باب: کون سی چیز محفوظ ہوتی ہے اور کون سی غیر محفوظ؟
)
Sunan-nasai:
The Book of Cutting off the Hand of the Thief
(Chapter: Stealing Something that Is Kept In A Protected Place)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4887.
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ ایک مخزومی عروت لوگوں سے گھریلو سامان استعمال کے لیے لیا کرتی تھی پھر بعد میں مکر جاتی تھی۔ نبی ﷺ نے اس کا ہاتھ کاٹ دینے کا حکم دیا۔
تشریح:
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص عاریتا کوئی چیز لے کر انکار کردے جب کہ گواہ موجود ہوں تو اسے چور سمجھ کر اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے گا۔ یہ امام احمد اور اسحاق وغیرہ کا موقف ہے کیونکہ یہ بھی چوری کی ایک قسم ہے بلکہ اس کا نقصان معاشرے کے لیے زیادہ ہے کیونکہ اگر اس پر سزا نہ دی جائے تو لوگ عاریتا چیزیں دینے سے انکار کردیں گے جس سے غریب لوگوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ پھر اس کی چوری کے ساتھ مشابہت ہے کہ یہ بھی حیلے کے ساتھ لوگوں کے مال محفوظ کو اڑانا ہے اور چوری میں بھی یہی کچھ ہوتا ہے، لہذا اس جرم پر بھی چوری والی سزا دی جائے گی۔ اور رسول اللہ ﷺ شرعا اس بات کے مجاز ہیں کہ شرعی اطلاقات کی وضاحت فرمائیں اس لیے بعض محدثین اس جرم پر بھی ہاتھ کاٹنے کے قائل ہیں جب کہ جمہور اہل علم اس کے قائل نہیں بلکہ صرف چوری پر قطع ید نافذ کرتے ہیں۔ اس حدیث کی تاویل وہ اس طرح کرتے ہیں کہ آپ نے اس جرم پر اس کا ہاتھ نہیں کاٹا تھا بلکہ چوری پر کاٹا تھا جیسا کہ بعض روایات میں وضاحت ہے کہ اس نے چوری کی تھی۔ یہ جرم تو اس کی مزید مذمت کرنے کے لیے ذکر کیا گیا ہے۔ چونکہ دیگر روایات وطرق میں بصراحت چوری پر قطع کا ذکر موجود ہے پھر واقعہ بھی ایک دفعہ ہی پیش آیا ہے اس لیے راجح موقف جمہور ہی کا ہے کہ قطع ید صرف چوری پر ہوگا۔ واللہ أعلم
الحکم التفصیلی:
قلت : و هذا إسناد صحيح على شرط الشيخين .
و له شاهد من حديث عائشة به , و زاد : " فأتى أهلها أسامة بن زيد فكلموه , فكلم
رسول الله صلى الله عليه وسلم فيها ... " أخرجه مسلم ( 5 / 115 ) و أبو داود (
4397 ) و ابن الجارود ( 804 ) و غيرهم من طرق عن عبد الرزاق أيضا عن معمر عن
الزهرى عن عروة عنها .
و تابعه أيوب بن موسى عن الزهرى به , أخرجه النسائى ( 2/256 ) .
و إسناده صحيح على شرط الشيخين . و قد أخرجاه من طرق أخرى عن الزهرى به بلفظ
آخر و قد مضى فى أول " الحدود " ( 2319 ) .
و قد تابعه عبيد الله عن نافع عن ابن عمر بلفظ :
" أن امرأة كانت تستعير الحلى فى زمان رسول الله صلى الله عليه وسلم , فاستعارت
من ذلك حليا , فجمعته ثم أمسكته فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم :
لتتب هذه المرأة و تصدى ما عندها , مرارا , فلم تفعل , فأمر بها فقطعت " .
و فى رواية : " ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : قم يا بلال فخذ بيدها
فافقطعها " أخرجه النسائى , و إسناده صحيح .
و له عنده شاهد آخر عن سعيد بن المسيب مرسلا .
قول عمر : " لاحد إلا على من علمه " .
8/67 :ضعيف .
و قد مضى تخريجه ( 2314 ) و ( 2383 ) .
