باب: جو شخص حاکم تک مقدمہ لے جائے بغیر خود ہی بدلہ لے لے یا اپنا حق لے لے
)
Sunan-nasai:
The Book of Oaths (qasamah), Retaliation and Blood Money
(Chapter: One Who Takes His Right to Retaliation without the Involvement of the Ruler)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4862.
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ وہ نماز پڑھ رہے تھے۔ اتنے میں حضرت مروان کا ایک بیٹا ان کے آگے سے گزرنے لگا۔ انھوں نے اس کو پیچھے دھکیلا لیکن وہ پیچھے نہ ہٹا تو انھوں نے اسے مارا۔ وہ روتا ہوا چلا گیا حتیٰ کہ حضرت مروان کے پاس پہنچ گیا اور جا کر انھیں بتایا۔ حضرت مروان نے حضرت ابو سعید رضی اللہ تعالٰی عنہ سے کہا: آپ نے اپنے بھتیجے (میرے بیٹے) کو کیوں مارا ہے؟ انھوں نے کہا: میں نے اس کو نہیں مارا۔ میں نے تو شیطان کو مارا ہے۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے: ”جب تم میں سے کوئی شخص نماز پڑھ رہا ہو اور کوئی دوسرا شخص اس کے آگے سے گزرنا چاہے تو وہ اپنی طاقت کی حد تک اسے روکنے کی کوشش کرے۔ اگر وہ (رکنے سے) انکار کر دے (اور روکنے کے باوجود پھر بھی گزرنے پر مصر رہے) تو اس سے لڑے کیونکہ وہ شیطان ہے۔“
تشریح:
(1) ”اس سے لڑے“ اس کا مطلب یہ ہے کہ ممکن حد تک سامنے سے گزرنے والے شخص کو روکے، لیکن اس حد تک نہ جائے کہ اس کی اپنی نماز ہی باطل ہو جائے کیونکہ نماز کی حفاظت کے لیے تو گزرنے والے کو روک رہا ہے۔ اگر خود ہی نماز خراب کر لی تو اس کو روکنے کا فائدہ؟ اس کی صورت یہ ہوگی کہ سامنے سے گزرنے والے شخص کو ہاتھ سے روکے، اگر گزرنے والا شخص نہ رکے بلکہ سامنے سے گزرنے پر ہی مصر رہے تو اس کے سینے میں دھکا دے، یہ نہیں کہ آستینیں چڑھا کر اس سے کشتی شروع کر دے اور نماز چھوڑ کر مار کٹائی پر اتر آئے کیونکہ اس سے اس کی اپنی نماز باطل ہو جائے گی۔ (2) امام صاحب نے اس سے استدلال فرمایا ہے کہ وہ خود بھی سزا دے سکتا ہے۔ حاکم کے پاس جانے کی کوئی ضرورت نہیں، حالانکہ کسی کو دھکا دینا یا معمولی چپت رسید کرنا نہ تو سزا کے زمرے میں آتا ہے نہ قصاص کے۔ اس سے باب پر استدلال قوی نہیں۔ ہاں یہ کہا جا سکتا ہے کہ معمولی سی کارروائی از خود بھی کر سکتا ہے جو عدالت کے اختیار میں نہیں آتی لیکن جو امور عدالتی اختیار کے تحت ہیں اور جن پر فوج داری جرم کا اطلاق ہوتا ہے، ان کا اختیار افراد کو نہیں، مثلاً: کسی کو اس طرح مارنا کہ وہ زخمی ہو جائے یا اس کی کوئی ہڈی ٹوٹ جائے یا کوئی عضو ضائع ہو جائے یا -اللہ نہ کرے- وہ مر ہی جائے۔ ایسی صورت میں وہ خود مجرم ہوگا اور سزا پائے گا۔
الحکم التفصیلی:
الارواہ: 694
(قلت: إسناده صحيح على شرط مسلم. وأخرجه هو والبخاري وأبو عوانة
في "صحاحهم ") .
إسناده: حدثنا القعنبي عن مالك عن زيد بن أسلم عن عبد الرحمن بن أبي
سعيد الخدري عن أبي سعيد الخدري.
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط مسلم.
والحديث أخرجه مالك في "موطئه " (1/170) .
ومن طريقه أيضا: أخرجه مسلم (2/57) ، وأبو عوانة (2/43) ، والنسائي
(1/123) ، والدارمي (1/328) ، والطحاوي (1/266) ، والبيهقي (2/267) ،
والطحاوي أيضا في "الشكل " (3/250) ، وأحمد (3/34 و 43) كلهم عن
مالك... به.
وأخرجه أبو عوانة، والطحاوي، وأحمد (3/57 و 93) من طرق أخرى عن زيد
ابن أسلم... به.
رواه أحمد (3/49) من طريق زهير- وهو ابن محمد التميمي- عن زيد بن
أبي أنيسة عن عبد الرحمن بن أبي سعيد... به.
