باب: دیت کے مسائل کے بارے میں حضرت عمرو بن حزم کی حدیث اور راویوں کا اختلاف
)
Sunan-nasai:
The Book of Oaths (qasamah), Retaliation and Blood Money
(Chapter: Mentioning The Hadith of 'Amr Bin Hazm concerning Blood Money, and different Versions)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4858.
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ ایک اعرابی نبی اکرم ﷺ کے دروازے کے پاس آیا اور اس نے اپنی آنکھ دروازے کے سوراخ پر لگا دی۔ نبی اکرم ﷺ نے اس کو دیکھ لیا اور آپ ایک تیز دھار والی چیز یا ایک (نوک دار) لکڑی لے کر اس کی طرف چلے تاکہ اس کی آنکھ پھوڑ دیں۔ جب اس نے آپ کو (آتے) دیکھا تو آنکھ پیچھے ہٹا لی۔ (پیچھے ہٹ گیا) نبی اکرم ﷺ نے اسے (غصے کے ساتھ) فرمایا: ”اگر تو اسی طرح کھڑا رہتا تو میں تیری آنکھ پھوڑ دیتا۔“
تشریح:
(1) ”پھوڑ دیتا“ اس سے استدلال کیا گیا ہے کہ اگر کوئی اس طرح چھپ کر کسی کے گھر دیکھے تو حاکم وقت کو اطلاع کیے بغیر ہی اس کی آنکھ پھوڑی جا سکتی ہے۔ کوئی دیت یا تاوان واجب الاداء نہیں ہو گا۔ امام شافعی اور امام احمد رحہم اللہ کا یہی خیال ہے مگر امام مالک اور امام ابوحنیفہ رحہم اللہ اس کے قائل نہیں۔ ان کا خیال ہے کہ آپ نے یہ کلمات زجراً فرمائے تھے۔ آپ کی نیت اس کی آنکھ پھوڑنے کی نہیں تھی۔ راجح یہی ہے کہ ایسے شخص کی آنکھ پھوڑنا جائز ہے اور پھوڑنے والے پر کوئی تاوان بھی نہیں ہوگا کیونکہ حدیث سے اسی موقف کی تائید ہوتی ہے۔ بے جا تاویلات سے گریز کرنا چاہیے۔ (2) یہ حدیث اور آئندہ حدیث سابقہ باب سے اس طرح متعلق ہیں کہ ایسی حالت میں اگر آنکھ پھوڑ دی جائے تو کوئی دیت نہیں دینا پڑے گی۔ یا پھر امام صاحب نیا باب قائم کرنا بھول گئے ہیں یا یہ دونوں احادیث آئندہ باب سے متعلق ہیں جیسا کہ سنن نسائی میں کئی مقامات پر ہوا ہے۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4872
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4873
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4862
تمہید کتاب
٭ تعریف: ’’قسامہ‘‘ اسم مصدر ہے جس کے معنی قسم اٹھانے کے ہیں۔ اصطلاحی طور پر قسامت ان مکرر (پچاس) قسموں کو کہا جاتا ہے جو کسی بے گناہ شخص کے قتل کے اثبات کے لیے دی جائیں۔ اور یہ قسمیں ایک شخص نہیں بلکہ متعدد افراد اٹھائیں گے۔٭ مشروعت: جب کوئی شخص کسی علاقے میں مقتول پایا جائے اور قاتل کا پتہ نہ چلے لیکن کوئی شخص یا قبیلہ متہم ہو تو ایسی صورت میں قسامت مشروع ہے۔ یہ شریعت کا ایک مستقل اصول ہے اور اس کے باقاعدہ احکام ہیں۔ قسم وقضا کے دیگر احکام سے اس کا حکم خاص ہے۔ اس کی مشروعیت کی دلیل اس باب میں مذکور روایات اور اجماع ہے۔٭ شرائط: اہل علم کے اس بارے میں کئی اقوال ہیں، تاہم تین شرائط کا پایا جانا متفقہ طور پر ضروری ہے: (۱) جن کے خلاف قتل کا دعویٰ کیا گیا ہو غالب گمان یہ ہے کہ انھوں نے قتل کیا ہے۔ اور یہ چار طرح سے ممکن ہے۔ کوئی شخص قتل کی گواہی دے جس کی گواہی کا اعتبار نہ کیا جاتا ہو، واضح سبب موجود ہو، دشمنی ہو یا پھر جس علاقے میں مقتول پایا جائے اس علاقے والے قتل کرنے میں معروف ہوں۔ (2) جس کے خلاف دعویٰ دائر کیا گیا ہو وہ مکلف ہو، کسی دیوانے یا بچے کے بارے میں دعوے کا اعتبار نہیں ہوگا۔ (3)جس کے خلاف دعویٰ کیا گیا ہو اس کے قتل کرنے کا امکان بھی ہو، اگر یہ امکان نہ ہو، مثلاً: جن کے خلاف دعویٰ کیا گیا، وہ بہت زیادہ دور ہیں، تو پھر قسامت کے احکام لاگو نہیں ہوں گے۔٭ قسامت کا طریق کار: عمومی قضا میں طریقہ یہ ہوتا ہے کہ مدعی دلیل پیش کرتا ہے۔ اگر وہ دلیل پیش نہ کر سکے تو مدعی ٰ علیہ قسم اٹھا کر اپنے بریٔ الذمہ ہونے کا اظہار کرتا ہے۔ لیکن قسامت میں حاکم وقت مدعی سے پچاس قسموں کا مطالبہ کرتا ہے۔ اگر وہ قسمیں اٹھا لیں تو قصاص یا دیت کے حق دار ٹھہرتے ہیں۔ اور اگر نہ اٹھائیں تو پھر مدعی ٰ علیہ سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ اس کے پچاس قریبی یا متہم قبیلے کے پچاس افراد قسمیں اٹھا کر اپنی براء ت کا اظہار کریں کہ انھوں نے قتل کیا ہے نہ انہیں اس کا علم ہی ہے اگر وہ قسمیں اٹھائیں تو ان سے قصاص یا دیت ساقط ہو جائے گی۔حنابلہ، مالکیہ اور شوافع کا یہی موقف ہے، البتہ احناف کا موقف یہ ہے کہ قسامت میں بھی قسمیں لینے کا آغاز مدعیٰ علیہ فریق سے کیا جائے۔ اس اختلاف کی وجہ روایات کا بظاہر تعارض ہے، تاہم دلائل کے اعتبار سے ائمہ ثلاثہ کا موقف ہی اقرب الی الصواب ہے۔٭ ملاحظہ: مدعی فریق اگر قسمیں اٹھا لے تو پھر مدعی علیہ فریق سے قسموں کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا بلکہ اس سے قصاص یا دیت لی جائے گی۔ دوسری صورت یہ ہے کہ مدعی فریق قسم نہ اٹھائے اور مدعی علیہ فریق قسم اٹھا لے کہ انھوں نے قتل نہیں کیا۔ اس صورت میں مدعی فریق کو کچھ نہیں ملے گا۔ تیسری صورت یہ ہے کہ مدعی علیہ فریق قسمیں کھانے کے لیے تیار ہے لیکن مدعی فریق ان کی قسموں کا (ان کے کافر یا فاسق ہونے کی وجہ سے) اعتبار نہیں کرتا۔ اس صورت میں بھی مدعی علیہ فریق پر قصاص اور دیت نہیں ہوگی، تاہم اس صورت میں بہتر ہے کہ حکومت بیت المال سے مقتول کی دیت ادا کر دے تاکہ مسلمان کا خون رائیگاں نہ جائے۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ ایک اعرابی نبی اکرم ﷺ کے دروازے کے پاس آیا اور اس نے اپنی آنکھ دروازے کے سوراخ پر لگا دی۔ نبی اکرم ﷺ نے اس کو دیکھ لیا اور آپ ایک تیز دھار والی چیز یا ایک (نوک دار) لکڑی لے کر اس کی طرف چلے تاکہ اس کی آنکھ پھوڑ دیں۔ جب اس نے آپ کو (آتے) دیکھا تو آنکھ پیچھے ہٹا لی۔ (پیچھے ہٹ گیا) نبی اکرم ﷺ نے اسے (غصے کے ساتھ) فرمایا: ”اگر تو اسی طرح کھڑا رہتا تو میں تیری آنکھ پھوڑ دیتا۔“
حدیث حاشیہ:
(1) ”پھوڑ دیتا“ اس سے استدلال کیا گیا ہے کہ اگر کوئی اس طرح چھپ کر کسی کے گھر دیکھے تو حاکم وقت کو اطلاع کیے بغیر ہی اس کی آنکھ پھوڑی جا سکتی ہے۔ کوئی دیت یا تاوان واجب الاداء نہیں ہو گا۔ امام شافعی اور امام احمد رحہم اللہ کا یہی خیال ہے مگر امام مالک اور امام ابوحنیفہ رحہم اللہ اس کے قائل نہیں۔ ان کا خیال ہے کہ آپ نے یہ کلمات زجراً فرمائے تھے۔ آپ کی نیت اس کی آنکھ پھوڑنے کی نہیں تھی۔ راجح یہی ہے کہ ایسے شخص کی آنکھ پھوڑنا جائز ہے اور پھوڑنے والے پر کوئی تاوان بھی نہیں ہوگا کیونکہ حدیث سے اسی موقف کی تائید ہوتی ہے۔ بے جا تاویلات سے گریز کرنا چاہیے۔ (2) یہ حدیث اور آئندہ حدیث سابقہ باب سے اس طرح متعلق ہیں کہ ایسی حالت میں اگر آنکھ پھوڑ دی جائے تو کوئی دیت نہیں دینا پڑے گی۔ یا پھر امام صاحب نیا باب قائم کرنا بھول گئے ہیں یا یہ دونوں احادیث آئندہ باب سے متعلق ہیں جیسا کہ سنن نسائی میں کئی مقامات پر ہوا ہے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
انس بن مالک ؓ کہتے ہیں کہ ایک اعرابی (دیہاتی) نبی اکرم ﷺ کے دروازے پر آیا تو دراز میں آنکھ لگا کر جھانکنے لگا، نبی اکرم ﷺ نے جب یہ دیکھا تو لوہا یا لکڑی لے کر اس کی آنکھ پھوڑنے کا ارادہ کیا، جب اس کی نظر پڑی تو اس نے اپنی آنکھ ہٹا لی، نبی اکرم ﷺ نے اس سے فرمایا: ”اگر تم اپنی آنکھ یہیں رکھتے تو میں تمہاری آنکھ پھوڑ دیتا۔“ ۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی کے گھر کے اندر اس طرح جھانکنے والے کی آنکھ اگر گھر والا پھوڑ دے تو اس پر آنکھ پھوڑنے کی دیت واجب نہیں ہو گی۔ نیز دیکھئیے اگلی حدیث۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated form 'Anas bin Malik (RA) that a Bedouin came to the door of the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) and put his eye to the crack. The Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) saw him and intended to put his eye out with a sword or a stick. When he saw him , he stopped, and the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) said to hi: "If you had persisted, I would have put your eye out.