Sunan-nasai:
The Book of Cutting off the Hand of the Thief
(Chapter: Prompting The thief)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4877.
حضرت ابو امیہ مخزومی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک چور لایا گیا جس نے خود بخود چوری کا اعتراف کیا تھا لیکن اس کے پاس (چوری کا) سامان نہیں ملا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا: ”میں نہیں سمجھتا کہ تو نے چوری کی ہوگی۔“ اس نے کہا: کیوں نہیں (بلکہ کی ہے)۔ آپ نے فرمایا: ”اسے لے جاؤ اور اس کا ہاتھ کاٹ کر پھر میرے پاس لے آؤ۔“ وہ اس کا ہاتھ کاٹ کر اسے واپس لائے تو آپ نے اسے فرمایا: ”کہہ میں اللہ تعالیٰ سے بخشش طلب کرتا ہوں اور توبہ کرتا ہوں۔“ اس نے یہی الفاظ دہرا دیے۔ آپ نے فرمایا: ”اے اللہ! اس کی توبہ قبول فرما۔“
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4891
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4892
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4881
تمہید کتاب
چوری انتہائی قبیح عمل ہے جس کی کوئی مذہب بھی اجازت نہیں دیتا بلکہ دنیا کے ہر مذہب میں یہ قابل سزا عمل ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ آج کل کے یورپی قوانین ( جو یورپ کے علاوہ ان ممالک میں رائج ہیں جہاں ان کی حکومت رہی ہے ) میں اس کی سزا قید اور جرمانہ ہے ۔ اور شریعت اسلامیہ میں اس کی سزا ہاتھ کاٹنا ہے ۔ آج کل کے ’’ روشن خیال ‘‘ حضرات ہاتھ کاٹنے کی سزا کو وحشیانہ اور ظالمانہ کہتے ہیں کہ اس طرح معاشرے میں معذور افراد زیادہ ہوں گے اور وہ معاشرے اور حکومت کے لیے بوجھ بن جائیں گے ، حالانکہ وہ نہیں جانتے کہ یہ ایسی سزا ہے جو چوری کو معاشرے سے تقریبا کالعدم کردے گی ۔صرف چند ہاتھ کاٹنے سے اگر معاشرہ چوری سے پاک ہو جائے تو یہ گھاٹے کا سودا نہیں ۔ ان چند افراد کا بوجھ حکومت یا معاشرے کے لیے اٹھانا ان کروڑوں اربوں کے اخراجات سے بہت ہلکا ہے جو پولیس اور جیلوں پر خرچ کرنے پڑتے ہیں جب کہ جیلوں میں چھوٹے چور بڑے چور بنتے ہیں ۔ وہاں جرائم پیشہ افراد اکھٹے ہو جاتے ہیں جس سے جرائم کے منصوبے بنتے ہیں ۔ یہ سمجھنا کہ اسلامی سزا کے نفاذ سے ’’ ہتھ کٹے ‘‘ افراد کی کثرت ہوتی ہے ، جہالت ہے ۔ چند ہاتھ کٹنے سے چوری ختم ہو جائے گی ۔ پولیس اور عدالتوں کی توسیع کی ضرورت نہیں رہے گی ۔ شہر میں ایک آدھ ’’ ہتھ کٹا ‘‘ فرد سارے شہر کے لیے عبرت بنا رہے گا ۔ اس سے کہیں زیادہ افراد کے ہاتھ حادثات میں کٹ جاتے ہیں لہذا یہ صرف پروپیگنڈا ہے کہ اس سزا سے ’’ ہتھ کٹوں ‘‘ کا سیلاب آجائے گا ۔سعودی عرب جہاں اسلامی سزائیں سختی سے نافذ ہیں ، اس حقیقت کی زندہ مثال ہے ۔ وہاں کوئی فرد ہتھ کٹا نظر نہیں آتا مگر چوری کا تصور تقریبا ختم ہو چکا ہے ۔ کروڑوں کی مالیت کا سامان بغیر کسی محافظ کے پڑا رہتا ہے اور لوگ دکانیں کھلی چھوڑ کر نماز پڑھنے چلے جاتے ہیں ۔ زیورات سے لدی پھندی عورتیں صحراوں میں ہزاروں میلوں کا سفر کرتی ہیں مگر کسی کو نظر بد کی بھی جرات نہیں ہوتی حالانکہ اسلامی سزا کے نفاذ سے قبل دن دہاڑے قافلے لوٹ لیے جاتے تھے ۔ اور لوگ حاجیوں کی موجودگی میں ان کا سامان اٹھا کر بھاگ جایا کرتے تھے جیسا کہ آج کل امریکہ وغیرہ میں حال ہے ، باوجود اس کے کہ وہاں جیلیں بھری پڑی ہیں مگر چوری ، ڈاکے روز روز بڑھ رہے ہیں۔