ولا أدري إن كان قوله: (زيد بن أبي أنيسة) محفوظاً أم لا؟
وله طريقان آخران عن أبي سعيد، ويأتيان في الباب بعد حديث.
وورد الحديث بزيادة فيه، وهو:
صحيح أبي داود ( و 697 )
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4876
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4877
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4866
تمہید کتاب
٭ تعریف: ’’قسامہ‘‘ اسم مصدر ہے جس کے معنی قسم اٹھانے کے ہیں۔ اصطلاحی طور پر قسامت ان مکرر (پچاس) قسموں کو کہا جاتا ہے جو کسی بے گناہ شخص کے قتل کے اثبات کے لیے دی جائیں۔ اور یہ قسمیں ایک شخص نہیں بلکہ متعدد افراد اٹھائیں گے۔٭ مشروعت: جب کوئی شخص کسی علاقے میں مقتول پایا جائے اور قاتل کا پتہ نہ چلے لیکن کوئی شخص یا قبیلہ متہم ہو تو ایسی صورت میں قسامت مشروع ہے۔ یہ شریعت کا ایک مستقل اصول ہے اور اس کے باقاعدہ احکام ہیں۔ قسم وقضا کے دیگر احکام سے اس کا حکم خاص ہے۔ اس کی مشروعیت کی دلیل اس باب میں مذکور روایات اور اجماع ہے۔٭ شرائط: اہل علم کے اس بارے میں کئی اقوال ہیں، تاہم تین شرائط کا پایا جانا متفقہ طور پر ضروری ہے: (۱) جن کے خلاف قتل کا دعویٰ کیا گیا ہو غالب گمان یہ ہے کہ انھوں نے قتل کیا ہے۔ اور یہ چار طرح سے ممکن ہے۔ کوئی شخص قتل کی گواہی دے جس کی گواہی کا اعتبار نہ کیا جاتا ہو، واضح سبب موجود ہو، دشمنی ہو یا پھر جس علاقے میں مقتول پایا جائے اس علاقے والے قتل کرنے میں معروف ہوں۔ (2) جس کے خلاف دعویٰ دائر کیا گیا ہو وہ مکلف ہو، کسی دیوانے یا بچے کے بارے میں دعوے کا اعتبار نہیں ہوگا۔ (3)جس کے خلاف دعویٰ کیا گیا ہو اس کے قتل کرنے کا امکان بھی ہو، اگر یہ امکان نہ ہو، مثلاً: جن کے خلاف دعویٰ کیا گیا، وہ بہت زیادہ دور ہیں، تو پھر قسامت کے احکام لاگو نہیں ہوں گے۔٭ قسامت کا طریق کار: عمومی قضا میں طریقہ یہ ہوتا ہے کہ مدعی دلیل پیش کرتا ہے۔ اگر وہ دلیل پیش نہ کر سکے تو مدعی ٰ علیہ قسم اٹھا کر اپنے بریٔ الذمہ ہونے کا اظہار کرتا ہے۔ لیکن قسامت میں حاکم وقت مدعی سے پچاس قسموں کا مطالبہ کرتا ہے۔ اگر وہ قسمیں اٹھا لیں تو قصاص یا دیت کے حق دار ٹھہرتے ہیں۔ اور اگر نہ اٹھائیں تو پھر مدعی ٰ علیہ سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ اس کے پچاس قریبی یا متہم قبیلے کے پچاس افراد قسمیں اٹھا کر اپنی براء ت کا اظہار کریں کہ انھوں نے قتل کیا ہے نہ انہیں اس کا علم ہی ہے اگر وہ قسمیں اٹھائیں تو ان سے قصاص یا دیت ساقط ہو جائے گی۔حنابلہ، مالکیہ اور شوافع کا یہی موقف ہے، البتہ احناف کا موقف یہ ہے کہ قسامت میں بھی قسمیں لینے کا آغاز مدعیٰ علیہ فریق سے کیا جائے۔ اس اختلاف کی وجہ روایات کا بظاہر تعارض ہے، تاہم دلائل کے اعتبار سے ائمہ ثلاثہ کا موقف ہی اقرب الی الصواب ہے۔٭ ملاحظہ: مدعی فریق اگر قسمیں اٹھا لے تو پھر مدعی علیہ فریق سے قسموں کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا بلکہ اس سے قصاص یا دیت لی جائے گی۔ دوسری صورت یہ ہے کہ مدعی فریق قسم نہ اٹھائے اور مدعی علیہ فریق قسم اٹھا لے کہ انھوں نے قتل نہیں کیا۔ اس صورت میں مدعی فریق کو کچھ نہیں ملے گا۔ تیسری صورت یہ ہے کہ مدعی علیہ فریق قسمیں کھانے کے لیے تیار ہے لیکن مدعی فریق ان کی قسموں کا (ان کے کافر یا فاسق ہونے کی وجہ سے) اعتبار نہیں کرتا۔ اس صورت میں بھی مدعی علیہ فریق پر قصاص اور دیت نہیں ہوگی، تاہم اس صورت میں بہتر ہے کہ حکومت بیت المال سے مقتول کی دیت ادا کر دے تاکہ مسلمان کا خون رائیگاں نہ جائے۔