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4901
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4902
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4891
تمہید کتاب
چوری انتہائی قبیح عمل ہے جس کی کوئی مذہب بھی اجازت نہیں دیتا بلکہ دنیا کے ہر مذہب میں یہ قابل سزا عمل ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ آج کل کے یورپی قوانین ( جو یورپ کے علاوہ ان ممالک میں رائج ہیں جہاں ان کی حکومت رہی ہے ) میں اس کی سزا قید اور جرمانہ ہے ۔ اور شریعت اسلامیہ میں اس کی سزا ہاتھ کاٹنا ہے ۔ آج کل کے ’’ روشن خیال ‘‘ حضرات ہاتھ کاٹنے کی سزا کو وحشیانہ اور ظالمانہ کہتے ہیں کہ اس طرح معاشرے میں معذور افراد زیادہ ہوں گے اور وہ معاشرے اور حکومت کے لیے بوجھ بن جائیں گے ، حالانکہ وہ نہیں جانتے کہ یہ ایسی سزا ہے جو چوری کو معاشرے سے تقریبا کالعدم کردے گی ۔صرف چند ہاتھ کاٹنے سے اگر معاشرہ چوری سے پاک ہو جائے تو یہ گھاٹے کا سودا نہیں ۔ ان چند افراد کا بوجھ حکومت یا معاشرے کے لیے اٹھانا ان کروڑوں اربوں کے اخراجات سے بہت ہلکا ہے جو پولیس اور جیلوں پر خرچ کرنے پڑتے ہیں جب کہ جیلوں میں چھوٹے چور بڑے چور بنتے ہیں ۔ وہاں جرائم پیشہ افراد اکھٹے ہو جاتے ہیں جس سے جرائم کے منصوبے بنتے ہیں ۔ یہ سمجھنا کہ اسلامی سزا کے نفاذ سے ’’ ہتھ کٹے ‘‘ افراد کی کثرت ہوتی ہے ، جہالت ہے ۔ چند ہاتھ کٹنے سے چوری ختم ہو جائے گی ۔ پولیس اور عدالتوں کی توسیع کی ضرورت نہیں رہے گی ۔ شہر میں ایک آدھ ’’ ہتھ کٹا ‘‘ فرد سارے شہر کے لیے عبرت بنا رہے گا ۔ اس سے کہیں زیادہ افراد کے ہاتھ حادثات میں کٹ جاتے ہیں لہذا یہ صرف پروپیگنڈا ہے کہ اس سزا سے ’’ ہتھ کٹوں ‘‘ کا سیلاب آجائے گا ۔سعودی عرب جہاں اسلامی سزائیں سختی سے نافذ ہیں ، اس حقیقت کی زندہ مثال ہے ۔ وہاں کوئی فرد ہتھ کٹا نظر نہیں آتا مگر چوری کا تصور تقریبا ختم ہو چکا ہے ۔ کروڑوں کی مالیت کا سامان بغیر کسی محافظ کے پڑا رہتا ہے اور لوگ دکانیں کھلی چھوڑ کر نماز پڑھنے چلے جاتے ہیں ۔ زیورات سے لدی پھندی عورتیں صحراوں میں ہزاروں میلوں کا سفر کرتی ہیں مگر کسی کو نظر بد کی بھی جرات نہیں ہوتی حالانکہ اسلامی سزا کے نفاذ سے قبل دن دہاڑے قافلے لوٹ لیے جاتے تھے ۔ اور لوگ حاجیوں کی موجودگی میں ان کا سامان اٹھا کر بھاگ جایا کرتے تھے جیسا کہ آج کل امریکہ وغیرہ میں حال ہے ، باوجود اس کے کہ وہاں جیلیں بھری پڑی ہیں مگر چوری ، ڈاکے روز روز بڑھ رہے ہیں۔اسلام نے چوری کی یہ سزا اس لیے رکھی ہے کہ چوری بڑھتے بڑھتے ڈاکا ڈالنے کی عادت ڈالتی ہے ۔ڈاکے میں بے دریغ قتل کیے جاتے ہیں اور جبرا عصمتیں لوٹی جاتی ہیں ۔ گویا چور آہستہ آہستہ ڈاکو ، قاتل اور زنا بالجر کا مرتکب بن جاتا ہے ، لہذا ابتدا ہی میں اس کا ایک ہاتھ کاٹ دیا جائے تاکہ وہ خود بھی پہلے قدم پر ہی رک جائے بلکہ واپس پلٹ جائے اور معاشرہ بھی ڈاکوؤں ، بے گنا ہ قتل اور زنا بالجر جیسے خوف ناک اور قبیح جرائم سے محفوظ رہ سکے ۔ بتائیے ! اس سزا سے چور اور معاشرے کو فائدہ حاصل ہوا یا نقصان ؟ جب کہ قید اور جرمانے کی سزا ان جرائم میں مزید اضافے کا ذریعہ بنتی ہے ۔ پہلی چوری کا جرمانہ اس سے بڑی چوری کے ذریعے سے ادا کیا جاتا ہے اور جیل جرائم کی تربیت گاہ ثابت ہوتی ہے ۔جرائم تبھی ختم ہوں گے جب ان پر کڑی اور بے لاگ اسلامی سزائیں نافذ کی جائیں گی کیونکہ وہ فطرت کے عین مطابق ہیں ۔