اسلام نے چوری کی یہ سزا اس لیے رکھی ہے کہ چوری بڑھتے بڑھتے ڈاکا ڈالنے کی عادت ڈالتی ہے ۔ڈاکے میں بے دریغ قتل کیے جاتے ہیں اور جبرا عصمتیں لوٹی جاتی ہیں ۔ گویا چور آہستہ آہستہ ڈاکو ، قاتل اور زنا بالجر کا مرتکب بن جاتا ہے ، لہذا ابتدا ہی میں اس کا ایک ہاتھ کاٹ دیا جائے تاکہ وہ خود بھی پہلے قدم پر ہی رک جائے بلکہ واپس پلٹ جائے اور معاشرہ بھی ڈاکوؤں ، بے گنا ہ قتل اور زنا بالجر جیسے خوف ناک اور قبیح جرائم سے محفوظ رہ سکے ۔ بتائیے ! اس سزا سے چور اور معاشرے کو فائدہ حاصل ہوا یا نقصان ؟ جب کہ قید اور جرمانے کی سزا ان جرائم میں مزید اضافے کا ذریعہ بنتی ہے ۔ پہلی چوری کا جرمانہ اس سے بڑی چوری کے ذریعے سے ادا کیا جاتا ہے اور جیل جرائم کی تربیت گاہ ثابت ہوتی ہے ۔جرائم تبھی ختم ہوں گے جب ان پر کڑی اور بے لاگ اسلامی سزائیں نافذ کی جائیں گی کیونکہ وہ فطرت کے عین مطابق ہیں ۔
حضرت ابو امیہ مخزومی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک چور لایا گیا جس نے خود بخود چوری کا اعتراف کیا تھا لیکن اس کے پاس (چوری کا) سامان نہیں ملا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا: ”میں نہیں سمجھتا کہ تو نے چوری کی ہوگی۔“ اس نے کہا: کیوں نہیں (بلکہ کی ہے)۔ آپ نے فرمایا: ”اسے لے جاؤ اور اس کا ہاتھ کاٹ کر پھر میرے پاس لے آؤ۔“ وہ اس کا ہاتھ کاٹ کر اسے واپس لائے تو آپ نے اسے فرمایا: ”کہہ میں اللہ تعالیٰ سے بخشش طلب کرتا ہوں اور توبہ کرتا ہوں۔“ اس نے یہی الفاظ دہرا دیے۔ آپ نے فرمایا: ”اے اللہ! اس کی توبہ قبول فرما۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوامیہ مخزومی ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک چور پکڑ کر لایا گیا جس نے اقبال جرم کر لیا لیکن اس کے پاس کوئی سامان نہیں ملا، تو آپ نے اس سے فرمایا: ”میں نہیں سمجھتا کہ تم نے چوری کی ہے“، اس نے کہا: نہیں، میں نے چوری کی ہے۔ آپ نے فرمایا: ”اسے لے جاؤ، اس کے ہاتھ کاٹ دو، پھر اسے میرے پاس لے کر آؤ“، لوگوں نے اس کے ہاتھ کاٹے اور اسے لے کر آپ کے پاس آئے، تو آپ نے اس سے فرمایا: ”کہو، میں اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرتا ہوں اور توبہ کرتا ہوں“، اس نے کہا: میں اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرتا ہوں اور توبہ کرتا ہوں، آپ نے فرمایا: ”اے اللہ اس کی توبہ قبول کر۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from abu Umayyah Al-Makhzumi that: a thief who confused to a crime but with whom no stolen goods has been found, was brought to the Messenger of Allah (ﷺ). The Messenger of Allah said to him: "I do not think that you stole anything."He He said: "Yes I did." He said: "Take him and cut off his hands, then bring him here, "So they cut off his hand then they brought him to him. He said to him; "Say: I seek the forgiveness of Allah and I repent to Him." He said: "I seek the forgiveness of Allah and I repent to Him." He said:: "O Allah, accept his repentance."(Daif)