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ وہ نماز پڑھ رہے تھے۔ اتنے میں حضرت مروان کا ایک بیٹا ان کے آگے سے گزرنے لگا۔ انھوں نے اس کو پیچھے دھکیلا لیکن وہ پیچھے نہ ہٹا تو انھوں نے اسے مارا۔ وہ روتا ہوا چلا گیا حتیٰ کہ حضرت مروان کے پاس پہنچ گیا اور جا کر انھیں بتایا۔ حضرت مروان نے حضرت ابو سعید رضی اللہ تعالٰی عنہ سے کہا: آپ نے اپنے بھتیجے (میرے بیٹے) کو کیوں مارا ہے؟ انھوں نے کہا: میں نے اس کو نہیں مارا۔ میں نے تو شیطان کو مارا ہے۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے: ”جب تم میں سے کوئی شخص نماز پڑھ رہا ہو اور کوئی دوسرا شخص اس کے آگے سے گزرنا چاہے تو وہ اپنی طاقت کی حد تک اسے روکنے کی کوشش کرے۔ اگر وہ (رکنے سے) انکار کر دے (اور روکنے کے باوجود پھر بھی گزرنے پر مصر رہے) تو اس سے لڑے کیونکہ وہ شیطان ہے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) ”اس سے لڑے“ اس کا مطلب یہ ہے کہ ممکن حد تک سامنے سے گزرنے والے شخص کو روکے، لیکن اس حد تک نہ جائے کہ اس کی اپنی نماز ہی باطل ہو جائے کیونکہ نماز کی حفاظت کے لیے تو گزرنے والے کو روک رہا ہے۔ اگر خود ہی نماز خراب کر لی تو اس کو روکنے کا فائدہ؟ اس کی صورت یہ ہوگی کہ سامنے سے گزرنے والے شخص کو ہاتھ سے روکے، اگر گزرنے والا شخص نہ رکے بلکہ سامنے سے گزرنے پر ہی مصر رہے تو اس کے سینے میں دھکا دے، یہ نہیں کہ آستینیں چڑھا کر اس سے کشتی شروع کر دے اور نماز چھوڑ کر مار کٹائی پر اتر آئے کیونکہ اس سے اس کی اپنی نماز باطل ہو جائے گی۔ (2) امام صاحب نے اس سے استدلال فرمایا ہے کہ وہ خود بھی سزا دے سکتا ہے۔ حاکم کے پاس جانے کی کوئی ضرورت نہیں، حالانکہ کسی کو دھکا دینا یا معمولی چپت رسید کرنا نہ تو سزا کے زمرے میں آتا ہے نہ قصاص کے۔ اس سے باب پر استدلال قوی نہیں۔ ہاں یہ کہا جا سکتا ہے کہ معمولی سی کارروائی از خود بھی کر سکتا ہے جو عدالت کے اختیار میں نہیں آتی لیکن جو امور عدالتی اختیار کے تحت ہیں اور جن پر فوج داری جرم کا اطلاق ہوتا ہے، ان کا اختیار افراد کو نہیں، مثلاً: کسی کو اس طرح مارنا کہ وہ زخمی ہو جائے یا اس کی کوئی ہڈی ٹوٹ جائے یا کوئی عضو ضائع ہو جائے یا -اللہ نہ کرے- وہ مر ہی جائے۔ ایسی صورت میں وہ خود مجرم ہوگا اور سزا پائے گا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ وہ نماز پڑھ رہے تھے، اچانک مروان کا بیٹا ان کے آگے سے گزر رہا تھا، آپ نے اسے روکا، وہ نہیں لوٹا تو آپ نے اسے مارا، بچہ روتا ہوا نکلا اور مروان کے پاس آیا اور انہیں یہ بات بتائی، مروان نے ابو سعید خدری سے کہا: آپ نے اپنے بھتیجے کو کیوں مارا؟ انہوں نے کہا: میں نے اسے نہیں، بلکہ شیطان کو مارا ہے۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ”تم میں سے جب کوئی نماز میں ہو اور کوئی انسان سامنے سے گزرنے کا ارادہ کرے تو اسے طاقت بھر روکے، اگر وہ نہ مانے تو اس سے لڑے، اس لیے کہ وہ شیطان ہے۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Abu Sa'eed Al-Khudri that: he was praying and a son a Marwan wanted to pass in front of him. He tried to stop him but he did not go back, so he hit him. The boy went the boy went out crying and went to Marwan and told him (what had happened). Marwan said to Abu Sa'eed: "Why did you hit your brother's son?" He said: "I did not hit him, rater I hit the Saitan. I heard the Messenger of Allah (ﷺ) say: 'If one of you is praying and someone wants to pass in front of him, let him troy to stop him as much as he can, and if he persists then let him fight him, for he is a devil.