ (3)جس کے خلاف دعویٰ کیا گیا ہو اس کے قتل کرنے کا امکان بھی ہو، اگر یہ امکان نہ ہو، مثلاً: جن کے خلاف دعویٰ کیا گیا، وہ بہت زیادہ دور ہیں، تو پھر قسامت کے احکام لاگو نہیں ہوں گے۔٭ قسامت کا طریق کار: عمومی قضا میں طریقہ یہ ہوتا ہے کہ مدعی دلیل پیش کرتا ہے۔ اگر وہ دلیل پیش نہ کر سکے تو مدعی ٰ علیہ قسم اٹھا کر اپنے بریٔ الذمہ ہونے کا اظہار کرتا ہے۔ لیکن قسامت میں حاکم وقت مدعی سے پچاس قسموں کا مطالبہ کرتا ہے۔ اگر وہ قسمیں اٹھا لیں تو قصاص یا دیت کے حق دار ٹھہرتے ہیں۔ اور اگر نہ اٹھائیں تو پھر مدعی ٰ علیہ سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ اس کے پچاس قریبی یا متہم قبیلے کے پچاس افراد قسمیں اٹھا کر اپنی براء ت کا اظہار کریں کہ انھوں نے قتل کیا ہے نہ انہیں اس کا علم ہی ہے اگر وہ قسمیں اٹھائیں تو ان سے قصاص یا دیت ساقط ہو جائے گی۔حنابلہ، مالکیہ اور شوافع کا یہی موقف ہے، البتہ احناف کا موقف یہ ہے کہ قسامت میں بھی قسمیں لینے کا آغاز مدعیٰ علیہ فریق سے کیا جائے۔ اس اختلاف کی وجہ روایات کا بظاہر تعارض ہے، تاہم دلائل کے اعتبار سے ائمہ ثلاثہ کا موقف ہی اقرب الی الصواب ہے۔٭ ملاحظہ: مدعی فریق اگر قسمیں اٹھا لے تو پھر مدعی علیہ فریق سے قسموں کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا بلکہ اس سے قصاص یا دیت لی جائے گی۔ دوسری صورت یہ ہے کہ مدعی فریق قسم نہ اٹھائے اور مدعی علیہ فریق قسم اٹھا لے کہ انھوں نے قتل نہیں کیا۔ اس صورت میں مدعی فریق کو کچھ نہیں ملے گا۔ تیسری صورت یہ ہے کہ مدعی علیہ فریق قسمیں کھانے کے لیے تیار ہے لیکن مدعی فریق ان کی قسموں کا (ان کے کافر یا فاسق ہونے کی وجہ سے) اعتبار نہیں کرتا۔ اس صورت میں بھی مدعی علیہ فریق پر قصاص اور دیت نہیں ہوگی، تاہم اس صورت میں بہتر ہے کہ حکومت بیت المال سے مقتول کی دیت ادا کر دے تاکہ مسلمان کا خون رائیگاں نہ جائے۔
حضرت زہری ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: میرے پاس حضرت ابوبکر بن حزم رسول اللہ ﷺ کی تحریر لے کر آئے جو چمڑے کے ٹکڑے پر لکھی ہوئی تھی کہ یہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی طرف سے (احکام کا) بیان ہے: ”اے ایمان والو! عہد پورے کرو۔“ پھر اس کے بعد کئی آیتیں پڑھیں۔ پھر کہا: (پھر لکھا تھا) کسی جان کو ختم کر دینے کی صورت میں دیت سو اونٹ ہوگی۔ ایک ہاتھ میں پچاس اونٹ ہیں۔ ایک آنکھ میں (آنکھ کی دیت) پچاس اونٹ ہیں اور ایک پاؤں کی دیت بھی پچاس اونٹ ہیں۔ دماغ تک پہنچ جانے والے زخم میں تہائی دیت ہے۔ اور پیٹ کے اندر تک پہنچ جانے والے زخم کی دیت بھی ایک تہائی ہے۔ ہڈی کو توڑ دینے والے زخم میں پندرہ اونٹ دیت ہے۔ انگلیوں کی دیت دس دس اونٹ ہے۔ دانتوں کی دیت پانچ پانچ اونٹ ہے۔ اور ہڈی کو ننگا کرنے والے زخم میں پانچ اونٹ دیت ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
زہری کہتے ہیں کہ ابوبکر بن حزم میرے پاس ایک تحریر لے آئے جو چمڑے کے ایک ٹکڑے پر رسول اللہ ﷺ کی طرف سے لکھی ہوئی تھی: یہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے بیان ہے: اے ایمان والو! عہد و پیمان پورے کرو، پھر انہوں نے اس میں سے بعض آیات تلاوت کیں، پھر کہا: جان میں دیت سو اونٹ ہیں، آنکھ میں پچاس، ہاتھ میں پچاس، پیر میں پچاس، مغز تک پہنچنے والے زخم میں تہائی دیت، پیٹ کے اندر تک پہنچی چوٹ میں تہائی دیت اور ہڈی سرک جانے میں پندرہ اونٹنیاں ہیں۔ انگلیوں میں دس دس، دانتوں میں پانچ پانچ اور اس زخم میں جس میں ہڈی نظر آئے پانچ پانچ اونٹ ہیں۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrate that Az-Zuhri said: "Abu Bakr bin Hazm brought me a letter on a piece of leather (which was ) from the Messenger of Allah (ﷺ): 'This is a statement from Allah and His Messenger: 'O you who believe! Fulfill (your obligations. And he quoted some Verses from it. Then he said: 'For a soul, one hundred camels; for an eye, fifty camels; for a hand, fifty; for a foot, fifty; for a blow to the head that reaches the brain, one-third of the Diyah: for a hand, fifty; for a stab wound that penetrates deeply, one-third of the Diyah; for a blow that breaks a bone, fifteen camels; for fingers, ten each; for teeth, five each; for a wound that exposes the bone five. (Daif)