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ ایک مخزومی عروت لوگوں سے گھریلو سامان استعمال کے لیے لیا کرتی تھی پھر بعد میں مکر جاتی تھی۔ نبی ﷺ نے اس کا ہاتھ کاٹ دینے کا حکم دیا۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص عاریتا کوئی چیز لے کر انکار کردے جب کہ گواہ موجود ہوں تو اسے چور سمجھ کر اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے گا۔ یہ امام احمد اور اسحاق وغیرہ کا موقف ہے کیونکہ یہ بھی چوری کی ایک قسم ہے بلکہ اس کا نقصان معاشرے کے لیے زیادہ ہے کیونکہ اگر اس پر سزا نہ دی جائے تو لوگ عاریتا چیزیں دینے سے انکار کردیں گے جس سے غریب لوگوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ پھر اس کی چوری کے ساتھ مشابہت ہے کہ یہ بھی حیلے کے ساتھ لوگوں کے مال محفوظ کو اڑانا ہے اور چوری میں بھی یہی کچھ ہوتا ہے، لہذا اس جرم پر بھی چوری والی سزا دی جائے گی۔ اور رسول اللہ ﷺ شرعا اس بات کے مجاز ہیں کہ شرعی اطلاقات کی وضاحت فرمائیں اس لیے بعض محدثین اس جرم پر بھی ہاتھ کاٹنے کے قائل ہیں جب کہ جمہور اہل علم اس کے قائل نہیں بلکہ صرف چوری پر قطع ید نافذ کرتے ہیں۔ اس حدیث کی تاویل وہ اس طرح کرتے ہیں کہ آپ نے اس جرم پر اس کا ہاتھ نہیں کاٹا تھا بلکہ چوری پر کاٹا تھا جیسا کہ بعض روایات میں وضاحت ہے کہ اس نے چوری کی تھی۔ یہ جرم تو اس کی مزید مذمت کرنے کے لیے ذکر کیا گیا ہے۔ چونکہ دیگر روایات وطرق میں بصراحت چوری پر قطع کا ذکر موجود ہے پھر واقعہ بھی ایک دفعہ ہی پیش آیا ہے اس لیے راجح موقف جمہور ہی کا ہے کہ قطع ید صرف چوری پر ہوگا۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ قبیلہ مخزوم کی ایک عورت لوگوں کا سامان مانگ لیتی تھی، پھر مکر جاتی تھی، تو نبی اکرم ﷺ نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا۔۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : عاریت (روزمرہ برتے جانے والے سامانوں کی منگنی) کے انکار کر دینے پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مخزومیہ عورت کا ہاتھ کاٹ دیا، اس سے بعض علماء عاریت کے انکار کو بھی چوری مانتے ہیں۔ (اس حدیث کی بعض روایات کے الفاظ سے واضح ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فعل کو چوری سے تعبیر فرمایا) اور بعض علماء کہتے ہیں کہ عاریت کے انکار پر آپ نے اس لیے ہاتھ کاٹا کہ ایسا نہ ہو کہ عاریت دینے کا چلن ہی سماج اور معاشرے سے ختم ہو جائے تو لوگ پریشانی میں مبتلا ہو جائیں۔ بہرحال عاریت کے انکار پر ہاتھ کاٹنا ثابت ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Ibn 'Umar, may Allah be pleased with them both, that a Makhzumi woman used to borrow things then deny that she had borrowed them, so the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) ordered that her hand be cut off.