باب: حاکم کے سامنے مقدمہ پیش کرنے کے بعد متعلقہ شخص کا چور کو چوری معاف کرنا اور صفوان بن امیہ کی حدیث میں عطاء پر اختلاف کا بیان
)
Sunan-nasai:
The Book of Cutting off the Hand of the Thief
(Chapter: If A Man Lets A Thief Have What He Stole, After Bringing Him Before The Ruler, And Mention Of The Differences Reported From 'Ata In The Narration Of Safwan Bin Umayyah About That)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4878.
حضرت صفوان بن امیہ ؓسے روایت ہے کہ ایک آدمی نے ان کی چادر چرالی۔ وہ اسے (چور کو) نبی کریم ﷺ کے پاس لے آئے تو آپ نے اس کا ہاتھ کاٹ دینے کا حکم دیا۔ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں نے اس کو معاف کردیا۔ آپ نے فرمایا: ”ابووہب! (معاف ہی کرنا تھا تو) ہمارے پاس لانے سے پہلے کیوں معاف نہ کردیا؟“ پھر رسول اللہ ﷺ نے اس کا ہاتھ کاٹ دیا۔
تشریح:
(1) قابل حد مسئلہ جب حاکم کے سامنے پیش کردیا جائے تو پھر اس کی معافی نہیں ہو سکتی۔ ہاں البتہ یہ ہوسکتا ہے کہ حاکم کے پاس لانے سے پہلے معاف کردیا جائے، تاہم شریعت نے جس چیز کو مستثنیٰ قرار دیا ہے اس میں حاکم کے پاس لانے کے بعد بھی معافی ہوسکتی ہے جیسے مقتول کے ورثاء قاتل کو بعد میں بھی معاف کرسکتے ہیں۔ (2) اسلامی اور شرعی سزائیں وحشیانہ قطعا نہیں بلکہ یہ تو قابل رشک معاشرے کی تشکیل کے لیے ناگزیر اور حیات بخش ہیں۔ شرعی سزاؤں کے نفاذ سے نہ صرف برائیوں کا قلع قمع ہو جاتا ہے بلکہ معاشرہ امن و سکون کا گہوارہ بن جاتا ہے۔ (3) ”کاٹ دیا“ یعنی کاٹنے کا حکم دے دیا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4892
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4893
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4882
تمہید کتاب
چوری انتہائی قبیح عمل ہے جس کی کوئی مذہب بھی اجازت نہیں دیتا بلکہ دنیا کے ہر مذہب میں یہ قابل سزا عمل ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ آج کل کے یورپی قوانین ( جو یورپ کے علاوہ ان ممالک میں رائج ہیں جہاں ان کی حکومت رہی ہے ) میں اس کی سزا قید اور جرمانہ ہے ۔ اور شریعت اسلامیہ میں اس کی سزا ہاتھ کاٹنا ہے ۔ آج کل کے ’’ روشن خیال ‘‘ حضرات ہاتھ کاٹنے کی سزا کو وحشیانہ اور ظالمانہ کہتے ہیں کہ اس طرح معاشرے میں معذور افراد زیادہ ہوں گے اور وہ معاشرے اور حکومت کے لیے بوجھ بن جائیں گے ، حالانکہ وہ نہیں جانتے کہ یہ ایسی سزا ہے جو چوری کو معاشرے سے تقریبا کالعدم کردے گی ۔صرف چند ہاتھ کاٹنے سے اگر معاشرہ چوری سے پاک ہو جائے تو یہ گھاٹے کا سودا نہیں ۔ ان چند افراد کا بوجھ حکومت یا معاشرے کے لیے اٹھانا ان کروڑوں اربوں کے اخراجات سے بہت ہلکا ہے جو پولیس اور جیلوں پر خرچ کرنے پڑتے ہیں جب کہ جیلوں میں چھوٹے چور بڑے چور بنتے ہیں ۔ وہاں جرائم پیشہ افراد اکھٹے ہو جاتے ہیں جس سے جرائم کے منصوبے بنتے ہیں ۔ یہ سمجھنا کہ اسلامی سزا کے نفاذ سے ’’ ہتھ کٹے ‘‘ افراد کی کثرت ہوتی ہے ، جہالت ہے ۔ چند ہاتھ کٹنے سے چوری ختم ہو جائے گی ۔ پولیس اور عدالتوں کی توسیع کی ضرورت نہیں رہے گی ۔ شہر میں ایک آدھ ’’ ہتھ کٹا ‘‘ فرد سارے شہر کے لیے عبرت بنا رہے گا ۔ اس سے کہیں زیادہ افراد کے ہاتھ حادثات میں کٹ جاتے ہیں لہذا یہ صرف پروپیگنڈا ہے کہ اس سزا سے ’’ ہتھ کٹوں ‘‘ کا سیلاب آجائے گا ۔سعودی عرب جہاں اسلامی سزائیں سختی سے نافذ ہیں ، اس حقیقت کی زندہ مثال ہے ۔ وہاں کوئی فرد ہتھ کٹا نظر نہیں آتا مگر چوری کا تصور تقریبا ختم ہو چکا ہے ۔ کروڑوں کی مالیت کا سامان بغیر کسی محافظ کے پڑا رہتا ہے اور لوگ دکانیں کھلی چھوڑ کر نماز پڑھنے چلے جاتے ہیں ۔ زیورات سے لدی پھندی عورتیں صحراوں میں ہزاروں میلوں کا سفر کرتی ہیں مگر کسی کو نظر بد کی بھی جرات نہیں ہوتی حالانکہ اسلامی سزا کے نفاذ سے قبل دن دہاڑے قافلے لوٹ لیے جاتے تھے ۔ اور لوگ حاجیوں کی موجودگی میں ان کا سامان اٹھا کر بھاگ جایا کرتے تھے جیسا کہ آج کل امریکہ وغیرہ میں حال ہے ، باوجود اس کے کہ وہاں جیلیں بھری پڑی ہیں مگر چوری ، ڈاکے روز روز بڑھ رہے ہیں۔اسلام نے چوری کی یہ سزا اس لیے رکھی ہے کہ چوری بڑھتے بڑھتے ڈاکا ڈالنے کی عادت ڈالتی ہے ۔ڈاکے میں بے دریغ قتل کیے جاتے ہیں اور جبرا عصمتیں لوٹی جاتی ہیں ۔ گویا چور آہستہ آہستہ ڈاکو ، قاتل اور زنا بالجر کا مرتکب بن جاتا ہے ، لہذا ابتدا ہی میں اس کا ایک ہاتھ کاٹ دیا جائے تاکہ وہ خود بھی پہلے قدم پر ہی رک جائے بلکہ واپس پلٹ جائے اور معاشرہ بھی ڈاکوؤں ، بے گنا ہ قتل اور زنا بالجر جیسے خوف ناک اور قبیح جرائم سے محفوظ رہ سکے ۔ بتائیے ! اس سزا سے چور اور معاشرے کو فائدہ حاصل ہوا یا نقصان ؟ جب کہ قید اور جرمانے کی سزا ان جرائم میں مزید اضافے کا ذریعہ بنتی ہے ۔ پہلی چوری کا جرمانہ اس سے بڑی چوری کے ذریعے سے ادا کیا جاتا ہے اور جیل جرائم کی تربیت گاہ ثابت ہوتی ہے ۔جرائم تبھی ختم ہوں گے جب ان پر کڑی اور بے لاگ اسلامی سزائیں نافذ کی جائیں گی کیونکہ وہ فطرت کے عین مطابق ہیں ۔
حضرت صفوان بن امیہ ؓسے روایت ہے کہ ایک آدمی نے ان کی چادر چرالی۔ وہ اسے (چور کو) نبی کریم ﷺ کے پاس لے آئے تو آپ نے اس کا ہاتھ کاٹ دینے کا حکم دیا۔ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں نے اس کو معاف کردیا۔ آپ نے فرمایا: ”ابووہب! (معاف ہی کرنا تھا تو) ہمارے پاس لانے سے پہلے کیوں معاف نہ کردیا؟“ پھر رسول اللہ ﷺ نے اس کا ہاتھ کاٹ دیا۔
حدیث حاشیہ:
(1) قابل حد مسئلہ جب حاکم کے سامنے پیش کردیا جائے تو پھر اس کی معافی نہیں ہو سکتی۔ ہاں البتہ یہ ہوسکتا ہے کہ حاکم کے پاس لانے سے پہلے معاف کردیا جائے، تاہم شریعت نے جس چیز کو مستثنیٰ قرار دیا ہے اس میں حاکم کے پاس لانے کے بعد بھی معافی ہوسکتی ہے جیسے مقتول کے ورثاء قاتل کو بعد میں بھی معاف کرسکتے ہیں۔ (2) اسلامی اور شرعی سزائیں وحشیانہ قطعا نہیں بلکہ یہ تو قابل رشک معاشرے کی تشکیل کے لیے ناگزیر اور حیات بخش ہیں۔ شرعی سزاؤں کے نفاذ سے نہ صرف برائیوں کا قلع قمع ہو جاتا ہے بلکہ معاشرہ امن و سکون کا گہوارہ بن جاتا ہے۔ (3) ”کاٹ دیا“ یعنی کاٹنے کا حکم دے دیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
صفوان بن امیہ ؓ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے ان کی چادر چرا لی، وہ اسے لے کر رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے، آپ نے ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا، تو وہ بولے: اللہ کے رسول! میں نے اسے معاف کر دیا ہے، آپ نے فرمایا: ”ابو وہب! تم نے اسے ہمارے پاس لانے سے پہلے ہی کیوں نہ معاف کر دیا؟“ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے اس کا ہاتھ کاٹ دیا۔۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : حدیث کا خلاصہ یہ ہے کہ چور کے معاملہ کو سرکاری انتظامیہ تک پہنچ جانے سے پہلے جس کا مال چوری ہوا ہے اگر وہ معاف کر دیتا ہے تو چور کا گناہ عند اللہ توبہ سے معاف ہو سکتا ہے، اور ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا، لیکن اگر معاملہ سرکاری ذمہ داروں (پولیس اور عدلیہ) تک پہنچ جاتا ہے تب صاحب مال کو معاف کر دینے کا حق بحق سرکار ختم ہو جاتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Safwan bin Umayyah, that: a man stole a Burdah of his, so he brought him before the Messenger of Allah (ﷺ), who ordered that his hand be cut off. He said: "O Messenger of Allah, I will let him have it." He said: "Abu Wahb! Why didn't you do that before you brought him to us?" And the Messenger of Allah (ﷺ) had (the man's) hand cut off.